انسانی حقوق اور کشمیری خواتین

5 اگست 2019 تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں آج بھی کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے یعنی 1947 میں ہونے والی تقسیم ہند میں متحدہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کا فیصلہ تو ہو گیا لیکن کشمیر ایسی ریاست ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اس رویے کی بنیادی وجہ تو 2014 میں نریندر مودی کے اپنی انتخابی مہم کے دوران اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی آئین کے دو اہم نکات، آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا نعرہ تھا۔ یہ دونوں نکات ماضی میں مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔ ان کے خاتمے کے بعد کشمیر میں ہندوو¿ں کی آبادکاری، جائیداد، مستقل رہائش، تعلیم اور روزگار کے حصول کو ممکن بنادیا گیا ہے۔ جو نہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 47، 51، 80، 96، 98، 122 اور 126 قرارداد کی خلاف ورزی ہے، بلکہ کشمیریوں کے حقوق کے بھی منافی ہے۔ اس ساری صورت حال میں نہ صرف کشمیری مرد بلکہ خواتین اور بچے بھی تین نسلوں سے اپنے ساتھ روا ستم کو نہتے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
اگرچہ جنگی جرائم کی متعدد اقسام ہوتی ہیں، لیکن سب سے بدترین صنفی بنیاد پر خواتین پر ظلم ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2001 سے لے کر اب تک کم از کم 671 کشمیری خواتین بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ممالک میں ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے، چاہے وہ وبا کی صورت میں ہو یا پھر جنگ کی، اس میں سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔
جنگی صورت حال میں خواتین کے مسائل قدرے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلا مسئلہ تو ہجرت ہے۔ چونکہ عورتوں کا زیادہ وقت گھر میں گزرتا ہے، تو جب ان کو ہجرت کرنی پڑے تو انہیں مردوں کی نسبت جسمانی و ذہنی الم بھی قدرے زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا مسئلہ جنگ کے دوران ا±ن کا بطور ہتھیار استعمال ہونا ہے۔ چونکہ وہ جسمانی طور پر مردوں سے کمزور ہوتی ہیں، اس وجہ سے آسانی سے دشمن کے مذموم عزائم کا شکار بن جاتی ہیں۔ جیسے کشمیری خواتین کے ساتھ بھارتی دہشت گردی کی صورت میں ہورہا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہیومن رائٹس واچ کی 1993 اور 1996 میں شایع ہونے والی دونوں رپورٹیں کرتی ہیں۔
اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کشمیری عورتوں پر ظلم و ستم پر مشہور لکھاری سیما قاضی کہتی ہیں کہ ”کشمیر میں عصمت دری جنگ کا ثقافتی ہتھیار ہے، جو ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کشمیری مردوں کو جدوجہد آزادی سے روکنے کی ناکام کوشش ہے۔ فوجیوں کے اعترافی بیانات کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ انھیں کشمیری خواتین سے عصمت دری کرنے کا باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے۔“ اس کی ایک مثال جنوری 2018 میں 8 سالہ مسلمان لڑکی (جس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا) کے ساتھ عصمت دری اور قتل کا واقعہ ہے۔ جس میں سات ہندو (جن میں چار پولیس اہلکار اور ایک مندر کا پجاری بھی شامل تھا) ملوث تھے۔ ملزموں کی گرفتاری کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا کی قیادت میں مظاہرے کیے گئے۔ بالآخر تمام ملزمان رہا ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس بھیانک جرم کا نوٹس لیا۔ یہ واقعہ ”کٹھوعہ عصمت دری کیس“ کے نام سے مشہورہے۔
اس واقعے کی طرف بین الاقوامی توجہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے عالمی سطح پر کشمیری عوام بشمول خواتین کے ساتھ ظلم کو اجاگر کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اس زیادتی کا مداوا نہیں ہوپارہا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقوام عالم میں طاقتور ممالک انسانی حقوق کی پامالی نہ صرف خود کررہے ہیں بلکہ بین الاقوامی عدل و انصاف کے اداروں کی بھی آواز دبانے میں مصروف ہیں۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ جس کی مثال افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش پر امریکا کی اقوام متحدہ کی عدالت عدل و انصاف کو دھمکی ہے۔
جب ممالک اپنے ہاں ہونے والے ظلم پر نہ خود کارروائی کریں اور نہ سزا دیں، بلکہ بین الاقوامی اداروں کو بھی روک دیں، تو حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ جیسا کہ کشمیر میں ہورہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ 1990 کا خصوصی اختیارات تفویض کردہ ایکٹ ہے، جس کی دفعہ 7 میں حکومت ہند کی پیشگی منظوری کے بغیر سیکیورٹی عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے پر پابندی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت بھارتی افواج اپنے متشدد عمل کےلیے جوابدہ نہیں ہیں۔
تشدد کی ’ریاستی سرپرستی‘ دراصل کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 30 سال میں میڈیا کے ذریعے تشدد اور قتل کے متعدد واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود کسی ایک بھارتی افسر کو کبھی نہ تو عدالت میں کسی مقدمے میں پیش ہونا پڑا اور نہ ہی کبھی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس طرف مسلسل توجہ مبذول کروا رہے ہیں، لیکن بین الاقوامی دباو¿ نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی حکومت کا ظلم جاری ہے۔ یہی رویہ بھارت نے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی اپنانے کی کوشش کی، لیکن یہاں اسے دھوکا ہوا اور چین کے ساتھ جھڑپ میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور جگ ہنسائی علیحدہ ہوئی۔ اب تک بھارت کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ہر جگہ ظالمانہ رویہ نہیں چل سکتا۔
اس ضمن میں اگرچہ پاکستان مسلسل دیگر بین الاقوامی انصاف کے اداروں میں کشمیریوں کے حقوق کےلیے آواز بلند کر رہا ہے، لیکن بین الاقوامی طاقتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر بنیادی حقوق کی اس سنگین پامالی کےلیے مثبت اقدامات کریں۔ ورنہ تاریخ ہمیشہ اس جبر میں ان ممالک کو برابر کا حصہ دار ہی رقم کرے گی۔
1949 میں اس تنازع پر پاکستان اور بھارت میں جنگ چھڑ گئی، بھارت نے اپنی ہار دیکھی تو مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بھارت و پاکستان میں اقوام متحدہ کے کمیشن نے تین قراردادوں کی منظوری دی جن میں دونوں ملکوں سے کہا گیا کہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی یا ہندوستان کا، فیصلے کیلئے کشمیری عوام جس ملک کے ساتھ رہنے کا ارادہ ظاہر کریں گے اس پر عمل ہو گا، اور کشمری عوام کی رائے استصواب رائے کے ذریعے معلوم کی جائے گی۔
بھارت نے استصواب رائے کا وعدہ تو کر لیا لیکن بعد میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ اسے معلوم تھا اگر کشمیری عوام سے رائے لی گئی تو وہ مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان کے حق میں ہی فیصلہ دیں گے۔ کشمیری عوام کو مطمئن کرنے کیلئے مئی 1954 میں بھارتی حکومت نے ایک آرڈیننس نافذ کیا جس کو دی کانسٹیٹیوشن ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی آئین میں شامل کردیا گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت جموں و کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کو کشمیر میں مستقل شہریت سے محروم کردیا گیا۔ اس کے تحت واضح کیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری کون ہے اور جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے یہاں سرمایہ کاری کا اختیار حاصل ہے۔ بھارت کی ماضی کی حکومتوں، خواہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا۔
تاہم بدنام زمانہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جن کی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سمیت مجرمانہ سرگرمیوں کے سبب ایک وقت میں امریکہ داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی، نے اپنی کرائم ہسٹری میں ایک اور جرم کا اضافہ کر لیا۔ گزشتہ سال 5 اگست کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے آرٹیکل 35 اے اور 370 کو ختم کرنے لئے راجیہ سبھا میں بل پیش کیا جسے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود منظور کر لیا گیا۔
بھارت کے اس اقدام کو پاکستان کی جانب سے نہ صرف مسترد کر دیا گیا بلکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت کی خطے میں کشیدگی بڑھانے کی ایک اور کوشش قرار دیا۔ نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کر کے رکھ دیا۔ اس اقدام سے مقبوضہ وادی کو ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے مسلسل ایک سال سے بند ہیں۔ غذائی اجناس کی شدید قلت ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے۔ بھارت نے اکثریتی علاقوں میں سخت ترین کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
عالمی میڈیا نے کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے اقدام کو مودی کی فاش غلطی قرار دیا، مشرق وسطی کے معروف چینل الجزیرہ نے 5 اگست کو ‘سیاہ دن’ سے تشبیہ دی۔ امریکہ کے بڑے اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز نے مودی کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس فیصلے سے خطے میں امن کو خطرہ درپیش ہو گا۔ سعودی عرب کے سعودی گزٹ نے بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کو خطرناک غلطی قرار دیا۔
جاپان کے اخبار ”ایشین ریویو“ نے لکھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختاری چھیننے سے جنوبی ایشیا میں مزید بدامنی پھیلے گی۔ عالمی جریدے ”بلوم برگ“ نے نریندر مودی کے متنازع فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خطرناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔ معروف میگزین ”فارن پالیسی“ نے بھارت کو تنازع کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے لکھاکہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے پر مودی کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر طویل لاک ڈاون اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر انسانی اقدام پر عالمی برادری خاموش رہی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھارتی جبر واستبداد پر چپ سادھ لی تاہم ہمسایہ ملک چین، برادر اسلامی ممالک ترکی، ملائیشیا، دیگر عالمی اداروں اور شخصیات نے کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور مودی سرکار کے اقدام کو انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور دو طرفہ عالمی معاہدوں کے منافی قرار دیا۔
چین نے دو ٹوک انداز میں مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھانے کا اعلان کیا۔ حتی کہ بھارت کی جانب سے اپنے نقشے میں شامل کئے گئے علاقے لداخ کے معاملے پر دونوں ممالک کے مابین تنازع اس قدر بڑھا کہ باقاعدہ سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں جن میں کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی مارے گئے جبکہ 100 فوجی چین نے قیدی بنا لئے، یہ سرحدی تنازع تاحال جاری ہے اور چین نے لداخ میں بھارت کے تقریبا 35 مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔
اِدھر مقبوضہ کشمیر میں سخت ترین کرفیو کے باوجود مظاہرے جاری ہیں، کشمیری نوجوان وقتا فوقتا بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، بھارتی عوام کی جانب سے پتھراو¿ کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے جن میں بھارتی فوج اور پولیس کو اینٹوں اور پتھروں کی شدید بارش کے سبب پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ کشمیریوں کا موقف تھا کہ مودی کی خود مختاری ختم کرنے کی سازش سے کشمیر بھی فلسطین بن جائے گا کیونکہ مودی اس فیصلے کے بعد کشمیر میں بھارتی باشندے بسائے گا اور علاقے میں کشمیریوں کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کر کے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرے گا۔
کشمیری عوام نے سرینگر کا علاقہ صورہ احتجاجی تحریک کا مرکز بنا لیا جہاں سے مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے نکلتے اور بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچائے رکھتے۔ یہ بھارت سے کشمیری نوجوانوں کی نفرت کا اظہار تھا۔ کشمیریوں کی جانب سے ایسے مظاہرے تقریبا سارا سال جاری رہے۔
گزشتہ روز بھی بھارت نے وادی بھر میں کرفیو نافذ کئے رکھا، سرینگر انتظامیہ نے آج بھی مظاہروں کے خوف کے سبب مکمل کرفیو کے نفاذ کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان بھر میں? پانچ اگست کے موقع پر یوم استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے جس کے دوران ملک بھر میں? سرکاری و غیر سرکاری سطح? پر احتجاجی ریلیاں اور سیمینار منعقد کئے گئے. آزاد کشمیر میں? بھی مظاہرے جاری ہیں تو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی مختلف نہیں جہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے کشمیری عوام کی امنگوں? آواز بن رہے ہیں. سرینگر کے خوفزدہ مجسٹریٹ نے کرفیو نافذ کرنے کی بودی دلیل اس طرح دی ’ایسی خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ علیحدگی پسند اور پاکستان کے حمایت یافتہ گروپس پانچ اگست کو یوم سیاہ منانے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا شدید مظاہروں کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ اگست کو پ±رتشدد مظاہروں کی بھی اطلاعات ہیں اور لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ‘ بھارتی حکام کا یہ خوف اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں 7 لاکھ بھارتی فوج کے باوجود وادی میں تحفظ حاصل نہیں۔ یہی خوف انہیں کشمیر سے نکالنے کی بنیاد بنے گا کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی کے گھر پر کیا گیا قبضہ بالاآخر چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔