ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے

دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال ہو یا پھر موسمی تغیرات ہر پل ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل پر موصول ہوتی رہتیں ہیں اور ہم معمول کیمطابق اپنے معمولات زندگی میں انکے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔ ہر فرد کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے سنائی دیتے ہیں کہ انسان بے حس ہوچکا ہے(اسے خود کے بے حس ہوجانے کا بھی شائد علم ہوتا ہے)۔ جہاں اس بے حسی کے بہت سارے محرکات ہوسکتے ہیں انہیں میں سے ایک اہم سبب یہ سماجی میڈیا بھی ہے۔ وقت سے پہلے آگاہی فراہم کرنے کا سب سے بڑا آلہ کار یہ سماجی میڈیا ہے۔ وقت سے قبل کسی بھی بات کا علم ہوجائے تو وہ بات اپنی دل دہلادینے والی کیفیت کھودیتی ہے۔ ایک وقت تھا حادثے اورسانحے کبھی کبھا ر ہوتے تھے اور انکی خبریں قسطوں میں موصول ہوتی تھیں جو ایک مسلسل سوگ کی کیفیت سے دوچار رکھتی تھیں۔ لوگ آج بھی حساس ہیں لیکن حادثات اور سانحات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ایک کیفیت میں رہنا ممکن نہیں ہے۔ حضرت غالب کا ایک مصرعہ اس بحث کو سمیٹنے میں شائد کچھ کارگر ثابت ہوسکے جو کہ درجہ ذیل ہے;234
“درد کا حد سے گزر نا ہے دوا ہوجانا”
کیا غالب نے اس مصرعہ میں سمجھانے کیلئے وہ سب کچھ بیان کردیا ہے جو سمجھنے کیلئے کافی ہوسکتا ہے ;238; یہ ایک سوال ہے جو ہر فرد اپنے آپ سے کرسکتا ہے، شائد عمومی طور پر تو نا، کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ہر عام آدمی اس مصرعے کی حقیقت تک پہنچ سکے اور یہ غالب کے مزاج کہ بھی خلاف ٹہرتا ہے کہ انکا کہا ہوا شعر یا مصرعہ ہر عام آدمی کی سمجھ میں آجائے۔ غالب کیلئے دور حاضر انکے دکھوں میں مزید اضافہ کرسکتا تھا کیونکہ آج ہر شخص ہی اپنی مرضی کا مطلب سمجھ بھی لیتا ہے اور اسے دوسروں پر ظاہر کرنے کی ناصرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ بڑی خوبی سے تشہیر بھی کردیتا ہے۔ غالب کیلئے دشوار ہوجاتا کہ وہ اپنا موضوع مخصوص لوگوں تک محدود کر پاتے۔ سمجھداری کی حد تو دیکھیں کوئی بھی مجمع لگا کر کھڑا ہوجائے ساری کی ساری قوم اس مجمع کا حصہ بن کر وہاں کھڑی ہوجائے گی اور تالیاں بھی خوب بجائے گی۔
یوں انسان نا چاہتے ہوئے بھی بے حس ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاسی صورتحال ہو یا پھر معاشی ہر فرد اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتا ہے اور اسے صحیح سمجھتے ہوئے ، صحیح ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اپنے نظرئیے پر بہت زیادہ بھروسہ کرلیتا ہے تو ایک سیاسی یا مذہبی جماعت کی بھی داغ بیل ڈالنے سے گریز نہیں کرتا۔ انفرادیت کی وجہ سے آج تک پاکستان اپنے بنیادی نظریات حاصل نہیں کرسکا۔ یہ بحث آج ستر سے زائد سالوں کے بیت جانے کے بعد بھی جاری ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا تھا یا پھر لبرل اور سب سے بڑھ کر ہم آج تک قائداعظم محمد علی جناح کے مذہبی عقائد پر بھی شکوک و شباہت کے شکار ہیں۔ ہم اس بات کو خاطر میں رکھے بغیر کہ کس نے کیا عملی کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے اسکی نجی زندگیوں میں تانک جھانک کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم تو سماجی میڈیا پر اچھے بھلے انسان کو خود کشی تک کرنے پر مجبور کردیتے ہیں ، جیساکہ ابھی کچھ ماہ قبل جامعہ کراچی کے ایک استاد نے ایسا کیاہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر فرد ہی دوسرے سے یہ توقع کرتا ہے کہ اسے عزت دی جائے جبکہ خود وہ کسی کو عزت دینے کو تیار نہیں دیکھائی دیتا۔ یہ مضمون سماجی میڈیا پرتو نہیں ہے۔
سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ سابق آرمی چیف اور صدر جناب جنرل پرویز مشرف صاحب نے لگایا تھا ، اس نعرے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس دور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ امریکہ افغانستان پر فوج کشی کرنے کو تیار بیٹھا تھا اور پاکستان کی ہاں کا منتظر تھا اور اس ساری صورتحال میں یہ نعرہ سب سے پہلے پاکستان وجود میں آیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس وقت تک پاکستان کی کیا اہمیت تھی کیا پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاست دان نے اس قسم کا نعرہ لگایا تھا یا کبھی ایسی کسی بات کا تذکرہ کیا تھا۔ یقینا کچھ سیاسی ذہن اس بات کا جواب یہ دینگے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے حالات ہی نہیں رہے۔ توجناب پاکستان تو ہمیشہ سے ہی ایسے حالات کی زد میں رہا ہے۔ تین تین دفعہ وزیر اعظم بننے والے بھی کسی ایک دفعہ کے دور اقتدار میں کسی ایسے نعرے کے گرویدہ نہیں دیکھائی دئے۔ عام آدمی کو بھی کسی ایسی سوچ کی جانب بھٹکنے نہیں دیا گیا، بس پیسے کھلاتے جائ و اور من چاہ کام کراتے جائ و کے فارمولے کو پاکستان میں عام کردیا گیا اور یہ فارمولہ ایسا کار گر ثابت ہوا کہ ملک بدعنوانی نامی کینسر کے مرض میں مبتلہ کر دیا گیا۔ پاکستان شائد دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہوجہاں بدعنوانی کا تناسب زیادہ ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ سمجھنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا کہ کوئی کام بغیر رشوت کے بھی ہوسکتا ہے جسکی وجہ تعلیم کو عام نا ہونے دینا تھا، خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے، یہی اس بات کا سبب ہے کہ کیسی بھی کارگردگی دیکھائیں (سوائے اپنے اثاثے بڑھانے کہ) بار بار وہی ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں کتنے ہی ایسے سیاستدان ہیں جو جدی پشتی ایوا ن میں بیٹھے رہے ہیں انکے علاقے بدترین صورتحال سے دوچار ہیں لیکن ان ہی علاقوں میں انکی نجی رہائش گاہوں کو دیکھ لیجئے کسی شاہی محلات سے کم نہیں ہیں۔ ایسے ہی ایک سیاست دان مولانا فضل الرحمن ہیں جنہوں نے شائد کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ اپنی آبائی نشست ہار جائینگے، اور وہ تبدیلی کے بہائ و کی نظر ہوگئے اور آخر کار ہار گئے۔ جب سے مولانا صاحب ہر وہ طریقہ اپنانے پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرح سے وابس ایوان تک رسائی مل جائے۔ مولانا بغیر سوچے سمجھے حکومت مخالف تحریک چلانے نکل پڑے ہیں تو انکو نا تو اپنے گھر میں چین آرہا ہے اور نا ہی کہیں اور کیونکہ یہ سال ہا سال سے سرکاری خرچے پر زندگی بسر کررہے تھے۔ بات صرف مولانا صاحب کی نہیں ہے بات ہے ہر اس سیاست دان کی ہے جو کسی نا کسی طرح سے پاکستان کے ایوانوں میں برس ہا برس سے عمریں گزارتے آئے ہیں ، ان لوگوں نے کبھی سب سے پہلے پاکستان کے بارے میں سوچا ;238; کیا انکے آبائ و اجداد نے پاکستان کی بقائ کیلئے عملی اقدامات یا اصطلاحات پا کام کئے ;238;جواب نہیں ملے گا کیونکہ ایسا ہی ہے بلکہ تقریباً پاکستان کے سیاستدان بلواسطہ اور کہیں بلاواسطہ پاکستان کے دشمنوں سے پینگے بڑھاتے رہے اور اپنی دوستیوں کا دم بھرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہے۔ ارباب اختیار کو ہمیشہ یہ زعم رہا کہ ان سے کون کچھ پوچھ سکتا ہے ، یہ بھولے بیٹھے تھے کہ ایک طاقت ہے جو وہ سب کچھ بھی دیکھ لیتی ہے جہاں انسان کی اور انسان کی بنائی ہوئی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ یہ دھرنا ، یہ بیماریاں ایک بار پھر اس راستے میں حمائل ہونے کی سازش ہیں جن پر چل کر پاکستان کی عوام کو سمجھ آجانی ہے کہ انکے ساتھ درحقیقت ہوا کیا ہے۔ یہ خوفزدہ دیکھائی دے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہ میں سمجھ لینا چاہئے کہ ان بوسیدہ نظام کے پیروکاروں نے ہ میں کیا دیا ہے اور ہمارے ملک کو کہاں لا کر کھڑا کردیا ہے۔ اب تو سمجھ آجانی چاہئے۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ، آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں کہ ہ میں کوئی دیکھ ہی نہیں رہی۔ اس بات کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ہم اب بھی نہیں سمجھے تو معلوم نہیں کتنے ہی کلبھوشن یادیو پاکستان میں اپنے ناپاک عزائم لئے چھپے بیٹھے ہیں اور وقت کے منتظر ہیں۔