جسٹس لائرز فرنٹ کے کنونئیر سہیل بیگ نوری سے خصوصی انٹرویوعام وکیل کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سندھ بار کونسل کا الیکشن لڑ رہا ہوں،

سہیل بیگ نوری ایڈوکیٹ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل اور جسٹس لائرز فرنٹ کے پلیٹ فارم سے عوام اور وکلا کے انصاف کی بالادستی اور قانون کے استحکام کی جدوجہد میں پیش پیش ہیں۔ سندھ بار کونسل کے انتخابات میں وہ ڈسٹرکٹ ساوتھ سے امیدوار ہیں۔ ہیومن رائٹس پوسٹ نے انتخابات میں حصہ لینے کی وجوہات اور وکلا سمیت ایک عام سائل کے لئے ان جذبات جاننے کے لئے ان سے خصوصی انٹرویو کیا جو نذر قارئین ہے۔
ہیومن رائٹس پوسٹ کے عدلیہ کی اہمیت کے بارے میں سوال سے اپنے انٹرویو کا آغاز کرتے ہوئے سہیل بیگ نوری نے کہا کہ اس ملک میں جو جمہوری نظام ہے اس میں عدلیہ ایک اہم ستون کی مانند ہے اور جمہوری نظام میں سے عدلیہ کو نکال دیا جائے تو جمہوری نظام صفر پر آ جا تا ہے۔اسی طرح عدلیہ ¾وکلاءاور ججز کا مرکب ہے اگر عدالت سے وکیل اور ججز کو نکال دیا جائے تو عدلیہ ختم ہے مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں جہاں حکومت کی جانب سے وکلاءکو مراعات دی جاتی ہیں وہ بہترین طریقے سے اپنی خدمات انجام دے پاتے ہیں۔دوسری جانب وکلاء کے ساتھ سوتیلی ماں والا برتاﺅ کیا جاتا ہے اور جب تک وکلاءکو سہولتیں نہیں دی جائیں گی تو اس ملک میں انصاف کو فروغ نہیں مل سکتا ۔انشااللہ منتخب ہونے کے بعد وکلاءنے مجھے موقع دیا تو ائین کی بالا دستی کی جد و جہد کے ساتھ ساتھ میں سینئر وکلاءکے لئے بھی جدو جہد کرونگا اور ان کے ساتھ ساتھ جونیئر وکلاءکے بھی بڑے مسائل ہیں ان کے لئے میں ٹریننگ کابندوبست کرنا چاہتا ہوں اور جو وکلاءاندرون سندھ اور بلتستان اور پاکستان کے کسی بھی خطے سے آتے ہیں میرا ان کے لئے سندھ بار کونسل کی جانب سے ہوسٹل بنانے کا خواب ہے اور اس کی تعبیر کے لئے عملی جد و جہد میں قدم رکھونگا اور اسی طرح وکلاءکی میڈیکل کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سہیل بیگ نوری نے کہا کہ میں چاہتا ہوں وکلاءکومیڈیکل پینل ملے، بار کونسل کے لیول پر لیاقت نیشنل اسپتال ےا آغا خان میں اور یہ بات میری پہلی ترجیح ہے کہ میڈیکل سہولیات کے حوالے سے کام کروں ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ وکیلوں کے ساتھ رہائش کے بڑے مسائل ہیں، میں چاہتا ہوں کہ کراچی کے وکلاءکو 400گز کے پلاٹس ملنے چاہئےے اور گورنمنٹ کو چاہئےے کہ انکو پلاٹس فراہم کرے تاکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزار سکیں ، انشاءاللہ منتخب ہونے کے بعد وکلاءکے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا میری زندگی کا اہم مقصد ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ سینئر وکلاءکے ساتھ بڑی زیادتی یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگوں کی خدمت کرے 5سے 6لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ 50سے 60لاکھ ملنے چاہئےے اور اچانک موت کی صورت میں بھی کم سے کم بچوں کی پرورش کےلئے 50لاکھ روپے ہونے چاہئےے اور اسکے کےلئے منتخب ہونے کے بعد بھرپور طریقے سے مہم بھی چلائیں گےا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہم منتخب ہونے کے بعد بیٹھ جائیں ، جو بول رہے ہےں اسکو عملی جامہ پہنانے کےلئے بھرپور جدوجہد کریں گے ، اور یہ کہ ہمارے وکیلوں کے پاس ، نیٹ کی سہولت بلکل نہیں ہے جس کی وجہ سے بڑے مسائل ہوجاتے ہیں اور ہم کوشش کریں گے اس سلسلے میں مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔ میڈیکل سہولیات کے حوالے سے اپنی بات دوہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس لیاقت نیشنل ےا آغا خان کا پینل ہو سندھ بار کونسل کے پاس اور جو وکیل سندھ ، بلتستان ،کشورو لاڑکانہ سے آتا ہے تو اس کےلئے ہاسٹل ہونا ضروری ہے جیسا پنجاب بار کونسل کا میڈیکل پینل ہے یہاں کے آغا خان میں ہے اور سندھ بار کونسل آغا خان کے پینل میں ہی نہیں یہ کتنی بڑی زیادتی ہے ۔
حیدرآباد اور میرپورخاص میں 400سے 500تک کے پلاٹس دیئے جاتے ہیں ان 10سالوں میں صحافیوں کو کئی بار پلاٹس مل چکے ہیں مگر وکلاءکو وہی پرانی سوسائٹی اور جس پر مافیا کا قبضہ ہے وکلاءکو آج تک نہیں ملا اور ہماری ترجیح یہ ہوگی کہ گورنمنٹ سے وکلاءکو کم از کم 400گز کے پلاٹ دلوائیں اور جو میں کہتا ہوں وہی کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور انشاءاللہ دوستوں کے تعاون سے اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی سے سرفراز کیا تو ضرور ہم وکلاءبرادری کے وہ تمام مسائل حل کریں گے جن کی انہیں ضرورت ہے اور ان کے جائز حقوق دلوا کر دم لیں گے ۔
ایک سوال کا جواب میں انکا کہنا تھا کہ جب وکلاءموومنٹ چلی 2007میں تو لوگ سڑکوں پہ نکلے ،اس ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہو نعرے لگائے، دھرتی ہو گی ماں کے جیسی ، انصاف ملے گا ہم بھی اس موومنٹ میں گئے کہ چلو وقت آگیا ہے اور اب پاکستان میں آئین کی بالادستی ہوگی اور قائد اعظم کا مشن اور خواب کی تکمیل ہوگی جمہوری نظام آجائے گا ہم نے جدوجہد کی ،سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے مجھے دوبار جیل میں ڈالا جب جیل کے ایام تھے تو میں نے سوچا کہ یہ خطوط لکھے جائیں جو اس وقت کے بڑے بڑے وکلاءموومنٹ کے رہنما تھے تو انکو خطوط میں لکھا آپ کوئی سیاسی پلیٹ فارم بنائیں اور لوگ پاکستان کے سیاسی جماعتوں سے بدظن ہوچکے ہیں اور سیاسی جماعتوں پر وڈیروں اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے لہٰذا آپ لوگ پروفیشنل ہیں اور قائد اعظم بھی پروفیشنل تھے۔دنیا میں جتنی بھی جمہوریت دیکھی ہے اس میں آپ کو اسمبلیوں میں زیادہ تر تعداد وکلاءکی نظر آئے گی جو قانون سازی کرتے ہیں تو میں نے کہا کہ آپ لوگ کوئی سیاسی پارٹی بنائیں لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں ، لوگ آپ کو آگے لیکر آئیں گے اس ظلم وستم کےخلاف مگر اس وقت مجھے شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب بڑے وکیل رہنماﺅں نے کہا یہ ہمارا کام نہیں ہے ، اور ہم پروفیشنل ہیں اور وقت کے ساتھ یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ پروفیشنل ہیں انہوں نے اس موومنٹ کو بھی کیش کروایا قطع نظر اسکے کہ جب انہوں نے مجھے مایوس کیا تو جیل میں سے میں نے اس پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی ، اور ایک کتابچہ تحریر کیا اور جسٹس لائیر فرنٹ کا قیام تشکیل دیا اور اسکا مقصد سول سوسائٹی کو ڈاکٹرز ،انجینئرز کو اساتذہ کو اور پڑھے لکھے لوگوں کو ساتھ ملاکر وکلاءاور عوام کا ایک ایسا اتحاد ہو جو انصاف کےلئے کام کرے جو آئین اور قانون کی بالادستی پر کام کرے جو لوگوں کی رہنمائی کرے لوگوں کو قانون سمجھائے کہ شناختی کارڈ صرف دکھانے کےلئے نہیں بلکہ ایک طاقت ہے ووٹرز کو عزت نہیں ملتی ووٹ کو عزت نہیںملتی یہ نعرے لگا دئےے ہیں سیاسی لوگ جب تک شہری اپنی طاقت کو نہیں پہچانیں گے تو تب تک اس ملک میں خوشحالی نہیں آسکتی۔
ہیومن رائٹس پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کنوینر جسٹس لائرز فرنٹ سہیل بیگ نوری امیدوار سندھ بار کونسل کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی وکیل کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے خلاف سخت ایکشن ہو نا چاہئیے اور اسی لئے میں انتخاب میں حصہ لے رہا ہوں کہ وہ عناصر جو پیسے خرچ کر پیسے کمانے آتے ہیںان کا قلع قمع کیا جا سکے جب تک ہمارے وکیل دوست اس بات کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک آپ کو وہ لیڈر شپ نہیں ملے گی جو حقیقی معنوں میں اپ کو حقوق دلوانے کیلئے کام کر سکے اور جو پیسہ خرچ کر کے آتے ہیں وہ کام کرنے کیلئے نہیں بلکہ کمانے کے لئے انویسٹ کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جسٹس لائرز فرنٹ اسی لئے بنائی ہے کہ وکلاءکو حقوق دلوائے جائیںجو لوگ انصاف بیچ رہے ہیں اگر ہم ان کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو انصاف کی بالا دستی قائم نہیں ہوسکتی۔
ہیومن رائٹس پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل بیگ نوری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں بار کونسل میں بیٹھ کر وکلاءکے حقوق کے لئے جدو جہد کرونگااس سلسلے میں ناکامی ہوئی تو خطوط لکھوں گا بحث و مباحثہ کرونگا اختلافی نوٹ لکھوں گا عدالت میں چیلنج کر دونگا۔وکیل برادری کو موٹیویٹ کرونگا جب وکیل ایک ڈکٹیٹر کو بھگا سکتے ہیں تو اپنے حقوق کی جنگ بھی لڑ سکتے ہیں جب تک آپ اپنے حقوق نہیں لے سکتے تو ایک عام آدمی کو کس طرح حقوق دلوا سکتے ہیں۔او رمیں نے اس زیادتی کے خلاف ہائی کورٹ کے جج ظفر احمد شیروانی کے خلاف ٓئینی درخواست لگائی کہ وہ لوگوں کے حقوق غضب کر رہے تھے اور غیر قانونی طریقے سے سیٹ پر براجمان تھے ان کے خلاف ہم نے کیس کیا حالانکہ یہ بار کونسل کی ذمہ داری تھی ¾ہائی کورٹ کی ذمہ داری تھی اور یہ وکلاءرہنماﺅں کی ذمہ داری تھی مگر وہ اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش رہے مگر ہم نے ظفر احمد شیروانی کے خلاف جسٹس لائرز فرنٹ کے پلیٹ فارم سے کیس دائر کیا اور یہ ایک مثال ہے ہم کھڑے ہیں اپنی جگہ پر۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سارے وکیل ایک جیسے ہیں چند فیصد لوگوںنے کرپشن کا بازار گرم رکھا ہوا ہے اور یہ سوچ تب ختم ہو گی جب انصاف قائم ہو گا انصاف کی بالا دستی کیلئے آگاہی فراہم کرینگے ۔وکلاءکو ٹریننگ دینا اور وظیفہ دینا اس کا بنیادی حق ہے ۔ بار اور بینچ کے تعلقات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بار اور بینچ میں کشیدگی کی وجہ لیڈر شپ کا فقدان ہے وکیل تو رہنما ہوتا ہے قائد اعظم اور بھٹو کو ہی دیکھ لیں ۔ایک سوال کے جواب میں کنوینر جسٹس لائرز فرنٹ سہیل بیگ نوری نے کہا کہ ججز کی تربیت ہوتی ہے ان کو مرعات دی جاتیں ہیںتو دوسری طرف وکلاءکی ٹریننگ اور سہولیات دینا بھی بے حد ضروری ہے دوران ٹریننگ وکلاءکو 25ہزار وظیفہ دیا جائے اور ٹریننگ کا دورانیہ دو سال پر محیط ہونا چاہئے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 25ہزار روپے ٹریننگ وظیفہ بار کونسل دے کیونکہ ڈاکٹرز کو بھی ہاﺅس جاب کے دوران وظیفہ ملتا ہے تو وکلاءکو کیوں نہیں۔عدالتوں کے ضلع کی سطح پر الگ جگہوں پر منتقلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک لے لیں اس میں ایک جوڈیشل کمپلیکس قائم ہے اور میں اپنے دوستوں کو اس بات پر آمادہ کرونگا اور ہم سب ملکر جوڈیشل کمپلیکس قائم کرنے کے لئے عملی جد و جہد کرینگے اور میرا یہ خواب ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس کے اندر تمام عدالتیں موجود ہوں ساری عدالتیں ایک ہی جگہ آ جائیں اور وکلاءکے چیمبر ز بھی اسی میں ہوں مگر اس کے لئے لیڈر شپ کی اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے اپنے مفادات چھوڑ کر آنے والی نسلوں کی خوشحالی کیلئے کام کیا جائے۔
سندھ بار کونسل کے انتخابات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سہیل بیگ نوری ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں اپنے وکلاءبھائیوں کو یہ بھی پیغام دونگا کہ الیکشن قریب ہے سندھی ¾مہاجر ¾پٹھان ¾شیعہ ¾سنی سے نکل کر اپنے حقوق کے لئے ایک ہو جاﺅ، گروپنگ چھوڑ کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے آئین اور قانون کی بالا دستی کے لئے اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہو جاﺅ ، وکلاءحقوق کے لئے ہمیں ووٹ دیں آپ لوگ متحد ہو جائیں ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو صیح معنوں میں آپکے حقوق کی جدو جہد کریں۔بار اور بینچ کو مضبوط کریں تاکہ آئین کی بالا دستی قائم ہو سکے۔