چھ ستمبر یومِ دفاعِ پاکستان

چھ ستمبر یومِ دفاعِ پاکستان ملک بھر میں بھر پور جوش و جذبے سے منایا گیا۔ یہ دن ہمیں ا±ن شہداءکی یاد دلاتا ہے جو 53 سال قبل دشمن کے بزدلانہ حملے کو شجاعت اور جواں مردی سے ناکام بناتے ہوئے اپنی جانیں اس مادر وطن پر نثار کر گئے تھے۔یہ ا±ن شہدائ کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں جنہوں نے 1965 اور دیگر جنگوں میں آزادی کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے اپنے خون کا نظرانہ پیش کیا۔چھ ستمبر 1965 کی شب بھارتی فوج جنگ کا اعلان کیے بغیر بین الاقوامی بارڈر لائن پار کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئی۔ بھارتی جرنیلوں کا منصوبہ تھا کہ چھ ستمبر کی صبح لاہور کی سڑکوں پر بھارتی ٹینک اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دیں گے اور شام کو لاہور جیم خانہ میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو خبردیں گے کہ اسلام کا قلعہ سمجھی جانے والی ریاست پر کفار کا قبضہ ہو چکا ہے لیکن بھارت کے ارادوں اور منصوبوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ان کی افواج کو مختلف محاذوں پر شکست اور پسپائی کی خبریں ملنے لگیں۔
چونڈہ: بھارتی ٹینکوں کا قبرستان
جنگوں کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی سیالکوٹ ایک علاقے چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی جہاں طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج چھ سو ٹ?نک لے کر پاکستان م?ں داخل ہوگئی تھی۔ پاکستان فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے دشمن کے 45 ٹینک تباہ کر دیے اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے تھے۔ اسی طرح پانچ فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ جنگ کا پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی فوجی حواس باختہ ہوگئے اور ٹینک چھوڑ کرفرار ہونے لگے تو پاک فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقے میں کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کیلئے ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔
لاہور کے محاذ:
لاہور میں پاک فوج کی 150 سپاہیوں کی ایک کپمنی نے 12 گھنٹے تک ہندوستان کی ڈیڑھ ہزار فوج کو روکے رکھا اور ہماری پچھلی فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔لاہور میں کے ایک اور جنگی محاذ پر میجر عزیز بھٹی پہرا دے رہے تھے۔ وہ اس وقت لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور بلاخر 12 ستمبر 1965 کو بھارتی ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جامِ شہادت نوش کر گئے۔جنگِ ستمبر کے دوران بھارتی فوج نے 17 دن میں 13 حملے کئے۔ ان کی افواج تعداد اور جنگی ساز و سامان کے حوالے سے کئی گناہ طاقتور تھی جبکہ پاکستانی فوج تعداد اور تیاری کے حساب سے بھارت سے بہت کم تھی لیکن پاکستانی جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر مسلسل 17 دن تک دشمن کو لاہور میں داخل ہونے سے روکے رکھا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ وطن کے ان بہادر سپوتوں میں کچھ کے کارنامے تو ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ جنہیں رہتی دنیا تک جرات و بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایسے جرات مند شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انہیں ملک کے سب سے عظیم فوجی اعزاز ” نشان حیدر “ سے نوازا گیا۔
نشان حیدر کیا ہے ؟
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ اس اعزاز کو شجاعت و بہادری کے پیکر، حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ نشان صرف ان فوجی جوانوں کو نصیب ہوتا ہے جنہوں نے وطن کے لیے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، نشان حیدر پانے والے باقی شہدائ کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں۔ سب سے کم عمر نشان حیدر حاصل کرنے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔اس اعلیٰ ترین فوجی اعزاز کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت جو بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ نشان حیدر جنگوں کے دوران دشمن افواج سے چھینے گئے اسلحہ کی دھات سے بنایا جاتا ہے۔ اب تک بری فوج کے حصہ میں 9 جبکہ پاک فضائیہ کے حصے میں ایک نشان حیدر آیا ہے جن کے نام اور کارنامے با اختصار درج ذیل ہیں۔
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید
راجہ محمد سرور 10 نومبر 1910 کو موضع سنگوری تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ 1929 میں بلوچ رجمنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور ترقی پاتے ہوئے یکم فروری 1947 میں رائل انڈین آرمی میں کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔ بٹوارے کے وقت پاک فوج کو قوقیت دی اور پاکستان آگئے۔جولائی 1948 میں دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر پہنچے تو اوڑی کے مقام پر ایک پہاڑی دشمن کے قبضے میں تھی۔ بلندی پر ہونے کے سبب دشمن پاک فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا تھا لہذا اس چوٹی پر قبضہ کرنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اس جان لیوا کام کا بیڑہ محمد سرور شہید نے اٹھایا اور 27 جولائی 1948ئ کی رات کو اپنے جوانوں کے ساتھ ٹارگٹ کی طرف بڑھے۔ جو ہر سمت سے گولے اور گولیاں برسا رہا تھا اور محمد سرور شہید کی قیادت میں مٹھی بھر سپاہی سر پر کفن باندھے دشمن مورچوں کی طرف بڑھے۔ اس دوران کئی جوانوں نے موت کو گلے لگایا۔ ایسے میں ایک گولی محمد سرور کا دایاں بازو چیرتے ہوئے نکل گئی۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے رہے ان کے زخموں سے خون جاری تھا۔آخر وہ اس مورچے تک جا پہنچے جہاں سے گولیاں برسائی جا رہی تھیں۔ وہ باڑ کاٹنے لگے۔آخری تار کٹنے کو تھی کہ دشمن کی فائرنگ نے محمد سرور شہید کا سینہ چھلنی کر دیا۔
میجر طفیل محمد شہید
میجر طفیل محمد 1914 میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1943 میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور 1958 میں ترقی پاکر کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے ایسٹ پاکستان رائفلزمیں تعینات ہوئے، اس وقت مشرقی پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہورہے تھے۔ میجر طفیل کو لکشمی پور میں مورچہ بند بھارتی دستوں کے خلاف کارروائی کا مشن سونپا گیا۔ آپ نے سات اگست 1958ء کو جرات و بہادری کی ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے علاقے سے بھارتی مورچوں کا صفایا کر دیا، اپنی شجاعت سے دشمن دستوں میں اس قدر خوف طاری کردیا کہ بھارتی فوجی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ اس دوبدو جنگ میں میجر طفیل محمد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے، انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید
جب دشمن لاہور پر حملہ آور ہوا تو اس وقت میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، 12 ستمبر 1965 کو بھارتی ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جامِ شہادت نوش کیا۔
میجر محمد اکرم شہید
میجر محمد اکرم چار اپریل 1938ئ کو ڈنگہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1963ئ میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں بطور کمیشن آفیسر چارج سنبھالا۔ 1965 کی جنگ شروع ہوئی تو میجر اکرم اس وقت بطور کپتان شہر لاہور کی حفاظت پر مامور تھے۔ انہوں نے قلیل تعداد سپاہیوں کے ساتھ بھارتی فوج کے خلاف کامیاب کاروائیاں کیں اور دشمن کو پیش قدمی سے روکے رکھا، آپ کو 1969 میں کیپٹن سے میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔1971ئ کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی کے محاذ پر میجر محمد اکرم نے اپنی فرنٹیئر فورس کی کمانڈ میں مسلسل پانچ دن اور پانچ راتیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بھارتی فوج کی پیش قدمی روک کر دشمن کے اوسان خطا کر دیے۔ ہلی کے محاذ پر میجر اکرم کی جرات و بہادری نے ایسا رنگ جمایا کہ دشمن بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا ، دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچانے پر میجر اکرم کو ” ہیرو آف ہلی “ کے نام سے شہرت ملی۔ آپ نے دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے پانچ دسمبر 1971 کو جام شہادت نوش کیا۔ دشمن کے خلاف اس شاندار مزاحمت کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔
پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید
پاک فضائیہ کے جاں باز پائلٹ راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، مارچ 1971 میں راشد منہاس نے پاک فضائیہ میں بطور کمیشن جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی اور اگست 1971ئ کو پائلٹ آفیسر کے عہدے پر ترقی پائی۔ 20 اگست 1971ئ کو وہ اپنی پہلی سولو فلائٹ پر روانہ ہو رہے تھے کہ اچانک ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمان طیارے کو رن وے پر روک کر سوار ہوگئے اور جہاز کا رخ دشمن ملک بھارت کی جانب موڑ دیا۔ وہ بھارتی فوج کی جانب سے پلانٹڈ جاسوس تھا اور طیارے ک دشمن ملک میں اتارنا چاہتا تھا۔ راشد منہاس نے بر وقت حاضر دماغی اور بہادری سے کام لیتے ہوئے جہاز کا رخ زمین کی جانب موڑ دیا۔ جہاز تباہ ہونے سے راشد منہاس نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ وہ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے پاک فضائیہ کے پہلے اور نشان حیدر پانے والے اب تک اکیلے افسر ہیں۔
میجر شبیر شریف شہید
میجر شبیر شہید سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی اور میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے تھے۔ آپ 28 اپریل 1943ئ کو گجرات کے علاقہ کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ اپریل 1964ئ میں فوج میں شامل ہوئے۔ 1971 کی جنگ کے موقع پر آپ بطور کمپنی کمانڈر فرنٹیر فورس رجمنٹ سلیمانکی کے محاذ پر تعینات تھے۔ اس دوران انہوں نے دشمن فوجیوں اور ٹینکوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور6 دسمبر 1971ئ کو ملک و قوم کیلئے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا، شہادت کے وقت آپ کی عمر محض 28 برس تھی ان کی ہمت اور بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔
جوان سوار محمد حسین شہید
جوان سوار محمد حسین شہید 18 جون 1948 کے دن ڈھوک پیر بخش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور میٹرک کا امتحان دیوی ہائی اسکول سے دیا لیکن ایک مضمون میں فیل ہوگئے۔ اسی دوران 1965 کی جنگ چھڑ گئی اور آپ نے عام بھرتی کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں وہ اپنی یونٹ کے ساتھ ہرڑ کے مقام پر تعینات تھے، فوج میں اگرچہ وہ ڈرائیور تھے لیکن انہوں نے یونٹ کے ہر کام کو خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ سوار محمد حسین شہید پانچ دسمبر 1971ئ کو ظفر وال (شکر گڑھ) کے محاذ پر دشمن کی گولہ باری کی پرواہ کیے بغیر خندق میں موجود اپنے ساتھیوں کو گولہ بارود پہنچاتے رہے اور پھر خود بھی ٹینک شکن توپوں کے پاس جا کر دشمن کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ آپ کی اس جاں باز کارروائی سے دشمن کے جدید ترین ٹینک بہت بڑی تعداد میں تباہ ہوئے۔ دس دسمبر 1971ئ کو سوار محمد حسین دشمن کی مشین گن کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور جام شہادت نوش کیا۔ سوار محمد حسین شہید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے جوان تھے۔
لانس نائیک محمد محفوظ شہید
لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاو¿ں پنڈ ملکاں (محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 کو پیدا ہوئے۔ آپ نے 25 اکتوبر 1962 کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 1971 کی جنگ کے دوران محمد محفوظ واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔16 دسمبر کی رات جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو مل کنجری کا کچھ علاقہ پاکستان کے قبضے میں آچکا تھا۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد پاکستانی افواج کو کسی حملے کی امید نہیں تھی۔ مقبوضہ علاقہ چھڑانے کے لیے دشمن نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 17 اور 18 دسمبر کی درمیانی شب بھر پور حملہ کردیا۔ پاکستانی فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبر تین ہراول دستے کے طور پر سب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کار ہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا۔ لانس نائیک محمد محفوظ بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے، ایک مرحلے پر جب ان کی مشین گن دشمن کا گولہ کیل لگنے سے تباہ ہوگئی تو انہوں نے لپک کر ایک شہید ساتھی کی مشین گن اٹھائی اور دشم پر تابڑ توڑ حملے شو کر دیے۔ اسی دوران ایک گولی ان کی مشین گن کو لگی اور مشین گن ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ نہتے شاہین نے ایک بھارتی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، قریب تھا کہ وہ اسے گلہ گھونٹ کر جہنم واصل کرتے کہ ایک دوسرے بھارتی سپاہی نے سنگین مار کر انہیں شہید کردیا۔ لانس نائیک محمد محفوظ کو ان کی بہادری کے اعتراف میں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔ وہ محفوظ آباد کے مقام پر سپرد خاک ہیں۔
کرنل شیر خان شہید
معرکہ کارگل کے ہیرو کرنل شیر خان شہید یکم جنوری 1970 کو صوابی کے گاو¿ں نواں کلی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1994 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ کرنل شیر خان شہید نے معرکہ کارگل کے دوران 17 ہزار کلو میٹر کی بلندی پرقائم گلتری کے مقام پر پانچ حفاظتی چوکیاں قائم کیں۔ ان چوکیوں کی مدد سے دشمن کی ہر چال پر نظر رکھنا آسان تھا، بھارتی فوج نے کئی بار ان چوکیوں پر قبضے کی نیت سے حملے کیے اور ہر بار کرنل شیر خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جواں مردی سے دشمن کا ہر حملہ ناکام بنایا۔ پریشان ہو کر دشمن نے بھر پور طاقت سے حملہ کرنے کی ٹھانی اور دو بٹالین فوج کے ساتھ چوکیوں پر حملہ کیا۔ کرنل شیر خان کے ساتھ صرف 21 مگر شیر دل سپاہی تھے، سو ہتھیار ڈالنے کے بجائے جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کیا اور کئی بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ کرنل شیر خان نے نہ صرف دشمن کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ ان کے بیس کیمپ تک جا پہنچے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کی شجاعت کا اعتراف بھارتی فوج نے بھی کیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی بہادری کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا.
حوالدار لالک جان شہید
ٹائیگر ہل کے مقام پر جو چوکی کیپٹن کرنل شیر خان اپنی شہادت سے قبل جیت چکے تھے، اس پر قبضہ رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد ضروری تھی۔ حوالدار لالک جان انفنٹری کے نڈر اور بہادر سپاہی تھے۔ دشمن کسی بھی قیمت پر یہ چوکی حاصل کرنا چاہتا تھا لہذا دو بار لالک جان کی چوکی پر حملہ کیا گیا مگر اسے اس بہادر ہیرو کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی اور مسلسل دو راتوں کے حملوں میں ناکام ہو کر دشمن اپنی لاشوں کے انبار چھوڑ کر پسپا ہوتا رہا۔ تاہم سات جولائی کو دشمن نے حوالدار لالک جان کی چوکی پر توپ خانے نے شدید فائر کیے۔ جس میں حوالدار لالک جان شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ آپ کی جرات و بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے آپ کو نشان حیدر سے نوازا۔
پاک فضائیہ
پاکستان ایئر فورس! ہوا کے سپاہی۔ ہم جو اس ملک کی آزاد فضاو¿ں میں پھرتے ہیں وہ انہیں شاہینوں کی بدولت ہے جو ہم سب پاکستانیوں کی خاطر حفاظتی اڑانیں بھرتے ہیں۔ مادرِ وطن اور پوری قوم کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ کوشاں رہتے ہیں، یوم دفاع کی سالانہ تقریبات کے بعد اگلے روز 7 ستمبر کو یوم فضائیہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اونچی اوڑان بھرنے والے شاہینوں کی کاوشوں اور قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ پاک فضائیہ کے اعزاز میں ایئر شوز منعقد کیے جاتے ہیں۔ پاک فضائیہ کے بہت سے بڑے بڑے کارنامے آج بھی جب بڑے بزرگوں کی زبانی سننے کو ملتے ہیں تو جوش وخروش کی ایک عجب سی لہر رگوں میں دوڑ اٹھتی ہے، پاک فضائیہ کا پہلا تھپڑ جو اس نے بھارت کی چال کو ناکام بنانے کےلیے استعمال کیا تھا، اس لازوال داستان سے آج بھی بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ پہلے میں خود بھی اس سے لاعلم تھی، لیکن جیسے جیسے میں نے اس کو سمجھا اور اپنے الفاظ میں دوسروں تک پہنچانا چاہا، تو اپنی فضاو¿ں میں اڑنے والے ان شاہینوں کی قدرو منزلت مزید بلند ہو گئی ہے۔ اپریل 1959ئ موسم بہار کی ایک خوبصورت عید، پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی بارہ سال ہی بیتے تھے۔ ملک میں امن وامان کی حسین فضا قائم تھی۔ لوگ خوشی خوشی عید کی تیاریوں میں مگن تھے، تیزی سے عید گاہ کی طرف گامزن تھے۔ ننھے معصوم بچے نت نئے کپڑوں میں ملبوس اپنے بڑوں کی انگلی تھامے چھلانگیں مارتے ہوئے عید کی نماز پڑھنے جا رہے تھے۔ پاکستان کے ہر شہر میں گہما گہمی تھی۔ ننھی بچیاں رنگ برنگے کپڑے پہنے گھروں میں سوئیاں بانٹتی پھر رہی تھیں، اور وہاں سے عیدی وصول کر رہی تھیں۔ ایسے میں اچانک پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے یہ سوچ کر کہ پاکستان کی عوام عید کی خوشیاں منا رہی ہے، ایک بزدلانہ چال چلی، بھارتی فضائیہ کے اعلیٰ حکام نے ای ای سی کینبرا بی 58 طیارے کو فوٹوگرافی اور جاسوسی کےلیے پاکستانی حدود میں بھیجا، وہ نادان یہ نہیں جانتا تھا کہ جو قوم انگریزوں اور ہندوو¿ں سے آزادی حاصل کر سکتی ہے، کیا وہ اس کی حفاظت کرنا نہیں جانتی ہوگی۔ جیسے ہی ایئر ڈیفنس کنٹرول میں بیٹھے جواں سال جواں ہمت پائلٹ آفیسر رب نواز نے راڈار پر دشمن کے طیارے کو دیکھا، فوراً ہی سرگودھا کے نمبر 15 اسکواڈرن سے دوایف 86 سیبر طیارے پر فلائٹ لیفٹینٹ ایم این بٹ کی سرکردگی میں فلائٹ لیفٹینٹ محمد یونس عقابی شان کے ساتھ فضا میں بلند ہوئے۔ اور دشمن کے طیارے کو کلرکہار کی پہاڑیوں کے پاس جا پکڑا۔ کینبرا طیارہ سیبر کی پہنچ سے زیادہ بلند پرواز کر رہا تھا۔ مگر سیبر کے جانباز پرعزم اور کہیں زیادہ بلند حوصلہ تھے۔ کینبرا 50,000 فٹ کی بلندی پر محو پرواز تھا جہاں تک سیبر کی پہنچ نہ تھی۔ کینبرا راولپنڈی کی جانب پرواز کے لیے جیسے ہی مڑا اس نے اپنی بلندی کم کی اور 47,500 فٹ کی بلندی پر آگیا، اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے شاہین صفت محمد یونس نے مستعدی سے اس کو نشانہ پر لے لیا اور دبوچ کر 12, 7, ایم ایم گن کا برسٹ مار کر روات کے قریب زمین بوس کر دیا۔ بھارتی فضائیہ کے 106 اسکواڈرن سے تعلق رکھنے والے دونوں سوار اسکواڈرن لیڈر جے سی سین گپتا اور نیوی گیٹر ایس این رامپال کو پاکستانی حکام نے گرفتار کر لیا۔ یہ پاک فضائیہ کے شاہین بچوں کا پہلا شکار اور بھارتی فضائیہ کے لیے ایک سبق تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت ایک پیشہ یا ملازمت کے طور پر نہیں، بلکہ ایک عبادت اور ایک مقدس فریضہ سمجھ کر کرتی ہیں۔ مادرِ وطن کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑ ڈالنا جانتے ہیں۔ انہیں اس پر کامل یقین ہے کہ الللہ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ دنیا بھرکی شب بیداری سے زیادہ اہم ہے۔ آج بھی جب ہم رات کو گہری اور چین کی نیند سوتے ہیں تو ہماری زمینی، فضائی، اور بحری سرحدوں کے نگہبان ہمہ وقت چوکس و بیدار ہوتے ہیں، آج ہمیں سیاچن، مشرقی، اور مغربی سرحدوں پر مصروف پاک افواج اور بحری و فضائی سرحدوں کے نگہبانوں کی سلامتی کےلئے دعاگو ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب تک یہ بہادر شاہین فضا کے محافظ ہیں، ہمارے ملک پر کبھی سیاہ بادل نہیں آسکتے۔
پاک بحریہ
پاکستان بحریہ جسے پاکستان کے سمندری محاذوں کا دفاع کرنے کا مقدس فریضہ سو نپا گیا ہے، اس نے حال ہی میں 2300 ٹن وزنی جدید جنگی جہاز پی این ایس یرموک کو اپنے بیڑے میں شامل کیا ہے۔ پی این ایس یرموک ڈچ جہاز ساز کمپنی ڈامین شپ یارڈز کی جانب سے بنائے جانے والے دو جہازوں میں سے پہلا جہاز ہے جس کو جلاٹی رومانیہ میں تیار کیا گیا ہے۔ڈامین شپ یارڈ کمپنی نے 30 جون 2017 کو ایک ٹینڈر کے ذریعے پاکستان بحریہ کے لیے دو کثیر المقاصد آف شور پیٹرول ویسلز (او پی وی) بنانے کے لئے وزارت دفاعی پیداوار پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس کمپنی نے دفاعی اور سیکیورٹی اداروں کے لئے لگ بھگ 40 جہاز تیار کیئے ہیں، جن میں رومن بارڈر پولیس کا پرچم بردارجہاز، رائل نیدرلینڈ نیوی کے لئے سات جدید بحری جہاز اور اسٹیفن سیل میئر آف شور پیٹرول شامل ہیں۔پی این ایس یرموک ایک جدید ترین الیکٹرانک وارفیئر، اینٹی شپ اور اینٹی سب میرین وارفیئر پلیٹ فارم ہے جس میں جدید دفاعی نظام اور ٹرمینل ڈیفنس سسٹم موجود ہے۔ پی این ایس یرموک مختلف قسم کے سمندری کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ ایک ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کا فضائی جہاز (یو اے وی) لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جہاز بیک وقت دو تیز رفتار آر ایچ آئی بی کشتیاں بھی لانچ کرسکتا ہے اور خصوصی مشن پر مبنی کارروائیوں کے لئے بیس فٹ لمبے دو کنٹینر رکھنے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔پاکستان بحریہ میں بحری جہازوں کا نام تاریخی شخصیات یا واقعات پر رکھا جاتاہے۔ پی این ایس یرموک کانام یرموک کی لڑائی کی یاد میں رکھا گیا ہے جو کہ خالد بن ولید کی قیادت میں مسلمان افواج اور تھیوڈور ٹریتھریس کی قیادت میں بازنطینی افواج کے درمیا ن 636 عیسوی میں ہوئی۔ مسلمانوں کی فتح نے شام میں بازنطینی سلطنت کو ختم کیا۔پاکستان بحریہ نے 14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے وقت کم بحری قوت کے ساتھ آغاز کیا،تاہم اب یہ ایک کثیر الجہتی لڑاکا قوت بن چکی ہے جو انتہائی محرک اور پیشہ ورانہ صلاحیت کی حامل افرادی قوت کے ساتھ کام کر رہی ہے اور قادر مطلق اور قومی مقصد پر غیر متزلزل عقیدے سے سرشار ہے۔ پاکستان بحریہ قومی سلامتی اور سمندری معیشت میں موثر کردار ادا کر رہی ہے، پاکستان کے سمندری مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور عالمی نقطہ نظر سے خطے میں اہم مقام کی حامل ہے۔کارویٹ چھوٹے جہاز ہیں جن کا پیش روسلوپ تھی۔ کارویٹ کا کردار ابتدائی طور پر ساحلی گشت، معمولی جنگیں لڑنے، بڑے بیڑے کی مدد کرنے اور جھنڈے کی نمائش کے مشن میں حصہ لینے پر مشتمل تھا۔ جدید کارویٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران آسانی سے تعمیر شدہ گشت کا جہاز اور قافلے کے محافظ جہاز کے طور پر نمودار ہوا۔ جدید بحری جہازوں نے 20 ویں صدی کے آخر میں اور 21 ویں صدی کے آغاز میں زیادہ نقل و حرکت کی صلاحیت کی طرف توجہ دینے کا آغاز کیا. کارویٹس کی ڈس پلیسمنٹ 500 سے3000 ٹن کے درمیان ہوتی ہے اور لمبائی 180–420 فٹ (55-128 میٹر) ہوتی ہے۔ یہ جہاز عام طور پر درمیانے اور چھوٹے کیلیبر کی گنز، سطح سے سطح اور سطح سے ہوا تک مار کرنے والے میزائلوں اور اینٹی سب میرین ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ جدید کارویٹس چھوٹے یا درمیانے درجے کے اینٹی سب میرین وارفیئر ہیلی کاپٹر کو ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ بھارتی بحریہ چار کامورٹا کلاس کارویٹ چلارہی ہے۔ پاکستان میں سب سے چھوٹی فوج ہونے کے باوجود پاک بحریہ ملک کے سمندری مفادات کے تحفظ، ساحلی اور سمندری راستوں سے جارحیت کو روکنے، ساحلی برادریوں کی ترقی میں حصہ لینے اورسمندر میں اچھے نظام کو برقرار رکھنے کی بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لینے اور سمندری مواصلات کے راستوں (ایس ایل او سی) کی حفاظت کے اہم امور کی ذمہ دار ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان میں ایک عرصے تک سمندری فوج کے کردار کو اہم نہیں سمجھا گیا اور اسے مزید گھٹانے پر بھی غور کیا گیا، پاک بحریہ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں اپنی قابلیت کا ثبوت دیا، جس میں پاک بحریہ کی سب میرین غازی نے ہندوستانی بحریہ کو خلیج میں رہنے پر مجبور کیاجبکہ پاک بحریہ کے سطح آب بیڑے نے دوارکا کی ہندوستانی بحری بندرگاہ پر گولہ باری کی۔