فرانس کے صدر کی جسارت پر مسلمان صرف احتجاج اور بائیکاٹ تک محدود

ندیم احمد جمال
فرانس کے صدر کے نبی آخری ازماں صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے خلاف ناپاک بیان نے نہ صرف دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے تو دوسری طرف انہوں نے خود اپنے نام نہاد اصولوں پر مبنی انسانی حقوق کی بھی شدید خلاف ورزی کی ہے، جس میں آزادی اظہار کے نام سے ایک فرد کو بھی تمسخر کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا- انہوں نے مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی کے تمسخرانہ خاکوں کی حمایت میں بیان دے کر خود آزادی اظہار کی حد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے-
یورپ کا معاشرہ تو ویسے بھی مدر پدر آزاد ہے لیکن اس کے باوجود وہاں انسانی حرمت کو قائم رکھنے کے لئے قانون کی عمل داری ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اس دنیا کی ایک برگزیدہ ہستی جس کا پیغام ہی امن و آشتی اور دوسری کی عزت پر مبنی رہا ہے انہیں تمسخر کا نشانہ بنانے کی کوشش کو اظہار رائے کی بھونڈی دلیل سے تاویل دی جا رہی ہے- اس نازک مسئلہ پر یوں تو بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن ہم اپنے موضوع “انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی حد” پر ان مباحث میں سے کچھ اقتباس پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ مغرب کی جانب سے ہمارے پیغیمبر کو تمسخرانہ انداز میں پیش کرنے کی جسارت خود عالمی اور مغربی قوانین کی رو سے سنگین خلاف ورزی کے زمرہ میں آتا ہے-
اس سلسلے میں سب سے پہلے ایک عالمی قانونی ویانا کنونشن کو دیکھنے کی ضرورت ہے، ویانا کنونشن 1961، جس پر تمام اقوام عالم نے دستخط کر رکھے ہیں، کسی بھی ملک میں غیر ملکی سفیروں کے جان و مال اور عزت و تکریم کے تحفظ کی ذمے داری میزبان ملک پر عائد کرتا ہے۔ ویانا کنونشن کا آرٹیکل 24،22،30،37 غیر ملکی سفیروں کی رہائشگاہوں، ان کے اہل خانہ، خط و کتابت اور ڈاک کی ترسیل کو بھی وہی تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے خود سفارتکار حقدار ہوتے ہیں۔
اب جب دنیا غیرملکی سفیروں? کی جان و مال اور ان کی عزت کے عالمی قانون بنا سکتی ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم مذہب کی برگزیدہ شخصیات کی حرمت کے حوالے سے بھی ایسی ہی قانون سازی کرے، حالانکہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق 2018 میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ رسول اللہ کو (معاذ اللہ ) بدنام کرنے کی کوشش کرنا ”goes beyond the permissible limits of an objective debate۔ “یہ مقدمہ پہلے ویانا کی علاقائی فوجداری عدالت میں چلا جہاں آسٹریا کی ایک عورت کو اسی جرم میں سزا سنائی گئی، اس عورت نے سزا کے خلاف یہ کہہ کر اپیل کی کہ وہ یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کی شق 10، جو آزادی اظہار سے متعلق ہے،کے تحت اپنے خیالات کے اظہار میں آزاد ہے۔
مگر یورپی یونین کی سات رکنی عدالت نے ا±س عورت کا موقف مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ ”“that by considering the impugned statements as going beyond the permissible limits of an objective debate and classifying them as an abusive attack on the Prophet of Islam, which could stir up prejudice and put at risk religious peace, the domestic courts put forward relevant and sufficient reasons.”
آزادی اظہار کی حدود سے متعلق یہ یورپ کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ ہے، اصولاً تو اسی فیصلے کی روشنی میں فرانس کا سارا مقدمہ زمین بوس ہو جاتا ہے، مگر فرانسیسی اپنے تئیں چونکہ آزادی اظہار کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں تو ہم ا±ن کے موقف کی مزید پڑتال کرلیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اِن گستاخانہ خاکوں کی نمائش سے فرانس نے کون سا اعلیٰ و ارفع مقصد حاصل کیا ؟ اگر اِس نمائش کا مقصد ایک ارب نوّے کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری اور دنیا کے امن کو نقصان پہنچانا تھا تو یہ مقصد یقیناً پورا ہو گیا۔
اگر فرانس کی دلیل یہ ہے کہ اِس نمائش سے ا±س نے قتل ہونے والے فرانسیسی استاد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے تو یہ دلیل ناقص ہے کیونکہ کسی بھی شخص کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ا±س شخص کے تمام خیالات کونہ صرف جپھی ڈال لیں بلکہ ا±س کی تشہیر بھی کریں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آئے دن ہالینڈ ، ڈنمارک، ناروے اور فرانس یا دیگر ممالک میں? آزادی اظہار کے نام سے مسلمانوں کی دل آزاری کے بعد دنیا کو ویانا کنونشن کی طرز کے ایک اور معاہدے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، کیونکہ بائیکاٹ، جلسے، جلوس، ریلیوں، سیمنارز، مذمتی قرارداد، بین الاقوامی رہنماو¿ں کو خطوط، فرانس کے سفیر کی واپسی جیسے مطالبوں سے یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
اور اگر ہماری حالت زار ایسی ہی رہی یعنی ہم جلسے جلوسوں تک ہی محدود رہے تو وہ دن دور نہیں جب (نعوذباللہ) ایسے واقعات عام طور پر وقوع پذیر ہوں، اور ہم احتجاج کرکے عشق نبی? کا مظاہرہ کرکے مطمئن ہوجائیں۔ اور پھر کچھ عرصے کے بعد کوئی سرپھرا، عقل سے عاری شخص ہمارے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرے، ہم دوبارہ سے یہی مشق دہرا کر مطمئن ہوجائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک فرانس، ناروے، یا ڈنمارک سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جو ہمارے جذبات کی ترجمانی کریں۔ بالکل ایسے ہی جیسے غیر مسلم ممالک ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم توہین رسالت کے قانون کو ختم کردیں، مگر ہم اسے ختم نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ یہ ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔
اس لیے علمائے کرام روایتی احتجاج سے ایک قدم آگے بڑھیں۔ اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان، سعودی عرب، ایران اور ترکی کے حکمرانوں کو اس بات پر قائل کریں کہ دنیا سے ویانا کنونشن 1961 کی طرز کا ایک اور قانون منظور کروایا جائے۔ جس کے تحت تمام انبیا کرام اور الہامی کتب کی توہین کو آزادی اظہار سے نہ جوڑا جائے۔ اور ایسا کرنے والے شخص کو نشان عبرت بنادیا جائے۔ کیونکہ انبیا کرام اور الہامی کتب کی عزت سفیروں کی عزت سے بڑھ کر ہے۔
غیر مسلم اقوام کو معلوم ہے کہ ہم ان کے بغیر نہیں چل سکتے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا بھر میں سات اعشاریہ نو فیصد حلال غذا استعمال ہورہی ہے۔ یعنی 92 فیصد حرام غذا استعمال کی جارہی ہے۔ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ حلال غذا بھی ہمیں غیر مسلم ممالک مہیا کررہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون میں 25 فروری 2016 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عبدالرو¿ف عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں حلال فوڈ کے بڑے بڑے ایکسپورٹرز غیر مسلم ممالک ہیں، جن میں امریکا، نیوزی لینڈ، برازیل، تھائی لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ جو مسلم ممالک اپنے لیے حلال غذا تک کا بندوبست نہ کرسکیں، ان کا احتجاج کس قدر موثر ہوگا۔ اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں پر بقول سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (جس کی سرابراہی 2018 میں اس انکشاف کے وقت سینیٹر مشتاق احمد کے پاس تھی) کہ ملک میں غذائی اجناس میں حرام اشیا کی شناخت کا کوئی نظام نہیں۔ ملک میں حرام اجزا سے بنی چاکلیٹ، لپ اسٹک، برگرز سرعام فروخت ہورہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا اپنی حالت زار پر از سر نو غور کرے۔ احتجاج کے ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفالت حاصل کی جائے، اور نہیں تو کم از کم اپنے لیے حلال غذا کا ہی بندوبست کرلیا جائے۔ مزید برآں آپس کے اختلافات بھلاکر اپنے اتحاد کو مضبوط تر بنایا جائے، تاکہ اقوام عالم میں ہماری آواز کو موثر طور پر سنا جاسکے۔

ترکوں نے جہاں ارطغرل غازی کو تخلیق کرکے امر کیا ہے، وہیں انہوں نے سلطان عبدالحمید کو بھی تخلیق کیا ہے۔ اس ڈرامے میں ایک حقیقی واقعے کی عکسبندی بھی کی گئی ہے۔ سلطان کے دور میں ا±ن کو خبر ملی کہ فرانس کے کسی تھیٹر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے دکھائے جائیں گے۔ سلطان نے اس پر سخت ترین ردعمل دیا۔ سفیر کو بلا کر اس کی اگر، مگر، چونکہ اور چنانچہ سنے بغیر حکم دیا کہ فرانس تک ا±ن کے تحفظات پہنچائے جائیں۔ ڈیڈ لائن دی اور یہ بھی کہا کہ بصورت دیگر فرانس جنگ کےلیے تیار رہے۔ سلطان نے پوری ریاست کو جنگ کی تیاری کا حکم بھی دیا اور اپنا جنگی لباس بھی طلب کرلیا۔ فرانس نے ا±سی وقت تھیٹر میں وہ متنازع ڈرامہ منسوخ کردیا تھا۔ اس پر پورے عالم اسلام سے سلطان کو مبارکباد کے خطوط موصول ہوئے تھے۔ میں نے جب یہ کلپ دیکھا تو مجھے سمجھ میں آگیا کہ فرانس کو اس بابت روکنے کا موثر طریقہ کیا ہے۔ خواہش ہے کہ ہر مسلمان حکمران بھی یہ کلپ دیکھ لے۔
گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے فرانس کی موجودہ حرکت اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس مرتبہ فرانسیسی صدر کی اس سارے عمل میں پشت پناہی حاصل ہے۔ فرانس کے مطابق یہ آزادی اظہار رائے ہے اور وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کرے گا۔ بلکہ فرانس نے حکومتی سرپرستی میں عمارتوں پر رسول اللہ? کے گستاخانہ خاکے آویزاں کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ترک صدر طیب اردگان نے فرانسیسی ہم منصب پر شدید ترین تنقید کرتے ہوئے اس کو دماغی مریض قرار دیا اور اس کو علاج کروانے کا مشورہ دیا تو فرانس نے اس کو صدر کی توہین گردانتے ہوئے اپنا سفیر ترکی سے واپس بلا لیا ہے۔ یعنی، فرانس اپنے صدر کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا، لیکن یہ امید رکھتا ہے کہ مسلمان نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت کریں۔
اہل مغرب کو یہ نقطہ اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرلیتا ہے لیکن نبی پاک? کی شان میں کوئی بھی گستاخی برادشت نہیں کرتا۔ مسلمان آخری درجے پر ہی کیوں نہ کھڑا ہو، وہ شراب کے نشے میں ہی کیوں نہ ہو، اگر ا±س کے سامنے نبی? کی شان اقدس میں کوئی بھی گستاخی کی جائے گی، وہ اپنی صلاحیت اور حیثیت کے مطابق ردعمل لازمی دے گا۔ لہٰذا، نبی پاک? کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہمارے لیے ہمارے نبی? کی ذات گرامی تمام تر باتوں سے بڑھ کر ہے۔ اہل مغرب کے نزدیک مذہب کی حیثیت تو ثانوی بھی نہیں رہ گئی، تو ا±ن کےلیے یہ بات مضحکہ خیز ہوگی لیکن ہمارے لیے ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔
ترک صدر کے بعد ایران نے بھی بہت اچھا جواب فرانس کو بھیجا ہے۔ ا±س نے اپنے معروف جریدے ’وطن امروز‘ کے سرورق پر فرانس کے صدر کا کارٹون چھاپا ہے، جس میں اس کو شیطان کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کارٹون سے اہل مغرب جل بھن کر رہ گئے ہیں۔
عالم اسلام میں اس وقت فرانسیسی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ یہ مہم ریاستی سطح پر نہیں بلکہ انفرادی حیثیت سے چل رہی ہے۔ آغاز میں ایسا محسوس ہوا تھا کہ شاید یہ مہم اتنا اثر نہ ڈال سکے کیونکہ فرانس کی مارکیٹ کا بڑا حصہ تو مغرب میں ہے لیکن عالمی جریدے کی خبر نے خوشگوار خوشی دی کہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ نے نہ صرف ان پر اثر ڈالا ہے بلکہ وہ بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیل پر مجبور ہوئے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ اگر مسلم ممالک اس مسئلے پر یکجا ہوکر آواز بلند کریں، فرانس کا ریاستی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے تو فرانس یہ حرکت دوبارہ کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گا۔ ابھی انفرادی بائیکاٹ کے بعد حالت یہ ہے کہ وہ بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیلیں کر رہا ہے تو ریاستی بائیکاٹ پر فرانس کیا کرے گا۔ فرانس کی تاریخ ہے کہ اگر ا±س کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے تو وہ ٹانگوں کے درمیان سے ہاتھ گزار کر کان پکڑتے ہوئے معافیاں مانگے گا۔ عالم اسلام کو یہ ہمت کرنی ہوگی کہ وہ موثر جواب دے۔
اقوام متحدہ میں تمام مسلمان ممالک اکٹھے ہوکر توہین رسالت کا عالمی قانون کیوں اب تک نہیں بنا سکے؟ ان کو اس حوالے سے بھی کام کرنا ہوگا، وگرنہ اس اقوام متحدہ کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات بھی اہل مغرب کو سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہولوکاسٹ، کنگ اینڈ کوئن یا جو بھی ان کی ڈیفائن ریڈ لائنز ہیں تو نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ سی بھی گستاخی اسلامی دنیا کی ریڈ لائن ہے۔
اب جہاں تک بات ہے فرانس فرانس کے معاشی بائیکاٹ اور ہماری معیشت کی کہ کس طرح یہ بائیکاٹ? موثر ثابت ہو سکتا ہے تو اس پر بھی بات کر لیتے ہیں- مغربی ممالک مضبوط ترین معیشت کی وجہ سے کم نقصان برداشت کرلیتے ہیں جبکہ درآمد کرنے والے ممالک کو بہت نقصان پہنچتا ہے، جہاں بائیکاٹ کی وجہ سے اشیائ کی قلت ہوجاتی ہے۔ جب مسلم ممالک نے بائیکاٹ کیا، تو ممکنہ طور پر وہاں بھی اشیائ کی قلت ہوگی۔ جب کہ فرانس زیادہ تر خلیجی ریاستوں میں کھانے پینے کی اشیا برآمد کرتا ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھیں، تو 2019 میں یورپ کی 18.29 ٹریلین ڈالر GDP تھی، جبکہ IMF کے مطابق 2016 میں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کی 9.11 ٹریلین ڈالر GDP تھی، جو کم زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگر عالمی سطح پر دیکھیں، تو فرانس کی برآمدات 563 ارب ڈالرز ہیں۔ فرانس کی زیادہ تر مصنوعات جرمنی سمیت یورپی ممالک اور امریکا برآمد کی جاتی ہیں، جب کہ مصنوعات کی برآمد کا بڑا مرکز چین بھی ہے۔ حیرت انگیز طور پر مسلم ممالک میں فرانس کی ک±ل برآمدات کا 2 فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔
ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اگر فرانس نے کسی بھی مسلم ملک کی برآمدات کا بائیکاٹ کردیا تو اس ملک کی معیشت کےلیے تباہ کن ہوگا۔ اگر پاکستان کی مثال لیں، تو اگر پاکستان کی 42 کروڑ ڈالرز مالیت کی مصنوعات کا فرانس میں بائیکاٹ شروع ہوجائے، تو پاکستان کی کمزور معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔
اگر ہم فرانس کے تجارتی اتحادیوں پر نظر ڈالیں، تو ہمیں دن میں تارے نظر آجائیں گے، کیونکہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل ترک صدر طیب اردگان نے کی تھی۔ جبکہ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں (ٹریڈنگ اینڈ اکنامکس ویب سائٹ) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی فرانس سے ساڑھے 6 ارب ڈالرز کی مصنوعات کی درآمدات کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کہا کہ درآمد کا یہ حجم گزشتہ برسوں سے کم ہے۔
ٹریڈنگ اینڈ اکنامکس ویب سائٹ کے مطابق ان ہی بائیکاٹ کرنے والے ممالک میں سے قطر ہے، جو فرانس سے چار ارب 30 کروڑ ڈالرز کی درآمدات کرتا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال فرانس نے کویت کو 58 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی ہیں اور متحدہ عرب امارات کو 27 کروڑ یوروز (32 کروڑ ڈالرز) کی برآمدات کی ہیں۔ فرانس کے تجارتی تعلقات دیگر عرب ممالک سے بھی قائم ہیں، جن میں الجزائر، تیونس اور مراکش شامل ہیں۔ ان ممالک کا بائیکاٹ کرنا ان کی معیشت کےلیے تباہی کا باعث ہوگا۔
اقوام متحدہ کے COMTRADE ڈیٹا بیس کے مطابق 2019 کے دوران فرانس سے پاکستان کی درآمد 420.09 ملین امریکی ڈالر تھی۔ پھر اسی سال جب ورلڈ بینگ اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں ایشیائی ممالک کو (جی ڈی پی) کے حجم کے لحاظ سے دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو، ان میں چین کو اول نمبر پر نامزد کیا جبکہ بھارت، انڈونیشیا اور جاپان شامل ہوں گے۔ لیکن پاکستان کا دور تک فہرست میں نام ہی نہیں ہے۔
چنانچہ فرانس کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔ کیونکہ گزشتہ دو سال سے ہماری معیشت بہت برے حال میں ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اقتصادی ترقی بھی رک چکی ہے، جبکہ بے روزگاری اور مہنگائی بھی بڑھتی جارہی ہے، یہ ہماری حکومت کی ناقص کارکردگی کا ثبوت ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق جنوبی ایشیا میں کورونا کی وجہ سے 49.3 ملین سے 56.5 ملین کے درمیان افراد غربت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ پاشا اور شاہد کاردار کے مطابق پاکستان میں 15 لاکھ سے 20 لاکھ کے درمیان افراد کورونا وائرس کی وجہ سے غربت کا شکار ہوئے ہیں۔
لہٰذا ہمیں اپنی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر سنجیدہ پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ جذبات میں اپنی معاشی تباہی کے ہم خود ذمے دار ہوں گے۔
بے شک ہمارے بائیکاٹ سے کبھی کچھ فرق بھی نہیں پڑنے والا، مگر یہ ہمارے ایمان کا ادنیٰ درجہ سمجھ لیا جائے۔ ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے اور ان ناپاک اجسام کو روکنا ہے۔ بائیکاٹ کی یہ چھوٹی سی قربانی تو ہم دے ہی سکتے ہیں۔ ہمارے دکاندار اور تاجر حضرات اگر ان مصنوعات کی خرید و فروخت ترک کریں تو انہیں بھی نقصان ہوگا، لیکن یہ ان کی طرف سے بھی قربانی ہوگی۔
ذرا سوچیے! اس وقت امت مسلمہ کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ دوبارہ ان کی ہمت نہ ہو کہ وہ ہمارے دین و ایمان کا، ہمارے قرآن و حدیث کا اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ امت مسلمہ کی کون سی کمزوری ہے جو ان کے ہاتھ لگ گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ ممالک مسلسل اس فعل قبیح کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ وہی یہود و نصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے خوفزدہ ہوتے تھے، ڈر کے مارے تھر تھر کانپنے لگتے تھے، ان کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت تھی۔ وہ مسلمانوں کے غلام تھے، جن کے دلوں میں مسلمانوں کی تلواروں کا ڈر تھا اور مسلمانوں کی بہادری سے ان کی زبانیں گنگ تھیں۔
ہمیں خود کو ایک مضبوط مسلمان بننا ہوگا۔ ہمیں انہیں منہ توڑ جواب دینے کےلیے ان کے مدمقابل آنا پڑے گا۔ ان کی مصنوعات کے جواب میں اپنی مصنوعات تیار کرنا ہوں گی۔ ہر میدان میں ان کفار کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھرپور جواب دینا ہوگا۔ دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ 313 صحابہ کا اتحاد اگر کفار کو مات دے سکتا ہے تو پھر اس دور میں پونے دو ارب مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرنے کا جواب بھی حاضر ہے۔ اس لیے تمام مسلم ممالک امت واحدہ بن کر ہر پلیٹ فارم پر یک زبان جواب دیں۔
یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ فرانس براعظم یورپ کا ایسا ملک ہے جس کی باقی یورپ کے مقابلے سب سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جرمنی کے ہمسائے میں واقع فرانس کی 66 ملین کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد یقینی طور پر سات ملین کے لگ بھگ ہے اور یہ تعداد دن بدن تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئینی طور پر سیکولر ریاست فرانس میں اسلام کو مسیحیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق شمالی افریقہ کی سابقہ فرانسیسی نوآبادیوں سے آنے والے تارکین وطن سے ہے جن میں سے الجزائر، مراکش اور تیونس سب سے اہم ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ فرانس میں اسلام کے حوالے سے ایک تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، یا دوسرے لفظوں میں جسے اسلاموفوبیا کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ اگر یہاں اسلام اسی طرح مزید پھلتا پھولتا رہا تو اگلے بیس، تیس سالوں میں یہاں مسلمان اقلیت نہیں رہیں گے۔ اس لیے وہاں کبھی حجاب پر پابندی کا قانون بنا کر اپنی دانست میں اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی شارلی ایبڈو کی شکل میں انتہائی اوچھی اور نیچ حرکتیں کر کے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔
پچھلے چند ماہ کے دوران فرانسیسی عوامی اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے حلال خوراک اور کھانے پینے سے متعلق مذہبی احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی ایک بڑا موضوع زیر بحث ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اب کچھ دن پہلے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے بھی اس سلسلے میں اپنی باطنی خباثت انڈیل کر رکھ دی اور گستاخانہ خاکوں کے دفاع کے حوالے سے کھل کر سامنے آ گئے۔ دنیا میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی بڑے ملک کے سربراہ نے سرکاری سطح پر اپنے ہی ملک کی ایک بڑی اقلیت کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہو۔ خاص کر سائنس و ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات سے مزین اس جدید دور میں جب پہلے سے ہی عالمی فضا میں گولہ و بارود کی بو رچی بسی ہوئی ہو اور جسے ختم کرکے پرامن دنیا کے خواب دیکھے جا رہے ہوں، وہاں ایک ذمہ دار سمجھے جانے والے ملک کے سربراہ کا اس قدر غیرذمہ دارانہ کردار یقیناً ایک بڑا لمحہ فکریہ اور افسوسناک ہے۔
اب جب کہ عالمی سطح پر بارہا دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلام کے پیروکاروں کے ایمانی جذبات سے کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے اور بار بار توہین آمیز فلمیں اور خاکے بنا کر ہمارے ایمانوں کو تولا جاتا ہے تو ہمیں اپنی تمام مصلحتوں اور مادی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خواب غفلت سے جاگنا ہو گا اور ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری امت مسلمہ کو متحد کرنے کا فریضہ سرانجام دینا ہو گا۔
آج بلاشبہ وقت آ گیا ہے کہ او آئی سی جیسے نیم مردہ گھوڑے میں بھی جان پڑ سکتی ہے کیونکہ فرانس کے اس بیہودہ اور شرم ناک عمل پر تمام امت مسلمہ ایک جیسا درد محسوس کر رہی ہے۔ کیا گورا کیا کالا، کیا عربی کیا عجمی، کیا شیعہ کیا سنی، دیوبندی، وہابی، سبھی مسلمان فرقوں اور گروہوں کے لیے نبی مکرم? کی ذات بابرکات اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محترم اور جان سے پیاری ہستی ہے اور ہر ایک کا دل اس واقعے کے بعد زخمی ہے۔
ایسے میں فروعی اور گروہی اختلافات بھلا کر عالم کفر کو ایک مثبت، ٹھوس اور جان دار پیغام دیا جانا واجب ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسی کسی بیہودگی کی جرآت نہ کر سکے۔
کتنی افسوس ناک بات ہے کہ دنیا میں 50 سے زیادہ معاشی و دفاعی طور پر طاقت ور مسلم ممالک ہونے کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں اگر کوئی کسی کے زیر عتاب ہے تو وہ مسلمان ہے۔ کہیں اس کی جان محفوظ نہیں اور کہیں اس کا ایمان محفوظ نہیں، کہیں نعوذ بااللہ قرآن جلایا جاتا ہے اور کہیں خاکے، فلمیں اور کارٹونز بنا کر اس کے دل کو تڑپایا جاتا ہے۔ کہیں ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور کہیں ان سے شہری حقوق چھینے جا رہے ہیں۔
یقیناً اس میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ملت واحد کے فارمولے کو بھلا دیا اور اپنی اپنی اڑھائی انچ کی مساجد لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل پر اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو ترجیح دینے لگے، مادیت ہماری رگ رگ میں یوں رچ بس گئی کہ دین و ملت کی ناموس اور وقار کو پس پشت ڈال دیا۔ ”علامہ اقبال” کی روح سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہ ”کابل میں چبھے کانٹے پر ہندوستاں کے پیرو جواں نے بے قرار ہونا چھوڑ دیا”۔
عالم اسلام کی مضبوط اور پہلی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے ہمیں بھی اس سلسلے میں موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہمارے دفتر خارجہ نے فرانسیسی سفیر سے احتجاج بھی کیا ہے اور وزیر اعظم نے فیس بک کے مالک کو ایک خط بھی لکھا ہے لیکن شاید یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے نبی کی عزت و ناموس کی خاطر فرانس کے باقاعدہ معاشی بائیکاٹ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاھیے اور ترکی اور باقی عرب ممالک کی طرح سرکاری سطح پر ان فرانسیسی کمپنیوں پر مکمل پابندی عائد کرنی چاھیے جو اپنے برانڈز کے بدلے اربوں روپے کا سرمایہ یہاں سے کما کر لے جاتی ہیں۔ کیونکہ بلاشبہ ایک مسلمان کے لیے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں۔ اگر ہم صرف اس پر ہی سنجیدگی سے عمل شروع کر دیں تو بلاشبہ ان شیطان صفت ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور مستقبل میں ان کی شرانگیزی سے بچا جا سکتا ہے۔
یہ بات بھی یقینا دلچسپی کا باعث ہو گی کہ امریکا کی 27 ریاستوں میں اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والی کمپنیوں ، افراد یا اداروں کے خلاف سزا کا قانون موجود ہے، یہ قوانین جن ریاستوں میں لاگو ہیں وہ امریکا کی ک±ل آبادی کا 75 فیصد ہے۔
یہی نہیں بلکہ امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے خلاف قراردادیں پاس کر چکے ہیں، بندہ پوچھے کہ بائیکاٹ کرنے سے زیاد ہ بہتر احتجاج بھلا کیا ہو سکتا ہے، یہ قانونی بھی ہے او ر غیر متشدد بھی، مگر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف امریکا میں اِس کی بھی اجازت نہیں۔ ایک طرف اسرائیل ہے، دو بالشت کا ملک، جس نے امریکا تک کو نکیل ڈال کر رکھی ہے، دوسر ی طرف ایک ارب نوّے کروڑ مسلمان ہیں جو مل کر بھی فرانس کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خاکوں کی نمائش کرنے پر کم سے کم معافی ہی مانگ لے۔ اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں، وجہ سمجھ میں آ جائے گی، جس قوم کے لوگ امریکا اور یورپ کی شہریت ملنے پر یہ ’اسٹیٹس ‘ لگاتے ہوں کہ ’الحمد اللہ ،گاٹ امریکن نیشنیلٹی ‘ وہ قوم طاقتور سے معافی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔