یہ کورنگی ہے یا “کنکریٹ کا جنگل”

کورنگی ٹان میں بلڈنگ انسپکٹر کاشف کی کارستانی اور غیرقانونی تعمیرات کی سرپرستی کا نیٹ ورک بے نقاب
کورنگی کراسنگ پر واقع “امان ٹاور” نیب کی تحقیقات کے باوجود سندھ حکومت اور منظور قادر کاکا کی آشیرواد سے مکمل کیا گیا
اللہ والا ٹان سے متصل “مخدوم بلاول” سوسائٹی میں ایس بی سی اے سمیت کوئی سرکاری ادارہ پر نہیں مار سکتا
کورنگی روڈ پر قائم تمام شادی ہال رہائشی اور رفاعی پلاٹوں پر صرف ایس بی سی اے کی رشوت خوری کی وجہ سے بنے

رپورٹ: احمد شیخ
کورنگی میں غیرقانونی تعمیرات نے علاقہ کو کنکریٹ کے جنگل نے تبدیل کر دیا ہے ، حال ہی میں کورنگی کراسنگ پر واقع اللہ والا ٹان میں چند سال پرانی بنی عمارت زمین بوس ہو گئی تھی جس کے بعد جب صوبائی حکومت کی توجہ اس علاقہ میںہونے والی غیرقانونی تعمیرات کی طرف راغب ہوئی تو پتہ چلا کہ پورے اللہ والا ٹان کا لے آٹ پلان ہی پاس نہیں ہے اور وہاں ہزاروں پلاٹوں پر غیرقانونی تعمیرات ہو چکی ہیں یہاں تک کہ 84 گز کے رہائشی پلاٹوں پر ایک منزل پر دو یونٹ بنا کر تعمیر کئے گئے بلکہ سادہ لوح عوام کو انہیں فروخت بھی کر دیا گیا- اسی طرح کورنگی پر روڈ پر واقع شادی ہال کے بارے میں بھی یہ رپورٹ منظر عام پر آئی کہ یہ تمام شادی ہال رہائشی پلاٹوں پر قائم ہیں اور ان کی تعمیر کے عوض ایس بی سی اے کے رشوت خوروں نے کروڑوں روپے رشوت وصول کر کے تعمیرات کی اجازت دی- یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے کراچی میں ہونے والی غیرقانونی تعمیرات جو رہائشی اور رفاعی پلاٹوں پر قائم تھیںان کے خلاف نوٹس لیا تو پورے شہر میں جیسے ایک بھونچال سا آ گیا اور اس سلسلے میں ایس بی سی اے کے رشوت خور سب سے زیادہ بے نقاب ہوئے- گزشتہ دنوں میں کورنگی میں شادی ہال کی مسماری کے خلاف شادی ہال مالکان سراپا احتجاج بن گئے، جس کے باعث کورنگی روڈ پر شدید کشیدگی پیدا گئی اور ٹریفک جام رہا، اس موقع پر شادی ہال مالکان اور ملازمین نے مظاہرہ کیا- مظاہرین نے کورنگی کی مرکزی شاہراہ کے سامنے دھرنا دے دیا- شادی ہال کے مالکان کا کہنا تھا کہ ہمارے شادی ہال قانونی ارراضی پر قائم ہیں ، ہمارے پاس تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں، تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے باوجود ہمیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود انتظامیہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے، مظاہرین نے دھمکی دی کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو ہم ملازمین کے ساتھ بھوک ہڑتال پر جاسکتے ہیں، مظاہرین نے سڑک پر دھرنا دے دیا، سڑک پر دھرنے کے باعث شدید ٹریفک جام ، گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں-ادھر ایچ آراین ڈبلیو کی تحقیق کے مطابق کورنگی میں تمام کے تمام شادی ہال رہائشی پلاٹوں پر غیرقانونی طور پر تعمیر کئے گئے ہیں اور ان کی تعمیر کا سہرا کورنگی میں برسوں سے تعینات سدا بہار انسپکٹر کاشف کے سر جاتا ہے- واضح رہے کی ڈی سی کورنگی کو جب سپریم کورٹ کی طرف سے غیرقانونی استعمال اراضی سے متعلق کیس کا فیصلہ اور ہدایت موصول ہوئیں اور انہوںنے بڑے پیمانے پر کورنگی میں غیرقانونی تعمیرات کے محرکات جاننے کی کوشش کی تو ان کے سامنے ایک ہی نام ابھر کر سامنے آیا اور وہ تھا کورنگی میں غیرقانونی تعمیرات کا بادشاہ کاشف بلڈنگ انسپکٹر، جس پر ڈپٹی کمشنر نے ڈی جی ایس بی سی اے اور ڈائریکٹر کورنگی ٹان آصف رضوی کو باقاعدہ اس معلومات سے آگاہ کیا، آصف رضوی چونکہ حال ہی میںکورنگی ٹان میںتعینات ہوئے ہیں اس لئے انہوں نے ماضی میںہونے والے کاموں سے اظہار لاتعلقی کیا اور آئندہ کے لئے ڈی سی کورنگی کو سپریم کورٹ کے فیصلوںپر من و عن عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی، ادھر شادی ہال مالکان کا کہنا ہے کہ انہوںنے شادی ہال کی تعمیرات میں کئی ملین رشوت دی جس کے بعد انہیں یقین دلایا گیا تھا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی ماہنامہ ہیومن رائٹس پوسٹ نے جب اس سلسلے میں تحقیق کی تو کورنگی ٹان میں غیرقانونی تعمیرات کا بے تاج بادشاہ آخر بے نقاب ہو گیا- انسپکٹر کے عہدے پر فائز مسلسل 17 سال سے کورنگی میں تعینات رہنے والا انسپکٹر کورنگی میں غیرقانونی تعمیرات کا ڈان کہلاتا ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ڈی سی کورنگی کے پاس اللہ ٹان سمیت کورنگی میں غیرقانونی تعمیرات کی شکایات کا ڈھیر لگ گیا اوردرخواست گزاروں نے مجموعی طور پر اس انسپکٹر کا نام لیا تو انہوں نے ڈی جی ایس بی سی اے سمیت دیگر حکام سے کاشف نامی انسپکٹر کی شکایت کی اور کہا کہ اس علاقے میں چائنا کٹنگ سے لے کر اللہ والا ٹان جہاں ہونے والی تمام تعمیرات بغیر نقشہ کے ہو رہی ہے اس کا ذمہ دار کاشف ہے- جس پر معلوم ہوا ہے کہ ڈی جی آشکار داور نے کاشف کو بظاہر معطل کر دیا لیکن آج بھی کاشف نامی انسپکٹر کی مرضی کے بغیر یہاں غیرقانونی تعمیرات کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے- اس کی مثال کورنگی نمبر ڈیڑھ پر رہائشی پلاٹ نمبر R-40 میں مکمل تجارتی پلازہ کا قیام ہے- اس پر نیچے دکانیں اور اوپر ریسٹورنٹ تعمیرکیا جا رہا ہے جو رضوان سوئٹس کی ملکیت ہے- رہایشی پلاٹ پر اس طرح کی 100 فیصد غیرقانونی تعمیرات کاشف نامی انسپکٹر کی آشیرواد کے بغیر ممکن نہیں- ایچ آراین ڈبلیو کو معلوم ہوا ہے کی اس ڈیل میں کاشف انسپکٹر مبینہ طور پر کئی ملین وصول کئے ہیں جس کی وجہ سے تعمیراتی قوانین کا جنازہ تعمیر کرنے میں مدد ملی ہے- “ماہنامہ ہیومن رائٹس پوسٹ” کی تحقیق و تفتیش کے مطابق عبدالخالق اللہ والا ٹان کورنگی کراسنگ پر آباد ایک کوآپریٹو ہاسنگ سوسائٹی ہے- اس سوسائٹی میں دہلی پنجابی سوداگران کے اراکین کو پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے جنھوں نے بعد ازاں سیل ایگری مینٹ پر عام لوگوں کو یہ پلاٹ وغیرہ فروخت کر دئیے، ایچ آراین ڈبلیو کی تحقیق کے مطابق اس سوسائٹی کا ابھی تک بورڈ آف ریونیو سے لے آٹ پلان پاس نہیں جس کی وجہ سے پوری سوسائٹی میں ابھی تک لوگوں کو لیز کی نہیں ملی ہے اور صرف سیل ایگریمنٹ کے ذریعے ہی یہاں پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کام جاری ہے، سوسائٹی کے بائی لاز کے مطابق یہ پلاٹ صرف دہلی پنجابی سوداگران کے اراکین آپس میں خریدو فروخت کر سکتے ہیں اور کسی دوسری کمیونٹی کو یہ پلاٹ فروخت نہیں کئے جا سکتے لیکن اب ان پلاٹوں کی کھلے عام خرید و فروخت جاری ہے جس کی وجہ سے سوسائٹی سیل ایگرمینٹ کی بنیاد پر ہونے والے خرید و فروخت پر نئے مالک کے حق میں ٹرانسفر لیٹر جاری نہیں کرتی، لے آٹ پلان اور ماسٹر پلان سے منظوری کے بغیر یہاں سیکٹر 31/G میں سیکڑوں پلاٹوں پر تعمیرات بلکہ خلاف ضابطہ تعمیرات ہوچکی ہیں اور ہنوز بھی یہ سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں اللہ والا ٹان میں ایک عمارت کے گرنے کے بعد ڈی جی ایس بی سی اے کی جانب سے ایک وضاحت جاری کی گئی تھی کہ اللہ والا ٹان میں ہونے والی تعمیرات تمام تر غیرقانونی ہیں کیونکہ لے آٹ پلان پاس نہ ہونے کی وجہ سے یہاں نقشے پاس کرنے کی سہولت نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق اللہ والا ٹان میں ابھی تک 400 سے زائد پلاٹوں پر ایسی غیرقانونی تعمیرات ہو چکی ہیں اور بلڈنگ کنٹرول کا عملہ فی تعمیرات سے 5 سے 10 لاکھ روپے رشوت وصول کرتا ہے، واضح رہے کہ اللہ والا ٹان سے متصل ایک بڑے قطعہ اراضی پر چائنہ کٹنگ بھی ہو چکی ہے اور وہاں ہونے والی غیرقانونی تعمیرات اس کے علاوہ ہے، چائنہ کٹنگ پر بھی سیکڑوں کی تعداد میں غیرقانونی تعمیرات ہو چکی ہے، ایسی تعمیرات کو روکنے کی تمام تر ذمہ داری ایس بی سی اے کورنگی ٹان کو تھی لیکن یہاں پر صرف مال وصول پالیسی کے تحت آنکھیںبند کی گئیں اور ان غیرقانونی تعمیرات کے سیلاب کے سامنے کوئی بند نہیں باندھا گیا- علاقہ ذرائع نے بتایا کہ یہاں غیرقانونی تعمیرات کا ڈان مبینہ طور پر ایس بی سی اے کا انسپکٹر کاشف کو قرار دیا جاتا ہے، اب اگر فی پلاٹ 5 لاکھ کا تخمینہ بھی لگایا جائے تو اللہ والا ٹان اور متصل چائنہ کٹنگ کے تقریبا 700 سے 800 پلاٹوں کو تعمیر کرا کے یہ موصوف کتنا مال بٹور چکے ہیں اس کے لئے ایس بی سی اے حکام خود کیلکولیٹر پر ضرب و تقسیم کر کے کمائی گئی رقم کا ٹوٹل حاصل کر سکتے ہیں-اللہ والا ٹان مین کورنگی کراسنگ پر ایک اور پروجیکٹ امان ٹاور کے نام سے بھی اس وقت آباد ہو چکا ہے، جو سابق ڈی جی منظور قادر اور کرپٹ سندھ حکومت کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس پروجیکٹ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اللہ والا ٹان کا رفاعی پلاٹ تھا اور اس کے آگے گرین بیلٹ کی جگہ تھی لیکن بلڈر نے بھاری پیسے کے بل بوتے پر کرپشن کے ایوارڈ یافتہ ڈی جی منطور قادر اور اس وقت کے وزیر بلدیات آغا سراج درانی سے ملک کر یہاں غیرقانونی نقشہ پاس کرایا اور ہائی رائز بلڈنگ تعمیر کردی، دلچسپ بات یہ ہے کہ پورا اللہ والا ٹان لے آٹ پلان پاس نہ ہونے کی وجہ سے نقشہ پاس کرانے کی سہولت سے محروم ہے لیکن اسی قطعہ اراضی پر بلاتحقیق نقشہ پاس کرکے غیرقانونی تعمیرا کرا دینا دراصل سندھ بلڈنگ کرپشن اتھارٹی کا ہی کام ہو سکتا ہے- نیب نے جب اس پروجیکٹ کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا اور اس کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئیں تو پراسرار ہاتھوں نے اس تفتیش کو بھی سرد خانہ ڈلوا دیا اور بلڈر نے تیزی سے تعمیرات مکمل کرکے اس الاٹیز کے حوالے کر دیا اور یہ تحقیقات آج بھی نیب کی تساہلی کے باعث سرخ فیتہ کا شکار ہیں اور اس کی سزا آج کورنگی لانڈھی کی عوام بھگت رہی ہے کہ بیچ روڈ پر بلڈنگ تعمیر ہونے سے مین روڈ پر سر شام ہی اتنا ٹریفک جام ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو نکلنے کے لئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تکلیف بھی بڑھتی جائے اور کوئی دوا کارگر نہیں ہو گی-کورنگی ٹان سے متعلق سروے دوران ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا جس نے سندھ حکومت کا جانبدارانہ اور لاقانونیت پر مبنی چہرہ پھر سے نے نقاب کر دیا، اللہ والا ٹان سے متصل ایک کوآپریٹو سوسائٹی مخدوم بلاول کوآپریٹو سوسائٹی آباد کی گئی، جس کی الاٹمنٹ کے بارے میں کئی سوالیہ نشان ہیں اور وہاں نہایت تیزی تعمیرات و رہائش کا کام جاری ہے، یہاں آباد ہونے والے زیادہ تر سندھ حکومت کے سرکاری ملازمین ہیں، ایس بی سی اے کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا کہ سندھ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ ایس بی سی اے کا کوئی اسٹاف یہاں داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہاںکی تعمیرات کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے- حالانکہ اس قطعہ اراضی کا بھی کوئی لے آٹ پلان پاس نہیں، لیکن یہ سرکاری اداروں کے لئے ایک نو گو ایریا ہے، “ماہنامہ ہیومن رائٹس پوسٹ” کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس سوسائٹی میں کسی بھی غیرسندھی کے لئے پلاٹ یا مکان کی خرید وفروخت پر پابندی ہے، جو آئین پاکستان ملکی قوانین کی صریحا خلاف ورزی کے زمرہ میں آتا ہے، لیکن جس صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو وہاں کی آئین و قانون کی پامالی نہ ہو تو ان کی حکومت ہی مکمل نہیں ہوتی- “ماہنامہ ہیومن رائٹس پوسٹ” کے سروے کے مطابق پورا کورنگی ٹان کے مین روڈ پر واقع دکانیں اور مارکیٹیں رہائشی پلاٹوں پر بنی ہوئی ہیں اور یہاں پر ایس بی سی اے کے افسران اپنی تعیناتی کے دوران خوب مال سمیٹتے رہے ہیں لیکن ان کا فرنٹ میں بلڈنگ انسپکٹر کاشف ہی رہا ہے، چائنا کٹنگ کے حوالے سے بھی کورنگی ٹان بدترین شہرت کا حامل ہے اور چائنا کٹنگ پر ہونے والی تعمیرات میں بھی کاشف انسپکٹر نے اپنا حصہ پورا پورا وصول کیا ہے، – بلڈنگ انسپکٹر کاشف حال ہی میں اپنی اربوں روپے کی کرپشن کا بھانڈہ پھوٹنے کا سرا ملنے پر خاموشی سے اپنا تبادلہ کراکے نکل چکا ہے لیکن تحقیقاتی اداروں نے کورنگی میں اس کی تعیناتی کے دوران ہونے والی کھربوں روپے کی غیرقانونی تعمیرات کی تفصیلات جمع کرنا شروع کر دی ہیںماہنامہ ہیومن رائٹس پوسٹ بھی کورنگی ٹان کے حوالے سے اپنی مزید تحقیقاتی رپورٹ بمعہ مکمل سروے غیرقانونی تعمیرات اورڈپٹی کمشنر کا موقف اگلی اشاعت میں شامل کرنے کی کوشش کرے گا-
٭٭٭