“آمدنی سے بڑھ کر جائیدادیں اور شاہانہ طرز زندگی”

“آمدنی سے بڑھ کر جائیدادیں اور شاہانہ طرز زندگی”
افسر شاہی کے احتساب کے لئے نیا قانون، عمل درآمد کے بغیر بے معنی
جائیدادیں آمدن سے مطابقت نہ رکھنے والا حکومتی ادارے کا افسر کرپٹ شمار ہوگا خورد برد ثابت ہونے پر ریکوری ،عہدہ سے تنزلی ،جبری ریٹائر کیا جاسکتا ہے وفاقی حکومت نے سول سرونٹس ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن رولز 2020 لاگو کردیئے ہیں رواں ماہ 2 دسمبر کو وزیراعظم نے نئے رولز کی منظوری دی تھی جس کے بعد 11 دسمبر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا
اس نئے قانون کی تفصیل کے مطابق جائیدادیں آمدن سے مطابقت نہ رکھنے والا افسر کرپٹ شمار ہوگا، سول سرونٹ پر خورد برد ثابت ہونے پر ریکوری ،عہدہ سے تنزلی ،جبری ریٹائر کیا جا سکتا ہے،سول سرونٹس رولزلاگو ہونگے،جواب کیلئے دس دن ،ملزم جواب نہ دے تو اتھارٹی 30 دن کے اندر فیصلہ کرے گی۔اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کی جانب سے جاری کردہ 13 صفحات پر مشتمل ایس آر اومیں مس کنڈکٹ کی تشریح کی گئی ہے۔ مس کنڈکٹ سے مراد یہ ہے کہ تقرری ، پروموشن ، ٹرانسفر ، ر یٹائرمنٹ یا سروس کے دیگر معاملات میں سیاسی طور پر اثر ور سوخ استعمال کرنا ہوگا۔ کرپشن کے بعد کسی بھی ایجنسی سے پلی بارگین کرنا بھی مس کنڈکٹ ہوگا۔ سول سرونٹ کے خلاف انضباطی کار وائی جن بنیادوں پر کی جاسکے گی ان کے مطابق وہ افسر کرپٹ شمار کیا جا ئے گا جس کی اپنی یا ان پر انحصار کرنے والےاہل خانہ کی جائیداد یں ان کے ظاہری ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔ یا ان کا طرز زندگی ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ وہ تخریب کاری یا مشکوک سر گر میوں میں ملوث ہوں۔یا وہ سر کاری راز کسی غیر مجاز شخص کو بتانے کا مرتکب ہو۔ ایسی صورت میں ان کے خلاف انضباطی کار وائی ہو گی۔ایس آر او میں سزاکی بھی تشریح کی گئی ہے۔ کم سزا ( Minor Penalt) میں سرز نش ( ensure)، سالانہ ترقی کی ضبطی ، متعین عرصہ کیلئے سالانہ ترقی کی انجماد جو زیادہ سے زیادہ تین سال کیلئے کی جا سکتی ہے۔نچلے سکیل میں متعین عر صہ کیلئے تنزلی کی جاسکتی ہے۔پرومو شن بھی واپس لی جاسکتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ تین سال کیلئے۔ زیادہ سزا ( Major Penalty ) میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ اگر سول سرونٹ پر خورد برد ثابت ہو جا ئے تو فنا نشل رولز کے تحت ان سے ریکوری کی جا ئے گی۔نچلے سکیل میں تنزلی کی جا سکے گی۔ جبری ریٹائر کیا جا سکتا ہے۔ ملازمت سے فارغ کیا جا سکے گا۔ ملازمت سے بر طرف کیا جا سکے گا۔ کسی سول سرونٹ کو سروس سے معطل کیا جاسکتا ہے یا جبری رخصت ہر بھیجا جا سکتا ہے۔دوران معطلی انہیں تنخو اہ اور الا ﺅنس رول 53 کے تحت ملیں گے۔ انضباطی کاروائی کیلئے ضرروی نہیں کہ انکوائری ہی کی جا ئے لیکن ایسی صورت میں الزام الیہ کو کاروائی کی بنیادوں سے آ گاہ کیا جا ئے گا۔ جس کیس میں انکوائری موقوف کی جا ئے گی اس میں الزام علیہ ( ملزم ) تحر یری طور پر آ گاہ کیا جا ئے گا کہ ان پر یہ الزامات ہیں جس کی بنیاد پر انہیں یہ سزا دی جا سکتی ہے۔انہیں شوکا ز جاری کیا جا ئے گا۔ انہیں جواب کیلئے کم سے کم دس دن کا وقت دیا جا ئے گا۔ اگر ملزم جواب نہ دے تو اتھارٹی 30دن کے اندر فیصلہ کرے گی سوائے جس میں صدر یا وزیر اعظم اتھارٹی ہوں۔ اگر سول سرونٹ کے خلاف انکوائری ہو تو انکوائری افسر کو متعلقہ ریکارڈ سات دن میں فراہم کیا جا ئے گا۔ اس میں صرف دس دن تک اتھارٹی توسیع کرسکتی ہے۔انکوائری کیلئے انکوائری افسر ملزم سے سینئر ہونا چاہئے۔ انضباطی کا روائی کی بنیاد واضح ہونی چاہئے۔ ڈ یپارٹمنٹ کانمائندہ مقرر کیا جا ئے۔انکوائری افسر ایک بھی ہوسکتا ہے اور انکوائری کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے۔کسی وجہ سے انکوائری افسر یا انکوائری کمیٹی کے کسی رکن کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جاسکتے ہیں اور دو نوں پارٹیوں کے گواہوں پر جرح بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر ملزم مقررہ عر صہ میں جواب نہیں دے گا تو انکوائری افسر یکطرفہ کا روائی کرنے کامجاز ہے۔انکوائری افسر یا انکوائری کمیٹی یومیہ سماعت کرے گی اور اگر کسی وجہ سے ملتو ی کی جا ئے گی تو وجوہات تحر یر کی جائیں گی۔ یہ التوائ سات دن سے زیادہ نہیں دیا جا سکے گا۔اگر انکوائری افسر یاکمیٹی یہ سمجھے کہ ملزم انکوائری کے عمل میں رخنہ ڈال رہا ہے تو اسے وارننگ دی جا ئے گی۔ ا گر اس کے باوجود وہ باز نہ آئے تو کمیٹی کو اختیار ہے کہ جو طریقہ مناسب سمجھے اسے اختیار کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ طبی بنیادوں پر التوائ بھی ر جسٹرڈ مجاز میڈیکل افسر کی سفارش پر ہوگا۔ انکوائری افسر یا کمیٹی انکوائری کو 60دن میں مکمل کرے گی۔ انکوائری افسر کو کسی کو بھی طلب کرنے اور حلف پر بیان لینے کامجازہے۔ اسے دستاویز کے حصول کا اختیار ہے۔ دستاویز یا گواہوں کے معائنہ کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا اختیار ہے۔ اگر کوئی افسر جس پر الزام ہو اور وہ لازمی تر بیتی کورس جو ائن کر چکا ہو توا سے ٹریننگ کورس مکمل کرنے کی اجازت ہوگی۔اسکالر شپ کی صورت میں بھی یہ سہولت حاصل ہوگی۔ اگر کو ئی ملزم رخصت پر ہو تو اتھارٹی رخصت منسوخ کرکے واپس طلب کرے گی۔ ذاتی شنوائی کا موقع دیا جا ئےگا۔اگر کوئی افسر ڈیپوٹیشن پر ہو تو الزام کی صورت میں متعلقہ محکمہ الزامات کی چارج شیٹ بنا کر اس محکمہ کو دے گا جس سے افسر کا تعلق ہو۔ اگر آل پاکستان کا سروس کسی صوبے میں تعینات ہو تو اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن چیف سیکرٹری سے کہے گا کہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی جا ئے اور اسے دو ماہ میں مکمل کیا جا ئے۔ اگر کسی چیف سیکرٹری کے خلاف انضباطی کا روائی ہو تو اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن وزیر اعظم کی منظوری سے یہ کاروائی کرے گا۔سز ا پانے والے ہر سول سرونٹ کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ اگر صد مملکت نے سز ا دی ہو تو اس کے خلاف اپیل نہیں ہو گی البتہ ریویو آرڈر کی استدعا کی جا سکتی ہے۔
ملک میں? کرپشن کے خاتمے کے لئے یا کم از کم اس کا حجم کرنے کی غرض سے افسر شاہی کے لئے اس طرح کے قوانین لاگو کرنا ضروری تھا اس لئے تحریک انصاف حکومت کا یہ اقدام لائق تحسین ہے- اس ملک میں دراصل کرپشن کے اصل چوکیدار یہی افسر شاہی ہے جو چور کو کہتی ہے کہ چوری کرو اور گھروالوں کو کہتی ہے کہ آرام سے سو جاو¿ میں چوکیداری کر رہا ہوں- اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کس طرح ہوتا ہے کیونکہ عمل درآمد کرنے والی بھی تو افسر شاہی ہی ہے-
اس قانون کی تناظر میں اگر دیکھیں تو سندھ کی بیوروکریسی یعنی افسر شاہی کرپشن میں سب سے زیادہ شتربے مہار ہے، جہاں اہم ترین عہدوں پر 500 سے زائد ایسے افسران براجمان ہیں جو کہ نیب سے پلی بارگین کر کے اپنی جان چھڑا چکے ہیں اور اب جو کچھ نیب کو انہوں نے دیا تھا وہ سود سمیت وصول کرنے کے لئے اہم ترین مناصب پر کرپشن کی سرخیل پیپلز پارٹی کی حکومت کی آشیرواد سے قابض ہو چکے ہیں، اس لئے کہ یہ کرپشن سے کمانے کا ہنر جانتے ہیں اور پیپلز پارٹی کو ایسے ہی نابغہ روزگار سرکاری ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے “فاقہ زدہ” معدوں کو کرپشن کے اربوں?، کھربوں? روپوں سے بھر سکے- اس ضمن میں ایم کیو ایم کے سلمان مجاہد بلوچ نے ایڈوکیٹ نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی ہوئی ہے ، نیب زدہ افسران کے خلاف ایم پی اے ایم کیو ایم کنور نوید جمیل کی درخواست پر سماعت مورخہ ۲۱ دسمبر کو مکمل ہو چکی ہے۔ عدالت میں طرفین کے وکلائ نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں۔ کنورر نوید کی طرف سے سابق ایم این اے سلمان مجاہد ایڈوکیٹ نے پیروی کی اور اپنی آئینی درخواست کے حق میں دلائل پیش ک?۔ عدالت عالیہ کے دو رکنی بنچ جسٹس ندیم اختر اور جسٹس عدنان کریم نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو اب موسم سرما کے چھٹیوں?کے بعد سنایا جائے گا- درخواست کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے غیر قانونی طور پر 500 سے زائد نیب سے پلی بار گین کرنے والے افسران کو اہم عہدے دئے گئے ہیں۔ اس درخواست میں? سلمان مجاہد ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پلی بارگیننگ کرنے والے تمام افسران کو سپریم کورٹ کے 2016 کے فیصلہ کی روشنی میں فی الفور انکے عہدوں سے ہٹا کر نوکری سے برخواست کیا جآ۔ پانچ سو سے زائد افسران نیب قانون کے سیکشن ۲۵ کے تحت پلی بار گین اور والنٹری ریٹرن کا فائدہ لینے کے باوجود اعلی عہدوں پر براجمان ہیں-
ان دیکھنا یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ اس بارے میں کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ سندھ حکومت کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کی کرپشن کے 500 پیادوں کی رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے اس لئے اب کرپشن کے میدان میں نئے ہرکارے اتارنے کی صف بندی کی جا رہی ہے- اس قانون کی نفاذ کے بعد وفاقی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ قومی احتساب ادارے کی بھی تشکیل نو کرکے اسے مزید طاقتور اوروسائل سے آراستہ کیا جائے تاکہ پورے میں اس قانون کی رو افسرشاہی جو پراپرٹی زیادہ تر بے نامی رکھتے ہیں ان کا سراغ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور استغاثہ کو مضبوط کرنے کے لئے سرکاری افسران کو بھی جدید خطوط پر تربیت دی جانی ضروری ہے۔
سندھ۔۔ہرادارہ کی سربراہ۔۔مافیا
سندھ میں اس وقت مختلف چھوٹی بڑی کمزور طاقت اور ملی بھگت اور دیگر مافیا کام کررہی ہیں جو اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے یا پھر اثرو رسوخ رکھنے والے افرادکے ذریعے ہر وہ کام کررہے ہیں جس کے ذریعے ان کے بینک اکاﺅنٹ اور دیگر آسائش زندگی و دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے ایک اچھا روشن مستقبل بنانے میںجائزیاناجائز کام کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہر وہ انسان جو قانون کو بالائے طاق رکھ کے چاہے وہ کام انسانی زندگی کے لیے مضر کیوں نہ ہو،صرف اپنے مفادات کے لئے سر انجام دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ کچھ لوگ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کو کیش کراتے ہیں اور تو کچھ پیسوں اور رقم کے ذریعے بااثر لوگوں کی سرپرستی میں اپنے کاروبار کے ذریعے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اور کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔کیونکہ دست شفقت بڑی چیز ہوتی ہے مگر آج تک وہ آہنی ہاتھ آخر کس کا ہوتا ہے یہ کسی کو کچھ نہیں پتہ اور اگر پتہ بھی چل جائے لفافہ پالیسی کے ذریعے ایک اور مافیا اس آہنی ہاتھ کے سامنے رکاوٹ بن جاتی ہے اور اس طرح ایک مکمل چین کسی بھی گلے کی زینت بن کر خوب چمکتی ہے،اور یہ چمک سب کی آنکھوں کو اندھا،زبان کو گونگا اور کانوں کو بہرا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے اور پھر یہی سے شروع ہوتا ہے عوام کا دیوالیہ اور چھوڑجاتا ہے نشان سوالیہ؟
کہنے کا مقصد یہ ہے محکمے سے مافیا بننے کا سفر نہ جانے کیسے شروع ہوتا ہے ۔کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ والے جب شہر کراچی کے باسیوں کو پانی فراہم نہ کرسکیں اور عوام پیاس سے نڈھال ہوجائیں کیونکہ پانی انسان کی بنیادی ضروریات زندگی ہے مگر واٹر بورڈ ڈیم بھر جانے کے باوجود پانی عوام تک نہ پہنچا سکے تو پانی مافیا ،ٹینکر مافیا کی پیدا گیری شروع ہوجاتی ہے اور پھر یہ اپنی عمر کے ساتھ بڑا ہو کر ایک طاقت ور مافیا بن گیا جسکے ہاتھوں شہر کراچی کے عوام یرغمال بنے ہوئے ہیں پھر اسی طرح گیس،بجلی،ایل پی جی،اشیاءخوردنوش،پھل فروٹ،گٹکا،چھالیہ،ماوا،جیلانی، جس چیز کا مافیاءپیدا کرنا ہو اسکی قلت کردی جائے تو جیسے حالیہ دور میں بجلی،گیس،چینی و دیگر اشیائے ضروریات زندگی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے خود ساختہ مہنگائی یا براہ راست مہنگائی کا اضافہ بوجھ عوام کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا اور چیز مہنگی ہونے کے باوجود بھی بازار سے غائب ہوجائے تو پھر ایک اور مافیا جنم لیتا ہے ۔جو لوگ منڈی میں گرین فوڈز کی سپلائی کرتے ہیں اور وہ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں وہ زخیرہ اندوز مافیا کہلاتے ہیں۔
آجکل جو زہرہر خاص و عام میں مقبول ہے وہ ماوا،گٹکا،جیم،ون ٹو ون، و دیگر منشیات کی چیزوں کو بھی غائب کر کے اسکوبھی اسقدرمہنگا کردیا مگر پھر بھی اس کے کھانے والے کیا خوب کھاتے ہیں اور اسی کے باعث یہ مافیا خود عوام یعنی ان سب منشیات کو کھانے چبانے والوں نے پاور فل بنادیا۔گٹکا مافیا،جیلانی مافیا کے خلاف حکومت سندھ نے بند کرانے کی حتی الامکان کوشیش کی اور ہماری فورسز کو بھی سلوٹ کیا جائے کہ انہوں نے خاطرخواہ طور پر نوجوان نسل کو اس سے دور رکھنے اور اس زہر کو بند کرانے کی کوشش میں سینکڑوں کارخانے بند بھی کروائے اور فورسز کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے لیکن ذرائع کے مطابق صرف 20 فیصد بیچنے والے پولیس ،رینجرز سے چھپ چھپا کر اس زہر کو بیچ رہے ہیں مگر جیسے ان کو علم ہوتا ہے وہ ان کو قانون کے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں اور جیل کی ہوا کھلاتے ہیں۔ مگر صورتحال اب یکسر تبدیل ہوگئی جیلانی ،ماوام،اور گٹکے جیسے زہر کھانے والے عوام اب بازار میں جب زہرنہیں مل رہا تو عوام میں نہ کھانے کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی اور فی پڑیا 100 روپے کردی گئی جس کے باعث چھالیہ کے ریٹ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ اور یہ ہی مافیا اب فی جیلانی 70 سے 100 روپے بیچ رہے ہیںاور یہ ایک اور مافیا معاشرے میں چھاگیا جسے جیلانی و گٹکا مافیا کہا جانے لگا،اور اس زہر کے ہاتھوں سینکڑوں نوجوان اپنی زندگی کی بازی کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ءہو کر ہارگئے اور سینکڑوں اسپتال میں زیرعلاج ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو متواتر اس زہر کا استعمال کررہے ہیں اور ان کا منہ 80 فیصد بند کیا مگر پھر بھی کھانے سے باز نہیں اب تو عوام خود ہی لوازمات خرید کر اپنے گھروں میں اپنے لیے خود مرنے کا سامان یعنی زہر بنا کر کھارہے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں یا ردیکھ میں نے کیسا زبردست ذائقہ بنایاہے ۔ اب حکومت،رینجرز،پولیس و دیگر محکمے کیا کریں۔دراصل اب ہر ضروریات زندگی خواہ اس کا تعلق کسی بھی محکمے سے ہو اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اور مافیا کے ذریعے خود ساختہ مہنگائی کر کے عوام تک پہنچانے کا کام اور مافیا کے ہاتھوں عوام کو یرغمال بنائے جانے کا عمل نہ جانے کب تک جاری و ساری رہے گا اگر حکومت وقت اس ضمن میں مزید قانون پاس کر کے اس پر عملدرآمد کرائیں تو شایدکچھ بہتری آسکے ورنہ عوام اور ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
نوپارکنگ سے آنے والی رقم شہر کے بلدیاتی نظام کی بہتری کیلئے خرچ کی جائے
شہرقائد میں جہاں نکاسی آب ،پینے کے پانی کا مسئلہ،سڑکیں گلیاں اور شاہراہیں کھنڈرات کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال عوام، پارکس اور کھیلنے کے میدان کچرا کنڈیوں میں منتقل ہونے جیسے مسائل سے دوچار ہے تو وہاں سب سے اہم مسئلہ پارکنگ اور ٹریفک جام ہونے کے باعث شہرقائد کے شہری سخت اذیت کا شکار ہیں۔ طارق روڈ، حیدری،برنس روڈ لیاقت آباد، بولٹن مارکیٹ،جامع کلاتھ،لائٹ ہاﺅس ،صدر و دیگر مختلف مارکیٹوں میں کے ایم سی اور ڈی ایم سی کی پارکنگ موجود ہیں اور ان سے لاکھوں روپے کا ریونیو بھی حاصل ہورہا ہے مگر یہ کہاں اور کس کی جیبوں میں جارہا ہے یہ تو وہی لوگ بتاسکتے ہیں جو ان کے ٹھیکیدار ہیں یا جنہوں نے انکو ٹھیکے پر دے رکھا ہے۔ ایک طرف کے ایم سی اور ڈی ایم سی کے افسران بڑے پیمانے پر پارکنگ کے حوالے سے ریونیو جنریٹ کررہے ہیں ۔تو دوسری طرف کراچی کی تقریبا چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں پارکنگ الاٹ ہونے کے باوجود بھی کراچی کے شہری نو پارکنگ پر اپنی گاڑیاں پارک کر کے بری الزمہ ہوجاتے ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹریفک پولیس کا محکمہ اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے مگر خاص کر نوپارکنگ پر کھڑی گاڑیوں چاہے اس میں موٹرسائیکل ہو یا کار اس پر فوری کارروائی کا کیا جانا اور فوری آجانا اس معاملے میں ٹریفک پولیس کی کارکردگی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، ادھر نو پارکنگ پر گاڑی کھڑی ہوئی ادھر ٹریفک پولیس کے اہلکار جاں کنی فرشتے کی طرح نازل ہوگئے مقصد یہ نہیں کہ ٹریفک پولیس غلط کام کررہی ہے مثال کے طور پر اگر ٹریفک اہلکار کسی بھی فرد کی بائیک (موٹرسائیکل) اٹھاکر لے جاتے ہیں اور نہ جانے کتنے ہی نوپارکنگ پر ایسا ہوتا ہے اگر کسی کی موٹرسائیکل نوپارکنگ سے غائب ہوجاتی ہے تو اس شخص کو کیسے پتہ چلے گا کہ موٹر سائیکل چوری ہوئی ہے یا ٹریفک پولیس اہلکار اٹھا کر لے گئے ہیں۔متاثرہ شخص پوچھتا ہوا ٹریفک چوکی پہنچ کر اپنے کاغذات دکھا کر موٹرسائیکل جرمانہ دے کر وصول کرلیتا ہے مگر نہ تو اس جرمانے کی کوئی سلپ ہے نہ وصول کنندہ گورنمنٹ کی جانب سے جرمانہ عائد کیے جانے کی رسید دیتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے یا ٹریفک پولیس کی جانب سے کوئی ایسا قانون ہے یا قواعد و ضوابط ہیں کہ نوپارکنگ پر کھڑی موٹر سائیکل ،کار،ٹرک یا کوئی بھی وہیکل کی جرمانے کی ریٹ لسٹ ہو مگر تا حال یہ ہی عمل ہوتا ہوا آرہا ہے کہ نہ تو موٹر سائیکل نو پارکنگ کی جرمانے کی وصولی کی فیس اور نہ ہی کارکی جرمانے کی ادائیگی کی وصول کی فیس کی پرچی متاثر ہ شخص کو دی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزانہ کراچی شہر کے مظلوم عوام سے نوپارکنگ کی صورت میں کروڑوں روپے وصول کیے جارہے ہیں مگر اس کی کوئی قانونی رسید نہیں اور نہ اس کا کوئی حساب کتاب ہے آخر کراچی کے مظلوم اور مسائل سے گھرے عوام کی محنت کی کمائی سے کمایا جانے والا پیسہ ٹریفک پولیس کس مد میں خرچ کررہی ہے جسکی نہ کوئی رسید ہے اور نہ قانون، آخریہ کس کے حکم پر اور کس کی جیب میں جارہا ہے ۔اس مد میں روزانہ لاکھوں روپے کراچی کے عوام دے رہے ہیں وہ بھی غیر قانونی جرمانے کی صورت میں۔دوسری طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ٹریفک پولیس کے ٹرک میں یا گاڑی میں سوار ہو کر گاڑیاں اٹھاتے ہیں کیا وہ لوگ ٹریفک پولیس اہلکار یعنی گورنمنٹ کے ملازم میں یا کسی ٹھیکیدار کے پیروکار ہیں آخر یہ کون لوگ ہیں؟ اگر یہ ٹریفک اہلکار ہیں تو انکی وردیاں کہاں ہیں اور یہ وردی کیوں زیب تن نہیں کرتے؟۔کچھ وقت پہلے ٹریفک پولیس کی جانب سے موٹر سائیکل کی تصویر کشی کر کے ایس ایم ایس کر کے بھیج دی جاتی تھی ان کا قانونی لائق تحسین تھا مگر اس پر بھی چند دن عمل ہوا مگر پھر وہی کہانی رام لیلا کی۔
اس ضمن میں یہ ہونا چاہیے کہ حکومت کی جانب سے قانون بنایا جائے اور موٹرسائیکل کار اور جتنے بھی وہیکل ہیں انکے حوالے سے نوپارکنگ جرمانے کا قانونی اور جرمانے کی قانونی ریٹ لسٹ تیار کی جائے اور کوئی ایسا کوڈ بار دیا جائے جو کراچی کی ہر لائسنس والی اور بنا لائسنس پر آویزاں ہو اور اس بار کوڈ میں حامل گاڑی کا نام موبائل نمبر وغیرہ درج ہو اور ٹریفک پولیس اہلکار نو پارکنگ پر کھڑی کوئی گاڑی اٹھانے سے پہلے اس گاڑی کی تصویرضرور کھینچیںاور اس کے مالک کو ارسال کریں اور جب مالک آئے تو اسے غلط پارکنگ کا ثبوت فراہم کریں اور اگر کسی گاڑی رکھنے والے کے پاس نقد رقم نہ ہو تو اس جرمانہ کو براہ راست ایکسائزوٹیکنیشن ڈیپارٹمنٹ ارسال کردیا جائے جیسا کہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک میں ہوتا ہے تاکہ جب مالک گاڑی کا ٹیکس یا ٹرانسفر کے لئے جائے تو پہلے وہ اپنی گاڑی پر واجبات ادا کرے پھر دیگر کارروائی کی جائے اس کے علاوہ جب مالک اپنی گاڑی وصول کرنے جائے تو اس کو جرمانے کی رسید اور جتنی رقم ادا کررہا ہے اس کی رقم بھی اس پر درج ہوتا کہ نوپارکنگ کے جرمانے کی مد میں حاصل ہونے والی خطیر رقم کراچی کے مکینوں کے بلدیاتی مسائل و دیگر کاموں کے حل پر خرچ کی جائے تاکہ کراچی کے غریب اور مظلوم عوام جو ٹریفک نو پارکنگ کی صورت میں لاکھوں روپے کاجرمانہ بھررہے ہیں انکو بھی اس رقم کے کچھ ثمرات تو مل سکیں۔