کشمیر پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی

آبادی کا تناسب بدلنا خطرناک اقدام

کامران عباس
جب میں چھوٹا تھا تو ریڈیو، ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں “عالمی برادری” کے الفاظ بار بار سنتا تھا۔ “عالمی برادری نے یہ کہا ، عالمی برادری نے وہ کہا۔”، “عالمی برادی ناراض ہے”، “عالمی برادری کا سخت رد عمل آیا ہے”… وغیرہ وغیرہ۔ کبھی کبھی عالمی برادری کا شکریہ بھی ادا کیا جاتا تھا۔ عالمی برادری کو میں نے خود سے ہی مونث کردار تصور کر لیا تھا۔
ذہن میں عالمی برادری کے عجیب و غریب خاکے بنتے اور مٹتے رہتے تھے مگر یہ خاکے ایک دبنگ عورت کے ہوتے جس کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے۔ مجھے ان خاکوں میں اپنی ہیڈ مسٹریس کی جھلک آتی تھی جو ہر وقت ایک بڑا سا بید کا ڈنڈا لے کر سکول میں گھومتی رہتی تھیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکولوں میں پیار نام کی چیز نہیں ہوا کرتی تھی بس مار ہی مار تھی اور میڈم یا ہیڈ مسٹریس موقع پر ہی “انصاف” کی قائل تھیں۔ وہ بھی ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتیں، اکثر نامعلوم وجوہ کی بنا پر ناراض رہتیں اور ہماری استانیاں ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود ان کی شکر گذار نظر آتیں۔ کم از کم اس وقت مجھے یہی لگتا تھا۔
مگر دبنگ خاتون کا یہ تصور اس وقت چکنا چور ہوگیا جب میں نے اخبار پڑھنا شروع کیا۔ میں اس وقت چھٹی جماعت میں پہنچ چکا تھا اور اخبار میں دلچسپی ہوگئی تھی۔عالمی برادری کبھی کسی بری بات پر خوش ہو جاتی تو کبھی اچھی بات پر ناراض، کشمیر کے معاملے پر عالمی برادری چپ سادھ لیتی تو بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملے پر عالمی برادری پورے جوش و خروش کے ساتھ معاہدے کرنے پہنچ جاتی۔ کنفیوڑن یہ تھی کہ ایک ساتھ ناراض، خوش، متفق اور تقسیم کیونکر ہوتی ہے، اس کے مفاد کا تعین آخر کس طرح ہوتا ہے اور معیار کیونکر بدلتے رہتے ہیں؟ یہ بات بہت دیر میں سمجھ آئی۔
بڑے ہوتے ہمیں بخوبی معلوم ہوگیا تھا کہ مسئلہ کشمیر عالمی برادری کا نہیں، ہمارا مسئلہ ہے اور اسے ہم نے ہی حل کرنا ہے۔ دھچکا اس وقت لگا جب دنیا کے طاقتور ملک مشرقی تیمور اور دارفر کے معاملوں پر “عالمی برادری” بن گئے۔ یہ دونوں مسیحی اکثریتی علاقے تھے اور یہاں کے عوام نے بالترتیب انڈونیشیا اور سوڈان کی مسلم آبادی کے ساتھ رہنے سے انکار کردیا اور علیحدگی کی تحریکیں شروع کردیں۔
عالمی برادری بے چین ہوگئی اور انصاف، انسانی حقوق، اظہار رائے اور حق رائے دہی جیسی آوازیں اٹھنے لگیں جو وقت کے ساتھ شدید ہوتی گئیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کی بڑی تعداد مشرقی تیموراور دارفر کے علیحدگی پسندوں کی کھلم کھلا مدد کو نکل پڑے تھے۔
مغربی میڈیا کی “رپورٹنگ” لوگوں کو مسیحی علیحدگی پسندوں کی حمایت میں سڑکوں پر لے آئی اور پھر عالمی برادری نے آخر کار انڈونیشیا اور سوڈان کو مشرقی تیمور اور دارفر میں ریفرنڈم کرانے پر مجبور کردیا۔ یوں تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے نقشے پر دو نئی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔
مگر کشمیر جسے اقوام متحدہ نے خود رائے شماری کا حق دیا اس پر آج بھی کوئی ملک عمل درآمد کرانے کو تیار نہیں۔ بھارت نے پانچ اگست 2019ءکو آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لی تو لگا شاید کوئی اس کھلی غنڈہ گردی کے خلاف آواز بلند کرے لیکن بے سود۔ پچھلے سوا سال سے وادی میں کرفیو نافذ اور کاروبار زندگی بند، لوگ گھروں میں نظر بندی کی زندگی گذار رہے ہیں مگر عالمی برادری نجانے کہاں سو رہی ہے؟
گزشتہ ماہ ایک رپورٹ منظر عام پر آئی کہ آسٹریلیا کے خصوصی فوجی دستوں نے 2005ئ سے 2016ءتک افغانستان میں اپنے قیام کے دوران بچوں اور کسانوں سمیت 39 نہتے افغان شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ آسٹریلوی فوج کے چیف آف ڈیفنس فورس آنگس کیمپبل نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ قتل عام کے درجنوں واقعات “میدان جنگ سے باہر” کیے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق گشتی فوجی ٹیم نئے آنے والے سپاہیوں کو قیدیوں کو قتل کرنے پر مجبور کرتی تھی تاکہ وہ اپنا پہلا شکار کرسکیں۔ یہ ہولناک رسم خون بہانا کہلاتی ہے۔ واردات کے بعد یہ جونیئر فوجی واقعے کو جھڑپ بنا کر ظاہر کرتے تھے۔
رپورٹ میں ایک ایسے واقعے کا بھی ذکر ہے جب ہیلی کاپٹر میں جگہ بنانے کے لیے آسٹریلوی فوجیوں نے ایک قیدی کو قتل کرکے پھینک دیا۔ مقتولین میں ایک چھ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے۔
آسٹریلوی فوج کے سربراہ نے اپنے فوجیوں کے جنگی جرائم کا اعتراف کیا اور افغان عوام سے غیر مشروط معافی مانگی اور بتایا کہ ان کارروائیوں میں ملوث اہلکاروں کوسزا دینے کا فیصلہ خصوصی پراسیکیوٹر کرے گا کہ آیا انہیں سزا دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
سفاکی کی یہ داستان سامنے آئے کئی روز ہوگئے مگر کیا آپ میں سے کسی نے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیم یا کسی مغربی ملک کی جانب سے مذمت یا افسوس کابیان سنا؟ یقیناً نہیں کیونکہ مظلوم مسلمان ملک کے غریب شہری ہیں جو قتل بھی ہوجائیں تو دہشت گرد ہی کہلائے جاتے ہیں۔
افغان عوام بے صبری سے بین الاقوامی طاقتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں جو معاملے کو جلد از جلد دبا دینا چاہتی ہیں۔ ان کا رویہ اس خاموشی کے مترادف ہے جو انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی پر اپنائی ہے۔ اس معاملے نے مجھے پھر بچپن کی یاد دلا دی۔ “عالمی برادری خاموش ہے، اور یہ خاموشی نہ صرف سنگدلانہ بلکہ مجرمانہ بھی ہے”۔ یعنی عالمی نظام میں موجود بڑے ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چمپئن کہلاتے ہیں، وہ کشمیر میں بھارت کے سفاکانہ جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔
ہندوستان میں برسراقتدار مودی حکومت، آر ایس ایس کے مکروہ اور انتہاءپسندانہ مسلم مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں گامزن ہے۔ ہندوستان میں مسلم مخالف شہریت ترمیمی ایکٹ (Citizenship Amendment Act)، مقبوضہ جموں و کشمیر کا غیر قانونی انضمام، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ، مسلمانوں کے جداگانہ عائلی قوانین کا خاتمہ، مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قانون کی آڑ میں لاکھوں غیر ریاستی باشندوں کی آباد کاری، مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر انسانی لاک ڈاون اور بتدریج نسل کشی (incremental Genocide) یہ سارے اقدامات آر ایس ایس کے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ دفعہ 370 اور دفعہ35-A کے خاتمے کے بعد ہندوستان نے مقبوضہ ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج تعینات کی ہے۔
اس وقت تقریباً 9 لاکھ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 5 اگست 2019 کے بعد سے پوری مقبوضہ وادی بڑی انسانی جیل میں تبدیل ہو چکی ہے، ذرائع ابلاغ اور مواصلات کے تمام رابطوں کو بند کر دیا گیا ہے اور ہر قسم کی مذہبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے تقریباً چار ہزار سے زائد سیاسی قیادت کو نظر بند کر دیا گیا ہے اور تقریباً 14 ہزار نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرتے ہوئے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور انہیں سنگین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گذشتہ ایک سال کے عرصے میں سیکٹروں کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل خوف کی فضاء طاری ہے، کشمیریوں کو روزانہ بدترین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ وادی کی مقامی این جی او، جموں اینڈ کشمیر کولیشن فار سول سوسائٹی کے مطابق صرف2020 کے پہلے 7مہینوں میں 347 نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔
دفعہ 370 اور 35-A کے خاتمے کا مقصد؟
دفعہ 370 اور 35-A کے خاتمے کے بعد ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے اندر تیزی سے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے تاکہ مقبوضہ ریاست کے مسلم تشخص کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔ اس سارے عمل کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کو ناکام کرنا ہے تاکہ رائے شماری کے عمل میں مسلم اکثریتی فیصلے کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیئے ہندوستان نے اس سال 27 جون سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے آن لائن درخواستوں کا ایک تیز ترین نظام متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے تقریباً 5 منٹ میں درخواست فارم مکمل کیا جا سکتا ہے۔ نئے ڈومیسائل قانون کے مطابق کوئی بھی غیر ریاستی شخص صرف 15سال تک مقبوضہ ریاست میں رہائش پذیر رہنے پر اور تمام سرکاری ملازمین اور ان کے خاندان کے لوگ بشمول فوج کے ملازمین، صرف 10سالہ خدمات کی انجام دہی پر مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
ابھی تک صرف چارہ ماہ کے قلیل عرصے میں تقریباً 22 لاکھ درخواستیں جمع ہو چکی ہیں جن میں سے ساڑھے 18لاکھ غیر ریاستی باشندوں، آر ایس ایس کے انتہاء پسندوں اور قابض فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس تقسیم کیئے جا چکے ہیں۔ اتنے کم عرصے میں ساڑھے اٹھار لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تقسیم سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مودی حکومت کے مقبوضہ ریاست کے حوالے سے کیا مکروہ اور جارحانہ عزائم ہیں۔
مختصراًہندوستانی منصوبہ ساز یہ چاہتے ہیں کہ:۔
۱۔ نئے ڈومیسائل قانون کے ذریعے سے تقریباً 50 لاکھ ہندوو¿ں اور غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیے جائیں۔
۲۔ اگلے مرحلے میں لاکھوں ہندووں کی مقبوضہ کشمیر میں آباد کاری کی جائے۔ چونکہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حامل افراد مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں، ووٹ دے سکتے ہیں۔ لہذا خصوصی بستیاں آباد کر کے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جائے۔
۳۔ اس کے بعد ان نئی ہندو آبادیوں کو مقبوضہ کشمیر کے اندر سرکاری ملازمتیں دینا تاکہ مقامی مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے مزید کمزور کیا جا سکے۔
۴۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی کشمیریوں کے کاروبار کو تباہ کر کے نئی ہندو آبادیوں اور ہندوستانی سرمایہ کاروں کو مقبوضہ کشمیر میں پروموٹ کرنا۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق 5 اگست 2019 سے لے کر آج تک مقامی تاجروں کو تقریباً 400 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جو کہ تقریباً5.3 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ اس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں معاشی حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور بے روز گاری میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔
۵۔ اگلے مرحلے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کروا کر مودی حکومت بی جے پی کی حکومت بنوانا چاہتی ہے۔ تقریباً 50 لاکھ نئے ہندو ووٹرز کے ساتھ اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد BJP کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حکومت بنانا آسان ہو جائے گا۔
۶۔ اس منصوبے کا سب سے اہم مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کو ناکام بنانا، تحریک آزاد ی کو ختم کرنا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو مکمل طورپر عملاً ہندوستان میں ضم کرنا ہے۔ اگر کسی وقت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے عالمی دباو بڑھ جائے تو آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے نتیجہ میں ریاست کا فیصلہ اپنے حق میں کروایا جا سکے۔
ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے اقدامات اور ان کے ممکنہ اثرات کی مفصل منظر کشی کرنے کا مقصد مسلمان کشمیریوں کو درپیش خطرات کے تناظر میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق مستقبل کے لیئے موزوں اور قابل عمل سیاسی، سفارتی اور قانونی لائحہ عمل کا تعین کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروضی حالات کا تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی سیاسی منظر نامے کے تناظر میں تنقیدی جائزہ لینے سے محتاط اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے ڈیڑھ سے دو سال انتہائی اہم ہیں اور اگر اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے اندرہندوستانی اقدامات کو روکا نہ گیا تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی باشندوں کا سیاسی، معاشی و ثقافتی استحصال و وسیع پیمانے پر نسل کشی نوشتہ دیوار ہے۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو اگر کم کر دیا گیاتو ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اور کاوشیں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔
جہاں ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں انتہائی خطرناک صورتحال ہے وہیں بہت سارے مثبت پہلو بھی ہیں:
سب سے پہلے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے بہادر اور نڈر مسلمانوں کا جذبہ حریت، نوجوانوں کی لازوا ل قربانیاں اور کشمیری ماوں اور بہنوں کا بے مثال صبراس تحریک کے پیچھے بنیادی قوت محرکہ ہے۔ اس کے علاوہ 5 اگست 2019 کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کی کوریج، ایمینسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی مسئلہ کشمیر سے متعلقہ رپورٹس، اقوام متحدہ کے کشمیر برائے انسانی حقوق کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر دو مفصل رپورٹس‘ اقوام متحدہ کے ملٹری ابزرور گروپ برائے انڈیا و پاکستان (UNMOGIP) کی رپورٹوں پر سلامتی کونسل کے مسئلہ کشمیر پر دو خصوصی اجلاس، کشمیری تارکین وطن (Diaspora) کا پوری د±نیا بالخصوص یورپ، برطانیہ‘امریکہ اور کینیڈا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اہم کردار، پاکستان کی عوام اور مسلح افواج کا کشمیریوں سے غیر متزلزل تعلق وہ مثبت پہلو ہیں جو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ہندوستان تمام تر فسطائی ہتکھنڈوں کے باوجود ناکام ہو گا:
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جہد مسلسل ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔ مثلاً 1823 میں فرانس نے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ 1848ءمیں فرانس نے الجزائر کے مقامی باشندوں کو پوچھے بغیر اسے فرانس کا اٹوٹ انگ صوبہ قرار دے دیا۔ گورے فرانسیسی جوق در جوق الجزائر میں آباد ہونے لگے۔ انہوں نے صنعت، زراعت اور معشیت پر قبضہ کر لیا مگر الجزائری کھبی بھی فرانس کا قبضہ ہضم نہ کر سکے۔ چنانچہ ایک سو چوبیس برس بعد 1954ئ میں الجزائر میں جذبہ حریت کا لاوا ابل پڑا۔ حریت پسندوں اور قابض فوج کے درمیان آٹھ سال تک جنگ رہی جس میں ایک ملین الجزائری اور ہزاروں فرانسیسی فوجی مارے گئے۔ بالآخر 1962ئ میں الجزائری فرانس سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اسی طرح 1975 میں پرتگال نے مشرقی تیمور کے جزیرے پر اپنا نوآبادیاتی قبضہ ختم کیا۔ مشرقی تیمور میں عیسائیوں کی آبادی تقریبا ً 8لاکھ تھی۔ پرتگال کے بعد انڈونیشیا نے ایک سال بعد 1976ئ میں اس پر قبضہ کر کے اسے اپنا 27واں صوبہ قرار دیا مگر تیموریوں نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر 1999ئ میں اقوام متحدہ نے ریفرنڈم کرایا اور 99فیصد آبادی نے آزادی کے حق میں ووٹ دے کر 2002میں مشرقی تیمور کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے سامنے لایا۔
اسی طرح اسرائیل کب سے فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کرتا چلا آرہا ہے۔ گولان پر قبضہ، مشرقی یروشلم کو اسرائیل میں ضم کرنے اور مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری بھی اسرائیلی قبضے کو جائز نہیں بنا سکتی۔
بھارت اس قوم کو کیا شکست دے گا جن کا جذبہ حریت تمام ہتکھنڈوں کے باوجود ماند نہیں پڑ سکا بلکہ اس میں مزید تیزی آتی جا رہی ہے۔ کشمیری ہر صورت پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اپنا جینا مرنا پاکستان کیساتھ چاہتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنی تدفین پاکستانی پرچم میں پسند کرتے ہیں۔ ان شاءاللہ بہت جلد شہدا کا لہو قربانیاں جذبہ آزادی رنگ لائے گا اور کشمیر آزاد ہو گا۔
٭٭٭