فرانسیسی سفیر کے معاملے پر حکومت و اپوزیشن کا شرم ناک کردار

چند ماہ قبل فرانس کے سربراہ کی جانب سے نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے بنانے والے کو انعام سے نوازے جانے پر دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا تھا، جس میں پاکستان بھی شامل تھا اور پاکستان میں بھرپور احتجاج صرف تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ہی سامنے آیا۔اس وقت حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا، جس میں بنیادی مطالبہ فرانس کے سفیر کی پاکستان سے بے دخلی کا تھا اور اس حوالے سے ایک حتمی اور آخری تاریخ بھی دی گئی جس میں بعد ازاں تو سیع کرتے ہوئے آخری تاریخ 20 اپریل 2021 قرار پائی۔آخری تاریخ کے آنے سے چند روز قبل تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا، جس کے فوری بعد تحریک کے موجودہ سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کرلیا گیا جس کے بعد احتجاج میں شدت آگئی اور ملک کے کافی حصوں میں احتجاج اور دھرنے کا عمل شروع ہوا، جس میں لاہور میں مرکزی دھرنا شروع کیا گیا اور زیادہ احتجاج،ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ بھی لاہور میں ہی کی گئی۔ اس سارے معاملے پر پنجاب پولیس کا کردار انتہائی ظالمانہ، جابرانہ،بغض اور نفرت سے بھرپور رہا۔مظاہرین پر بے رحمانہ لاٹھی چارج، آنسوگیس اور براہ راست فائرنگ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ شیخ رشید جیسے نا اہل،نالائق اور بے پروا وزیرداخلہ کی وجہ سے معاملہ بگڑتا چلا گیا اور بالآخر کافی خون خرابے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے ذمہ داروں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے۔ تا ہم معاملات طے پاجانے کے باوجود سعد رضوی کو رہا نہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے یہ بیان کی گئی کہ ان پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرار داد اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی ویژن پر تقریرکر کے فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے کافی دلائل بھی دیئے اور ایسا کرنے کے نقصانات سے بھی قوم کو آگاہ کیا،بلکہ معاشی نقصان سے ڈرایا،جس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے حق میں کسی صورت نہیں ہے جس کا بعد ازاں ثبوت بھی مل گیا۔جب فرانس کے سفیر کے حوالے سے اسمبلی میں مسودہ پیش کیا گیا۔
فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرار داد اسمبلی میں پیش کیے جانے کی خبر سن کر ملک کی دوبڑی پارٹیوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے کافی اراکین اسمبلی اس میں حاضر ہی نہیں ہوئے انھیں شاید یہ خوف دامن گیر رہا ہوکہ اگر قرار داد کے حق میں ووٹ دیا تو غیر مسلم اور مغرب ان پارٹیوں کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ اور اگر مخالفت میں ووٹ دیا تو ان کے ووٹر اور ملک کے عوام ان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟ بہرحال،وجہ جو بھی رہی ہو، اس اہم ترین موقع پر مذکورہ دونوں پارٹیوں اور خود حکومت کا کردار انتہائی شرم ناک رہا۔حکومت نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرار داد اسمبلی میں پیش ہی نہیں کی،بلکہ قرار داد کا جو مسودہ اسمبلی میں پیش کیا گیا، اس پر توہین رسالت کے حوالے سے بحث کی دعوت دی گئی تھی، جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سادہ اور واضح الفاظ میں قرار داد پیش کرنی چاہیے تھی کہ فرانس کی جانب سے ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے اور اس پر پاکستانی عوام کے شدید رد عمل اور ناراضگی کے باعث کیا فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے یا نہیں؟ اس واضح اور دو ٹوک سوال کا جواب بھی واضح اور دو ٹوک سامنے آتا۔مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ محض مصلحتوں،دنیاوی وقتی فائدوں اور مغرب کی خوشنودی کی خاطرایسا کوئی جرات مندانہ قدم اٹھانے سے گریز کیا گیا۔اس سے تو مغرب کو واضح طور پر یہ پیغام گیا کہ پاکستان نبی کی حرمت کے معاملے میں لچک رکھتا ہے اور انتہائی قدم کبھی نہیں اٹھائے گا۔ باالفاظ دیگر مغرب کو تو خوش کردیا گیا، مگر اسلام پسندوں اور اپنے نبی سے عقیدت رکھنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو شدید مایوس کیا گیا۔اگر مسلمان ممالک کی حکومتوں کا یہی نرم،لچک دار اور معتدل رویہ رہا تو مغرب آئندہ بھی نہ صرف ایسی گستاخیاں کرتا رہے گا،بلکہ اس میں مزید شدت اور انتہا پسندی آتی رہے گی۔کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہی بات رہ جائیگی کہ کچھ بھی کرلو، مسلمان کچھ نہیں کریں گے۔ جبکہ دنیا کے دیگر مسلمان ممالک کے مقابلے میں پاکستان ایک جداگانہ شناخت اور حیثیت رکھتا ہے دنیا میں دو ممالک اسرائیل اور پاکستان ایک نظریے کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ اسرائیل کا مقصد یہودیت کا قیام اور پاکستان کا مقصد اسلام کا قیام اور ترقی ہے۔ اسرائیل کا مقصد تو پورا ہوتا جارہا ہے،مگر پاکستان اپنے قیام کے مقصد پر عمل نہیں کررہا جس کا آنے والے دنوں میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
کورونا کے وار،ہلاکتوں میں تیزی
گزشتہ سال مارچ کی 18 تاریخ کو پاکستان میں لاک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا تھا۔ابتدائی لاک ڈاؤن لاک ڈاؤن تھا، لوگ اسے کسی صورت سنجیدہ نہیں لے رہے تھے،پکڑدھکڑبھی جاری تھی،مگر پاکستانی قوم کسی صورت سنجیدگی پر آمادہ نہ ہوگی،چنانچہ کافی سختی بھی کی گئی۔یہاں تک کہ مساجدمیں باجماعت نماز پر بھی پابندی لگادی گئی،اور سعودی عرب نے بھی حج اور عمرہ پر پابندی لگادی،پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ یوم علی پر کورونا کی تمام پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جلوس نکالا گیا اور اس میں ہرقسم کی احتیاط نہیں برتی گئی، جس پر عوام میں یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ کورونا کی پابندیاں صرف مسلمانوں کو عبادت کرنے یا مساجد جانے سے روکنے کیلئے لگائی گئی۔بہرحال،وجہ جو بھی رہی ہو،اس دوہرے معیار اور دوہری پالیسی سے لوگوں میں ایک الجھن ضرور پیدا ہوئی اس کے بعد دھیرے دھیرے پابندیاں بھی نرم پڑتی گئیں اور لوگوں نے بھی احتیاط کرنا بند کردیا۔ویسے بھی مئی،جون،جولائی،اگست کے مہینوں میں موسم خاصا گرم ہوجاتا ہے اور کورونا وائرس کے متعلق اب تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ یہ سردی اور ٹھنڈ میں زیادہ سرگرم اور طاقت ورہوجاتا ہے اور گرمی یا دھوپ اس کی موت ہے۔
گزشتہ سال نومبر،دسمبر سے لے کر جنوری 2021 تک کی سردیوں میں کورونا پر زیادہ شورشرابہ (۔۔۔؟مسودہ چیک کریں) دیکھنے میں نہیں آیا،مگر اب جبکہ موسم تبدیل ہوچکا ہے اور اپریل 2021 کے ماہ سے تو تقریباً شدید گرمی اور لوکا موسم چل رہا ہے تو ایسے گرم موسم میں حیرت انگیز طور پر کورونا کے وار میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں، بھارت میں تو انتہائی ابترصورتحال ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرچکی ہے اور اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی ہے، جسکی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مررہے ہیں اور انہیں جلانے یا دفنانے کے لئے جگہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اور مرنے والوں کو شمشان گھاٹ کے علاوہ کھیتوں،کھلیانوں اور دیگر کھلی جگہوں پر جلا کر ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر ستی سے عملدرآمد کروانے کے لیے فوج طلب کرلی۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت اب کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سختی کرے گی اور اس بار ہم نے پولیس و رینجرز کے علاوہ فوج کو بھی کہا ہیکہ وہ سرکوں پر آئیں اور عوام سے ایس او پیز پر عمل کروائیں۔کورونا کے حوالے سے فوجی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں بھی وہی حالات ہوسکتے ہیں جو اس وقت

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ جو شروع دن سے کورونا کے حوالے سے سختی کرتے آئے ہیں، ان کا روزاول سے کہنا تھا کہ کورونا کے حوالے سے احتیاط بہت ضروری ہے،جو بھی احتیاط نہیں کرے گا وہ کورونا کے وار سے بچ نہیں سکے گا۔کورونا کی موجودہ لہر کے حوالے سے وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ صوبے میں کورونامثبت کیسز کی شرح 8.9 فیصدتک پہنچ چکی ہے۔سندھ کی ٹاسک فورس کی سفارش ہے کہ انٹرسٹی اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بند کی جائے،جبکہ کورونا کے حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ لوگ عید کی خریداری ابھی کرلیں،آگے لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ایسی صورتحال پیدا ہوکہ شہروں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے،وفاقی وزیرنے بتایا کہ 5 فیصد سے زیادہ کیسز والے علاقوں میں اسکول بند اور آؤٹ ڈور کھانے پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے دفاتر2 بجے بند اور 50 فیصد سے زیادہ لوگوں کو نہ بلایاجائے،جبکہ افطاری کے بعد بازار نہیں کھلیں گے۔وفاقی وزیرکے اس طرح کے اعلان اور وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا پابندیاں نافذ کروانے کے لئے فوج طلب کرلینے سے عام آدمی کے ذہن میں بجا طور پر یہ خدشہ سر ابھار رہا ہے کہ اگلے ایک ماہ میں کرفیو لگے گا۔آئندہ چند روز میں سب مکمل بند ہوگا۔ آنے والے 3 ماہ تک کچھ ایس اہوگا کہ مختلف اوقات میں ہر ہفتے این سی او سی ایک نیا حکم نامہ جاری کرے گی۔پہلے مرحلے میں ہفتہ،اتوارچھٹی،دوسرے مرحلے میں ہفتہ میں دو دن کاروبار کی اجازت،تیسرے مرحلے میں کرفیوکی طرح کاروبار کے اوقات کار،یہ سب این سی او سی میں تجویزدے دی گئی ہے۔ بس یہ بات زیرغور ہے کہ کس طرح عملدرآمد کرایا جائے؟یوں کہا جاسکتا ہے کہ بہت برے دن آنے کو ہیں،لہٰذا جو صاحب حیثیت لوگ ہیں،جنھیں اللہ تعالیٰ نے نوازرکھا ہے وہ اس مصیبت اور پریشانی کی گھڑی میں آئیں اور غریب،کمزور،لاچارگھرانوں میں اپنی استطاعت کے بعد اتنا راشن تو ضرور ڈلوادیں کہ وہ تین ماہ آرام سے گزارا کرسکیں۔ ورنہ یہی صورت حال رہی تو آنے والے دنوں میں غریب تو فاقوں سے ہی مرجائیں گے۔
سندھ حکومت کاکراچی کو بین الاقوامی طرز پر استوار کرنے کا فیصلہ
درج ذیل نکات پر عملدرآمد کا ٹھوس عزم
شہر کراچی میں 1990 سے پرانے ماڈل کی تمام چھوٹی بڑی گاڑیاں کراچی سے بے دخل۔ شہر کراچی میں دکانوں کو گلاس ڈور سے منصوب لازم و محدود۔3۔ شہر کراچی میں فٹ پاتھ کی تعمیر حکومت کا حصہ لازم قرار۔4۔ شہر کراچی سے ٹھیلہ کلچر کا مکمل خاتمہ۔ 5۔ شہر کراچی سے مال بردار جانور گاڑیاں بے دخل۔6۔ شہر کراچی میں دکانوں کے سائن بورڈز سائز و فاصلے کا یکسانیت میں ہونا لازم قرار۔7۔ شہر کراچی میں تمام عمارتیں سالانہ کلر سازی بلڈر اور یونین کیذمہ دار لازم ہونا قرار۔8۔ شہر کراچی میں مین شاہراہوں کی جانب بیک اپ ریکارڈنگ کیمرے لگانا نئی تعمیر پر بلڈر پر لازم قرار۔9۔ شہر کراچی میں پلوں کے نیچے سے فلاحی اداروں کے علاوہ قائم تجارتی قبضوں کا اختتام لازم قرار۔10۔ شہر کراچی میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کے غیر قانونی اسٹینڈ جرم قرار۔11۔ شہر کراچی میں عوامی جگہوں پر ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں جرم قرار۔12۔ شہر کراچی میں ڈینٹنگ پینٹنگ کو بڑے پلاٹوں میں منتقل کرنے کے اقدامات لازم قرار۔13۔ شہر کراچی میں ریپیئرنگ کے شعبے کا مین روڈ کی دکانوں سے منتقلی لازم قرار۔14۔ شہر کراچی میں بلڈر شعبے سے گرے ورک سے متعلق کاروباری مراکز و مصنوعات شہر سے باہر منتقل کرنے کی پابندی۔ 15۔ شہر کراچی میں برسہا برس سے جگہ جگہ سڑکوں پر کھڑی کباڑہ اسکریپ گاڑیوں کو شہر سے بے دخل و اسکریپ کرنا لازم قرار۔16۔ شہر کراچی میں لگے تناور درختوں کو 7 فٹ تک قومی جھنڈے کا رنگ کرنا لازم قرار۔17۔ شہر کراچی میں چھوٹی بڑی مین شاہراہوں پر سیاسی و غیر سیاسی عوامی اجتماعات پر پابندی قرار۔18۔ شہر کراچی میں 1000cc سے زائد انجن والی گاڑیوں میں CNG لگانا جرم قرار۔19۔ شہر کراچی میں نیٹ کیبلز کی وائرلیس سسٹم پر منتقلی لازم قرار۔ 20۔ شہر کراچی میں حقیقی گداگروں کے لئے ضلعی سطح پر شیلٹر ہومز کا قیام لازم قرار۔21۔ شہر کراچی میں آمدہ و خارجی راستوں پر نادرہ چیک پوسٹوں کا قیام۔22۔ شہر کراچی میں ٹول گیٹس پر فائر بریگیڈ و ایمبولینس کا قیام۔23۔شہر کراچی میں سائن بورڈز اور بل بورڈز کی بحالی کیلئے کورٹ سے استدعا کرنے کا عزم۔24۔ شہر کراچی میں بڑے برساتی نالوں میں عوامی مسافر کشتیاں چلانے کا عزم۔25۔ شہر کراچی میں برساتی نالوں کے اطراف کو تفریحی و فوڈ سائڈز مقامات بنانے کا عزم۔سندھ حکومت کراچی کو پہلے فیز میں درج بالا اقدامات سے آراستہ کر کے شہر کو خوب صورت بنانے میں سنجیدگی رکھتی ہے، دوسرے فیز میں سڑکوں اور پلوں کے لئے کوشاں ہے۔
کورنگی جنرل ہسپتال میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی خورد برد
کراچی کے علاقہ کورنگی میں واقع سندھ گورنمنٹ جنرل ہسپتال میں مریضوں کے کھانے کے فنڈ میں ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کی خوردبرد کا انکشاف ہوا ہے۔ سندھ گورنمنٹ جنرل ہسپتال کورنگی میں مریضوں کے کھانے کے فنڈ میں خوردبرد کے معاملے پر قایم تین رکنی کمیٹی نے تحقیقاتی رپورٹ تیار کر کے ڈائریکٹر جنرل کے حوالے کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کرپشن کے حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں جس کے مطاق اسپتال انتظامیہ مریضوں کے کھانے کے فنڈز میں کرپشن کی۔انتظامیہ نے کاغذات میں 9 ماہ کے دوران 4500 سے زاید مریضوں کا اندراج کیا،جبکہ اسپتال میں کل 2300 مریض داخل ہوئے تھے۔ مریض کے ایک وقت کا کھانا 350 روپے سے زائد کا ظاہر کیا گیا۔ اسپتال انتظامیہ ایک کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی خورد برد میں ملوث ہے۔ ذرائع کے مطابق 23 سو مریضوں کے کھانے کا بل 26 لاکھ روپے بنتا ہے کمیٹی میں ایم ایس پرتیم حیرانی اکاؤنٹنٹ اور وارڈ انچارجزسمیت دیگر شامل تھے۔سندھ حکومت کی جانب سے اسپتال کا سالانہ بجٹ 66 کروڑ روپے سے زائد ہے، مریضوں کے کھانے کی مد میں 2 کروڑ17 لاکھ سے زائد کی رقم مختص ہے۔
سندھ سرکارکا وفاق کو اراضی فراہم کرنے سے انکار
سندھ حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے میں وفاقی حکومت کے ساتھ شراکت داری اور اراضی فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ذرائع کے مطابق سندھ سرکار نے بے گھر افراد کے لئے حکومت سندھ کی اسکیم بے نظیر ہاؤسنگ کے تحت منصوبے شروع کرنے اور اراضی مختص کرنے کے باعث وفاقی حکومت کو فوری اراضی فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے۔سندھ حکومت کے انکار کے بعد وفاقی حکومت نے کراچی میں اپنی ملکیت اراضی پر منصوبہ شروع کرنے کے لئے قابضین کے خلاف آپریشن پر غور شروع کردیا ہے۔اس ضمن میں مختلف اداروں سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ وفاق اور سندھ حکومت کے مابین حکومتی اور سیاسی امور پر اختلافات اور محاذ آرائی کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ سندھ حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے لوگوں کو سستے گھروں کی فراہمی کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ میں وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون اور شراکت داری اور منصوبوں کے لیے اراضی فراہم کرنے سے انکار کردیا وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے کراچی کے تمام اضلاع میں اراضی فراہم کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا مگر سندھ حکومت نے ایم ڈی اے اسکیم ملیر ون اور ہاکس بے اسکیم مبارک ولیج کے علاوہ کراچی کی شہری حدود میں اراضی فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔معتمد ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی کے 6 اضلاع میں نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے تحت سستے فلیٹس بنانے کے لیے سندھ حکومت سے سٹی ایریا میں زمین فراہم کرنے کی درخواست کی تھی،جو سندھ حکومت نے مسترد کردی۔دوسری طرف سندھ حکومت کی جانب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے لیے اراضی فراہم کرنے سے انکار کے بعد وفاقی حکومت نے کراچی میں اپنی اراضی پر پروجیکٹ شروع کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ وفاقی سیکریٹری برائے ہاؤسنگ اتھارٹی نے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ کو ہدایت کی ہے کہ کراچی کے 6 اضلاع میں وفاقی حکومت کی قبضہ کی گئی اراضی قابضین سے واگزار کرانے کے لیے فوری کارروائی سے متعلق تجاویز پیش کی جائیں اور پہلے مرحلے میں کراچی کے ضلع غربی، شرقی،وسطی میں قابضین کے خلاف رینجرز کی مدد سے کارروائی عمل میں لاکراراضی واگزار کرانے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔
بھارت میں ہیں۔