قادیانی نوازحکومت کا ایک اور وار

جاوید الرحمن خان
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پروفاقی کابینہ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں بطور غیرمسلم شامل کرنیکی اصولی منظوری دیدی۔ اور اس طرح ان کو وہ سب اقلیتی حقوق مل گئے جو باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں) یعنی اپنی مرضی کی عبات، مرضی کی عبادت گاہ وغیرہ کا حق)قادیانیوں نے شروع دن سے یہی اقلیتی حقوق حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی تھیں لیکن ہر بار ناکام رہے مگرموجودہ حکومت نے ان کا وہ دیرینہ مطالبہ خاموشی سے تسلیم کر لیا۔پیچھے چلتے ہیں۔بہت پیچھے۔ رولا کیا ھے اور کس چیز کا ھے۔
قادیانی پہلے دن سے خود کو اقلیت تسلیم کرکے اپنے اقلیتی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ان کو اقلیتی حقوق نہیں دیے جا رہے۔ان کے اقلیتی حقوق آخر ہیں کیا اور کیوں نہیں دیے جا رہے؟ جبکہ باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں۔یہ فلم بہت دلچسپ ھے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو پوری تحریر غور سے پڑھنا ھوگی۔قادیانیوں کو کافر یعنی غیر مسلم تو قرار دے دیا گیا لیکن ایک چیز رہ گئی تھی جسے ہمارے بھولے بھالے پی ٹی آئی کے نوجوان بچے بھٹو کی غلطی کہتے ہیں لیکن وہ بھٹو کی غلطی نہیں تھی بھٹو نے بالکل درست کیا تھا۔وہ چیز جو رہ گئی تھی وہ یہ تھی، کہ ان کو غیر مسلم تو قرار دے دیا گیا تھا لیکن ان کا مذھب کیا ھوگا؟ ان کی عبادت کیسے ھوگی؟ ان کی عبادت گاہ میں بلانے کا طریقہ کیا ھوگا؟ ان کی دینی کتاب کون سی ھوگی؟ اور ان کی عبادت گاہ کا نام کیا ھوگا؟ یہ فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔اس نے یہ چیز آنے والے وقت پر چھوڑ دی لیکن یہ حکم تھا کہ وہ اپنی عبادتیں اور عبادت گاہیں مسلمانوں جیسی نہیں کریں گے تاکہ دوسرے لوگ دھوکہ کھا کر ان کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھیں۔نہ یہ سرعام ہمارا کلمہ پڑھ سکتے تھے نہ یہ اذان دے سکتے تھے نہ کلمہ لکھ سکتے تھے نہ ہی قرآن پاک پڑھسکتے تھے نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد لکھ سکتے تھے۔کافر قرار دینے سے پہلے یہ ہماری نماز پڑھتے تھے ہمارے قرآن کو اپنی کتاب کہتے تھے ھمارے روزے جیسے روزے رکھتے تھے ہماری مسجد جیسی مسجد ہوتی تھی جسے یہ مسجد کہتے تھے لیکن کافر قرار دینے کے بعد اب سب کچھ بدل گیا تھا۔
اب ان کو چاہیے تھا کہ ہمارے دین کی جان چھوڑ دیتے۔ہماری نماز بھی چھوڑ دیتے ہمارے قرآن کو بھی چھوڑ دیتے ہماری مساجد کی جان بھی چھوڑ دیتے۔یہ اپنا نیا نبی بناتے ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔یہ اپنی نئی کتاب ایجاد کر لیتے ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔یہ اپنی الگ اذان ایجاد کر لیتے ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔یہ اپنی الگ طرح کی عبادت بنا لیتے ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔یہ اپنی الگ عبادت گاہ بنا لیتے ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔یہ ان کے لیے بہت سخت سزا تھی۔یہ معاملہ ان کے لیے موت کے جیسا تھا۔یہ سرعام دوسرے مذاھب کی طرح عبادت کرنا چاھتے تھے روزے رکھنا چاھتے تھے اذانیں دینا چاھتے تھے۔لیکن جب سے کافر قرار دے دیے گئے تھے تب سے یہ سب بند ھو گیا تھا۔پولیس ان کے علاقوں میں گشت لگانے لگی۔ان کے گھروں مکانوں دفتروں اسکولوں اور عبادت گاہوں سے کلمہ طیبہ اور اللہ کا نام مٹایا جانے لگا جہاں جہاں سے بھی شک پڑتا کہ یہ مسلمان نظرآتیہیں وہ نشان مٹا دیے گئے اگر کوئی قادیانی کلمہ پڑھتا پکڑا جاتا تو پولیس اسے حوالات میں ڈال دیتی اذان دینے کی کوشش کرتے یا سرعام پہلے کی طرح نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تو پولیس ان کو اٹھا کر جیل بھیج دیتی رفتہ رفتہ ان کی زندگیوں سے اسلام نکال دیا گیا.یہ بات میرے ننھے منے فیس بکی بچے نہیں جانتے. قادیانیوں کے لیے یہ سب کسی طرح قابل قبول نہیں تھا۔ ان کے پاس ایک آپشن تھا کہ قادیانیت سے توبہ کر کے اسلام کی طرف لوٹ آتے لیکن بدقسمتی سے وہ اس طرف بھی نہیں آتے تھے..میں ننھے منے فیس بکی بچوں کو بتانا چاھتا ھوں کہ پولیس آج بھی کسی قادیانی کو اذان دیتے یا تلاوت کرتے پکڑ لے تو اسے سیدھا جیل بھجوا دیتی ہے۔
سنہ 73 سے لیکر 1984 تک گیارہ سال گزر گئے قادیانی اس دوران کوشش کرتے رہے کہ ہمیں اقلیت ہی سمجھ لیا جائے کافر ہی سمجھ لیا جائے لیکن ہمیں دوسرے غیر مسلموں کے برابر حقوق دیئے جائیں ان کی طرح سرعام عبادت کا موقع دیا جائے اور یہ ہو نہیں سکتا تھا ان کو ہر جگہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔سنہ1984 میں انہوں نے خود کو اقلیت منوانے اقلیتی حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کر لیا۔عدالت نے بتایا کیونکہ یہ مذہبی معاملہ ہے اسے شرعی عدالت میں لے جایا جائے۔چنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کر دی گئی۔اس کا حوالہ نمبر یہ ہے۔شریعت درخواست نمبری 17/ آئی 1984شریعت درخواست نمبری 2 ایل 1984یہ درخواست دو قادیانی افراد کی طرف سے تھی۔جن کے نام یہ ہیں۔(1)۔مجیب الرحمن وغیرہ بنام وفاقی حکومت،(2)۔ریٹائرڈ عبدالواجد وغیرہ بنام اٹارنی جنرل پاکستان اس شرعی عدالت کے جو جج صاحبان کیس سن رہے تھے ان کے نام یہ ہیں۔جسٹس فخر عالم چیف جسٹس، چوہدری محمد صدیق جسٹس، مولانا ملک غلام علی جسٹس، مولانا عبدالقدوس قاسمی جسٹس کیس میں وکلا کے علاوہ جن علما نے وکلا کی مدد کی ان کے نام یہ تھے۔(1)۔قاضی مجیب الرحمن،(2)۔پروفیسر محمد احمد غازی،(3)محمد صدرالدین الرافعی، (4)۔علامہ تاج الدین حیدری. (5)۔پروفیسر محمد اشرف (6)۔علامہ مرزا محمد یوسف(7)۔پروفیسر محمد طاہر القادری مسلمانوں کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا کے یہ نام تھے۔حاجی شیخ غیاث محمد ایڈووکیٹ،مسٹرایم بی زمان ایڈووکیٹ،ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ۔
کیس میں قادیانیوں کا موقف تھا کیونکہ ہمیں اقلیت قرار دے دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجودہمیں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ہر انسان کو اپنے مذہب پر چلنے اور مذہبی رسومات و عبادات کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔پاکستان کے اندر باقی سب اقلیتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن صرف قادیانیوں کو عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی بلکہ ان کو پکڑ کر تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔یہ قادیانیوں کی انتہائی خوفناک چال تھی۔وہ اس درخواست میں خود کو غیر مسلم تو تسلیم کر رہے تھے لیکن بدلے میں جو کچھ مانگ رہے تھے وہ بہت خوفناک تھا۔اگر ان کو اقلیتی حقوق کے تحت عبادت کی اجازت مل جاتی تو وہ صرف نام کے قادیانی رہ جاتے لیکن ان کو سبھی اجازتیں حاصل ہو جاتیں جن کے تحت وہ مسلمانوں کی طرح عبادات بھی کرتے مسجدیں بھی بناتے اورہر وہ عبادت کرتے جو مسلمان کرتے ہیں۔قادیانیت کے حوالے سے ملکی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مقدمہ تھا جس میں بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ مسلمان یہ مقدمہ ہار جائیں گے اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے کسی مذہب قانون اور آئین میں نہیں لکھا ہوا کہ کسی شخص کو اس کی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق نہ دیا جائے۔خود پاکستان کے آئین و قانون اور اسلام میں بھی ہر شخص کو مرضی سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے پر بھی پابندی نہیں ہے۔پھر اپنی عبادت گاہ کو اپنی مرضی کے نام سے بھی پکارنے کا حق ہے۔مثلا سکھ اپنا گردوارہ بنا سکتے ہیں اس کا نام گردوارہ رکھ سکتے ہیں۔ہندو مندر بنا سکتے ہیں مندر کو مندر کہہ سکتے ہیں۔عیسائی گرجا بنا سکتے ہیں اسے گرجا کہہ سکتے ہیں۔لیکن قادیانیوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے کی اجازت تھی۔
کیس کی سماعت چلتی رہی کئی ماہ گزر گئے دونوں جانب سے دلائل کے انبار لگا دیے گئے چھوٹے سے چھوٹے نقطے پر بحث کی گئی اور آخرکار شرعی عدالت نے 12 اگست1984 کو مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔184 صفحات پر مشتمل فیصلے میں بہت ہی واضح الفاظ میں کہا گیا کہ قادیانی جھوٹے ہیں ان کو دوسرے مذاہب کی طرح کھلے عام عبادات کرنے، اذان دینے، قرآن پاک کی تلاوت کرنے، مسجدیں بنانے،کلمہ پڑھنے، کلمہ لکھنے اور خود کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔یعنی وہ قرآن پاک کی بجائے غلام قادیانی کی کتابوں کو مذھبی کتاب کہہ سکتے تھے. نماز کی بجائے ڈانس کرکے عبادت کر سکتے تھے. اذان کی جگہ چیخیں مار کے لوگوں کو عبادت کے لیے بلا سکتے تھے۔مسجد کی بجائے اپنی عبادت گاہ کو ریلوے اسٹیشن یا کوئی اور اسٹیشن کہہ سکتے تھے۔کلمے کی بجائے اپنی عبادت گاہ پر غلام قادیانی کانے کی بونگیاں لکھ سکتے تھے۔لیکن مسلمانوں کی طرح کا کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔(یہ سب تجاویز میری ہیں عدالت کی نہیں)۔
یہ قادیانیوں کی ایک بڑی شکست تھی۔قادیانی دوسری بار عدالت سے بھی کافر قرار دے دیے گئے تھے۔اب وہ کسی اور موقعے کی تلاش میں تھے۔یہ موقع اس فیصلے کے 29 سال بعد 2013 کو ان کے ھاتھ آتا ہے۔22 ستمبر سنہ2013 میں پشاور میں ایک گرجا گھر پر حملہ ہوا جس میں کافی لوگ جاں بحق ہو گئے۔اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا جس کا مقصد تھا کہ آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں اقلیتوں کے جان و مال اور عبادتگاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔یہ قادیانیوں کے لیے ایک طرح سے لاٹری تھی۔عاصمہ جہانگیر زندہ تھی اور ماحول بھی سازگار تھا۔اس تین رکنی بینچ نے 19 جون سنہ 2014 کو فیصلہ دیا کہ ایک اقلیتی کمیشن قائم کیا جائے۔فیصلے میں لکھا گیا” ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مذہبی اقلیتوں کی عبادتگاہوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ حکام نے فوری کارروائی کی ہوتی تو ایسے واقعات کا سدباب بہت عرصہ پہلے ہو چکا ہوتا۔اس فیصلے کے کچھ دن بعد لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی جانب سے ایک عوامی اسمبلی بلائی گئی جس میں تین سو کے قریب صحافی دانشور مزدور راہنما مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور وکلا شامل تھے اس عوامی اسمبلی نے اقلیتی کمیشن کے قانون کا مسودہ تیار کیا۔اس میں خاص طور پر عبادتگاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس فورس کے قیام کی سفارش کی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی وہ عبادتگاہیں جن کی پولیس نگرانی کرتی تھی کہ وہاں کوئی قانونی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی وہی پولیس اب ان کا تحفظ کرتی۔یہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتوں کی عبادات کی آزادی کے لیے قائم کیا گیا تھا
2018ء میں اگست کی10تاریخ کو اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر لاہور میں اقلیتوں کے ایک نمائندہ کنونشن میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا تھا کہ وہ فی الفور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بااختیار قومی کمیشن قائم کرے۔یاد رہے کہ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو رولز آف بزنس 1973 شیڈول 2، (12)34 کے تحت وزارت مذہبی امور کے حوالے کیا گیا تھا۔کمیشن کی آخری ہیت اور نظرثانی شدہ ٹی او آرز کو 2014 میں ری نوٹیفائی کیا گیا تھا بعدازاں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلے کی ھدایت پر کمیشن کو ایک بار پھر تین سال کے لئے نوٹیفائی کیا تھا.اب موجودہ حکومت نے کہاں پر آ کر چالاکی دکھائی اور قادیانیوں کو اس میں شامل کیا. اقلیتی کمیشن میں شامل ممبران نے رائے دی کہ کمیشن کی خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اقلیتی برادری کو بڑھایا جائے اور کمیشن کا چئیرمین بھی کسی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے جو کہ قادیانی بھی ھو سکتا ھے….

پوائنٹ نمبر(1)۔وفاقی کابینہ نے مذہبی امور کی جانب سے جمع کرائی گئی سمری ” نیشنل کمیشن برائے اقلیت کی تشکیل نو” کی سمری کو اصولی طور پر منظور کرتے ہوئے کمیشن کے لیے اصول متعین کیے کہ کمیشن ممبران کی اکثریت کا تعلق اقلیتی برادری سے ہونا چاہیے۔کمیشن کا سربراہ بھی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے۔پوائنٹ نمبر (2)۔ احمدی کمیونٹی سے بھی ممبران کو کمیشن میں شامل کیا جائے۔پوائنٹ نمبر(3) بمطابق روزنامہ 92 نیوز 29 اپریل 2020. جیسے ہی قادیانی اس کمیشن میں شامل ہوتا اور اس نے ہو جانا تھا کیونکہ بدلے میں وہ کچھ ملنے والا تھا جو وہ 1984 میں عدالت سے نہیں لے سکے تھے۔کیونکہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتوں کو ان کی کھلے عام عبادت کی اجازت دیتا ھے۔عبادتگاہوں کے تحفظ کا حکم دیتا ہے ورنہ اس کمیشن کو نالے پراندے بیچنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا…یہ بکواس کہ قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے یہ بالکل جھوٹ ہے وہ اس قیمت کے بدلے ہزار بار خود کو اقلیت ماننے کے لیے تیار ہیں اگر بدلے میں ان کو مساجد کی تعمیر اور مسلمانوں کی طرح عبادت کا حق مل جائے۔یہ ایک عظیم سازش تھی1984 کا کیس اس کی شہادت دیتا ہے کہ قادیانی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان کو مسلمانوں جیسی عبادت کرنے کی پوری آزادی دی جائے لیکن ہر بار ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑااور اب اس کمیشن میں شامل ہوتے ہی ان کو سب کچھ مل جاتا جس کے لیے وہ ترلے لے رہے تھے۔اگر آپ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو ہر شخص اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ قادیانیوں کی سازشوں کا پردہ فاش ہو جائے اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیجیے تاکہ آنے والے وقت میں وہ بھی ختم نبوت کے سپاہی بن کر قادیانیت کا منہ کالا کر سکیں۔
سسرال یہودی,ننھیال قادیانی:
عمران خان کا قادیانیوں سے کیا رشتہ ہے؟عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا خاندان قادیانی ہے
کمشنر احمد حسن ولد منشی گوہر علی جالندھر والا کٹر قادیانی تھا، جس نے جالندھر بابا خیل میں پہلی قادیانی عبادت گاہ کی بنیاد رکھی-منشی گوہر علی کا شمار مرزا غلام قادیانی کے 313 اصحاب میں سے پندھرویں نمبر پر ہے،کمشنر احمد حسن کی اولاد بھی قادیانی تھی، جن میں سے ایک بیٹی شوکت خانم نے میانوالی کے اکرام اللہ خان نیازی سے شادی کی، (اکرام اللہ نیازی مسلمان تھے،مرحوم کے بیٹے نے یہودی لڑکی سے ویاہ رچایا تھا)۔کیا شوکت خانم نے قادیانیت ترک کرکے اسلام قبول کرلیا تھا یا نہیں؟ اس کا بہتر جواب تو اس کا صاحبزادہ وزیراعظم عمران خان نیازی، اس کی بہنیں یا باقی خاندان والے ہی دے سکتے ہیں -البتہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کمشنر احمد حسن کا باقی خاندان اور بیٹیوں کا سسرال اب بھی قادیانی ہیں، جن میں سے قابل ذکر عمران خان کے خالہ زاد بھائی خالد برکی، شاہد جاوید برکی تحریک انصاف کے سربراہ و سابقہ وزیر خزانہ بھٹو دور-واجد احمد برکی تحریک انصاف کے فائنانس مشیرشوکت خانم کے والدین، بہن بھائی و دیگر خاندان کٹر قادیانی تھے، کمشنر احمد حسن اور اس کا والد منشی گوہر علی جالندھر میں گاڑے گئے تھے۔تاہم عمران خان کا ننھیال آج بھی ایک کٹر قادیانی خاندان ہے،اس میں کوئی شک نہیں تحریک انصاف والے خود تحقیق کرسکتے ہیں،تمام نام واضح لکھے گئے ہیں۔مرزا غلام قادیانی کی کتاب “روحانی خزائن”جلد 11 صفحہ 325 کا مطالعہ کریں۔
جب یہ ثابت ہو چکا کہ عمران خان کے ننھیال قادیانی ہیں تو پھر ایک نظر اِدھر بھی!قسم اس رب ذوالجلال کی، جن لوگوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا وہ خود ذمہ دار ہیں، اور روز قیامت جواب دہی کے لیے بھی تیار رہیں، کہ جیسے ہی عمران خان نے نئے پاکستان کا اعلان کیا تونیا پاکستان بنتے ہی کراچی میں قادیانیوں کے تمام یونٹ متحرک کیا یہ محض اتفاق ہے؟فیصل آباد میں قادیانیوں کی ہلہ شیری اور مسلمانوں پر ظلم،کیا یہ محض اتفاق ہے؟وزیراعظم کا حلف برداری میں خاتم النبیین کا لفظ آخر دم تک درست نہ کہنا اور اس پر معنی خیز مسکراہٹ،کیا یہ محض اتفاق ہے؟صدر پاکستان کا حلف برداری میں خاتم النبیین کا جملہ پورا نہ کرنا اور لفظ “ہیں ” کو چھوڑ دینا،کیا یہ محض اتفاق ہے؟ایک کٹر قادیانی کو جان بوجھ کر مشیر مملکت بنانا،پھر عوامی دبا ؤپر ہٹایا تو اور مشیروں کا استعفیٰ،کیا یہ محض اتفاق ہے؟اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اطلاعات کا کھل کر قادیانیوں کے حق میں بولنا۔کیا یہ محض اتفاق ہے؟قادیانیوں کا اخبارات میں بڑے بڑے قادیانی فوجی عہدیداروں کو کھلے عام خراج تحسین پیش کرنے کا اشتہار دینا۔۔۔کیا یہ محض اتفاق ہے؟قادیانیوں کا اس خراجِ تحسین کے بڑے بڑے پینا فلیکس لگانے کی جرآت کر لینا،کیا یہ محض اتفاق ہے؟اسلام آباد میں قادیانیوں کے حق میں کھلم کھلا مظاہرے کا ہونا،کیا یہ محض اتفاق ہے؟اور ایسا سب پاکستان میں پہلی دفعہ ہونا،کیا یہ بھی محض اتفاق ہے؟ *مساجد کو زبردستی گرانا اور مدارس بند کرانامحض اتفاق ہے؟۔ قادیانی پروفیسر کے دبا میں آکر لاہور مینجمنٹ یونیورسٹی کے طلبا کو حکومتی پروٹوکول میں قادیانیوں کے مرکز ربوہ (چناب نگر)کا تعارفی وزٹ کرانا اور وہاں طلبا سے پریشر کے ذریعے قادیانیوں سے اظہار یکجہتی کرانا یہ بھی محض اتفاق ھے یاقادیانیوں کی حمایت؟۔
اور اگر زرا سا پیچھے جائیں تو،عمران خان کے دہرنے پر ایک قادیانی یونٹ کی بھرپور سپورٹ اور خرچہ اور لندن میں بیٹھے ہوئے اس یونٹ کے سربراہ کی کوئی کم و بیش دس میٹنگز میں یہ اعلان کہ عمران تو ایک مہرہ ہے،پیچھے ہم کھیل رہے ہیں،کیا یہ بھی محض ایک اتفاق تھا؟۔عمران خان کا ایک غیر ملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو میں یہ کہنا کہ ہم حکومت میں آ کر قادیانیوں کو مذہبی آزادی دلوائیں گے،یہ بھی محض اتفاق تھا؟بھرپور دھاندلی سے عمران کو جتوانا اور اہم علما کرام کو جان بوجھ کر اسمبلی سے دور رکھنا،یہ بھی محض اتفاق تھا؟قادیانی خلیفہ مسرور کو تحریک انصاف، لندن کی خاتون صدر کی طرف سے تعاون کی درخواست دینا اور اسکا قبول کرنا،یہ بھی محض اتفاق تھا؟عمران کا شہید ناموسِ رسالت ملک ممتاز قادری کو قاتل کہنا اور اب پھر ایک بار اسکے وزیر فیاض چوہان کا شہید ممتاز کو مجرم کہنا،یہ بھی محض اتفاق تھا؟۔ سینٹ میں قادیانی ترمیمی بل ایک بار پھر پیش کرنا،یہ بھی محض اتفاق تھا؟۔
اور اب ایک بار پھر آسیہ ملعونہ کو معاف کرنے کی بات کرنا,یہ سب کیا ہے مسلمانو!سنو اور جاگتے رہو, کیا یہ بھی محض اتفاق تھا؟؟؟خدا ناخواستہ کہیں تمہیں بالاتفاق ایمانی غیرت سے محروم نہ کر دیا جائے۔تمہارے ایمان کے ڈاکوؤں نے کہیں آپس میں اتفاق تو نہیں کر لیا؟اب تو محبانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ عمران نیازی کی حکومت کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ یہ عمران خان دراصل قادیانیوں کا بغل بچہ ہے۔قارئین!ذیل کی ہوش ربا معلومات پڑھیں،اگر ایسا ہو رہا ہے جو یقینا ہو رہا ہے تو اپنے ایمان کی خیر منائیں،یہی ایک عمل آپکی بربادی کے لئے کافی ہے۔
اگلا 5 سالہ خفیہ پلان بد قسمتی سے اسلام سے خارج قادیانیوں نے موجودہ حکومت کے آنے پر اپنی سر گرمیاں تیز کر دی ہیں۔اسلام آباد سے 20 کلو میٹر جھنگ روڈ پر دو مہینے پہلے قادیانیوں نے اپنے ایک خفیہ مرکز کیلئے زمین حاصل کی ہے. جس میں بیک وقت 50 ہزار لوگ رہائش پذیر ہوں گے۔اس مرکز کو ریڈ زون کی حیثیت حاصل ہو گی۔سیکورٹی اداروں سے لیکر صوبائی حکومت تک کو اس پر چھاپہ مارنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اسلام آباد سے 20 کلومیٹر دور واقع اس یہودی قادیانی قلعہ کی تعمیر کی اجازت بد قسمتی سے موجودہ عمران حکومت نے دی ہے۔اور این او سی پر دستخط اسلام پسند شہر یار آفریدی نے کیے ہیں, جو دفتر میں ہر آنے والے مہمان کے سامنے دن میں 19 دفعہ نماز پڑھتا ہے…..! پورے ملک اور خصوصا پنجاب، کراچی میں قادیانیوں نے اپنی عبادت گاہوں پر مینار لگانے اور مسجد لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔جو آئینِ پاکستان کی مکمل خلاف ورزی ہے۔کیونکہ آئین میں قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ کراچی سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں قادیانیوں نے خفیہ سوشل میڈیا نیٹ ورک شروع کیا ھوا ہے؟ جس میں اسلام سے بیزار سوشل میڈیا پر پیجز چلانے والوں کو گھر بیٹھے 15 سے 25 ہزار ماہانہ تنخواہ کی آفر کی جاتی ہے۔یہ تنخواہ ویب منی یا کارڈ کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔انٹرویو اسکائپ (Skype) پر لیا جاتا ہے۔ان لوگوں کا کام اسلام کے خلاف پرچار کرنا، عالمِ دین کو گالیاں بکنا، شعائرِ اسلام کا مذاق اڑانا، صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کرنا اور ختمِ نبوت پرڈاکا ڈالنا، ختمِ نبوت کیخلاف جھوٹے دلائل دینا، قرآن پاک کا غلط ترجمہ لوگوں کو بتانا اور اسلام سے، مدارسِ دینیہ سے، دعوت و تبلیغ سے، جہاد فی سبیل اللہ سے اور علما کی صحبت سے لوگوں کے دلوں کو متنفر کرنا۔ان نوجوانوں کو تیار مواد واٹس ایپ گروپس کے ذریعے مل جاتا ہے اور یہی مواد یہ لوگ آگے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ کراچی میں اس کا رجحان ایک خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ان نوجوانوں پر اعتماد کے بعد ان کو قادیانیت کے پرچار اور دفاع پر لگادیا جاتا ہے.بدقسمتی سے قادیانیوں کے اس جال میں پھنسنے والوں کی اکثریت کا تعلق حبِ عِمرانی میں مبتلا پاکستان تحریک انصاف کے نوجوانوں کی اکثریت سے ہے۔
قادیانی موجودہ حکومت کا دور پورا ہونے تک اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس پلان کے تحت سیاستدانوں کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی اپنے نمائندے بنارہے ہیں جو جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔اور بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قادیانیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر پرچار کرنے والوں کو سائیڈ پر کر دیا جائے. حالیہ محمد بلال خان سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کا قتل اسی سلسلہ کی ایک کڑی معلوم ہو رہی ہے۔اسلام پسند جماعتیں، ختم نبوت کے پاسبان اور محب وطن خفیہ ادارے قادیانیوں کے اس خفیہ پلان کا سراغ نکالیں۔جھنگ روڈ پر متوقع قادیانی قلعہ کی این او سی کو کینسل کرایا جائے۔ان کی عبادت گاہوں کو مساجد کی طرز پر بنانے کے خلاف کارروائی کی جائے۔ قادیانیوں کے سوشل میڈیا پر سیلاب کو روکنے میں خفیہ ادارے بھی اپنا کردار ادا کریں۔
اقلیتی کمیشن کے ممبران کی یہ سمری مذہبی امور کو بھیجی گئی۔