اسرائیل بمقابلہ فلسطین

فلسطین اسرائیل کیسے بنا
فلسطین کا معاملہ 1896 میں لکھی جانے والی کتاب دی جیوش سے شروع ہوتا ہے۔ جس کا مصنف تیوور ہیزل تھا وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو چاہیے کہ ان کا اپنا ایک الگ ملک ہو جہاں یہودی قانون لاگو ہو اور ہم آزادی سے رہ سکیں اب مرحلہ تھا کہ ایسے خطہ ارضی کا انتخاب کیا جا ئے جہاں یہودی آباد ہوں اور سارے یہودی اس بات پر متفق بھی ہوں 19 اگست 1897 سے لیکر 31 اگست 1897 تک تیووزہیزل نامی اس یہودی نے دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 300طاقتور اور امیر ترین یہودیوں کو جمع کیا۔اور اس سیمنار کامقصد یہ تھا کہ کیسے یہود کو راضی کیا جا سکے کہ ہم یہودیوں کا بھی اپنا ایک الگ ملک ہونا چاہیے اور وہ زمین کا کون سا حصہ ہو گا جس پر سار ے راضی ہونگے کیونکہ کسی بھی یہودی خاندان کو دنیا کے کسی بھی کونے سے نکالنا کافی مشکل کام تھا جہاں وہ بڑی آرام و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس وقت زمین حاصل کرنا اہم تھا ملک وہ کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ اور پھر 31 اگست کو اعلان ہوا کہ فلسطین کو مسکن بنایا جائے گا کیونکہ یہود کی سر زمین فلسطین سے روحانی وابستگی ہے اس لئے ایک کافی بڑی تعداد یہود کی فوری طور پر راضی ہو جائے گی اور مالی اور افرادی تعاون بھی مہیا کریں گے۔اس سمنیار کے بعد تیوور ہیزل نے سلطان عبد المجید ثانی کو تحفے تحائف بھیجے اور درخواست کی کہ دنیا کے یہودیوں کو فلسطین میں داخلہ کی اجازت دی جائے مگر سلطان نے صاف انکار کر دیا۔اس کے بعد ہیزل نے ایک کمپنی امریکہ،یورپ اور برطانیہ کے یہودیوں کے ساتھ ملکر بنائی جس کا مقصد فلسطین میں رہنے والے یہودی خاندانوں کو طاقتور کرنا تھا تاکہ وہ وہاں زمین خرید سکیں اور آنے والے یہودیوں کو خوش آمدید کر سکیں۔
1914 جنگ عظیم اول کو بہانہ بنا کر بے شمار یہودیوں کی سرزمین فلسطین کی طرف ہجرت کروائی گئی ان کے دل میں خوف ڈالا گیا کہ اب یورپ کی زمین غیر محفوظ ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں تقریبا ًچھ لاکھ یہودیوں کی آباد کاری فلسطین میں ممکن بنائی گئی جن کے لئے پہلے گھر اور زمین کا مسئلہ وہاں موجود پہلے سے آباد یہودیوں نے حل کیا ہوا تھا اور یوں انھیں آباد ہونے میں ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا جو اکثر اوقات اتنی بڑی ہجرت کے بعد کرنا پڑتا ہے
1914 کی جنگ عظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کی گرفت بھی اسقدر کمزور ہو گئی کہ اسے دو حصوں میں فاتحین جنگ برطانیہ اور فرانس نے تقسیم کر لیا اور یوں فلسطین کا حصہ برطانیہ کے حصے میں آیا 25 نومبر 1914 کو ساتھ ہی اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطین پر یہودی حکومت کی اجارہ داری کو تسلیم کر لیا جائے جس کے لئے اقوام متحدہ کے فورم پر ایک قرار پیش کی جاتی ہے گو کہ اس وقت اقوام متحدہ اپنی اس شکل میں موجود نہیں تھا مگر ادارہ اپنے طور پر کام کر رہا تھا اور چند ممالک اس کا حصہ تھے اس قرارداد پر عمل درآمد کے لئے ایک یہودی جس کا نام سمائل تھا مقرر کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیرونی دنیا سے رابطہ کر کے ریاست کے قیام کی حتمی شکل ترتیب دے۔
1920 میں ہی جنگ برطانیہ کا فاتح چرچل القدس شریف کا دورہ کرتا ہے اور وائٹ پیپر جاری کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم یہودیوں کے الگ ملک کی حمایت کرتے ہیں
1920سے 1930 نازی اپنی طاقت کو یکجاء کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو کہ یہودیوں کے مخالف تسلیم کئے جاتے تھے فلسطین میں آباد یہودی یورپ میں بسنے والے یہودیوں کو ڈراتے تھے کہ نازی تمہیں قتل کر دیں گے۔ اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد ہولو کاسٹ کا ڈھونگ رچایا گیا اور پھر 14 مئی 1948 کو برطانیہ نے اعلان کیا کہ ہمارا فلسطین پر قانونی قبضے کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے اسی دن یہودیوں نے اپنے الگ ملک کا اعلان کیا جس کا نام اسرائیل رکھا گیا اسی دن ظہر کے بعد اقوام متحدہ میں اسرائیل کے حق خودمختاری کو ماننے کے لئے ووٹنگ ہوتی ہے جسے اکثریت کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور ٹھیک ووٹنگ کے تین منٹ بعد برطانیہ اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے اور آٹھ منٹ بعد امریکہ اسرائیل کو آزاد خود مختار ملک مان لیتا ہے اور یوں فلسطین کانام دنیا کے نقشے سے مٹا کر ایک باہر سے لائی ہوئی قوم کو فلسطین میں آباد کر دیا جاتا ہے۔ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کریہودیوں کو دے دیا جاتاہے قبلہ اول پھر کسی صلاح الدین ایوبی کی راہ تکتا ہے مگر بے حس، بے شرم،اپنے مسائل میں گھرے، امیر ترین مسلم دنیا کے عیاش ترین لفنگے حکمران اس بات کا ادراک ہی نہیں کرتے۔کشمیر،بورما،لیبیاء عراق،شام،فلسطین، یمن کی سلگتی آگ آہستہ آہستہ بیت اللہ کی طرف بڑھ رہی ہے گریٹر اسرائیل کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں راستے کے ہر کانٹے کو اٹھا باہر کیا جا رہا ہے اور ہم خواب غفلت کے مزے لے رہے ہیں
اسرائیل بمقابلہ فلسطین۔حقائق کیا ہیں؟
اسرائیل کا مقدمہ کیا ہے؟ اسرائیل کا مقدمہ یہ ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جسے امریکہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، حماس کا نعرہ ’اسرائیل کی تباہی‘ ہے۔
حماس کی عملداری غزہ میں ہے جہاں اُس نے اسکولوں، اسپتالوں اور سول عمارتوں میں اپنے دفاتر اور اڈے قائم کر رکھے ہیں، یہاں سے حماس کے دہشت گرد اسرائیل کے شہری علاقوں پر راکٹ برساتے ہیں۔ اسرائیل کو مجبوراً اپنے دفاع میں کارروائی کرنی پڑتی ہے اور حماس کے اِن ٹھکانوں کو نشانہ بنانا پڑتا ہے۔ حماس چونکہ جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے اِس لئے اسرائیل کے حملوں میں بچے اور عورتیں بھی ہلاک ہوتے ہیں مگر اِس کی تمام تر ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے۔
ثبوت اِس کا یہ ہے کہ حالیہ حملے بھی صرف حماس کے ٹھکانوں پر کیے گئے جو غزہ میں قائم ہیں جبکہ مغربی پٹی پر اسرائیل نے کوئی بمباری نہیں کی۔اسرائیل چونکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہے اِس لئے اسرائیل کو اپنی حفاظت کے لئے سیکورٹی حصار قائم رکھنا پڑتا ہے جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
فلسطینیوں کا مقدمہ کیا ہے؟فلسطینیوں کا مقدمہ یہ ہے کہ اسرائیل اُن کی زمین اور بیت المقدس پر قابض ہے، اقوامِ متحدہ بھی فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی کہتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کوئی ریاست ہے اور نہ ہی اِس کی کوئی حیثیت، یہ اسرائیل کی ایک کالونی ہے جہاں اسرائیلی فوج کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، کسی قسم کی تجارت اور نقل و حرکت اسرائیل کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی، ایک طرح سے فلسطینی اسرائیل کے قیدی ہیں جن کے کوئی سیاسی حقوق نہیں۔
اِن حالات میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا اُن کا حق ہے، یہی حق حماس استعمال کرتا ہے جو دہشت گردی نہیں بلکہ حق خود ارادیت ہے۔حالیہ تنازعے میں اسرائیل نے غزہ کو بمباری کرکے کھنڈر بنا دیا، دنیا نے اپنی آنکھوں سے غزہ کی شہری عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا، بچوں کو اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرتے دیکھا۔اگر اسرائیل کے دس لوگ مرے تو فلسطین کے دو سو سے زائد جن میں ایک، دو، چار اور پانچ سال کے بچے بھی شامل تھے۔
حقائق کیا ہیں؟دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے مسئلہ فلسطین اقوامِ متحدہ کے سپرد کر دیا تھا، اقوامِ متحدہ نے 1947میں فلسطین کو یوں تقسیم کیا کہ فلسطین کے ساتھ اسرائیل کا قیام بھی عمل میں آ گیا مگر یہ تقسیم ایسی تھی کہ کہیں فلسطینی علاقہ تھا تو کہیں اسرائیلی اور اِن علاقوں کے ٹکڑے آپس میں گڈ مڈ تھے۔ تاہم دونوں ریاستیں رقبے میں تقریباً برابر تھیں۔
سن 48میں عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ جنگ چھیڑ دی، اسرائیل جنگ جیت گیا اور نتیجے میں اُس نے فلسطین کے مزید ایک تہائی علاقے پر قبضہ کر لیا۔67میں پھر عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ اِس مرتبہ اسرائیل نے غزہ، مغربی پٹی، گولان کی پہاڑیوں اور جزیرہ نما سنائی پر قبضہ کرکے تمام عرب ممالک کے کس بل نکال دیے۔
گویا 47 میں جن دو ریاستوں کا رقبہ برابر تھا، 67 میں اُس میں سے ایک ریاست کا وجود ہی ختم ہو گیا جبکہ دوسری ریاست اسرائیل کا رقبہ قبضے کے بعد دوگنا سے بھی بڑھ گیا۔ اقوامِ متحدہ پھر بیچ میں کودی اور ایک قرار داد میں یہ ’فیصلہ‘دیا کہ اسرائیل تمام مقبوضہعلاقوں سے باہر نکل جائے جس پر اسرائیل نے عمل نہیں کیا۔آدھی دنیا کی نظر میں حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، مگر روس، چین اور ناروے اسے دہشت گرد نہیں کہتے۔
اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ اُس کی کارروائی کے نتیجے میں بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کی مکمل ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے، بے بنیاد ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کو ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حماس نے اسکولوں اور اسپتالوں میں اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ خود اسرائیلی اخبار ’ہا آرٹز‘ میں شائع ہونے والیایک مضمون میں بھی اسرائیلی کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
لیکن اِس بات کا سہرا اسرائیل کو جاتا ہے کہ اُس کی فوج کی کارروائی کے خلاف اسرائیلی اخبارات میں ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں اور اُن پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ جہاں تک حماس کی بات ہے تو اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے میں حماس نے پہل کی جو سراسر حماقت تھی، جس کی قیمت بے گناہ فلسطینیوں کو چکانی پڑی۔
مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کیوں ہے؟ اِس لئے کہ اسرائیل انہیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے دفاع میں کرتا ہے۔ اسرائیل کے پاس ایک بیانیہ Anti Semitismکی شکل میں بھی موجود ہے،جہاں کہیں مسلمان اسرائیل کی بجائے لفظ یہودی استعمال کرکے تنقید کرتے ہیں، ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جس طرح ہر مسلمان عرب نہیں اور ہر فلسطینی مسلمان نہیں (پی ایل او میں مسیحی میں شامل تھے) اسی طرح ہر یہودی اسرائیلی نہیں، دنیا میں بے شمار یہودی صہیونی ایجنڈے کے مخالف ہیں۔ لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود آخری تجزیے میں اسرائیل پر امریکہ اور مغربی دنیا کا موقف سوائے بد معاشی کے اور کچھ نہیں، اینجلا مرکل جیسی عورت بھی اسرائیل کے مظالم کو نظر انداز کرکے اُس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کرکھڑی ہے جوشرم کا مقام ہے۔ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے اور حق دفاع کے نام پر بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا بیدریغ قتلِ عام کرتاہے تاہم حماس بھی اسرائیلی شہریوں کے قتل سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔
حل کیا ہے؟ اسرائیل فلسطین کے مسئلے کا حل امریکی صحافی فرید ذکریا نے دیا ہے۔ فرید ذکریا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا جی ڈی پی مصر کے مقابلے میں چودہ گنا اور سعودی عرب سے دگنا ہے، فوجی قوت میں بھی اسرائیل کا کوئی مقابل نہیں۔ اِن حالات میں فلسطینیوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ دنیا کو اخلاقی دلیل سے قائل کریں کہ نوے لاکھ اسرائیلی پچاس لاکھ فلسطینیوں کو بغیر کوئی سیاسی حق دیے اُن پر حکومت کر رہے ہیں جو آج کی دنیا میں ناقابلِ قبول بات ہے۔ یہ واحد راستہ ہے جو فلسطینیوں کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کر سکتا ہے۔ باقی رہا عالم اسلام، اُس کی آنیاں جانیاں ہم نے دیکھ لی ہیں!
مظلوم فلسطین,غاصب اسرائیل اور حماس مزاحمت اور حریت کی وجہ سے اسرائیل حماس کو دہشتگرد تنظیم کہتا ہے۔ کیا حماس حملے غلط کررہی ہے؟ عام فلسطینی حماس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ عام مسلمان قبلہ اول سے محبت کیوں کرتا ہے؟ اور یہ محبت دلیل کے ساتھ نئی نسل کے سینوں میں منتقل کرنا کیوں ضروری ہے؟ زیر نظر بلاگ میں ان سوالوں کے جواب پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ راقم کو غزہ میں صحافیوں سے رابطہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ ان 11 دنوں کی جنگ نے بھی وہاں کا سارا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔ ان سوالات کے جواب کیلئے راقم نے چند صحافیوں سے گفتگو کی اور اس کا لب لباب قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔عالمی سازش اور امریکا و برطانیہ کی پشت پناہی کی وجہ سے فلسطین اس وقت تقریبا 98 فیصد تک مقبوضہ ہوچکا ہے اور جو باقی 2 فیصد ہے، وہ بھی ٹکڑوں کی شکل میں ہے۔ ایک مغربی پٹی ہے، ایک مشرقی یروشلم کا کچھ علاقہ ہے اور ایک غزہ ہے۔ مغربی پٹی میں محمود عباس کی حکومت ہے، جس کو امریکیوں کی آشیرباد حاصل ہے اور دوسری جانب غزہ ہے جہاں پر حماس کی حکومت ہے۔ حماس کو مزاحمت اور حریت کی وجہ سے اسرائیل دہشتگرد تنظیم کہتا ہے۔میرے ایک فلسطینی صحافی دوست نے بتایا کہ غزہ کا رقبہ لاہور سے بھی کم ہے۔ اس میں ایک جانب سمندر ہے اور تین جانب قید ہے۔ یہاں سے باہر آنا جانا تقریبا ناممکن ہے اور ایک دو خفیہ راستوں کے علاوہ باقی سب راستے اسرائیل کے پاس ہیں۔ حماس کو جب غزہ کا اقتدار ملا تھا تو کافی پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ آئے دن اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے اور زمینی کارروائی ہوتی تھی اور بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جاتا تھا۔ یہ قتل عام کے الفاظ میں محاورتا استعمال نہیں کررہا ہوں بلکہ حقیقت میں ایسا ہوتا تھا۔ لائن میں کھڑا کرکے فائرنگ اسکواڈ ان کو گولیوں سے چھلنی کردیتا تھا اور اس کے بعد ان کو دہشتگرد قرار دے دیا جاتا تھا۔حماس کو اقتدار ملنے تک 4 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے تھے۔ فلسطینیوں کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاری تھی اور بنیادی انسانی حقوق عالمی مسئلہ ہیں۔ اس وقت 8 لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین پڑوسی ممالک میں پناہ حاصل کیے ہوئے تھے۔ اسرائیل کا جب جی چاہتا تھا وہ غزہ پر بمباری کردیتا تھا، جس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا تھا اور انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہوتا تھا۔ 2007 میں حماس کے آنے کے بعد اسرائیل کی جانب سے اوسطا 10 فضائی حملے فی ماہ سے یک دم کم ہوکر اب ختم ہوچکے ہیں اور اب اسرائیل صرف جنگ میں فضائی حملہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل فضائی حملے نہیں کرتا۔ اور اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ اسرائیل کو اب مزاحمت اور جواب کا خوف ہے۔حماس نے پہلا راکٹ جب فائر کیا تھا تو اس کی رینج 1.5 کلومیٹر تھی، جو کہ اب بہتر ہوتے ہوئے 250 کلومیٹر تک ہوچکی ہے۔ حالیہ 11 دنوں کی جنگ میں اسرائیل نے حماس کی جانب سے مزاحمت کو بھگتا ہے اور اب پھر سے یہ بحث اسرائیل میں شروع ہوچکی ہے کہ اسرائیل کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں حماس سے صلح کرنی چاہیے، جنگ سے اسرائیل کا نقصان ہے۔حماس کی جانب سے جیسے ہی راکٹ فضا میں بلند ہوتے ہیں تو اسرائیل بھر میں سائرن بج اٹھتے ہیں اور پورا اسرائیل پناہ کی تلاش میں بنکرز یا قریبی پناہ کی جانب بھاگتا ہے۔ آئرن ڈوم کے بار بار فیل ہونے کی وجہ سے اب عام اسرائیلی سائرن کی آواز سنتے ہی خوف سے بے حال ہوتا ہے۔ یہ افراتفری اسرائیل میں بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کا باعث ہے۔ اس صورتحال نے عام اسرائیلیوں میں فرسٹریشن اور ڈپریشن کو بھی پیدا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ سے تھک چکے اسرائیلیوں کی آواز اب پارلیمنٹ میں بھی سنائی جاتی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے باسی سمجھتے ہیں کہ اب ماضی کی طرح ان کا قتل عام حماس کی موجودگی میں نہیں ہوسکتا ہے۔حالیہ جنگ بندی کے بعد بی بی سی نے جب وہاں کے رہائشیوں سے گفتگو کی تو اکثریت حماس سے مطمئن تھی، اس کی مزاحمت کے حق میں تھی اور دوبارہ سے حماس کو ہی الیکشن میں کامیاب کروانے کیلیے یکسو بھی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ محمود عباس نے الیکشن ملتوی کیے تاکہ وہ شکست کا سامنا نہ کرسکے۔یہ میں رپورٹ نہیں کررہا ہوں بلکہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ دے رہا ہوں کہ حماس نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ بی بی سی کے مشرق وسطی کے ایڈیٹر جیریمی باوون کی تجزیاتی رپورٹ کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ حماس اس جنگ میں فاتح رہا ہے۔ شیخ الجراح میں آپریشن کا روکا جانا اور گرفتار فلسطینیوں کی رہائی حماس کا ہی مطالبہ تھی۔ مسجد اقصی سے فوج بھی نکالی جاچکی ہے۔اگر ہم مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر مذہبی مسئلہ کے طور پر بیان کریں تو ہم اپنا کیس کمزور کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ مغرب کیلیے مذہب کی حیثیت ثانوی یا نہ ہونے کے برابر ہے، لہذا اگر اہل مغرب کو فلسطین کا مسئلہ سمجھانا ہے تو انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ صدیوں سے قائم آبادیوں کو یہودی آباد کاری کے نام پر صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ اسکول، اسپتال، گھروں کو بمباری میں تباہ کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندا جارہا ہے اور اسرائیل اس وقت فلسطین کے 98 فیصد حصے پر قابض ہوچکا ہے۔ہمیں فلسطین سے محبت اگرچہ مذہبی بنیادوں پر ہی ہے اور میں یہاں 30 ایسی وجوہات لکھ سکتا ہوں کہ کیوں فلسطین سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ انبیا کی سرزمین ہے۔ یہاں کئی جلیل القدر مسلمانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ رسول اللہ کی اس شہر سے محبت بھی مثالی تھی اور اس شہر کو آزاد کروانے والوں کیلیے بشارتیں بھی ہیں۔ واقعہ معراج میں آسمانی سفر کا آغاز اسی شہر سے ہوا تھا۔ یہ سرزمین معجزات کی سرزمین ہے۔ الغرض کہ مسلمان تو اس شہر سے مذہبی بنیادوں پر بھی محبت کرتے ہیں لیکن اقوام عالم کیلیے فلسطین کے مسئلے کو بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ دکھائیں گے تو ہی رائے عامہ ہمارے حق میں ہموار ہوگی۔بوقت تحریر غزہ میں امدادی کام اور بحالی کی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان نے محض لفظی ساتھ نہیں دیا بلکہ جیسے ہی جنگ بندی ہوئی ہے تو پاکستان کی الخدمت فانڈیشن کے رضاکار ترکوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر غزہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے، جس میں راشن، پکے پکائے کھانے وغیرہ شامل ہیں۔ امید یہی ہے کہ اسرائیل اس نقصان سے سمجھے گا اور اب اپنے داخلی انتشار پر توجہ دے گا۔ اسرائیل کو سمجھ جانا چاہیے کہ جہاں وہ حملے کر رہا ہے وہ موت سے گھبراتے نہیں ہیں اور جس کو موت کا خوف نہ ہو اسے ہرانا کیسے ممکن ہے؟امریکا کی اوہائیو یونیورسٹی کے ایک محقق جان کویگلی، اسرائیل فلسطین تنازع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی 2016 میں شائع شدہ کتاب ہے:
The International diplomacy of the Founders of Israel: Deception at the United Nations in the Quest for Palestine
(اس عنوان کا ترجمہ یہ کیا جا سکتا ہے: ”اسرائیل کے بانیوں کی عالمی ڈپلومیسی: فلسطین کے قیام کیلیے اقوام متحدہ کو کس طرح دھوکا دیا گیا۔“)
کتاب میں مصنف کویگلی، صہیونی لیڈران کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جس کے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے۔
آج بھی دوسرے شبعوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی ڈپلومیسی بہت کامیاب ہے اور اسی لیے فلسطینیوں پر تمام مظالم کے باوجود اسرائیل اور اس کے حواری دنیا بھر میں یہ واویلا کرتے ہیں کہ ’اسرائیل کو اپنی بقا کا حق ہے۔‘ حالیہ تنازع میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یہی بیان دیا۔
ہم اکثر یہ جملے سنتے ہیں کہ ’اسرائیل کو قائم رہنے کا حق ہے‘ اور ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔‘ یہ دو جملے اتنے تواتر سے بولے جاتے ہیں کہ خود ہمارے دانشور بھی ان جملوں سے موم ہو جاتے ہیں اور ہمیں یقین دلانے لگتے ہیں کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور ہمارے اسے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بلاتامل ہمیں اپنے قومی مفاد میں اسے تسلیم کرلینا چاہیے)۔
یہاں یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ پچھلے 72 سال میں اسرائیل کی بقا کا حق مسلسل فلسطینیوں سے ان کی بقا کا حق چھین رہا ہے۔ میں اپنے پچھلے بلاگ میں اس امر پر مختصراً روشنی ڈال چکی ہوں کہ اسرائیل کے قیام کے بعد پچھلے 72 سال میں مسلسل نہتے فلسطینیوں سے ان کی بقا کا حق چھین کر انہیں اوپن ایئر کنسنٹریشن کیمپس میں محصور کردیا گیا ہے۔
اس کے باوجود ہمارے ہاں بعض بظاہر سمجھدار حضرات اسرائیلی پروپیگنڈے کا لاؤڈ اسپیکر بن کر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگ اسرائیل کی حمایت محض اس لیے کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ پرانے بیانیے سے بور ہوگئے ہیں اور اب کوئی نیا بیانیہ سامنے لانا چاہتے ہیں جس کیلیے تاریخی حقائق کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔
اس ضمن میں اتنے بودے دلائل سامنے آتے ہیں کہ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب عربوں نے اسے تسلیم کرلیا تو ہمیں بھی کرلینا چاہیے۔ راقم کے نزدیک یہ کوئی دلیل نہیں۔ ہر ملک کو اپنی اقدار، عوامی خواہشات، فائدے اور نقصان کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔
ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان اور اسرائیل کے مابین تجارت کھل جائے گی اور ہمیں برآمدات کیلیے نئی مارکیٹ ملے گی۔ عرض یہ ہے کہ اسرائیل کی کل آبادی دس ملین (ایک کروڑ) سے بھی کم ہے۔ اس میں فلسطینی اتھارٹی میں محصور فلسطینیوں کی آبادی شامل کرلی جائے تو بھی کل ملا کر آبادی مشکل سے 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) سے بھی کم بنتی ہے۔
مان لیتے ہیں کہ اس معمولی سی مارکیٹ سے ہماری معیشت ایک اونچی اڑان بھرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن یہاں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ہزار گنا بڑی چین کی ڈیڑھ بلین کی مارکیٹ جو پچھلے ستر سال سے ہماری منتظر ہے، اس میں ہم نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے؟ شاہراہ قراقرم پر پاک چین بارڈر پر ٹرکس پاکستان میں چینی پروڈکٹس سے لدے ہوئے داخل تو ہوتے ہیں لیکن جاتے خالی ہیں۔
آپ کی معیشت محض تعلقات سے نہیں بدلتی بلکہ اس کے پیچھے تجارت بڑھانے کیلیے سیاسی عزم، ٹارگٹ مارکیٹ میں پروڈکٹس لانچ کرنے سے پیشتر کثیر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ہم ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
اس کے بعد بھی ٹریڈ ڈپلومیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین جب آزاد ہوا تو اس کا حال پاکستان سے بہت زیادہ ابتر تھا۔ ان کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بھی ذرائع نہیں تھے لیکن پچھلے ستر سال میں وہ سیاسی عزم، تحقیق، پلاننگ اور انتھک محنت سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟
ہم صرف ان تعلقات کو استعمال کرکے انہیں مارکیٹ ہی دے رہے ہیں۔ کاش کبھی کسی پاکستانی یونیورسٹی میں یہ تحقیق ہو کہ چین کی معاشی ترقی میں پاکستانی مارکیٹ کا کیا کردار ہے؟ اور ایسا ہم نے اپنی کتنی صنعتوں کی قربانی دے کر کیا ہے؟
خیر اس وقت بات اسرائیل کی ہو رہی تھی۔
ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسرائیل ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت آگے ہے، وہ ہمیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرے گا جس سے ہمیں ترقی کرنے میں مدد ملے گی۔ ان لوگوں کیلیے عرض ہے کہ دنیا میں ٹیکنالوجی، تحقیق اور علم کے حوالے سے سب سے بڑا نام آج بھی امریکا کا ہے جس کے ہم پاکستان کے قیام کے آغاز سے سرکاری طور پر اتحادی رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کتنی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ہم سے کہیں زیادہ اس شعبے میں خود چین اور بھارت نے کامیابی حاصل کی، جنہوں نے مغربی تعلیم اور تحقیق کی اہمیت کو سمجھا اور لاکھوں کی تعداد میں طلبا کو امریکا بھیجا تاکہ وہ امریکا سے کچھ سیکھ سکیں۔
ہمارے ہاں آج تک یہ بحث ہی ختم نہیں ہوئی کہ مغربی تعلیم کے بداثرات سے کہیں ہم اپنی اقدار تو نہیں کھو دیں گے اور ہماری نسلیں تو تباہ نہیں ہوجائیں گی؟
ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسرا نمبر اور کچھ لوگوں کے نزدیک پہلا نمبر، تیزی سے ابھرتے ہوئے چین کا ہے، جس سے ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ اس چین سے ہم نے کتنی ٹیکنالوجی حاصل کرلی جو اسرائیل سے منتقل کریں گے؟
ان دانشوروں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل تیار بیٹھا ہے کہ اِدھر پاکستان اسے تسلیم کرے اور اُدھر وہ پاکستان کو طاقتور بنانے کیلیے ٹیکنالوجی منتقل کردے۔ پھر اسرائیل نے ان عرب ملکوں میں کتنی ٹیکنالوجی منتقل کی جنہوں نے اسے تسلیم کرلیا ہے؟ ان میں مصر (1978)، اردن (1994) اور حال ہی میں کچھ دوسرے مسلم ملک بھی شامل ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دنیائے عرب میں مصر کی غربت فقیدالمثال ہے۔
اس کے برعکس ایران ہے جو 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم ملک تھا لیکن 1979 کے انقلاب بعد اس نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرلیے اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں اسرائیل اگر کسی ملک کی عسکری طاقت اور ہتھیاروں کی تیاری سے پریشان ہے تو وہ ایران ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایران کے انقلابی لیڈرز مسلسل اسرائیل کے خلاف بیانات دیتے رہے اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے۔ اس کے باوجود ایران عراق جنگ کے دوران ایران کو ہتھیاروں کی ضرورت پڑی تو وہ اسرائیل سے ہی خریدے گئے۔ یعنی ڈپلومیسی بہتر ہو تو وقت پڑنے پر دشمن سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ہم یاد دلا دیں کہ یہ وقت وہ تھا جب تہران میں امریکی سفارت خانے کا محاصرہ تھا اور کثیر تعداد میں امریکی سفارت کار اور عملہ محصور تھا۔
اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران امریکا اور چین کے اتحادی ہم تھے۔ اب رچرڈ نکسن اور ہں ری کسنجر کی رسمی اور غیر رسمی میٹنگز کی ٹیپس ڈی کلاسیفائی ہوچکی ہیں۔ نکسن انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو اور اندرا گاندھی کے مقابلے میں صدر ایوب اور یحییٰ کو بہت پسند کرتا تھا۔ اس کے باوجود انڈیا کی سفارت کاری کی کامیابی کہ امریکا کا اتحادی نہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اس نے مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کے نام پر امریکا سے سو ملین ڈالر امداد حاصل کی بلکہ امریکی کانگریس کے ذریعے پاکستان کو ہتھیاروں کی ترسیل بھی رکوا دی۔
دوسری طرف غیر جانبدار ممالک کے گروپ کا ممبر ہوتے ہوئے بھی اندرا گاندھی اگست 1979 میں روس سے ہتھیاروں کا ایک بڑا معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگئیں۔ پاکستان، چین اور امریکا کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی ان سے کچھ حاصل نہیں کرسکا۔
اس آپریشن کے دوران صورتحال یہ تھی کہ دنیا بھر کے ممالک نیشن اسٹیٹ کے تصور کے تحت ملکی خود مختاری (sovereignty) کے اصول کے قائل تھے۔ اس لیے پاکستان کے خلاف بھارت کی سفارتی کوششوں کے جواب میں بھارت سے ہمدردی رکھنے کے باوجود کسی ملک نے کھل کر بھارت کی پاکستان میں در اندازی کی حمایت نہیں کی۔ لیکن بھارت نے اس سے ہار نہ مانی، بلکہ وہ مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کو بہانہ بنا کر اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رونا رو رو کر حکمرانوں کو نہیں تو نوبل پرائز حاصل کرنے والے سائنس دانوں، آرٹسٹس، انٹلیکچوئل حضرات سے مشرقی پاکستانی آبادی کے حق میں بیانات لینے میں کامیاب ہوگیا۔بھارت نے فنکاروں تک کو پاکستان کو بدنام کرنے کیلیے استعمال کیا۔ معروف پاپ سنگر جارج ہیریسن کے ”بنگلادیش“ نامی کنسرٹ پر راقم کا تفصیلی فیچر موجود ہے جس سے بھارت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں کثیر فائدے حاصل کیے اور امریکی حکومت کو بھی دباؤ میں لیا گیا۔
بھارت نے اپنی عالمی ڈپلومیسی کے بل پر دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں جینوسائیڈ کا مرتکب ہورہا ہے۔ جینو سائیڈ (کسی قوم کی ارادتاً نسل کشی) ایک قانونی اور تکنیکی اصطلاح ہے جسے بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کے استعمال میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے عام طور پر کسی قوم پر اس کے الزام سے قبل اس کی وسیع تحقیقات کرواتے ہیں۔ لیکن انڈیا آپریشن کے شروع سے پاکستان پر الزام لگاتا رہا کہ پاکستان بنگالیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ ہمارے ہاں کسی نے اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی اہلیت ہی نہ تھی۔
؎ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی ملک سے تعلقات رکھنا، اس کا اتحادی بننا اور بات ہے اور ان تعلقات کو اپنے حق میں استعمال کرنا، اپنی معیشت بہتر بنانے کیلیے استعمال کرنا یا اس سے ٹیکنالوجی یا ہتھیار حاصل کرنا ایک بالکل الگ امر۔ مؤخرالذکر کیلیے آپ کو ڈپلومیسی کے محاذ پر جنگ لڑنی پڑتی ہے۔
فلسطین کی موجودہ صورتحال میں مسلم دنیا کے عوام بہت تکلیف محسوس کر رہے ہیں اور اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ریلیوں کا کیا فائدہ ہے؟ عالمی اداروں نے تو خود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جنم دیا، وہ کیوں فلسطینیوں کے حق میں کچھ کریں گے؟ انسانی حقوق کی بات کرنے سے کیا ہوگا؟ کیا اسرائیل ایسی باتوں سے متاثر ہوکر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے پر راضی ہوجائے گا یا انہیں دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کردے گا؟ غزہ کا محاصرہ ختم ہوجائے گا؟
اتنا سمجھ لیجیے کہ کسی بھی ایسے مسئلے کے حل کیلیے کثیر جہتی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنا بھی شامل ہے اور ڈپلومیسی اور اظہار یکجہتی بھی، علمی اور تحقیقی کام کی بھی، ابلاغ کی طاقت کے استعمال کی بھی، جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنے کی اور جہاد کیلیے طاقت پکڑنے کی بھی۔
خود سیرت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ اپنی پوری زندگی ڈپلومیسی کی بہترین اہلیت استعمال کرتے ہوئے قبائل سے معاہدے بھی کرتے رہے۔ ان معاہدوں کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں، جنگیں بھی لڑی گئیں، رومی سلطنت اور فارس کے چھوٹے اور بڑے بادشاہوں کو اس دور کے ابلاغ کے انسٹرومنٹس استعمال کرتے ہوئے دعوتیں بھی بھیجی گئیں، بہترین اخلاق کا مظاہرہ بھی کیا گیا، ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا کام بھی مسلسل جاری رہا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے کام بھی چلتے رہے، انہیں بھی موقوف نہیں کیا گیا، مثلاً تجارت، شادیاں اور جنگی قیدیوں تک کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بڑھانے کی کوشش بھی جاری رہی؛ اور ایک ایسے وقت میں جاری رہی جب مسلمانوں کی اپنی بقا شدید خطرے میں تھی۔
مدینے کی چھوٹی سی ریاست چاروں طرف سے اور اندرونی طور پر بھی دشمنوں سے گھری ہوئی تھی۔ اس طرح آہستہ آہستہ ڈپلومیسی دعوت کے ذریعے معاہدوں کے ذریعے طاقت بھی پکڑی گئی۔ یہود سے معاہدے بھی کیے گئے اور ان کی خلاف ورزیوں پر انہیں سزا بھی دی گی۔
اب آئیے موجودہ انتہائی پیچیدہ صورتحال کی طرف جس میں ہم مسلمان شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ خود ہماری اپنی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کی زبان بول رہے ہیں اور ایسے لوگ بھی جو اسرائیل پر فوری چڑھائی کیلیے بے چین ہیں۔
فی الحال اتنا سمجھ لیجیے کہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، ان کے انسانی حقوق کیلیے آواز اٹھانا، علمی اور تحقیقی مواد مرتب کرنا، عالمی تنظیموں میں ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے ذریعے ان کے حق میں بین الاقوامی قوانین اور اصطلاحات کا استعمال کرکے بات کرنا، یہ سب مختلف محاذ ہیں، جن میں سے ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔
کیا یہود اقوام عالم کے لاڈلے تھے؟
یہاں ہمیں تھوڑا سا ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ تجزیہ بھی کرنا ہوگا کہ کیا یہود دنیا کے لاڈلے ہیں یا تھے کہ دنیا نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر فلسطین پیش کردیا؟ یا انہوں نے خود کوشش کرکے اپنے بل بوتے پر طاقت پکڑی اور دنیا میں ایک حیثیت حاصل کی اور اپنی ڈپلومیسی کے بل بوتے پر دنیا کو جھکایا؟ دنیا کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کا ساتھ دے۔ کیا اس منظرنامے میں ہمارے سیکھنے کیلیے کچھ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جس یورپ کو صہیونیوں نے اسرائیل کے قیام کیلیے استعمال کیا، وہاں ان کے ساتھ بدترین زیادتیاں ہوتی تھیں۔ ان ممالک میں جرمنی اور روس سرفہرست ہیں لیکن برطانیہ اور فرانس میں بھی ان کے خلاف تعصب بلکہ شدید نسل پرستی کے جذبات تھے۔ شاید ویسے ہی جیسے آج مسلمانوں کیلیے ہیں۔
نائن الیون (9/11) کے بعد مسلمان اب دنیا کے نئے ولن بن گئے ہیں، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس سے قبل کمیونسٹ عالمی ولن تھے، اس سے قبل جرمن، اور اس سے قبل شاید خود یہود۔
یعنی آج کی دنیا کے ولن اب یہود نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ مسلمان اپنی ایک ارب 80 کروڑ آبادی اور دنیا کے ہر خطے میں موجودگی کے باوجود جس صورت حال کا شکار ہیں، اس سے نکلنے کی اسٹریٹجی بنانے کیلیے ہمیں ان قوموں سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک دور میں عالمی ولن رہی ہیں۔ یہود کا نمبر ان قوموں میں سب سے آگے آتا ہے۔
گو مسلم دنیا میں کبھی یہود کو نسل پرستی یا مظالم کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن یورپ میں ان کے خلاف قرون وسطیٰ سے ہی شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ نشاۃ الثانیہ کے ادوار میں بھی ان میں کمی نہیں آئی۔ ان کے خلاف وقفے وقفے سے ”پوگروم“ یعنی یہود کش فسادات ہوتے جیسے آج برما اور بھارت کے مسلموں کے خلاف ہوتے ہیں۔
ان ہی فسادات سے بچنے کیلیے اس قوم کی قیادت کرنے والوں نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا، یہودی قوم کو ان مظالم سے نجات نہیں ملے گی۔
لیکن اس ریاست کے قیام کیلیے اس قوم نے ڈپلومیسی کی طاقت استعمال کرکے دنیا کو کس طرح جھکایا، یہ بڑی دلچسپ داستان ہے۔
آج کل جان کویگلی کی کتاب زیرِ مطالعہ ہے۔ کتاب میں مصنف کویگلی، صہیونی لیڈران کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جس کے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت خود یہود کے مختلف فرقوں میں اس کے قیام سے پیشتر موجود تھی۔ خود فلسطین میں رہنے والے عرب یہودیوں بلکہ مذہبی جذبات کی وجہ سے وہاں منتقل ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔
خود یورپی یہودی بھی فلسطین جیسے غیر ترقی یافتہ خطے میں منتقل ہونے کے بجائے یورپ میں ہی حقوق چاہتے تھے۔ اور اگر انہیں کہیں منتقل ہونا تھا تو امریکا ان کے لیے بہترین انتخاب تھا جس نے روس سے بھاگے ہوئے بیس لاکھ یہود میں سے لاکھوں کو پناہ ہی نہیں، شہریت بھی دی تھی۔
لیکن، اس کے باوجود، اسرائیل کا خواب دیکھنے والے مغربی حکمرانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور یورپی یہودیوں کے مسئلے کا حل فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے۔ کویگلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا قیام دراصل ڈپلومیسی کی جیت ہے۔
ڈپلومیسی کی اس جیت نے یورپ میں مبغوض اشکنازی یہودیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے، جو خود یہود کی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہے، ایک ناممکن امر کو ممکن کردیا تو کیا ہم مسلمانوں کو ڈپلومیسی کے اس محاذ کیلیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرنا چاہیے؟
یہ بھی یاد رہے کہ ڈپلومیسی کی اہلیت صرف فلسطین کے معاملے میں نہیں بلکہ امت کو درپیش لاتعداد پیچیدہ مسائل اور تنازعات کے حل کیلیے بھی اہم ہے کہ یہ بھی دنیا میں بقا کی ایک اہم ضرورت رہی ہے۔
اقبال سو سال پہلے کہہ گئے
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ