عالمی یوم ماحولیات: بھارت میں فضائی آلودگی سے سالانہ بارہ لاکھ اموات

عالمی یوم ماحولیات ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے جو سب سے پہلے 1974 میں منایا گیا۔اس دن کی مناسبت سے القمرآن لائن کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار 20 شہروں میں سے 13 شہر بھارت میں واقع ہیں۔
ماحولیاتی خطرات اور نقصانات سے متعلق ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے ہے کہ اس وقت دنیا میں جن 100شہروں کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں، ان میں سے ننانوے براعظم ایشیا میں ہیں۔ماحولیاتی خطرات کے سب سے زیادہ شکار 100 شہروں کے بارے میں سامنے آنے والی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 400 شہروں اور لگ بھگ ڈیڑھ ارب کی انسانی آبادی کو شدید گرمی، انتہائی آلودہ ماحول، قدرتی آفات اور دیگر ماحولیاتی نقصانات کا سامنا ہے۔ ایسے خطرات سے دوچار شہروں میں سے 80 فیصد کا تعلق بھارت اور چین سے ہے۔
جکارتہ جیسے ‘ڈوبتے ہوئے بڑے شہروں کی صورتحال سب سے خطرناک ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں، جکارتہ جیسے ان شہروں کو آئندہ مزید مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے شہروں کی فہرست میں انڈونیشیا کے دو بڑے شہر سورابایا اور بنڈونگ بھی کافی اوپر ہیں۔ سورابایا چوتھے اور بنڈونگ آٹھویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کے دو سب سے بڑے شہر کراچی اور لاہور بھی اس فہرست میں بہت پیچھے نہیں ہیں۔ کراچی 12 ویں جبکہ لاہور 15 ویں نمبر پر ہے۔
بھارت جنوبی ایشیا کا وہ ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ خطرات سے دوچار 20 شہروں میں سے 13 شہر واقع ہیں۔ اس وجہ سے بھارت کا مستقبل انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کاروباری خطرات کے تجزیہ کار ویرسک میپل کروفٹ کے مطابق 576 شہروں کے عالمی انڈکس میں نئی دہلی دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد بھارت ہی کا شہر چنئی تیسرے نمبر پر، آگرہ چھٹے، کانپور دسویں، جے پور 22 ویں اور لکھن 24 ویں نمبر پر ہے۔ ممبئی اپنی ساڑھے بارہ ملین کی آبادی کے ساتھ اس فہرست میں 27 ویں نمبر پر ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال 70 لاکھ سے زیادہ قبل از وقت انسانی اموات کا سبب فضائی آلودگی بنتی ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ اموات صرف بھارت میں ہوتی ہیں۔ کم از کم ایک ملین نفوس پر مشتمل آبادی والے دنیا کے ایسے 20 شہر جہاں کی آب و ہوا بد ترین اور آلودہ ترین ہے، بھارت میں واقع ہیں۔ ان میں سے بھی بدترین حالت بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ہے۔
ماحولیاتی خطرات اور نقصانات سے متعلق اس نئی تجزیاتی رپورٹ سے یہ پتا بھی چلا ہے کہ دنیا بھر کے شہروں میں رہائش پذیر انسانوں میں سے 336 ملین انسان صرف دو ممالک بھارت اور چین کے شہروں میں رہتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پورے بھارت کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کو بھی کورونا وبا نے بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، بھارت ہندوؤں کی امرناتھ یاترا کے انعقاد کیلئے تیار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ایک ایسے موقع پرمقبوضہ علاقے میں ماحولیات کیلئے خطرناک ثابت ہونے والی امرناتھ یاترا کے انعقاد کیلئے تیاریاں کر رہاہے جب دنیاماحولیات کا عالمی دن منا رہی ہے۔
بائیو میڈیکل فضلہ بھی عالمی عوامی ماحولیاتی صحت کے لئے خطرہ ہے اور جاری کوویڈ -19 وبائی مرض کے دوران بھارت ہر روز تقریبا 146 ٹن بائیو میڈیکل فضلہ پیدا کررہا ہے۔
القمرآن لائن کے مطابق بھارت کی فضاوں میں موجود زہریلی گیس ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ایک لاکھ بچوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔
سٹیٹ آف انڈیا انوائرمنٹ کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ہر سال بھارت میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 12.5 فیصد کی وجہ فضائی آلودگی ہے، جو موجودہ بھارتی حکومت کی ماحولیات کے حوالے سے سنجیدگی کی کافی بری تصویر پیش کرتی ہے۔
سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے بھارت میں پانی کے 86 فیصد ذخیرے بھی شدید آلودہ پائے گئے جبکہ ری نیو ایبل انرجی کے حوالے سے بھارت کی پیش رفت کافی مایوس ہے۔
گذشتہ ماہ تک بھارت میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد 2 لاکھ اسی ہزار رہی جو کہ 2020 تک مخصوص کردہ ہدف یعنی ڈیڑھ کروڑ گاڑیوں سے بہت کم ہے۔ بھارت میں گرین ہاوس گیس کے اخراج کی شرح میں 2010۔ 2014 کے دوران 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ اس کی قدرتی گیس اور پن بجلی کے منصوبے بھی بری حالت میں ہیں۔
بھارت میں زہریلا مادہ خارج کرنے والی صنعتوں کی تعداد میں 2009۔ 2016 کے دوران 56 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ 2011۔ 2018 کے دوران بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کی شرح 136 فیصد تک بڑھی۔
بھارت 2050 تک دنیا کی شہری آبادی میں اکتالیس کروڑ نفوس کا اضافہ کرنے والا ہے لیکن دوبارہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم نریندرا مودی نیاپنی الیکشن مہم میں ماحولیاتی تبدیلی کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔
سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اکتوبر 2020 اور جنوری 2021 کے درمیان فضا میں پائی جانے والی آلودگی گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران پائی جانے والی فضائی آلودگی کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
ہوا میں معلق باریک آلودہ ذرات کے سبب بھارت کو ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ کیونکہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں مرنے والے ہر آٹھ افراد میں شامل ایک فرد کی موت کا سبب فضائی آلودگی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آلودگی کی وجہ سے ہر شہری کی زندگی کی معیاد پانچ سال کم ہوجاتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے فضا میں موجود آلودہ ذرات کی جو حد مقرر کی گئی ہے، بھارت میں اس سے 10 سے 11 گنا زیادہ آلودہ ذرات ہوا میں موجود ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ لاک ڈاون کے دوران فضائی آلودگی میں غیر معمولی کمی دیکھنے کو ملی تھی۔ تاہم فضائی آلودگی میں رونما ہوئی یہ کمی دیر پا ثابت نہیں ہوئی۔
سینٹر فار سائنس اینڈ انوارنمنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اکتوبر 2020 اور جنوری 2021 کے درمیان فضا میں پائی جانے والی آلودگی گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران پائی جانے والی فضائی آلودگی کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کی جانب سے 99 شہروں میں کئے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے 43 شہروں میں خطرناک حد تک فضائی آلودگی پائی جاتی ہے۔ ان شہروں میں گرگرام، لکھنو، جئے پور، آگرہ، ممبئی، جودھپور، کولکاتا، وِشاکھا پٹنم اور دیگر کئی شہر شامل ہیں۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ آباد، اندور، بھوپال، کوچی، اور دیگر کئی شہروں میں اس وقت آلودگی میں زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے، جب ان میں درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے۔
القمرآن لائن کے مطابق دہلی کے آئی آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک مشترکہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بڑھنے کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں خون کی کمی کی بیماری پائی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرکز نے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے بجٹ میں ایک ایسے وقت پر کمی کردی ہے، جب فضائی آلودگی عروج پر ہے۔ مرکز کو کم از کم سینٹر فار سائنس اینڈ انوارنمنٹ کی سروے رپورٹ کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثرہ لوگوں کو دماغ اور گردوں کے عارضے لاحق ہوجاتے ہیں۔ فضائی آلودگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ہوا کا معیار بہتر بنانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو نافذ کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
نیتی آیوگ نے پرانے تھرمل پاور پلانٹس کو بند کرنے اور کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے نظام کو بہتر بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن ان دانشمندانہ مشوروں پر کوئی عمل درآمد کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا ہے۔ آلودگی کو قابو کرنے سے متعلق قوانین کی طرف عدم توجہی برتی جارہی ہے۔ان ممالک، جہاں ماحولیات کے تئیں عوامی بیداری پیدا کی جارہی ہے، میں پانی اور ہوا کا معیار بہتر بنانے میں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔
بھارت نے فضائی شفافیت کو تحفظ دینے کے لئے رہنما اصول متعین کردیے ہیں اور نئے قوانین نافذ کر رکھے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے حکام میں ماحولیات کے حوالے سے بیداری کے فقدان اور اجتماعی معاشرتی نظام کی وجہ سے ملک میں بحران دیکھنے کو مل رہا ہے۔ فضائی آلودگی سے سالانہ بارہ لاکھ اموات ہوجاتی ہیں۔
بائیو میڈیکل فضلہ بھی عالمی عوامی ماحولیاتی صحت کے لئے خطرہ ہے اور جاری کوویڈ -19 وبائی مرض کے دوران بھارت ہر روز تقریبا 146 ٹن بائیو میڈیکل فضلہ پیدا کررہا ہے۔ جون 2020 اور 10 مئی 2021 کے درمیان، بھارت نے کوویڈ۔19 بایومیڈیکل فضلہ 45308 ٹن پیدا کیا۔ آلودگی کنٹرول بورڈ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یومیہ 615 ٹن بایومیڈیکل فضلہ کوویڈ 19 سے پہلے تیار کیا جارہا ہے۔
محض وبائی بیماری کی وجہ سے بائیومیڈیکل فضلہ پیدا کرنے میں تقریبا 17 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔