گلشن اقبال وسیع غیر قانونی تعمیرات کا وبال رہائشی پلاٹوں پر خلاف ضابطہ پورشن /یونٹس غیر قانونی منزلوں کی تعمیر نے پوش ایریا کو بھی کچی آبادی میں تبدیل کر دیا افسران کرپٹ ترین سندھ حکومت کی مبینہ آشیر باد پر شتر بے مہار، علاقہ مکینوں اور این جی اوز کی شکایات پر کارروائی سے گریزاں

تحریر: جاوید الرحمن خان
کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (KDA) کے ہوتے ہوئے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (KBCA) کا قیام عمل میں لایا گیا، جیسا کہ نام سے واضح ہے، اس ادارے کاقیام شاید اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ تعمیرات کوکنٹرول میں رکھتے ہوئے ناجائز تعمیرات نہ ہونے دیجایں، سندھ سرکار میں ہو یہ رہا ہے کہ جو محکمہ جس مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے، وہ اس کے الٹ ہی کرتا ہے، جیسے رشوت کی روک تھام اور خاتمے کے لیے محکمہ انسداد رشوت ستانی(اینٹی کرپشن) قائم کیا گیا، مگر یہی محکمہ رشوت لے کر رشوت خوروں کو چھوڑدیتا ہے اور یہ مشہور و معروف جملہ”رشوت لیتے پکڑا گیا“ رشوت دے کے چھوٹ جا“ شاید اسی محکمے کی وجہ سے وجود میں آیا۔اسی طرح بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا مقصد ناجائز یا غیرقانونی بلڈنگز کی روک تھام تھا، مگر آج سب سے زیادہ ناجائز اور غیر قانونی تعمیرات یہی محکمہ کروا رہا ہے، جس کی وجہ سے دولت کی ریلپیل سب سے زیادہ اسی محکمے میں ہے۔اسی دولت کی فراوانی کو دیکھتے ہوئے چند برس قبل کے بی سی اے کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کا نام دے دیا گیا، یعنی ادارے کا دائرہ کارکراچی سے آگے پورے سندھ تک پھیلا دیا گیا۔باالفاظ دیگر دولت میں اضافے کے لئے کراچی ریجن KBCA کے دور سے ہی 18 ٹاؤن میں تقسیم تھا اور ہر ٹاؤن کا علیحدہ ڈائریکٹرمقرر تھا۔یوں 18 ٹاؤنزکے 18 ہی ڈائریکٹرز تھے۔اب چندماہ قبل وزیربلدیات نے ایس بی سی اے کراچی ریجن کو ٹاؤنز سے ہٹا کر 5 اضلاع میں تقسیم کردیا اب ہر ضلع کا ایک ایک ڈائریکٹر مقرر ہے اور کراچی شہر کے شرقی،غربی،جنوبی،شمالی اور وسطی اضلاع کے اعتبار سے ہر ڈائریکٹرکے زیرکنٹرول بہت بڑا علاقے آگیا ہے۔
بہرحال،ادارے کا نام جو بھی رکھا جائے ادارے کے قیام کا جو بنیادی مقصد ہے، اس کو کبھی مد نظر نہیں رکھا گیا جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب کراچی میں ادارہ ترقیاتی کراچی (KDA) کے ہوتے ہوئے کبھی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(KBCA) کا قیام عمل میں لایا گیا اور جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے ادارے کا مقصد تعمیرات کو کنٹرول میں لانا تھا تو پھر اس ادارے کو اس نہج پر چلانے کی ضرورت تھی، مگر ہوا یہ کہ چاہے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، یہ ادارہ صرف اور صرف کمائی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔اس ادارے سے یاتو اس کے ملازمین اور افسران کو فائدہ ہورہا ہے یا پھر بلڈر مافیا کو، عام آدمی کو ایس بی سی اے سے کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے۔نہ تو عام آدمی کو اپنے گھر کی تعمیرات کے لیے درکار نقشہ بنانے کے لیے کوئی سہولت باآسانی پیکج دیا گیا ہے نہ وہ کم اور مناسب قیمت پر فلیٹ یا گھر خرید سکتا ہے۔جب بلڈرزبلڈنگ کنٹرول والوں کو بڑی بڑی رقمیں رشوت کے طور پر دیں گے تو وہ اپنے بنائے گئے کسی منصوبے یا پروجیکٹ میں کم قیمت کے فلیٹ عام آدمی کو کیسے فروخت کرسکتے ہیں؟۔بلڈرمحکمے کو دیئے گئے اوپر کے تمام ناجائز پیسے عام آدمی سے ہی وصول کرتے ہیں، یوں ایک غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کے لئے فلیٹ کا حصول محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ کراچی میں جس طرف نکل جائیں دیوہیکل بلند و بالا عمارتوں کا جنگل نظر آتا ہے، اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انتہائی چھوتے چھوٹے 60,40, اور 80 گز کے پلاٹوں پر 7,6 اور 8 منزلہ عمارتیں کھڑی کردی گئی ہیں، یعنی پیسے دے کر جتنی اورجیسی چاہیں، بلڈنگیں کھڑی کردیں، انسان کی جانوں کی پروا کسے ہے؟ بس بلڈنگ کنٹرول کے متعلقہ افسران کی جیبوں میں مال جانا چاہیے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(SBCA) کے سربراہ بھی بڑی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں، موجودہ سربراہ یعنی ڈائریکٹر جنرل شمس الدین سومرو ہیں،جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ نان ٹیکنیکل“ ڈائریکٹر ہیں اور انھیں اس شعبے کی کماحقہ معلومات نہیں ہیں، مگر بات یہ ہے کہ ایک سربراہ ضرور ہوچاہے اسے آتا جاتا کچھ بھی نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ ذرائع یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ایس بی سی اے کے معاملات درپردہ ایس بی سی اے کے ایک سابق سربراہ اور پرانے بیوروکرپٹ آغا مقصود عباس چلا رہے ہیں، جو”آغاسسٹم“ کہلاتا ہے، یوں تمام ضلعی ڈائریکٹر ز آغا صاحب کے زیرسایہ اپنے اپنے اضلاع میں پورے دھڑلے اور اطمینان و سکون سے، بغیر کسی ڈر،خوف اور احتساب کے، ناجائز تعمیرات میں دن رات مصروف ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑہائی میں ہے۔اس سلسلے میں ہر ضلع، دوسرے ضلع سے کسی صورت پیچھے نہیں، تا ہم ان میں ضلع شرقی سب سے بازی لے گیا ہے، جس کے ڈائریکٹرمحمد ضیاہیں،جنھوں نے گلشن اقبال زون میں اندھیرنگری مچا رکھی ہے اور علاقے میں ناجائز تعمیرات کا نیا ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔ گلشن اقبال زون ون کے مختلف بلاکس میں کیے گئے سروے کے مطابق۔۔۔!
(1)۔پلاٹ نمبرA-130 بلاک 2 میں G+2
(2)۔پلاٹ نمبرA-153 بلاک ون میں گراؤنڈ فلور
(3)۔پلاٹ نمبرA-107 بلاک ون میں G+2
(4)۔پلاٹ نمبرC-51 بلاک 13-D میں G+1
(5)۔پلاٹ نمبرB-1 بلاک 13-D میں بیسمنٹ کے ساتھ گراؤنڈ فلور
(6)۔پلاٹ نمبرB-119 بلاک13-D/1 میں G+1
(7)۔پلاٹ نمبرA-24 بلاک13-D/1 میں G+1
(8)۔پلاٹ نمبرA-316 بلاک 5 میں G+2
(9)۔پلاٹ نمبر B-244 بلاک 5 میں بیسمنٹ کے ساتھ گراؤنڈ فلور
(10)۔پلاٹ نمبر A-422 بلاک5 میں G+1
(11)۔پلاٹ نمبرA-383 بلاک 5 میں G+1
(12)۔پلاٹ نمبرA-85 بلاک 13 میں G+2
(13)۔پلاٹ نمبرA-27 بلاک13-C میں گراؤنڈ فلور
(14)۔پلاٹ نمبرA-9 بلاک13/A میں گراؤنڈ فلور
(15)۔پلاٹ نمبرA-8 بلاک 13/A میں G+2
(16)۔پلاٹ نمبرA-30 بلاک 2 میں G+2 کے ساتھ 4 دکانیں
(17)۔پلاٹ نمبرA-157 بلاک 2 میں G+1،زیرتعمیرات تیزی سے جاری ہیں۔ اس ضمن میں معلوم ہوا ہے کہ ایس بی سی اے کے افسران کرپٹ ترین سندھ حکومت کی مبینہ آشیر باد کے باعث شتر بے مہار ہو چکے ہیں کیونکہ انہیں اپنی طے شدہ منتھلی دینا ہوتی ہے اورغیر قانونی تعمیرات سے ہونے والے آمدنی اور اس کے ذرائع کو نام نہاد سسٹم کے حوالے کرنا ہوتا ہے جس کے عوض انہیں سندھ کے سرکاری محتسب اداروں سے تحفۃ حاصل ہوتا ہے سندھ حکومت کی وڈیرہ شاہی حکومت نے کراچی کو صرف لوٹ مار کی جنت بنایا ہوا ہے اور سپریم کورٹ کے درجنوں ریمارکس جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دینے کا وطیرہ بنایا ہوا ہے واضح رہے کہ 14جون کو سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی بد انتظامی اور کرپشن پر جو ریماکس دیئے وہ درج ذیل ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا نصلہ ٹاور سمیت الہ دین پارک کے سارے رفاعی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے پیسے دیں جو کریں،سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں ہے ان سب کے پیچھے کوئی ہے،چیف جسٹس عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سسٹم کینڈا سے چلایا جا رہا ہے، کراچی کو کینڈا سے چلایا جارہا ہے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ صوبہ سندھ کے حکمران ہیں جو کینڈا میں ہیں، ان حالات میں صوبہ کیسے گزرا کرے گا مسٹر ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیں، آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپکی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے، سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا روزانہ نئے نئے بہانے تراشے جاتے ہیں۔