ایک اور ٹرین حادثہ۔۔۔آخریہ سلسلہ کب رکے گا؟
گزشتہ دنوں گھوٹکی کے علاقے ڈہرکی کے قریب ”ریتی“ ریلوے اسٹیشن کے مقام پر کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس اور راولپنڈی سے کراچی جانے ولای مسافرٹرین ”سرسیدایکسپریس“ کے درمیان خوفناک تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں 55 مسافرشہیدہوگئے،جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔ریلوے انتظامیہ کے مطابق حادثے کا شکار ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جارہی تھی۔کہ ٹریک کی خرابی کے باعث حادثے میں ملت ایکسپریس کی 13 بوگیاں پٹری سے اتر کر دوسرے ٹریک پر جاگریں،مسافر ناگہانی سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ صرف 2 منٹ بعد مخالف سمت راولپنڈی سے کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس ان سے ٹکرا گئی۔یہ حادثہ شب 3 بجکر38 منٹ پر پیش آیا اور تاریکی کے باعث فوری امداد نہ پہنچ سکی۔2 گھنٹے تک کوئی مدد کو نہ پہنچا،مقامی لوگ زخمیوں کو رکشوں اور ٹریکٹرز میں اپنی مدد اپ کے تحت اسپتال لے کر گئے۔افسوس ناک حادثے کے بعد چیخ و پکار مچ گئی۔زخمیوں اور جاں بحق افراد کی میتوں کو اوباڑوڈہرکی اور میرپورماتھیلو اسپتال منتقل کیا گیا۔جائے حادثہ پر بروقت امدادی کارروائی کے لئے مقامی افرادپولیس،رینجرزاورپاک فوج کے جوان پہنچ گئے،جبکہ ریسکیو کرنے کے لیے روہڑی سے ریسکیوٹرین نے جائے حادثہ پر پہنچ کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔حادثے میں 3 بوگیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ریلوے ذرائع کے مطابق حادثے کا شکار ملت ایکسپریس میں مجموعی طور پر 703,،جبکہ سرسید ایکسپریس میں 505 کے قریب مسافر سوار تھے۔ ڈی ایس ریلوے طارق لطیف کے مطابق حادثے میں اپ ٹریک کا 1100 فٹ اور ڈاؤن ٹریک کا 300 فٹ کا حصہ متاثر ہوا بوگیوں کو ہیوی مشینری سے کاٹ کرپھنسے ہوئے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو باہر نکالاگیا۔
ریلوے حکام نے حادثے کی تحقیقات کے لیے 21 گریڈ کے افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جبکہ ریلوے نے حادثے میں جاں بحق افراد کے ورثاء کے لیے 15 لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے۔ زخمیوں کو ان کے زخموں کی نوعیت کے اعتبار سے کم سے کم 50 ہزار اورزیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔ ریلوے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ریلوے کے 4 ملازمین بھی شامل ہیں،جن میں 2 پولیس اہلکار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں اہلکار سرسید ایکسپریس پر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے،اور انہوں نے خانیوال اسٹیشن سے ڈیوٹی جوائن کی۔قابل غور بات یہ ہے کہ ٹرین حادثے سے 3 دن قبل ہی ریلوے افسران نے ٹریک خراب ہونے کا انتباہ جاری کیا تھا۔ چیف انجینئرکا حادثے سے قبل کا 4 جون کا خط سامنے آگیا ہے۔ ڈی ایس سکھر طارق لطیف نے کہا ہے کہ کئی بار ٹریک مرمت کے لئے محکمے کے اعلیٰ حکام کو لکھا،پرکچھ نہ ہوا۔تاہم چیف انجینئرکے4 جون کے خط میں انہوں نے ڈی ایس ریلوے کو لکھا کہ آپ کو مرمت کے لئے تمام وسائل دیئے،لیکن کام شروع کیوں نہیں کیا؟جس کے جواب میں ڈی ایس ریلوے نے لکھا کہ 100 روپے کا کام ایک روپے میں نہیں ہوتا۔یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی انسپکٹر جنرل ریلوے فرخ تیمور اور ڈی ایس ریلوے سکھر طارق لطیف کے درمیان سخت گفتگو کا تبادلہ ہوا اور وفاقی انسپکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ڈی ایس سکھر کا دماغی توازن درست نہیں ہے۔ وفاقی وزیرریلوے اعظم سواتی جائے وقوع پہنچے اور اعتراف کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں، ریلوے کے حکام حادثے کے ذمہ دار ہیں انہیں ریلوے کے اندر سے آوازیں آرہی ہیں۔ یہ ایک مافیا ہے، میں خود اس کے خلاف تحقیقات کروں گا۔سکھر کا ڈی ایس اچھا انسان ہے۔ حادثے کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا، وغیرہ۔
ڈی ایس سکھر میاں طارق لطیف نے سی اوریلوے نثار میمن کو جو خط تحریر کیا تھا،اس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا تھا کہ سکھر ڈویژن میں 400 کلو میٹر ٹریک کی حالت نہایت ہی خراب ہے اور ایکسپریس ٹرینوں کی رفتار کافی ہوتی ہے، جس کے باعث کوئی بھی خوف ناک حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔ ٹریک کو فوری طور پر اپ گریڈ کیا جائے اور اگر ٹریک کو اپ گریڈ نہ کیا گیا تو خوف ناک حادثات ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی ایس سکھر نے 4 جون کوہیڈکوارٹر کو خط لکھ کر تمام حقائق سے آگاہ کردیا تھا، جبکہ 6 جون کو چیف انجینئر اوپن لائن نے ڈی ایس سکھر کو جواب دیا کہ ہم آپ کو تمام وسائل بروئے کار لاکر دے رہے ہیں، جس میں ٹریک اور دیگر سامان شامل ہے، آپ اس کی مرمت کروائیں۔اب2 دن کے اندر ٹریک کس طرح مرمت کیا جاسکتا تھا؟جبکہ گزشتہ دنوں وفاقی انسپکٹر جنرل ریلوے نے بھی سکھر ڈویژن کا دورہ کیا اور ٹریک کا خود معائنہ کیا۔ اس موقع پر ڈی ایس سکھر میاں طارق لطیف اور وفاقی انسپکٹر جنرل ریلوے فرخ تیمور کے درمیان آپس میں سخت گفتگو کا تبادلہ بھی ہوا۔ یعنی اس ساری تفصیل سے یہ نچوڑ سامنے آتا ہے کہ محض 2 افراد کی باہمی انا اور چپقلش کئی انسانوں کو نگل گئی۔ایک شخص ٹریک کی خرابیکی نشاندہی کرتا ہے، دوسرا اسے وسائل مہیا کردینے کی خبر دیتا ہے پھر ٹریک کی مرمت کا کام کیوں شروع نہیں ہوا؟ اگر کام شروع نہیں ہوا اور ٹریک کم زور تھا کو ٹریک کے اس حصے پر ٹرینوں کو گزرنے کی اجازت کس نے اور کیوں دی؟ یہ تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ ذمہ داران کو بخوبی علم تھا کہ ٹریک کی صورت حال صحیح نہیں ہے اور کسی بھی سانحہ رونما ہوسکتا ہے، مگر انہوں نے اس بات کا کوئی فوری طور پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اگر تو ٹریک کی درستگی اور مرمت میں تاخیر تھی اور ٹرینوں کا اس صورت میں ٹریک کے اس حصے سے گزرنے دینا خطرناک تھا، تو فوری طور پر ٹرینوں کی آمدورفت معطل کی جانی چاہیے تھی۔ٹرینوں کے نہ چلنے سے محکمے کا جو بھی نقصان ہوتا، وہ انسانی جانوں سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا تھا۔
بجاطور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ ریلوے جو سفر کے لیے ایک بہترین محکمہ ہے، اسے شروع سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اکثر ریلوے کا وزیرایسے شخص کو مقرر کیا گیا، جس کا ریلوے سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا، اس کی سب سے بد ترین مثال شیخ رشید احمد کی ہے، جو پرویز مشرف کی حکومت میں بھی وزیرریلوے تھے اور دوبارہ نیازی حکومت میں بھی انہیں وفاقی وزیر ریلوے بنایا گیا، تا ہم 2 برس تک شیخ صاحب ریلوے کی وزارت میں کسی قسم کی کارکردگی نہ دکھا سکے۔اب انھیں وزیرداخلہ بنادیا گیا ہے۔ ریلوے پاکستان کے حصے میں تقسیم ہند کے وقت سے ہی آگئی تھی اور یہ بھی انگریزوں کی مہربانی تھی کہ انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں ریلوے ٹریک بچھایا۔اسٹیشن قائم کئے۔ ریلوے کا ایک زبردست نظام مقرر کیا اور سچی بات یہ ہے کہ بھٹو دورتک ریلوے ایک بہترین منافع بخش ادارہ تھا۔ خصوصاً کراچی میں تو سرکلر ٹرین بھی چلا کرتی تھی، جو اہلیان کراچی کو پپری سے اسٹیشن،بلدیہ،کیماڑی، گلشن اقبال، کورنگی،ناظم آباد،غرض پورے کراچی کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں پہنچانے کاذریعہ تھی، کرایہ بھی انتہائی کم اور مناسب تھا، مگر بھٹودور میں جس طرح دیگر بہت سے اداروں کا بیڑہ غرق کیا گیا، اسی طرح ریلوے کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا اور رہی سہی کسر ٹرانسپورٹ مافیا نے پوری کردی۔ اس طرح کراچی سے باہرجانے والی ٹرینوں کا معیار بد سے بدتر ہوتا چلا گیا اور اہلیان کراچی سرکلر ٹرین کی انتہائی آرام دہ اور کم خرچ سہولت سے محروم ہوگئے۔ اب تو سرکلرٹرین کی پرانے ٹریک پر بحالی ایک خواب ہی محسوس ہوتا ہے۔
کورونا کے وار،ہلاکتوں میں تیزی
گزشتہ سال 2020 میں مارچ کی 18 تاریخ کو پاکستان میں لاک ڈان کا آغاز کیا گیا تھا۔ابتدائی لاک ڈان تھا، لوگ اسے کسی صورت سنجیدہ نہیں لے رہے تھے،پکڑدھکڑبھی جاری تھی،مگر پاکستانی قوم کسی صورت سنجیدگی پر آمادہ نہ تھی،چنانچہ کافی سختی بھی کی گئی۔یہاں تک کہ مساجدمیں باجماعت نماز پر بھی پابندی لگادی گئی،اور سعودی عرب نے بھی حج اور عمرہ پر پابندی لگادی،پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ یوم علی پر کورونا کی تمام تر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جلوس نکالا گیا اور اس میں کسی قسم کی احتیاط نہیں برتی گئی، جس پر عوام میں یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ کورونا کی پابندیاں صرف مسلمانوں کو عبادت کرنے یا مساجد میں جانے سے روکنے کیلئے لگائی گئی ہیں۔بہرحال،وجہ جو بھی رہی ہو،اس دوہرے معیار اور دوہری پالیسی سے لوگوں میں ایک الجھن اور ناراضی ضرور پیدا ہوئی۔اس کے بعد دھیرے دھیرے پابندیاں بھی نرم پڑتی گئیں اور لوگوں نے بھی احتیاط کرنا بند کردیا۔ویسے بھی مئی،جون،جولائی،اگست کے مہینوں میں موسم خاصا گرم ہوجاتا ہے اور کورونا وائرس کے متعلق اب تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ یہ سردی اور ٹھنڈ میں زیادہ سرگرم اور طاقت ورہوجاتا ہے اور گرمی یا دھوپ اس کی موت ہے۔گزشتہ سال نومبر،دسمبر سے لے کرموجودہ جنوری 2021 تک کی سردیوں میں کورونا پر زیادہ شورشرابہ اور ہا ہو دیکھنے میں نہیں آیا،مگر اب جبکہ موسم تبدیل ہوچکا ہے اور اپریل 2021 کے ماہ سے تو تقریبا شدید گرمی اور لوکا موسم چل رہا ہے تو ایسے گرم موسم میں حیرت انگیز طور پر کورونا کے وار میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں، بھارت میں تو انتہائی ابترصورتحال ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرچکی ہے اور اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی ہے، جسکی وجہ سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مررہے ہیں اور انہیں جلانے یا دفنانے کے لئے جگہ کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اور مرنے والوں کو شمشان گھاٹ کے علاوہ کھیتوں،کھلیانوں اور دیگر کھلی جگہوں پر جلا کر ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان میں وفاقی حکومت نے حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کروانے کے لیے فوج طلب کرلی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت اب کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سختی کرے گی اور اس بار ہم نے پولیس و رینجرز کے علاوہ فوج کو بھی کہا ہیکہ وہ سڑکوں پر آئیں اور عوام سے ایس او پیز پر عمل کروائیں۔کورونا کے حوالے سے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں بھی وہی حالات ہوسکتے ہیں, جو اس وقت بھارت میں ہیں۔کورونا کے حوالے صوبہ سندھ کی صورت حال قدرے بہتر ہے,جس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ شروع دن سے کورونا کے حوالے سے سختی کرتے آئے ہیں، ان کا روزاول سے کہنا تھا کہ کورونا کے حوالے سے احتیاط بہت ضروری ہے،جو بھی احتیاط نہیں کرے گا,وہ کورونا کے وار سے بچ نہیں سکے گا۔کورونا کی موجودہ لہر کے حوالے سے وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ صوبے میں کورونامثبت کیسز کی شرح 8.9 فیصدتک پہنچ چکی ہے۔سندھ کی ٹاسک فورس کی سفارش ہے کہ انٹرسٹی اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بند کی جائے،جبکہ کورونا کے حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ لوگ عید کی خریداری ابھی کرلیں،آگے لاک ڈان لگ سکتا ہے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ایسی صورتحال پیدا ہوکہ شہروں میں لاک ڈان کرنا پڑے،وفاقی وزیرنے بتایا کہ 5 فیصد سے زیادہ کیسز والے علاقوں میں اسکول بند اور آٹ ڈور کھانے پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے دفاتر2 بجے بند اور 50 فیصد سے زیادہ لوگوں کو نہ بلایا جائے،جبکہ افطاری کے بعد بازار نہیں کھلیں گے۔وفاقی وزیرکے اس طرح کے اعلان اور وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا پابندیاں نافذ کروانے کے لئے فوج طلب کرلینے سے عام آدمی کے ذہن میں بجا طور پر یہ خدشہ سر ابھار رہا ہے کہ اگلے ایک ماہ میں کرفیو لگ سکتا ہے۔آئندہ چند روز میں سب مکمل بند ہوگا۔ آنے والے 3 ماہ تک کچھ ایسا ہوگا کہ مختلف اوقات میں ہر ہفتے این سی او سی ایک نیا حکم نامہ جاری کرے گی۔پہلے مرحلے میں ہفتہ، اتوارچھٹی،دوسرے مرحلے میں ہفتہ میں دو دن کاروبار کی اجازت، تیسرے مرحلے میں کرفیوکی طرح کاروبار کے اوقات کار،یہ سب این سی او سی میں تجویزدے دی گئی ہے۔ بس یہ بات زیرغور ہے کہ کس طرح عملدرآمد کرایا جائے؟یوں کہا جاسکتا ہے کہ بہت برے دن آنے کو ہیں،لہذا جو صاحب حیثیت لوگ ہیں،جنھیں اللہ تعالی نے نوازرکھا ہے وہ اس مصیبت اور پریشانی کی گھڑی میں آگے آئیں اور غریب، کمزور،لاچارگھرانوں میں اپنی استطاعت کے بہ قدر اتنا راشن تو ضرور ڈلوادیں کہ وہ تین ماہ آرام سے گزارا کرسکیں۔ ورنہ یہی صورت حال رہی تو آنے والے دنوں میں غریب تو فاقوں سے ہی مرجائیں گے۔
نیب سندھ اپنے خط سے دستبردار ہو گیا۔
نیب سندھ نے گذشتہ دنوں سیکرٹری سروسز سے کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے ملازمین کا ریکارڈ طلب کیا تھا اور اس حوالے سے نیب کراچی نے 27 مارچ کو سیکرٹری سروسز کو خط لکھا تھا,جس میں نیب نے دیہی علاقوں کے افراد کو شہری افراد کے کوٹے پر تعینات کئے جانے والے ملازمین کا ریکارڈ طلب کیا تھا,نیب نے گریڈ ون سے گریڈ 21 تک کے ملازمین کا ریکارڈ طلب کیا تھا,مگر بہت جلد حیرت انگیز طور پر نیب سندھ خط میں کئے گئے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گیا۔ اب اس کی وجہ بظاہر تو یہی نظر آتی ہے کہ کوئی ایسی خفیہ ڈیل ہو گئی ہے, جس کے باعث نیب کو جو معلومات درکار تھیں, اب ان معلومات کی نیب کو ضرورت نہیں رہی اور یا پھر ایسی “طاقت ور” جگہ سے نیب کو اس خط سے دستبرداری کے احکامات ملے ہیں, جس کی طاقت کے آگے نیب کے قدم اپنی جگہ سے اکھڑ گئے۔
حامد میر کا اشتعال اور جوابی کارروائی
معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے گذشتہ دنوں جس طرح بے باکی سے پاکستان کے عسکری اداروں کے متعلق جو اشتعال انگیز بیان دیا, اس پر صحافت اور میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے بجا طور پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس سارے قصے کا پس منظر یہ ہے کہ 2014 میں حامد میر پر جو حملہ ہوا تھا,اس کا حامد میر نے براہ راست جنرل ظہیر السلام پر الزام لگایا تھا اور مسلسل 6 سال یہ جنرل ظہیر الاسلام پر الزام لگاتے رہے۔ گذشتہ دنوں رمضان المبارک میں آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ایک صحافی امیر عباس نے آرمی چیف سے سوال پوچھا:”سر پاکستان میں سنیئر صحافیوں پر حملے ہوتے ہیں, اس کی روک تھام کے لیئے آپ کیا کرتے ہیں؟مثلا حامد میر (جو پہلی لایئن میں بیٹھے ہوئیتھے) ان پر حملہ ہوا, اس کا الزام جنرل ظہیر الاسلام پر لگایا گیا لیکن اس پر کوئی تحقیقات نہیں ہوئی- “آرمی چیف نے حامد میر کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا- “حامد میر صاحب!آپ نے اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کے بارے میں کسی کو ابھی تک نہیں بتایا کیا؟؟ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ آپ پر حملہ بلوچستان کے اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل (جو کہ لشکر بلوچستان کے نام سے ایک علیحدگی پسند گروہ چلاتا ہے) اس نے کروایا- اور کیوں کروایا آپ کیوں نہیں بتاتے؟؟جواب میں حامد میر نے کہا, لیکن جنرل ظہیر الاسلام انکوائری میں پیش نہیں ہوئے- تو آرمی چیف نے کہا, جب وہ ریٹائر ہوگئے تو آپ نے کوئی ایف آئی آر درج کروائی؟؟ اور پھر جب آپ کو پتہ چل گیا کہ آپ پر حملہ جاوید مینگل نے کروایا تو پھر جنرل ظہیر الاسلام کا انکوائری میں پیش ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا- (نوٹ) اختر مینگل وہی ہے جس کو حامد میر ہر مہینے میں ایک بار اپنے شو میں ضرور بلاتے ہیں۔ اب کیوں بلاتے ہیں,یہ توحامد میر ہی بہتر بتا سکتے ہیں؟
منفرد ایوارڈ پاکستان کے نام
پاکستان نے ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے 2021 ایوارڈ اپنے نام کر لیا
، عالمی ادارہ صحت کے علاقائی دفتر نے یوم انسداد تمباکو کے موقع پر تمباکو نوشی کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے پر پاکستان کے لیے مذکورہ ایوارڈ کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں اپنے انسداد تمباکو نوشی کے حوالے سے بنائے گئے 6 ریجنز سے ورلڈنو ٹوبیکو ڈے 2021 ایوارڈ کے لیے انفرادی اور ادارہ جاتی نامزدگیاں مانگی تھیں جن میں پاکستان نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ واضح رہے, یہ ایوارڈ تمباکو کنٹرول اور اس حوالے سر انجام دی گئی خدمات کی بنیاد پر مملکت خداداد کو دیا گیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے کے موقع پر یہ ایوارڈ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگرلیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کو دیا جاتا ہے، یہ دن 31 مئی کو دنیا بھر میں منایا جاتا یے۔ ٹوبیکو کنٹرول کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے سیکرٹریٹ برائے فریم ورک کنونشن برائے ٹوبیکو کنٹرول نے تمباکو فری اسلام آباد ماڈل کو عالمی سطح پر تسلیم کیا تھا اور روز اینڈ جسیمین گارڈن عوامی پارک کی تصاویر کو اپنی سالانہ رپورٹ کے ٹائیٹل پیج پر شائع کیا تھا کیونکہ پاکستان نے اعلی سطح پر تمباکو کنٹرول کے حوالے سے اقدامات پر لاگو کیا ہے۔پاکستان نے یہ ایوارڈ تمباکو کنٹرول کے حوالے سے پالیسی سازی کے ذریعے اہم اقدامات کر کے حاصل کیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو ملک میں تمباکو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں 2025 تک 30 فیصد کمی لانا ہے، یہی وجہ ہے کہ کامیابی سے تمباکو فری سٹی پراجیکٹ کو آگے بڑھایا گیا ہے، وزارت صحت کے حکام نے ضلعی سطح پر تمباکو نوشی میں کمی کے لیے مانیٹرنگ سیل قائم کیے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے اس منصوبے کے تحت 12 مختلف اضلاع میں 304 مقامات اور پارکس کو تمباکو فری قرار دیا ہے جس سے وہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے پارکس اور عوامی مقامات کو اسموک فری بنایا ہے۔ تاہم تمباکو فری سٹی پراجیکٹ کے تحت فروخت ہونے والی تمباکو کی مصنوعات رجسٹرڈ کی گئی ہیں۔پاکستان میں اس مہم کا مقصد بڑھتی ہوئی سگریٹ نوشی کی لت پر قابو پانا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 19 فیصد لوگ ایسے ہیں جو 18 سال کی عمر میں ہی تمباکو کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ مردوں میں سگریٹ نوشی 32 فیصد اور خواتین میں 5.7 فیصد تمباکو استعمال کرتی ہیں مگر نوجوانی سے قبل ہی اکثر بچے تمباکو استعمال کرنے لگتے ہیں۔برطانیہ کی آکسفورڈ اکانومی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریبا 78 ارب سے زائد سگریٹ کی اسٹکس اسموک کی جاتی ہیں۔ جن میں 33 ارب سگریٹ اسٹیکس غیر قانونی ہیں۔ ان غیر قانونی سگریٹ اسٹیکس میں سے ساڑھے 8 ارب اسٹکس اسمگل کی جاتی ہیں جبکہ تقریبا 33 ارب اسٹکس ملک میں غیر قانونی طور پر تیار ہوتی ہیں۔حکومت کو دیگر معاملات میں بہتری کی طرح یہ بھی چاہیے کہ وہ تمباکو کی صنعت پر ٹیکس میں اضافے کے لیے ہیلتھ لیوی کو فوری طور پر نافذ کرے تاکہ 2025 تک تمباکو کے استعمال میں 30 فیصد کمی کا ہدف حاصل کرکے حالیہ رحجان کو برقرار رکھا جا سکے۔