افغانستان امریکیوں کا قبرستان

تحریر: جاویدالرحمن خان
افغان ایک جنگ جواور نڈرقوم ہے ۔افغانیوں کی تاریخ جنگ و جدل اور دلیری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ افغانستان کے علاقہ گذنی کے رہنے والے محمود غزنوی نے بھی جنگوں کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوایا۔محمودغزنوی ہی کی بدولت ہندوستان فتح ہوا اور اس خطے میں اسلام کی روشنی پھیلی انگریزجب برصغیرپرقابض ہوا تو افغانستان کو بھی اپنی وسیع سلطنت میں شامل کرنے کی سرتوڑکوشش کی، مگر افغانوں کی جانب سے انگریز کو شدید مزاحمت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔یوں انگریزسرکار پورے افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی، جبکہ افغانستان کے مقابلے میں ہندوستان بہت آسانی سے انگریزوں کے قدموں تلے آگیا،جس کی بنیادی وجہ شیرمیسور ٹیپوسلطان جیسے عظیم مجاہد کے ساتھ میر جعفر اور میر صادق جیسے ننگ ملت لوگوں کی غداری تھی ۔مذکورہ دو غداروں کے باعث ہندوستان کی تاریخ بد ل گئی۔ ٹیپوسلطان اپنوں ہی کے ہاتھوں شہیدہوگئے اور واقعہ یہ کہ انگریزوں کے برصغیر پر قبضے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی ٹیپوسلطان تھے، یہی وجہ ہے کہ ٹیپوسلطان کے جام شہادت نوش کرنے کے بعد انگریز جنرل نے بڑی مسرت اور یقین سے یہ نعرہ لگا یا کہ ”اب ہندوستان ہمارا ہے”ٹیپوسلطان کے گزرجانے کے بعد مسلمان سلطنت انتہائی کم زور ہوگئی جس کا انگریزوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور برصغیر پر اپنے پنجے پوری طرح گاڑلئے ۔
اس ساری صورت حال میں مسلمان زوال پذیر ہونے لگے اور ہندوئوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپنے لیے مراعات اور آسانیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔ مسلمان تو انگریز کی نظر میں ٹیپوسلطان کی وجہ سے ویسے ہی برے اور زیر عتاب تھے، چنانچہ ٹیپوسلطان کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی حالت بد سے بدترہوتی چلی گئی۔آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفراور ان کے بیٹے کسی کام کے نہ تھے۔ شہنشاہ تو عمررسیدہ تھے، مگر ان کے اندر مغل بادشاہوں کے تمام عیوب بدرجہ اتم موجود تھے، جس سے ان کے بیٹے اور امور سلطنت کے ذمہ دار بھی محفوظ نہ تھے۔چنانچہ بہادر شاہ ظفر نے مجاہدین تحریک آزادی کے کہنے سننے اور جوش دلانے پر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند تو کیا، مگر اس کا نتیجہ بدترین شکست کی صورت میں نکلا اور آخری مغل شہنشاہ کے بیٹے قتل کردیئے گئے،شہنشاہ کو خاندان سمیت ہندوستان بدر کر کے رنگون بھیج دیا گیا، جہاں وہ قید تنہائی میں رکھے گئے اور بہ مشکل دو گز زمین انھیں دفن کرنے کے لیے میسر آئی۔برصغیر کے دو شہنشاہوں کا آخری وقت بالکل ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ ایک بادشاہ ٹیپوسلطان نے جواں مردی سے انگریزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور دوسرا بادشاہ جو عیاشی شعروشاعری اور محفلوں کا دل دادہ تھا، اسے ذلت آمیز طریقے سے بادشاہت سے ہاتھ دھوکر ملک بدر بھی ہونا پڑا۔ تاریخ اچھے برے، بہادر بزدل،عیاش اور باکردار ہر قسم کے شہنشاہوں سے بھری پڑی ہے جس نے جیسا کیا مورخ نے وہی لکھا کچھ نے اپنی سلطنت اور رعایا کے لئے کچھ کر دکھاکے تاریخ کے صفحات میں اپنے آپ کو امرکرلیااور کچھ نے عیاشیوں میں پڑکے اپنی سلطنت اور رعایا کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔
ہندوستان پر باآسانی قابض ہوجانے والے انگریزوں کو افغانیوںکی شدیدمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخرانگریزکوسرزمین افغانستان سے بھاگنا ہی پڑا۔ اس کے بعد افغانیوں پر جس نے بھی حکومت کرنے کی کوشش کی،منہ کی کھائی،انگریزوں اور امریکہ کے پٹھو نجیب اللہ کا حشر سب کو یاد ہے۔ لگ بھگ پون صدی بعد روس کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ افغانستان پر چڑھ دوڑا،مگر سفید ریچھ افغانستان میں جا کر پھنس گیا۔افغانوں نے کبھی غلامی کی زندگی قبول نہیں کی، چنانچہ اپنے وقت کی سپرپاورروس کو دانتوں پسینہ آگیا۔دلیر افغانوں نے اپنے کندھوں پر رکھ کر میزائل روسی فوجیوں پر داغے جس نے پوری دنیا کوورطہ حیرت میں ڈال دیا ایسی بے خوف اور نڈر قوم سے بھلا کون جیت سکتا ہے ؟لہٰذا روس گزرتے وقت کے ساتھ افغانستان سے فرار کا راستہ ڈھونڈنے لگا اوربالآخرانتہائی ذلت کے سا تھ زخم چاٹتا سرزمین افغانستان سے نکلا۔افغانستان پر روس کی اس بلاوجہ چڑھائی کا کیا نتیجہ نکلا؟۔۔۔۔روس کی ذلت آمیز، عبرت ناک شکست۔۔۔اپنے وقت کی سپرپاور کے ٹکڑے۔۔۔انتہا ئی جانی و مالی نقصان۔۔۔متحدہ روس افغان جنگ کے بعد متحدہ نہ رہ سکا اور روس کی آہنی دیوار ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ کئی ریاستیں روس سے الگ ہو کر علیحدہ ملک کی شکل میں نمودار ہوئیں جن میں تاجکستان،ازبکستان،کرغیزستان سرفہرست ہیں۔
روس کی پٹائی اور افغانستان سے اس کے فرار کے بعد مقامی جنگ جوئوں نے افغانستان میں اپنی علیحدہ علیحدہ سلطنتیں قائم کرلیں اور افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ ان ”وار لارڈز” کا اسامہ بن لادن کی قیادت میں روس کے ساتھ برسرپیکار ”طالبان”نے بھرپورمقابلہ کیا اور بالآخر مختلف علاقوں پرقبضہ کرتے کرتے طالبان نے پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا اور اپنی حکومت کا اعلان کردیا جسے سب سے پہلے پاکستان، پھر سعودی عرب اور اس کے بعد دیگر ممالک نے بھی تسلیم کرلیا۔ طالبان نے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ایک ماڈل اسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کردیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مملکت افغانستان کو ایک مثالی فلاحی اسلامی ریاست کی جانب گامزن کردیا۔ دنیا بھر میں طالبان کی اسلامی ،شرعی حکومت کے چرچے ہونے لگے۔ سعودی عرب نے بھی طالبان کے طرز حکومت کوسراہا اور خواہش ظاہر کی کہ ایسا طرز حکومت سرزمین سعودی عرب میں بھی نافذ ہونا چاہیے۔
یہاں سے امریکہ کی پریشانی کا آغاز ہوتا ہے، دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے، جو نہ صرف مسلمان ہے بلکہ ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بھی قائم کررہا ہے جس کے چرچے دنیا بھر میں ہورہے ہیں۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسا کیوں ہورہا ہے؟اور ایسا کیوں ہونے دیا جارہا ہے؟امریکی تھنک ٹینک (شیطانوں کا ٹولہ) سرجوڑکر بیٹھ گیا۔کوئی معقول وجہ طالبان کو گندا کرنے یا باالفاظ دیگر حکومت سے ان کی چھٹی کرنے کی سمجھ میں نہیں آئی، چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد ایک امریکی عہدے دار کو افغانستان روانہ کیا گیا، جس نے طالبان حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات کی اور سیدھے سادے طالبان پر انتہائی عیاری اور مکاری سے یہ جال پھینکا کہ تم لوگ اس نبی کے امتی ہو جنھوں نے بتوں کو توڑا ایک بت شکن قوم ہوتے ہوئے تمہارے ملک میں جگہ جگہ بت مت کے مجسمے) استادہ ہیں، انہیں توڑ دو، گرا دو، چنانچہ سیدھے سادے طالبان اس سازش کا شکار ہوگئے۔ اور افغانستان کے علاقے ”بامیان” کے پہاڑوںمیں موجود بتوں کی شامت آگئی یہ دیوہیکل بت پہاڑوں کی بڑی بڑی چٹانوں کو تراش کر انتہائی مہارت سے بنائے گئے تھے۔ بتوں کی توڑ پھوڑ ہوناتھی کہ پوری دنیا میں واویلا مچ گیا۔یوں طالبان نام کے لوگ پوری دنیا سے متعارف ہوگئے اور بت شکنی کے اس عمل سے طالبان پوری دنیا کے سامنے آگئے۔ بہرحال، بتوں کو توڑنے کا سلسلہ تو طالبان نے بہت جلد روک دیا۔ مگر امریکہ کی پریشانی کسی صورت کم نہ ہوئی۔ آخر طالبان کی مثالی حکومت کیسے ختم کی جائے؟۔۔۔۔امریکی تھنک ٹینک (شیطانوں کا ٹولہ) پھر سرجوڑ کر بیٹھا۔یوں ”نائن الیون” کی سازش سامنے آئی۔ امریکہ کے دو شہروں پر خودساختہ حملے کروا کر الزام القاعدہ پر لگادیا گیا اور اس سلسلے میں کسی قسم کا ٹھوس ثبوت بھی مہیا نہیں کیا گیا۔القاعدہ کے رہنما اور ”ماسٹرمائنڈ”اسامہ بن لادن تھے،جو افغان جہاد اور روس کی شکست کے بعد افغانستان میں ہی بس گئے تھے چنانچہ طالبان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا، جو طالبان سربراہ ملا عمر نے یکسر مسترد کردیا۔ ہر طرف سے ملاعمرپردبائو بڑھتا چلا گیا کہ اسامہ بن لادن امریکہ کے دوشہروں پر حملوں کا ”ماسٹرمائنڈ” ہے،لہٰذا اسے امریکہ کے حوالے کیا جائے ،مگر پختون روایات کے مطابق مہمان کو دشمنوں کے حوالے کرنا کسی صورت ممکن نہ تھا، چنانچہ ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا، تا ہم اسامہ بن لادن نے ملا عمر کو پیش کش کی کہ وہ خود کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر افغانستان اور طالبان حکومت کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر ملا عمر راضی نہ ہوئے چنانچہ اسامہ بن لادن کہیں روپوش ہوگئے۔
امریکہ نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے نام سے ایک خودساختہ جنگ کا آغاز کیا اور تمام بڑے ممالک کو اپنے ساتھ ملالیا، تاکہ افغانستان پر حملہ کر کے ”القاعدہ” کو ختم کیا جاسکے اور دنیا کومحفوظ بنایاجاسکے۔امریکہ نے مختلف ممالک کو ملا کر اتحادی فوج تو بنالی مگر افغانستان پر حملہ پاکستان کے تعاون اور پاک سرزمین کے بغیر ناممکن تھا۔چنانچہ پاکستان کے اس وقت کے ایک آمر سربراہ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ایک امریکی عہدے دار نے بعد میں انکشاف کیا کہ ہم نے تین آپشن رکھے تھے کہ اگر پرویزمشرف پہلا آپشن نہیں مانیں گے تو پھر دوسرا اور آخرمیں تیسرا آپشن آزمایا جائے گا، مگر مذکورہ امریکی عہدے دار کے بقول حیرت انگیز طور پر فون کال اور پہلے آپشن پر ہی پاکستان کے فوجی سربراہ ڈھیر ہوگئے، بلکہ لیٹ گئے اور امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو نہ صرف لاجسٹک سپورٹ مہیا کی، بلکہ افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان میں اڈے بھی فراہم کیے بعد میںآنے والے اعداد و شمار کے مطابق مشرف دور میں افغانستان پر 300 سے زیادہ ڈرون حملے کئے گئے۔
اس جنگ کا مرکزی کردار بننے سے پاکستان کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ طالبان کی شکل میں موجود پاکستان بہترین دوست سے محروم ہوا، پاکستان کی مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، بلکہ مستقل خطرے سے دوچار ہوگئیں۔جنگ کے آغاز کے بعد اور طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان کی تباہی و بربادی کے بعد بہت سے القاعدہ اور طالبان رہنمائوں یا سرکردہ افراد نے پاکستان کا رخ کیا۔چنانچہ پاکستان کے کسی علاقے میں القاعدہ یا طالبان رہنما یا کسی بھی سرکردہ شخصیت کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی وہاں اندھا دھند وحشیانہ بمباری کی جاتی یا ڈرون حملہ کیا جاتا، جس کے نتیجے میں القاعدہ یا طالبان سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد مرتا یا نہ مرتا، بہت سے پاکستانی مرد، عورتیں،بچے،بوڑھے، ضرور شہید ہوجاتے۔بہرحال، افغانستان کے خلاف شروع کی گئی یہ جنگ پرویزمشرف کے بعد پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے دور میں بھی جاری رہی اور موجودہ نیازی حکومت کو بھی تقریباً ڈھائی برس گزرجانے کے بعد جولائی 2021 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سرزمین افغانستان سے نکلنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔
اتحادی فوج سے توافغانیوں کی گلوخلاصی ہوگئی، مگر اب نیا فتنہ افغان آرمی اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کی صورت میں سراٹھارہا ہے۔بھارت پاکستان کو افغان آرمی کی مدد سے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے اور پریشان رکھنے کے لئے خفیہ طریقے سے جنگی سازوسامان افغانستان پہنچا رہا ہے۔ بھارت کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ افغان آرمی کی مدد سے
پاکستان کے ٹکڑے کرکے مختلف علاقوں پر قبضہ کرلے گا۔مگر وہ نہیں جانتا کہ دراصل اب ”غزوہ ہند” شروع ہونے جارہا ہے جس کا اختتام دراصل بھارت کے ٹکڑوں کی صورت میں ہوگا۔ کیونکہ طالبان تیزی سے افغانستان کے مختلف حصوں پر کنٹرول حاصل کرتے جارہے ہیں اور جگہ جگہ افغان آرمی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر سر ینڈر کررہی ہے،لہٰذا یہ کہنا بلکہ یہ پیشن گوئی کرنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ بہت جلد طالبان حکومت کا سورج طلوع ہوگا اور امریکہ کے بعد بھارت بھی اپنے زخم چاٹتارہ جائے گا۔