ایک اور محسن گیا ڈاکٹر قدیر بھی حکومت پاکستان کے سلوک سے شاکی رہے کب تک پاکستان پر احسان کرنے والے حق تلفی کا شکار رہیں گے

پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے، سکیورٹی حکام ایٹمی ٹیکنالوجی اور معلومات ایران کو فراہم کرنے کے حوالے سے پوچھ گچھ کررہے ہیں
ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیون میں پڑھنے کے بعد 1976 میں واپس پاکستان آگئے
ڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976 میں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاالحق نے تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے
مئی 1998 میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ادارے نے پچیس کلو میٹر تک مارکرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائے
انیس سو چھتیس میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والیڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھا
ڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے اور اس وقت فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے جس پر ان کی مارکٹائی ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے۔ انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہورہا ہے۔
ڈاکٹر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے ہیں لیکن 19 دسمبر 2004 کو سینیٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام شامل نہیں تھا
ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور اب تو ڈاکٹر قدیر خان نانا بن گئے ہیں۔ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔چودہ اگست 1996 میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989 میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر قدیر خان نیسیچٹ sachet کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے
پاکستان کی تاریخ میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو گزرے ہوں، لیکن اپنے کیریئر کے آخری دنوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان متنازع بن گئے۔
یہ 2004 کی بات ہے۔ ایک شام اچانک ٹیلی ویژن لگایا تو سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیٹھے ہوئے بات کرتے نظر آئے۔
فرق اتنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر، جن کے چہرے پر ہمیشہ پراعتماد مسکراہٹ کھلی رہتی تھی، اور آنکھوں میں چمک ہوا کرتی تھی، وہی ڈاکٹر قدیر اس وقت یوں بجھے ہوئے تھے جیسے کوئی بیماری گزار کے آئے ہوں، اعتماد ان سے کہیں دور بچھڑ گیا تھا اور وہ کیمرے سے نظریں ملانے سے کترا رہے تھے۔
اس ویڈیو میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہی ایٹمی ٹیکنالوجی کو دنیا کے مختلف ملکوں تک پھیلانے کے قصوروار تھے اور یہ کام وہ خود اپنی مرضی سے کرتے رہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو گزرے ہوں، لیکن اسی دیومالائی ہیرو جیسی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر قدیر خان کی ایسی بلندی کے بعد ایسی پستی بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔
مغرب میں منفی کردار کے طور پر جانے جانے کے باوجود وہ پاکستانیوں کے حقیقی ہیرو تھے، جنہوں نے عالمی دبا کی موجودگی میں پاکستان کے لیے ایٹم بم بنا کر اسے پڑوسی ملک بھارت کی کئی گنا بڑی عسکری قوت کے خلاف ممکنہ مزاحمت (ڈیٹرنس) فراہم کی۔
سکول کے استاد کے بیٹے
عبدالقدیر خان المعروف اے کیو خان متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال (جو موجودہ وقت میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کا صدر مقام ہے) میں یکم اپریل 1936 کو سکول کے استاد عبدالغفور اور زلیخا کے ہاں پیدا ہوئے۔
اے کیو خان ابھی محض 11 سال کے تھے کہ متحدہ ہندوستان نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی، جس کے نتیجے میں دو الگ ملک بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔
بھوپال میں ہی 1952 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد عبدالقدیر خان پاکستان منتقل ہوئے، اور کراچی میں رہائش اختیار کی، جہاں انہوں نے 1956 میں ڈی جے سائنس کالج سے طبیعات میں گریجویشن مکمل کی۔
کچھ عرصہ کراچی کی شہری حکومت میں ملازمت کے بعد آپ 1961 میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ہالینڈ چلے گئے، جہاں 1967 میں مٹیریلز ٹیکنالوجی میں ماسٹر آف سائنس (ایم ایس) کی، اور اس کے بعد بیلجئیم کی لیوین یونیورسٹی سے 1972 میں دھاتوں سے متعلق انجینیئرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پہلی نوکری ایمسٹرڈیم میں فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری کے ساتھ کی، تاہم جلد ہی وہ ایٹمی بجلی گھروں کے لیے جوہری ایندھن کے لیے گیس سنٹری فیوج طریقہ استعمال کرنے والے یورینکو گروپ سے منسلک ہو گئے۔
آپ نے 1964 میں برطانوی خاتون ہینڈرینا ریٹرنک سے شادی کی، جو جنوبی افریقہ میں ڈچ والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں، جبکہ ان کی پرورش زیمبیا میں ہوئی تھی۔
پاکستان کا جوہری پروگرام
مئی 1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کی خواہش پیدا ہوئی۔
دسمبر 1974 میں ان کی ملاقات اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی، جس میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی قیادت اور چوٹی کے جوہری سائنس دانوں کو یورینیم کی افزودگی سے متعلق سمجھایا۔
اس سے قبل پاکستان کا جوہری پروگرام 1972 سے منیر احمد خان کی قیادت میں پلوٹونیم کی افزودگی کی بیناد پر کام کر رہا تھا۔
ابتدا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورینکو گروپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے پاکستان کے جوہری پروگرام میں مدد فراہم کرتے رہے، جس کے باعث گروپ میں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، اور آپ 70 کی دہائی کے وسط میں پاکستان انرجی کمیشن آف پاکستان (پی اے ای سی) کے تحت ملک کے جوہری بم پروگرام کے افزودگی ڈویژن سے باقاعدہ منسلک ہو گئے۔
ایٹم بم پروگرام کے ساتھ رفاقت کے دوران ڈاکٹر قدیر یورینیم کی افزادگی پر زور دیتے رہے، جس کے باعث ان کے دوسرے سائنس دانوں خصوصا منیر احمد خان کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر، جو طویل عرصے تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہے، ملک کے سائنس دانوں کی کمیونٹی میں ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
اکثر سائنس دان اکثر ایٹم بم بنانے میں ان کے کردار سے اختلاف رکھتے ہیں، اور ان پر خود ستائشی کا الزام لگاتے ہیں۔
پاکستان نے 28 مئی 1998 کو پہلی مرتبہ جوہری تجربات کیے، جن کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلا شرکت غیر کریڈیٹ کا دعوی کرتے ہیں۔
یورینکو گروپ کے ساتھ کام کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یورینیم افزودگی اور سینٹری فیوج مشین پر کام کرنے کا موقع ملا، جس نے ان کے حمایتیوں کے خیال میں پاکستان کے جوہری میدان میں کامیابیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام میں کردار ادا کرنے کے علاوہ ڈاکر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو کو دوبارہ منظم کرنے، اور خلائی پروگرام، خصوصا پہلے پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل پروجیکٹ اور سیٹلائٹ لانچ وہیکل میں اہم کردار ادا کیا۔
آپ نے پاکستان میں کئی انجینیئرنگ یونیورسٹیوں کے قیام میں بھی ایک اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینیئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں میٹلرجی اینڈ میٹریل سائنس انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا۔
جوہری پھیلا کا الزام
عبدالقدیر خان 2004 میں ایک بین الاقوامی سکینڈل کے مرکزی کردار کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے، جس میں ان پر غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلا کے الزامات لگے۔
2003 میں اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ادارے واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ بعد ازاں سرکاری ٹی وی پر آ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے جرم کا اعتراف کیا جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
فروری 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی ختم کرنے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر ایک آزاد شہری ہیں۔ عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند تھے اور ہر وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے تھے۔ امریکہ کی اس وقت کی حکومت نے پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اس سلسلے میں ثبوت پیش کیے، اور ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے اعتراف بھی کیا، جسے بعد ازاں انہوں نے دبا میں لیا جانے والا بیان قرار دیا۔
پاکستان حکومت نے امریکہ کے اصرار کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر کو اس کے حوالے نہیں کیا، بلکہ انہیں اسلام آباد میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا، جسے کئی سال بعد اعلی عدلیہ کے حکم پر ختم کرنا پڑا۔
پاکستانی سائنس دان عبدالقدیر خان نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی بنیاد پر انہیں پاکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے تاہم مغرب انہیں ایٹمی راز اسمگل کرنے والا خطرناک شخص سمجھتا ہے۔
یکم اپریل سن 1936 کے روز بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کے نزدیک وہ سن 1998 میں پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد اس حوالے سے بھارت کے ہم پلہ ہو جانے اور ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی وجہ سے قومی ہیرو ہیں۔
لیکن ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے الزامات سامنے آنے کے بعد ان کی حیثیت بھی متنازع ہو گئی۔ انہوں نے سن 2004 میں غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے جرم کا اعتراف بھی کیا جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
فروری سن 2009 میں عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند ہیں۔ خان ہمہ وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے ہیں۔
بھوپال سے اسلام آباد تک کا سفر
بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے عبدالقدیر خان کا خاندان سن 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گیا۔ سن 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اعلی تعلیم کے لیے جرمن دارالحکومت برلن چلے آئے۔ بعد ازاں انہوں نے ہالینڈ اور بیلجیم میں بھی تعلیم حاصل کی۔
پاکستانی جوہری پروگرام کے لیے خان نے یورینیم سینٹریفیوجیز کے بلیو پرنٹ حاصل کیے تھے جو انہوں نے ہالینڈ میں قائم یرینکو نامی کمپنی میں کام کرتے ہوئے چرائے تھے اور سن 1976 میں انہیں اپنے ساتھ پاکستان لے گئے تھے۔ اس جرم میں ہالینڈ میں ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔
بھٹو سے مشرف تک
پاکستان آمد کے بعد اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں یورینیم کی افزودگی کے منصوبے کا انچارج بنا دیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ ان کی ٹیم سن 1978 تک یورینیم کی افزودگی کر چکی تھی اور چھ برس بعد، یعنی سن 1984 میں پاکستان ایٹم بم کا تجربہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔
زوال کا سفر
مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان نے ایٹمی تجربہ کرنے سے گریز کیا اور آخر کار یہ کام سن 1998 میں مکمل ہوا جس کے بعد عبدالقدیر خان قومی ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ لیکن ان کا زوال اس وقت شروع ہوا جب سن 2001 میں امریکی دبا کے بعد پرویز مشرف نے انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی سربراہی سے ہٹا کر انہیں خصوصی مشیر بنا دیا۔ تاہم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا ہیرو اس قدر متنازع بھی ہو جائے گا۔
اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ بعد ازاں خان نے سرکاری ٹی وی پر آ کر اس جرم کا اعتراف کیا۔ اعتراف جرم کے بعد جنرل مشرف نے ان کے لیے معافی کا اعلان کر دیا۔
تاہم بعد ازاں عبدالقدیر خان اس بیان سے مکر گئے۔ سن 2008 میں انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، میں نے پہلی مرتبہ پاکستان کو جوہری طاقت بنا کر بچایا اور دوسری مرتبہ میں نے تمام الزام اپنے سر لے کر ملک کو بچایا۔
بے نظیر بھٹو کے حکم پر جوہری راز دیے
چھ برس قبل جولائی سن 2012 میں عبدالقدیر خان نے تحریک تحفظ پاکستان نامی ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئی عملی سیاست میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی جماعت نے ملک بھر سے ایک سو گیارہ امیدوار نامزد کیے، جن میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو پایا اور ایک سال بعد انہوں نے جماعت ختم کر دی۔
اسی برس انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ دعوی بھی کیا کہ سابق پاکستانی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی ہدایات پر انہوں نے دو ممالک کو ایٹمی راز مہیا کیے تھے تاہم انہوں نے ان ممالک کے نام نہیں بتائے۔ بھٹو کی جماعت نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سامنے آنے والے متعدد تنازعات کے باجود عبدالقدیر خان کی عوامی مقبولیت میں بظاہر کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی پاکستان میں کئی تعلیمی ادارے ان کے نام پر قائم ہیں اور ان کی تصاویر کتابوں اور اسٹیشنری پر چھاپی جاتی ہیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ماہنامہ سائنس ڈائجسٹ، کراچی میں پروفیسر قادر حسین کے حق میں اور اس مقدمے کی روداد سے متعلق بڑے اہتمام سے مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں اسے قادر قدیر تنازعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس میں ایک وقت وہ بھی آیا کہ ہفت روزہ تکبیر (ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حق میں) اور ماہنامہ سائنس ڈائجسٹ (پروفیسر قادر حسین کی حمایت میں) ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بازی پر اتر آئے۔
استادِ محترم جناب سید قاسم محمود کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ سائنس میگزین نے جنوری 1991 میں جب اپنا 75واں شمارہ (پلاٹینم جوبلی نمبر) شائع کیا تو اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک خصوصی مضمون بھی شامل تھا جو انہوں نے سید صاحب کی فرمائش پر بھجوایا تھا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر خان نے یورینیم افزودگی کا خاصی تفصیل سے جائزہ لیا تھا۔ البتہ پروفیسر قادر حسین کے دعوے سے متعلق کچھ زیادہ بات نہیں کی تھی۔ (یہ واقعہ مجھے اس لیے بھی یاد ہے کیونکہ اسی شمارے سے سید صاحب نے مجھے نائب مدیر سے ترقی دے کر سائنس میگزین کا مدیر بنایا تھا۔)
وسیع تر خدمات
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 1990 کا عشرہ شروع ہوتے ہوتے پاکستان میں ایٹم بم سے متعلق بہت سے معاملات پختہ ہوچکے تھے کیونکہ اسی زمانے میں کہوٹہ لیبارٹریز نے اپنی خدمات کا دائرہ کار یورینیم افزودگی سے بڑھا کر میزائل سازی اور دوسرے دفاعی آلات کی تیاری تک وسیع کردیا۔ ان میں بکتر شکن اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل، عنزہ میزائل، ریڈار سسٹمز، الیکٹرونک سسٹمز اور لیزر رینج فائنڈرز کے علاوہ غوری اول، غوری دوم اور حتف اول جیسے بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکے
مئی 1998 میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر بھی جوابی ایٹمی دھماکوں کے لیے دبا شدید تر ہوگیا اور 28 مئی 1998 کے روز پاکستان نے بھی چاغی میں ایٹمی دھماکے کرکے برِصغیر میں طاقت کا تیزی سے بگڑتا ہوا توازن ایک بار پھر بحال کردیا۔
یہ کہنا زیادہ صحیح رہے گا کہ یہ دھماکے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے ہزاروں ماہرین کی عشروں پر پھیلی ہوئی محنت کا حاصل تھے۔ اس موقع پر ایک دوسرے سے شدید مخاصمت کے باوجود، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند، دونوں ہی چاغی میں موجود تھے۔ حسبِ توقع، ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان پر نئی پابندیاں لگا دی گئیں لیکن اندرونِ ملک اس عظیم کامیابی کا کریڈٹ لینے کی دوڑ لگ گئی جس میں سیاستدان اور سائنسدان برابر کے شریک تھے۔
ایٹمی راز برائے فروخت
وقت گزرتا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 2004 کا سال آن پہنچا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ڈی بریفنگ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری قوم کے سامنے، پی ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ دیگر ممالک کو ایٹمی راز فراہم کرتے رہے ہیں اور اپنی اس حرکت پر قوم سے معافی چاہتے ہیں۔
سب جانتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربانی کا بکرا بنا کر کچھ اصلی بڑوں کی گردن بچائی جارہی ہے لیکن یہ بات کہنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ اپنے اس اعتراف کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کئی سال تک ان کے اپنے ہی گھر میں نظربند کردیا گیا۔ جنرل مشرف کے بعد ڈاکٹر خان کے حق میں فیصلہ ہوا اور انہیں ایک بار پھر آزادی نصیب ہوئی۔
ایٹمی دھماکے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب سے سابق وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز خطاب کر رہے ہیں، اسٹیج پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور سابق خارجہ سیکریٹری شمشاد احمد خان بھی موجود ہیںڈان آرکائیوز
لیکن تب تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان بری طرح سے ٹوٹ چکے تھے۔ 2014 میں ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی اور آخری ملاقات ان کی بہن کے گھر پر ہوئی جو کراچی میں رہتی ہیں۔ میں صدیق شیخ صاحب کے ساتھ تھا، جنہوں نے میرا تعارف بہت اچھے لفظوں میں کروایا۔ تعارف سن کر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: ارے بھئی اتنے قابل ہیں تو پاکستان میں کیا کر رہے ہیں؟ جائیے، کہیں اور جائیے۔ یہاں رہیں گے تو مجھ جیسا ہی انجام ہوگا!
ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ جملہ مجھے بہت عجیب محسوس ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سرکاری اور ادارہ جاتی معاملات چاہے جیسے بھی رہے ہوں، لیکن عام پاکستانیوں کے دلوں میں ان کی عزت و احترام میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ایک طبقہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مسلسل اور شدید تنقید کرتا رہتا ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج بھی پاکستان میں سائنس کے حوالے سے مقبول ترین نام ہیں۔
ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر آج بھی لاکھوں پاکستانی نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ پاکستانی قوم کی یہی محبت ڈاکٹر صاحب کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔