تعلیم کے ساتھ کھلواڑ مت کیجئے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ اور غلط پالیسیوں نے ملک کا مستقبل دا پر لگا دیا ہے

 

جاوید نذیر
لیجئے حکومت کا تازہ ترین کارنامہ پیش خدمت ہے۔ پہلے ایف اے/ ایف ایس سی کے امتحانات میں بچوں کے سو فیصد نمبرز آئے تو عقل دنگ رہ گئی کہ کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند تھے لیکن آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، جس کے نتیجے میں بچوں نے سو فیصد نمبر حاصل کرکے عوام کو دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور کردیا کہ کیا آن لائن تعلیم بہتر ہے یا باقاعدہ اور منظم تعلیم بہتر ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق ایف اے/ ایف ایس سی میں 350 سے زائد طلبا و طالبات نے سو فیصد نمبر حاصل کبے ہیں اور ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کسی کلاس کے سبمسٹر میں بھی کبھی کوئی پوزیشن نہیں لی تھی۔ ابھی عوام ایف اے/ ایف ایس سی کے نتائج کی خوشی سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ میٹرک کے امتحانات کے نتائج سامنے آگئے اور عوا م ایک مرتبہ پھر خوشی سے نہال ہوگئے۔ کیونکہ پنجاب بھر کے تقریبا ہر اسکول سے کسی نہ کسے بچے نے سو فیصد نمبر حاصل کرکے نہ صرف اپنے والدین بلکہ ان تعلیمی اداروں کا بھی نام روشن کیا جہاں سے وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے اور وہ یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جے ہو۔
ایسا سننے میں آیا ہے کہ پنجاب بھر میں 700 سے زائد طلبا نے سو فیصد نمبر حاصل کیے ہیں جو پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں یقینا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
عوام کی خوشی تو دیدنی ہے اور ہونی بھی چاہیے، کیونکہ ان کے بچوں نے اعلی دماغ رکھنے والے سائنسدانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور دانشوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور راقم کو تو یوں لگتا ہے کہ میٹرک اور ایف ایس سی کے موجودہ نتائج کو دیکھتے ہوئے کہیں NASA اپنی ذیلی برانچ ہمارے ملک میں ہی نہ کھول دے۔ ویسے موجودہ حکومت سے کچھ بعید بھی نہیں ہے کیونکہ اپنی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ کبھی یہ وزیراعظم کی تقریر کو دنیا کے تمام لیڈروں کے مقابلے میں سب سے مدلل تقریر قرار دیتے ہیں، کبھی اپنی سفارت کاری کو دنیا کی اہم سفارت کاری سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر صرف موجودہ حکومت ہی حل کرسکتی ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ کہ ترکی، چین اور ملائیشیا کے علاوہ کوئی اور ملک ہمارے ساتھ کھڑا ہی نہیں ہورہا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے اس حوالے سے تاحال کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا۔
سفارت کاری کی دوسری مثال یہ کہ امریکا کی حد سے زیادہ تابعداری کے بعد اب امریکا ہمارے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کررہا اور وہ انسداد دہشت گردی کے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور ہمیں ڈو مور کا کہا جارہا ہے۔ ہماری اعلی سفارت کاری کی ایک اور مثال کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم عین میچ کے دن سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر چلی گئی اور ہمارے وزیراعظم کے کہنے پر بھی معاملہ حل نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہا جارہا ہے کہ ہماری سفارت کاری بہت کامیاب سمت میں جاری ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات ناکام نظر آرہے ہیں، جس کا خمیازہ عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے اور شنید ہے کہ آئی ایم ایف اپنی شرائط مزید سخت کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی مزید زور پکڑے گی۔ حکومت کے خلاف اسی نکتے پر اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف شدید احتجاج کا عندیہ دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی پہلے ہی جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کرچکی ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا ہے اور عوام کو لالی پاپ دیا جارہا ہے کہ نہ صرف مہنگائی کم ہوگی بلکہ پٹرول بھی سستا ہوجائے گا۔ اس ضمن میں ایک مضحکہ خیز افواہ گردش کررہی ہے کہ موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو پٹرول سستا فراہم ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہوگا، اس حوالے سے کوئی کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔
عوام کو کاروبار کروانے کیلیے مرغی پال اور کٹا پال اسکیموں کے بعد بھنگ کی کاشت سے زرمبادلہ کمانے کا منصوبہ شروع کردیا ہے اور متعلقہ وزیر کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حکومت کی مشاورت سے شروع کیا گیا ہے۔ اب دیگر منصوبوں کی طرح اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
خیر میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں کہ تعلیم کے ساتھ موجودہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس کے خاطر خواہ نتائج نکلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی تحقیق اور کتابیں پڑھنے کا فقدان ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے نئی نسل کتابوں سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ ایسے میں طالب علم مجبورا کورس کی کتابیں تو دھیان سے پڑھتے تھے لیکن اس قسم کے نتائج سے شاید وہ بھی ممکن نہ رہے۔ کل کو انہی بچوں نے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا ہے، بیرون ملک اعلی تعلیم کیلیے جانا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں قسمت آزمائی کرنی ہے تو اس قسم کی تعلیم سے کیا ہمارے بچے ایسا کر پائیں گے؟
خدارا طالب علموں کو خوش فہمی کی اس فضا سے نکالیے اور اسمارٹ سلیبس اور آن لائن اسٹڈی کے نام پر عوام کو جو بے وقوف بنایا جارہا ہے اس سلسلے کو بند کیا جانا چاہیے کیونکہ صرف تعلیم ہی ہے جس کی وجہ سے کسی نسل اور ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اگر مستقبل میں اسی قسم کے تعلیمی نتائج سامنے آتے رہے تو طالب علموں کو ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ تو دیے جائیں گے لیکن انہیں تعلیم یافتہ نہیں بنایا جاسکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وزارت تعلیم اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں صحیح معنوں میں تعلیم کا حصول ممکن بنائے کیونکہ یہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔