خان کی ریاستِ مدینہ یا اندھیر نگری، چوپٹ راج ڈالر کی اڑان کے ساتھ ہی مہنگائی کو بھی پر لگ جاتے ہیں

 

یوسف ابوالخیر
پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا ہولناک طوفان آئے گا۔
رات کی تاریکی میں مہنگائی کی چکی میں پِسے بے حال عوام پر پٹرول بم گِرا کر کپتان صاحب ریاستِ مدینہ کی جانب ایک قدم اور بڑھا گئے۔
دس سے بارہ روپے فی لیٹر تک قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا جو ہولناک طوفان آئے گا، اس کا تو سوچ کر ہی دل میں ہول سا اٹھنے لگا ہے۔ اب تو بس اللہ ہی خیر کرے گا۔
حکومت کی جانب سے صرف یہ کہہ کر ہاتھ جھاڑ لینا کہ تیل مِل مہنگا رہا ہے اس لیے عوام کو مہنگا دے رہے ہیں، ہرگز کوئی جواب اور جواز نہیں۔ حکومت کی تو ذمے داری ہی عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے، یہ نہیں کہ بس عالمی منڈی سے خرید کر لوکل مارکیٹ تک پہنچا دو؛ اور بیچ میں ٹیکس کے نام پر اپنا کٹ وصول کرکے ایک طرف ہوجا۔
اس وقت درجنوں ایسی مدات ہیں جن پر عوام کے ٹیکس کا کروڑوں روپے ضائع کیا جارہا ہے۔ جیسے کہ وزیراعظم ہاس، گورنر ہاسز کے بھاری بھرکم اخراجات، وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج، انہیں دی گئی گاڑیاں، دفاتر، نوکر چاکر اور دیگر مراعات، ججز، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی جیبوں، پیٹوں اور بینک اکانٹس میں جانے والی نوٹوں کی بھاری گڈیاں ان تمام اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ بلا مبالغہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی خطیر رقم بنتی ہے۔
یعنی اوپر والوں کی عیاشی کا ایک ایک پیسہ عوام کا خون نچوڑ کر وصول کیا جارہا ہے!
آپ واپس لیجیے یہ ساری آسائشیں اور مراعات۔ وزیراعظم صاحب شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اپنا دربارلگائیں اور وہاں سے امور ریاست چلائیں۔ چیف جسٹس صاحب لال مسجد میں عدالت لگائیں اور قرآن و شریعت کی روشنی میں قضا کے معاملات نمٹائیں۔
وزرا اور مشیران کو ڈی چوک پر ایک تمبو گاڑ کر کیمپ بنا کر دے دیا جائے جہاں ان کیلیے پیڈسٹل فین اور ٹھنڈے پانی والے کولرز لگادیئے جائیں، بیٹھیں ادھر اور ٹائم پاس کریں، ویسے بھی کرنا تو انہیں کچھ ہوتا نہیں۔ پھر اس ایکسرسائز سے جو خطیر رقم بچے، اسے آپ اس کمزور طبقے کو اوپر اٹھانے پر خرچ کیجیے جن کیلیے آپ تقریروں کی حد تک ہلکان ہوئے جارہے ہوتے ہیں۔
اس کے ثمرات سے یقینا پوری قوم مستفید ہوگی کہ بہرحال آپ کی یہ بات تو فلسفے اور نظریے کی حد تک تو بالکل ٹھیک ہے کہ ریاست کی جانب سے کمزور طبقے کی خبر گیری و نگہبانی آسمان سے رحمتوں برکتوں کے نزول کا باعث بنتی ہے۔
یہ میں کوئی اناپ شناپ نہیں بک رہا، انہونی بیان نہیں کررہا؛ بلکہ جس ریاستِ مدینہ کے نام کی مالا جپتے آپ نہیں تھکتے، اسی تاجدارِ مدینہ ۖ اور ان کے جانشیں دنیا کے بہترین حکمرانوں نے عملا ایسا کرکے دکھایا ہے۔
ہادء عالم رحمت اللعالمینۖ کے پاس امورِ ریاست چلانے کیلیے علیحدہ سے کوئی عالیشان محل نہیں تھا؛ امیرالمومنین خلفائے راشدین نے کوئی وزیراعظم ہاس یا ایوانِ صدر بنوایا نہ بننے دیا، سادگی کو شعار بنایا، قناعت کے راستے کو اپنایا، تب جاکر وہ دنیا کے حاکم بھی بنے اور دلوں کے حکمران بھی رہے۔
اس کے برعکس آپ کی باتیں تو بڑی چکنی چپڑی، چٹ پٹی، مصالحے دار ہیں مگر آپ کے اعمال و اقدام ریاست مدینہ اور تاجدار مدینہۖ سے یکسر مختلف ہیں۔ مگر یہ فارمولا زیادہ عرصے کارگر رہ نہیں پاتا۔
گفتار کے غازی نہ بنیے خان صاحب! کردار کے مجاہد بنیے۔ یقین جانیے آپ بن بھی سکتے ہیں کیونکہ جس قدر مضبوط اعصاب اور سرپھرے مزاج کے حامل آپ ہیں، ریاستِ مدینہ کی جانب پیش قدمی کیلیے قوم کو ایسے ہی کسی دیوانے، کسی مجنوں کی ضرورت ہے۔
اگر تو آپ یہ کر گزرے تو تاریخ آپ کو نشا الثانیہ کے معمار کے طور پر یاد رکھے گی، ورنہ جس اقبال کو آپ اپنا مرشد گردانتے ہیں، اسی کا یہ شعر آپ کیلیے طعنہ بن جائے گا کہ
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابِت وہ سیارا
پاکستان میں مہنگائی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں عمران خان کے کٹر حمایتی بھی اب ان کا دفاع نہیں کرپا رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ مہنگائی پچھلی حکومتوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ اسحاق ڈار نے جس طرح اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا، اس صورت میں اگر نون لیگ کی حکومت دوبارہ بھی آجائے تو وہ اس دلدل سے نہیں نکل سکتی۔ ویسے بھی ہمارے دونوں بڑے سیاسی خاندان بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہی ہیں۔ ان کی تمام پالیسیاں اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے حصول کیلیے ہی ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مفاہمت اسی بات پر ہوئی تھی کہ اس ملک کو جلد از جلد اتنا کمزور کردیا جائے کہ ایک ہلکے سے بھارتی فوجی دبا پر ہر صوبہ الگ ملک ہونے کا اعلان کرکے پاکستانی فوج کو ہندو فوج کے سامنے شکار بناکر ڈال دے۔ اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور ان کی رہنمائی میں ان دونوں خاندانوں کی ملی بھگت سے جس طرح آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی، اس نے ویسے ہی اس ملک کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اب اگر گندم کی قلت پیدا کرنی ہو تو ایک صوبہ اپنی گندم روک لیتا ہے اور عوام کو مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوتے ہیں۔ ایک تو مہنگائی کا الزام حکومت پر لگتا ہے، دوسرے سیاست دانوں کی جیبیں بھی بھر جاتی ہیں۔ پاکستان میں کون ایسا لاعلم ہے جو نہیں جانتا کہ اکثر فلور ملز سیاسی خاندانوں کی ہی ہیں۔ یہی حال شوگر ملز کا ہے۔ حکومت نے ذرا شوگر ملوں سے حساب کتاب کرنا شروع کیا وہیں شکر کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی۔ یہاں بھی ایک تیر سے دو شکار ہوگئے۔ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ شوگر ملز کن لوگوں کی ہیں۔
ہمارے ملک کی کرنسی ڈالر نہیں ہے، اس کے باوجود ڈالر کے ہلکے سے اتار چڑھا کا اثر ہماری پوری قومی زندگی پر ہوتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہماری غلامانہ ذہنیت کے مارے سیاست دان ہیں، جو نہ صرف مغرب کے غلام ہیں بلکہ ان کے ایک اشارے پر اپنے ملک کا بڑے سے بڑا مفاد بھی دا پر لگا دیتے ہیں۔
عام آدمی نہ ڈالر استعمال کرتا ہے، نہ ہی اسے اس کرنسی کو جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن پھر بھی ڈالر اسے مارے ڈال رہا ہے۔ آج ہمارے ملک میں ڈالر کی ترسیل پچھلے تمام ادوار سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ڈالر آج پچھلے تمام ادوار سے زیادہ مہنگا ہے۔
اب ایک طریقہ تو عوام کو ڈالر کی نحوست سے بچانے کا یہ ہوسکتا ہے کہ عوام کو تنخواہ ہی ڈالر میں دینی شروع کردی جائے. ڈالر جتنا مہنگا ہوگا اتنی ہی ان کی قوت خرید بڑھ جائے گی۔ اس طرح شاید عوام خود ڈالر مہنگے سے مہنگا ہونے کی دعا کرنا شروع کردیں گے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس تجویز کو تو سنتے ہی وزارت خزانہ رونا شروع کردے گی۔ اس لیے کہ ہماری ہر حکومت کی ہر وزارت عوام کی بھلائی کو اپنے اوپر حرام رکھتی ہے۔
ڈالر صرف عام آدمی کو ہی نہیں بلکہ اب تو بڑے لوگوں کے کاروبار کو بھی متاثر کررہا ہے۔ متوسط کاروباری افراد جو اس ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کیلیے دن رات محنت کرکے اپنی پروڈکٹ کا خریدار تلاش کرکے اس سے ڈیل کرتے ہیں، تو انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ڈیل کی تھی تو ڈالر ایک سو اکسٹھ کا تھا لیکن ڈیل کرتے ہی پاکستان پہنچنے تک ڈالر ایک سو بہتر کا ہوگیا ہے۔ تمام پرائس کی ورکنگ ایک سو اکسٹھ پر تھی، اب کیا کریں؟ برآمد کرنے والا سر پکڑے بیٹھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس وقت جس کنٹینر کا کرایہ نو ہزار ڈالر تھا وہ اب چھتیس ہزار ڈالر ہوگیا ہے۔ اگر مال نہ بھیجیں تو ڈیفالٹر کہلاتے ہیں اور اگر مال بھیجتے ہیں تو پیسے اپنی جیب سے خریدار کی جیب میں ڈالنے والی بات ہے۔ ایسے برآمد کنندگان پر وہی مثال صادق آرہی ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔
یہاں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ٹیکسٹائل والے تو آج اتنا خوش ہیں، ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ تو ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والا خام مال یعنی کپاس پاکستان میں ہی پیدا ہوتی ہے، جس پر ڈالر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کپاس کے سودے پہلے ہی کرلیے جاتے ہیں جن میں بعد میں کوئی ردو بدل نہیں ہوتی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں۔ ایک طرف تو ایکسپورٹ کے طفیل ڈالر کما رہے ہیں، دوسری طرف اوور انوائسنگ کرکے اپنا باہر پڑا ہوا کالا دھن بھی سفید کر رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے تمام کاروبار بھی ڈالر کی اڑان سے متاثر ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی بھی بنیادی صنعتی خام مال کو ملک میں تیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم نے کبھی اسے یہاں بننے ہی نہیں دیا، تاکہ ہر چیز کی قیمت ڈالر سے منسلک رہے اور عوام کو یونہی روزگار کے چکر میں پھنسایا رکھا جائے۔
اگر ہم دواں میں استعمال ہونے والا خام مال ہی اپنے ملک میں بنانے لگتے تو آج ہمارے یہاں دواں کی قیمتیں آسمان پر نہ ہوتیں۔ صرف اس خام مال سے بے شمار کاسمیٹک بنانے والی صنعتیں بھی ڈالر کے قہر سے آزاد ہوجاتیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں۔ ہمارے ملک میں ہر صنعت کی ایسوسی ایشننز بنی ہوئی ہیں۔ ہم ہر صنعت کو یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال خود اپنے ملک میں تیار کرنا شروع کردیں۔ جس کیلیے سرمایہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئر فروخت کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس خام مال کی صنعت کو ہر قسم کے ٹیکسز سے مستثنی قرار دے دیا جائے۔ صرف فنش گڈز پر ہی ٹیکس لاگو ہو۔ اس طرح بے شمار کاروبار ڈالر کی نحوست سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
چین اور روس بے شمار بار یہ تجویز دے چکے ہیں کہ ڈالر کی نحوست سے نکلنے کیلیے خطے کے ممالک لین دین اپنی اپنی کرنسیوں میں کریں۔ یہ تجویز بھی پاکستان کے کسی کام نہیں آسکتی۔ کیونکہ پاکستان کو اپنا قرضہ ڈالر میں واپس کرنا ہے۔ اگر وہ ڈالر کمائے گا نہیں تو ڈالر واپس کیسے کرے گا؟ ہماری سب سے بڑی عقلمندی یہ ہے کہ ہم چین سے بھی قرضہ لیتے ہیں تو ڈالر میں۔ وہاں بھی ہم ان کی کرنسی میں قرضہ نہیں لیتے۔ شاید ہم ڈالر کی محبت میں ایسے گرفتار ہیں کہ ہم اس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے سنہری موقع کو گنوا رہا ہے جو شاید اسے دوبارہ کبھی نہ مل سکے۔ اس وقت چین کو جتنی ضرورت پاکستان کی سپورٹ کی ہے اتنی شاید اسے پھر کبھی نہ رہے۔ آج اس کے تعلقات آسٹریلیا سے جتنے خراب ہیں ہم اس کا فائدہ بالکل نہیں اٹھا رہے(با قی صفحہ ۔۔۔ پرملاحظہ فرمائیں)

آسٹریلیا چین کو گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اب چین نے آسٹریلیا کی تمام مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگادیے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ ہم چین کی گوشت کی مارکیٹ پر قبضہ کرلیں۔ لیکن یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہم اتنا گوشت کہاں سے پیدا کریں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کیٹل فارمنگ کو بھی ٹیکس فری کردیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کیٹل فارمنگ میں کی جانے والی تمام سرمایہ کاری کو کسی بھی سوال و جواب سے مستثنی قرار دے دیا جائے۔ اگر ایک بار ہمارے کالے دھن کا رخ کیٹل فارمنگ کی طرف ہوجائے تو چند مہینوں میں اس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہوگا۔ کیونکہ اس کیلیے نہ کسی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی ضرورت ہے، نہ ہی یہ کوئی بیس سالہ منصوبہ ہے۔ کیٹل فارمنگ میں جانور چھ سے بارہ مہینوں میں تیار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان چین کو صرف گوشت برآمد کرکے اپنا قرضہ اتار سکتا ہے۔ لیکن اس کیلیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، جس کا ہمارے ملک میں فقدان ہے۔ ہم اپنا کالا دھن سفید کرنے کیلیے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو ہر قسم کے سوال و جواب سے تو مستثنی قرار دے سکتے ہیں، لیکن ملک کی بھلائی کیلیے ایسا کوئی قدم اٹھانا گناہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی چین ہی ہے۔ تیل و گیس اور خوردنی تیل کے علاوہ ہماری نوے فیصد درآمدات اب صرف چین سے کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں تیل و گیس کے بھاری مقدار میں ذخائر موجود ہیں۔ ماضی میں ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے بلوچستان سے تیل و گیس نہیں نکال سکے۔ اب جبکہ اس طرف پوری توجہ دی جارہی ہے تو امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ اگر ہم مقامی کرنسیوں میں تجارت شروع کردیتے ہیں تو ڈالر کی ضرورت ویسے ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن چونکہ ہمیں مغرب اور امریکا کی غلامی کی عادت ہے اس لیے ہم ان کی ناراضی مول نہیں لیں گے۔