ماحولیاتی تبدیلی اور کوپ 26: کیا دنیا میں پانی کی کمی نئی جنگوں کو جنم دے رہی ہے؟

 

کوپ 26 کا مقصد دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کا سدِباب کرنا ہے اور اس کانفرنس کے صدر آلوک شرما نے کہا ہے کہ کوپ 26 دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی ‘آخری بہترین امید’ ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنا ہے تو ہمیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا ہوگا۔
چھ سال قبل پیرس میں عالمی رہنماں نے اس مقصد پر اتفاق کیا تھا اور اب اس پر پیشرفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور مزید اہم اعلانات بھی متوقع ہیں۔
اگر ہمیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنا ہے تو حکومتوں کو گرین ہاس گیسوں کے اخراج پر سختی سے قابو پانا ہوگا۔ گلاسگو میں ہونے والی یہ کانفرنس وہ موقع ہے جہاں تبدیلی کے اعلانات متوقع ہیں۔
ممکنہ طور پر امریکہ اور چین سمیت آلودگی پھیلانے والے دیگر ممالک یہاں اہم وعدے کریں گے جبکہ غریب ممالک کے لیے اس حوالے سے امداد کے بھی اعلانات کیے جا سکتے ہیں۔
ہم سب کی زندگیوں پر اس سے فرق پڑے گا۔ یہاں لیے گئے فیصلے مستقبل میں ہماری ملازمتوں، ہم اپنے گھروں کو کیسے گرم و ٹھنڈا رکھتے ہیں، ہم کیا کھاتے ہیں اور کیسے سفر کرتے ہیں، اس سب پر اثر انداز ہوں گے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں کتنی خطرناک ہو سکتی ہیں؟
عالمی ادارہ موسمیات (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ سخت ترین موسم یعنی انتہائی گرمی کی لہریں اور تباہ کن سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔
سنہ 2021 کی سٹیٹ آف کلائمیٹ رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اشاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں بڑھتے درجہ حرارت، شدید موسمی حالات، سمندری سطحوں میں اضافے اور سمندروں کی صورتحال شامل ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا ‘ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے۔’
سنہ 2002 سے اب تک 20 سالہ اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ سنہ 2021 میں عالمی سطح سمندر میں بھی سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مگر ڈیڑھ ڈگری ہی کیوں؟
یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ انسانی سرگرمیوں نے دنیا بھر کے ماحول کو متاثر کیا ہے۔ ہماری صنعتی ترقی اور ایندھن جلانے سے پیدا ہونے والی گرین ہاس گیسز مثلا کاربن ڈائی آکسائیڈ گرمی کو زمین کی فضا میں ہی پھانس لیتی ہیں جس سے دنیا گرم ہونے لگتی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں عالمی درجہ حرارت کے اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے سے ہم بدترین ماحولیاتی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ مگر ہم پہلے ہی 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور کر چکے ہیں، چنانچہ فوری اور مثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پیرس میں کیے گئے معاہدے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے ‘کہیں نیچے’ محدود کیا جائے گا اور ڈیڑھ ڈگری تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مگر دنیا اس ہدف کے حصول کے راستے پر نہیں ہے۔
موجودہ منصوبوں کے باعث ہم کچھ دہائیوں میں ہی ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد پار کر جائیں گے اور صدی کے اختتام سے قبل یہ اضافہ 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی ہمیں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف کو حاصل کرنا ہے تو سستی کے لیے بالکل بھی وقت نہیں ہے۔ کچھ دیگر سائنسدانوں کے خیال میں اب بہت دیر ہو چکی ہے اور یہ ہدف حاصل نہیں ہو پائے گا۔
ڈیڑھ ڈگری، دو ڈگری اور تین ڈگری گرم دنیا کیسی ہو گی؟
اگر آپ کسی دن باہر نکلیں تو درجہ حرارت میں آدھے ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق شاید آپ کو محسوس بھی نہ ہو مگر اس کے ہمارے عالمی ماحول پر بہت بڑے اور ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات ہو سکتے ہیں۔
انیسویں صدی کے اختتام پر دنیا جتنی گرم تھی، اب اس سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہو چکی ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔
تو ایسے میں کیا ہو گا؟
اگر عالمی درجہ حرارت کو سنہ 2100 تک صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا گیا تو قطبی علاقوں میں موجود برف کی تہیں اور گلیشیئرز پگھلنا جاری رکھیں گے۔
مگر اس سطح تک محدود رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم بڑے پیمانے پر آنے والے سیلابوں کی شدت کم کر سکیں گے اور سطحِ سمندر میں اضافے کے باعث کروڑوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچا سکیں گے۔اس کے علاوہ ہم دنیا بھر میں پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے لوگوں کی تعداد 50 فیصد تک کم کر سکیں گے۔
دو ڈگری سینٹی گریڈ پر دنیا بہت سوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔
گرم سمندروں میں موجود مرجان کی تمام چٹانیں برباد ہو جائیں گی اور سیلاب پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو جائیں گے۔
بڑی تعداد میں جانور اور پودے اپنا قدرتی ماحول کھو دیں گے اور کئی دیگر لوگ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں زیادہ گرمی کا سامنا کریں گے۔تین ڈگری اور اس سے زیادہ گرمی کا ہمارے سیارے پر تباہ کن اور خوفناک اثر ہو گا اور بیسیوں کروڑ لوگ سطحِ سمندر میں اضافے کی وجہ سے اپنی رہائش کھو دیں گے۔
گلاسگو میں کوپ 26 کے صدر آلوک شرما نے کہا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مشترکہ سیارہ ابتری کی جانب جا رہا ہے اور ہم مل کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔’
‘ہمیں مطلوبہ حل تیار کرنے کے لیے فورا کام کرنا ہوگا۔ یہ کام آج سے شروع ہو گا۔ یا ہم ساتھ کامیاب ہوں گے یا ساتھ ناکام۔’
آلوک شرما اس کانفرنس کو دنیا کی آخری بہترین امید قرار دے رہے ہیں
تاہم یہ مسئلہ صرف سائنسی نہیں بلکہ اس میں سیاسی عمل دخل بھی ہے۔ حکومتیں بسا اوقات اپنی پالیسیاں ویسی نہیں ترتیب دیتیں جو کہ سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔
یہاں تک کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو پیرس معاہدے سے الگ کر لیا تھا کیونکہ ان کے مطابق یہ غیر منصفانہ تھا۔
تاہم صدر جو بائیڈن نے امریکہ کو واپس اس معاہدے میں شامل کر لیا ہے۔
اس کے علاوہ تیل اور گیس پیدا کرنے والے اور اس ایندھن پر منحصر کئی ممالک کی جانب سے مزید اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔
غریب ممالک کو درپیش مشکلات
دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور خطوں مثلا چین، امریکہ، روس اور یورپی ممالک سے کہیں پیچھے ہیں مگر وسائل کی کمی اور عموما گرم علاقوں میں واقع ہونے کی وجہ سے ان کو بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سنہ 2009 میں ترقی یافتہ ممالک کے رہنماں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر سال ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے 100 ارب ڈالر دیں گے۔
مگر یہ ہدف اب بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے اور اس کانفرنس کی میزبان برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ہدف 2023 تک بھی حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
کئی ممالک کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور غریب ترین ممالک گلاسگو میں کچھ اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، انھیں ہی اس سے نمٹنے کے لیے سب سے زیادہ پیسے دینے چاہییں۔
ملاوی کے صدر لزاروس چکویرا نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ کوئی خیرات نہیں ہے۔ ادائیگی کریں یا ہمارے ساتھ ہی ختم ہو جائیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘جب ہم اپنا وعدہ پورا کرنے کا کہتے ہیں تو یہ کوئی خیراتی کام نہیں، بلکہ یہ صفائی کی فیس ادا کرنے جیسا ہے۔ اگر آپ ہمارا گھر کہلانے والی زمین کو اس حالت تک لانے میں شامل ہیں تو آئیں اسے مل کر صاف کریں لیکن آپ کو اس کے لیے ذمہ دار بننا پڑے گا۔’
کبھی کبھی لوگوں کو غصہ دلانا پڑتا ہے
سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا ٹونبرگ نے ماحولیاتی کارکنوں کی جانب سے سڑکیں بلاک کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘کبھی کبھی آپ کو لوگوں کو غصہ دلانا پڑتا ہے۔’
مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔
گریٹا ٹونبرگ نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج کے طور پر سکول جانا بند کیا تھا اور اب ان کا یہ اقدام دنیا کے کئی ممالک میں ایک باقاعدہ مہم بن چکا ہے۔
گریٹا گلاسگو تک ٹرین میں پہنچیں کیونکہ ٹرینوں کو ہوائی جہاز کے مقابلے میں ماحول کے لیے کم نقصان دہ تصور کیا جاتا ہے۔
سنہ 2019 میں سپین میں ہونے والی کوپ 25 میں شرکت کے لیے گریٹا امریکہ سے سپین تک ایک کشتی میں آئی تھیں اور پرواز کر کے پہنچنے سے انکار کر دیا تھا۔
کیا کوپ 26 واقعی دنیا کو بچا پائی گی؟
ڈیوڈ شکمین، سائنس ایڈیٹر، بی بی سی نیوز
بظاہر چیزیں ایک سادہ سی وجہ کے باعث اتنی حوصلہ افزا نہیں لگ رہیں، اور وہ یہ کہ گذشتہ 25 کوپ کانفرنسیں بھی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاس گیسز کا اخراج روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
تین دہائیوں سے جاری گفت و شنید کے باوجود ہمارا سیارہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہو چکا ہے۔
مگر رواں سال کی کانفرنس سے حقیقی پیش رفت کی معمول سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔
ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ اب خطرات ترقی یافتہ ممالک کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں۔
رواں سال جرمنی میں سیلابوں کے باعث 200 افراد ہلاک ہوئے، سرد ترین ممالک میں سے ایک کینیڈا میں ہیٹ ویو آئی اور یہاں تک کہ سائیبیریائی آرکٹک میں بھی موسم گرم رہا۔
اور سائنسدان اس حوالے سے واضح مقف رکھتے ہیں کہ اگر ہم نے تباہ کن درجہ حرارت سے بچنا ہے تو سنہ 2030 تک کاربن کے اخراج کو نصف کرنا ہوگا۔
مختلف ممالک میں بڑے بڑے دریاں پر پانی ذخیرہ کرنے والے لاتعداد ڈیموں اور نہروں کی تعمیر کی وجہ سے اِن دریاں کے زیریں حصے پر واقع ملک پانی سے محروم ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان ملکوں میں جنگوں کے خطرات بڑھ رے ہیں۔
ایمسٹرڈیم میں اپنے فلیٹ سے زوم پر مجھ سے بات کرتے ہوئے علی الصدر نے پانی کا ایک گھونٹ پینے کے لیے وقفہ کیا۔ ان پر ایک تکلیف دہ حقیقت واضح ہو رہی تھی، اور وہ اپنی طنزیہ ہنسی دبا نہیں سکے۔
عراق سے میری نقل مکانی سے پہلے مجھے صاف پانی کی تلاش کے لیے کافی کوشش کرنی پڑتی تھی۔
تین برس قبل الصدر ان مظاہروں میں شرکت کرتے تھے جو شہر میں پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کے حل کے مطالبات پر زور ڈالنے کے لیے انتظامیہ کے خلاف کیے جاتے تھے۔ 29 برس کے علی الصدر نے کہا کہ جنگ سے پہلے بصرہ ایک خوبصورت جگہ تھی۔ وہ اس جگہ کو مشرق کا وینِس کہتے تھے۔
شط العرب دریا سے متصل یہ شہر میٹھے پانی کی نہروں کے جال میں گھرا ہوا ہے۔ الصدر، جو بندرگاہ پر مزدوری کرتے تھے، کبھی اپنے شہر میں کام کرنا پسند کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ لیکن جب میں وہاں سے نکلا تھا تو صورتحال یہ تھی کہ آبی گزرگاہوں میں گندے پانی کو پمپ کر کے بہایا جا رہا تھا۔ ہم آبی گزرگاہوں میں بہنے والے پانی کو استعمال نہیں کر سکتے تھے اور اس میں کسی چیز کو دھو نہیں سکتے تھے، (دریا کی) ناگوار بو نے مجھے درد شقیقہ میں مبتلا کر دیا اور جب میں آخری مرتبہ بیمار ہوا تو چار دن تک بستر سے نہیں اتر سکا تھا۔
سنہ 2018 کے موسم گرما میں گدلے اور مضر صحت پانی کی وجہ سے بصرہ کے ایک لاکھ بیس ہزار شہری ہسپتالوں میں داخل ہوئے تھے۔ اور جب پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی، تو الصدر خوش قسمت تھے کہ وہ اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سامان جمع کیا اور ایک ماہ کے اندر ہی میں یورپ کے لیے روانہ ہو گیا۔
دنیا بھر میں علی الصدر جیسی کہانیاں بہت عام ہو رہی ہیں۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو اب سال میں سے کم از کم ایک مہینہ پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور جیسا کہ الصدر کا معاملہ ہے یہ بہت سے لوگوں کو دوسرے ممالک میں زیادہ محفوظ زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے۔
ہالینڈ کی وزارت خارجہ میں بین الاقوامی تعاون کے سربراہ اور ہائیڈروپولیٹکس کی ماہر کٹی وان ڈیر ہیجڈن کا کہنا ہے کہ اگر کہیں پانی نہیں ہے تو لوگ وہاں سے نقل مکانی شروع کر دیں گے۔
پانی کی قلت دنیا کی 40 فیصد آبادی کو متاثر کرتی ہے اور اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کی پیش گوئیوں کے مطابق سنہ 2030 تک خشک سالی 70 کروڑ افراد کو بے گھر ہونے کے خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر پانی نہیں ہے تو سیاست دان اس معاملے پر اپنی سیاست کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ اس پر لڑنا شروع کر سکتے ہیں۔
20 ویں صدی کے دوران عالمی سطح پر پانی کا استعمال آبادی میں اضافے کی شرح سے دگنا بڑھ گیا۔ آج پانی کی یہ کمی کئی شہروں کی سیاست میں کلیدی معاملہ بنتا جا رہا ہے۔۔۔ روم سے کیپ ٹان، چنئی سے لیما تک۔۔۔ اور اب پانی کی راشننگ تک کا مرحلہ درپیش ہے۔
پانی کے بحران کو ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی خطرات کے لحاظ سے امپیکٹ لسٹ میں سنہ 2012 کے بعد سے پہلے پانچ بڑے معاملات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ سنہ 2017 کی شدید خشک سالی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کا بدترین انسانی بحران پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس دوران افریقہ اور مشرق وسطی کے دو کروڑ افراد خوراک کی کمی اور تنازعات کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ میں قائم پیسیفک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پیٹر گلیک نے گذشتہ تین دہائیوں میں پانی کی قلت، تنازع اور ہجرت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پانی پر تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت ہی کم استثنی کے ساتھ، کوئی بھی پیاس سے نہیں مرتا۔ لیکن زیادہ تر لوگ آلودہ پانی یا پانی تک رسائی کے تنازعات میں مر رہے ہیں۔
عراق کے جنوبی شہر، بصرہ کے گرد و نواح میں پانی کی خراب ہوتی ہوئی کوالٹی ترکی سے بہنے والے دریاں میں پانی کے بہا میں کمی کی وجہ سے بدتر ہو گئی ہے
گلیک اور ان کی ٹیم پانی کے تنازعات کی تاریخ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق، بڑے اور چھوٹے پانی کے 929 تنازعات کا ایک سلسلہ بابل کے بادشاہ حمورابی کے دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ کسی بھی طرح سے مکمل طور پر طے نہیں پائے۔ محققین کہتے ہیں کہ اس فہرست کے مطابق، درج کردہ تنازعات مکمل طور پر جنگوں سے لے کر پڑوسیوں کے درمیان تنازعات کی مختلف صورت اختیار کرتے رہے ہیں۔ لیکن جو بات وہ ظاہر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ پانی اور تنازع کے درمیان تعلق کافی پیچیدہ معاملہ ہے۔
گلیک کہتے ہیں کہ ہم نے پانی کے تنازعات کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ تنازع ایک محرک کے طور پر، جہاں تشدد پانی کی رسائی اور کنٹرول کے تنازعات سے منسلک ہوتا ہے، تنازع تصادم میں ایک ‘ہتھیار’ کے طور پر، جہاں پانی یا پانی کے نظام کو تنازعات میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جن میں ڈیموں کے ذریعے زیریں علاقوں کے سیلابی بہا میں رہنے والی آبادیوں کو پانی سے محروم کیا جاتا ہے، اور جہاں تنازعات کے دوران آبی وسائل یا ٹریٹمنٹ پلانٹس یا پائپ لائنوں کو تنازعات میں ‘تباہ’ کیا جاتا ہے یا ‘اہداف’ کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔’
تاہم ان کے اور ان کے ساتھیوں نے جو ریکارڈ مرتب کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تنازعات کا بڑا حصہ زراعت سے متعلق ہے۔ یہ شاید حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ زراعت میں میٹھے پانی کے استعمال کا 70 فیصد حصہ ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ کے نیم بنجر ساحلی علاقے میں چرواہوں اور فصلوں کے کاشتکاروں کی اپنے جانوروں اور فصلوں کے لیے درکار پانی کی کم فراہمی پر شدید جھڑپوں کی باقاعدہ اطلاعات ملی ہیں۔
لیکن جیسے جیسے پانی کی مانگ بڑھتی ہے، اسی طرح ممکنہ تنازعات کے امکانات بھی بڑھتے ہیں۔
ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ میں پانی کے عالمی ڈائریکٹر چارلس آئس لینڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس موضوع پر تازہ تحقیق واقعی پانی کے تنازعات سے وابستہ تشدد کے واقعات کی تعداد کو وقت کے ساتھ بڑھتا ہوا دکھاتی ہے۔ آبادی میں اضافے اور معاشی ترقی کی وجہ سے دنیا بھر میں پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دریں اثنا آب و ہوا کی تبدیلی پانی کی فراہمی کو کم کر رہی ہے اور کئی جگہوں پر بارشوں کو بے ترتیب بنا رہی ہے۔
ترکی، شام، عراق اور مغربی ایران پر مشتمل وسیع دجلہ و فرات کے دریائی نظام کے مقابلے میں پانی کے دبا اور آب و ہوا کی تبدیلی کا دوہرا اثر کہیں اور زیادہ واضح نہیں ہے۔ سیٹلائٹ امیجری کے مطابق، یہ خطہ دنیا کے کسی بھی جگہ کے مقابلے میں تیزی سے زمینی پانی کھو رہا ہے۔ اور جب کچھ ممالک پانی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لیے مایوس کن کوششیں کرتے ہیں، تو ان کے اقدامات ان کے پڑوسیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
شمالی انڈیا کے میدان دنیا کے بہترین زراعتی علاقے میں شمار ہوتے ہیں، لیکن آج وہاں کے دیہاتیوں کے درمیان پانی کی کمی کی وجہ سے اکثر و بیشتر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں
جون 2019 میں جب عراقی شہر 50 ڈگری سینٹی گریڈ (122 فارن ہائیٹ) کی لو کی لپیٹ میں آئے تھے تو ترکی نے کہا کہ وہ دجلہ کے ابتدائی حصے میں اپنے الیسو ڈیم کو دریا کا پانی روک کر بھرنا شروع کر رہا ہے۔ یہ دجلہ اور فرات کے کنارے 22 ڈیموں اور پاور پلانٹس کی تعمیر کے لیے ترکی کی جانب سے ایک طویل عرصے سے چلنے والے منصوبے میں تازہ ترین ہے۔
فرانس کے ‘انٹر نیشنل آفس فار واٹر’ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ترکی کی ان تعمیرات اور شام کی ریاست کے اپنے اقدامات کے اثرات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی وجہ سے دجلہ کے زیریں حصے کے ملک عراق میں پانی کے بہا کو نمایاں طور پر متاثر کر رہا ہے۔
اور اسی سلسلے میں ایران. کا دعوی ہے کہ جب ترکی کا ‘گونی دوگو انادولو پراجیکٹ’ مکمل ہو جائے گا تو اس میں 90 ڈیم اور 60 پاور پلانٹس شامل ہوں گے۔ (یہاں غور کیجیے کہ ایلیسو جیسے ڈیم کس طرح ہمارے سیارے کو ایک نئی شکل دے رہے ہیں۔)جیسے ہی ایک میل چوڑے الیسو ڈیم کے پیچھے کی جھیل میں پانی کی سطح بڑھی، دریا سے عراق میں پانی کا بہا نصف رہ گیا۔ ہزاروں کلومیٹر دور بصرہ میں، علی الصدر اور اس کے پڑوسیوں نے اپنے پانی کا معیار خراب ہوتا ہوا دیکھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اگست میں سینکڑوں لوگوں نے بصرہ کے ہسپتالوں میں خارش، پیٹ میں درد، قے، اسہال اور یہاں تک کہ ہیضے میں مبتلا ہونا شروع کیا۔چارلس آئس لینڈ کا کہنا ہے کہ اصل میں بصرہ میں کہانی کے دو حصے ہیں۔ اول تو یہ کہ بغیر کسی صفائی کے شہروں کے گندے پانی کا مقامی آبی گزرگاہوں میں اخراج ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کی سرحد پر جو تعمیرات ہو رہی ہیں ان کو بھی دیکھنا ہو گا جہاں سے پہلے کی نسبت اب دجلہ اور فرات میں تازہ پانی کا بہا کم ہو چکا ہے، اس لیے یہاں (خلیجِ فارس سے) نمکین پانی کی مقدار دریا کے اوپر کے حصے میں بڑھ رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نمکین اور گندا پانی فصلوں کو برباد کر رہا ہے اور مقامی لوگوں کو بیمار کر رہا ہے۔
یہ ایک پیچیدہ صورتِ حال ہے، لیکن بظاہر مختلف قسم کے عوامل کے درمیان روابط دیکھنے کی اس قابلیت نے آئس لینڈ کے کام کو ہالینڈ حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والے واٹر، پیس اینڈ سکیورٹی (ڈبلیو پی ایس) جو کہ چھ امریکی اور یورپی این جی اوز کا ایک گروپ (بشمول پیسفک انسٹی ٹیوٹ اور ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ) ہے نے ایک گلوبل ارلی وارننگ نظام تیار کیا ہے، جو کہ مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے تنازعات کی پیش گوئی کرتا ہے۔اس میں بارش، فصلوں کی ناکامی، آبادی کی کثافت، دولت، زرعی پیداوار، کرپشن کی سطح، خشک سالی اور سیلاب کے بارے میں اعداد و شمار کو جمع کیا گیا ہے تاکہ تنازعات کے انتباہات جاری کیے جا سکیں۔ وہ انتظامی اضلاع کی سطح تک سرخ اور نارنجی مرکٹر (نقشہ کشی کے درجات والے آلے) پر پروجیکشن پر دکھائے جاتے ہیں۔ فی الحال یہ مرکٹر تقریبا دو ہزار کے قریب ممکنہ تنازعات کے ہاٹ سپاٹ کے بارے میں خبردار کر رہا ہے، جس کی درستگی کی شرح 86 فیصد ہے۔
دریائے سندھ اور اس سے جڑے دریاں کا نظام شمالی انڈیا اور پاکستان دونوں کے پانی کے مسائل کے لیے بہت اہم ہے، لیکن اس دریا کی ابتدا چین کی سرحد کے قریب تبت کے مقام سے ہوتی ہے جس پر چین کا قبضہ ہے
لیکن ڈبلیو پی ایس ٹول (نظام) کا استعمال ایسی جگہوں کی نشاندہی کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے جہاں پانی پر تنازعات پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے، یہ ان لوگوں کو مطلع کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے کہ ان علاقوں میں کیا ہو رہا ہے جو پہلے ہی پانی کی کمی کی وجہ سے تنازعات کا شکار ہیں۔
مثال کے طور پر انڈیا کے شمالی میدان، دنیا کے سب سے زیادہ زرخیز علاقوں میں سے ایک ہیں، پھر بھی آج کل وہاں کے دیہاتی پانی کی قلت پر ایک دوسرے سے اکثر جھگڑتے رہتے ہیں۔ بنیادی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں اضافہ اور آبپاشی کی اعلی سطح نے زیر زمین پانی کی فراہمی کو بھی متاثر کیا ہے۔ علاقے کی سرسبز نظر آنے والی فصلوں کے باوجود، ڈبلیو پی ایس کا نقشہ شمالی ہندوستان کے تقریبا ہر ضلع کو بیس لائن پانی کی خطرناک سطح کے لحاظ سے ‘انتہائی بلند’ خطرہ قرار دیتا ہے۔
کئی اہم دریا جو اس علاقے کو سیراب کرتے ہیں جن میں دریائے سندھ، گنگا اور ستلج، یہ سب تبت کی سرحد سے شروع ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی انڈیا اور پاکستان دونوں میں پانی کی فراہمی کے لیے اہم ہیں اسی لیے یہ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان حال ہی میں کئی سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں، جو ان دریاں کے اوپر والے علاقوں پر دعوی کرتے ہیں۔ پچھلے سال مئی میں وادی گلوان میں ایک پرتشدد تصادم، جہاں سے دریائے سندھ کی ایک معاون ندی بہتی ہے، میں لڑائی کی وجہ سے 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد یہ خبریں آئیں کہ چین وہاں ‘سٹرکچر’ بنا رہا ہے جو شاید دریا کو بند کر سکتا ہے اور اس طرح اس کا بہا انڈیا کے لیے محدود ہو سکتا ہے۔
لیکن گلوبل ارلی وارننگ ٹول کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا بھی کچھ عجیب رجحانات کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے پانی کی کمی کے دبا والے کچھ حصوں میں لوگوں کی نقل مکانی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر عمان میں، عراق کے مقابلے میں ‘اعلی سطح’ کی خشک سالی ہے لیکن موجودہ وبا سے پہلے ہر سال لاکھوں افراد نقل مکانی کر کے اس جانب آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن، پانی کے بنیادی ڈھانچے (سٹرکچر)، نسلی تقسیم اور ‘ہائیڈروپولیٹیکل’ (پانی کی سیاست کی) کشیدگی کے معاملے میں عمان، عراق سے کہیں بہتر حالت میں ہے۔
سویڈن کی لنڈ یونیورسٹی کی فزیکل جغرافیہ کی محقق لینا ایکلونڈ کا کہنا ہے کہ ‘خشک سالی کے مقابلے میں کسی کمیونٹی کی کمزوری خشک سالی سے زیادہ اہم معاملہ ہے۔
پانی کی قلت صرف حشک سالی کا نام نہیں ہے بلکہ آلودگی کی وجہ سے پانی کا گرتا ہوا میعار بھی اس مسئلے کا حصہ ہے
دوسرے الفاظ میں پانی کی کمی اور تنازع کے درمیان تعلق، اتنا سیدھا نہیں بنتا ہے جتنا کہ لگتا ہے۔ یہاں تک کہ جہاں شدید خشک سالی موجود ہے، مختلف عوامل کا ایک پیچیدہ امتزاج اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا یہ اصل میں تنازعات کا باعث بنتا ہے یا نہیں۔ ان میں سماجی ہم آہنگی سب سے اہم فیکٹر ہے۔
مثال کے طور پر عراق کے علاقے کردستان کو لے لیں، وہ علاقہ جو اسی پانچ سالہ خشک سالی سے دوچار ہوا جس نے مارچ سنہ 2011 میں پندرہ لاکھ شامی کسانوں کو شہری مراکز کی جانب دھکیل دیا۔ کردوں کے آپس میں بہت قریبی انداز سے مل جل کر رہنے کے انداز کی وجہ سے ان لوگوں نے شامی کسانوں کی طرح نقل مکانی نہیں کی، نہ خشک سالی کے دوران اور نہ ہی خانہ جنگی کے دوران۔
لندن میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم، ‘انٹرنیشنل الرٹ’ میں قدرتی وسائل کے انتظام اور موسمیاتی تبدیلی کی سربراہ جیسیکا ہارٹوگ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کیونکہ شامی حکومت نے خشک سالی کی وجہ سے خوراک میں خود کفالت کے لیے طویل عرصے سے زراعت میں دی جانی والی سبسڈی، بشمول ایندھن، کھاد اور زمینی پانی نکالنے کی کے لیے دی جاتی تھی، اسے اچانک ختم کر دیا۔ اس فیصلے نے دیہی خاندانوں کو اجتماعی طور پر شہری مراکز کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا جس سے بشارالاسد حکومت پر عدم اعتماد پیدا ہوا۔
لیکن اگر پانی پر تنازعات کے ممکنہ فلیش پوائنٹس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے تو کیا مستقبل میں ان کو روکنے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے؟
بدقسمتی سے پانی کی قلت کا تو کوئی ایک حل نہیں ہے۔ بہت سے ممالک میں نقصان کو کم کرنے اور پانی کے ضیاع کو روکنے سے نقصانات کی کمی کرنے میں کافی فرق پڑ سکتا ہے۔ اس وقت عراق تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے پانی کو بہتر بنانے والے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے صاف کیے گئے پانی کا دو تہائی حصہ ضائع کر دیتا ہے۔
ڈبلیو پی ایس کے شراکت دار بھی دیگر کلیدی پالیسیوں کے مشوروں کے علاوہ بدعنوانی سے نمٹنے اور زرعی حد سے تجاوز کو کم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ چارلس آئیس لینڈ تو پانی کی قیمت بڑھانے کا مشورہ بھی دیتا ہے تاکہ اس کی اہمیت غذا کی لاگت میں ظاہر ہو سکے۔
دنیا کے بہت سے حصوں میں انسان سمجھتے ہیں کہ پانی ایک قیمتی چیز کے بجائے بہت ہی سستی شہ ہے۔ سمندری پانی کو صاف کرنے جیسی تکنیک کے ذریعے استعمال کے لیے زیادہ پانی حاصل کر کے بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب اس وقت پانی کی 50 فیصد ضرورت اسی طرح پوری کرتا ہے۔ ‘گرے’، یا گندے پانی کی ری سائیکلنگ بھی ایک کم لاگت، اور یہ آسانی سے بنائے جانے والا متبادل پیش کر سکتا ہے جو کہ خشک سالی سے متاثر کسانوں کی کمیونٹی کی مدد کر سکتا ہے۔
عالمی آلودگی اور گندے پانی کو صاف کرنے کے طریقوں کے ایک جائزے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ان متبادل کی بڑھتی ہوئی صلاحیت پانی کی شدید قلت کا شکار عالمی آبادی کا تناسب 40 فیصد سے کم کرکے 14 فیصد تک کر سکتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر دریا کے اوپر والے ممالک کی طرف سے وسیع پیمانے پر ڈیم بنانے سے ان لوگوں کے ساتھ تنازعات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جو کہ ان ڈیموں کے ذریعے پانی کی زیادہ تر فراہمی کے لیے دریاں پر انحصار کرتے ہیں۔
لیکن ہالینڈ کے شہر ڈیلفٹ کے ادارے ‘آئی ایچ ای’ (IHE) میں پانی کے قانون اور سفارتکاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سوزین شمیر کا کہنا ہے کہ مشترکہ ریپیرین (دریاں پر مشترکہ حقوق) کے تنازعہ کی نشاندہی کرنا آسان ہے اور اس کے گہرے ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ‘مقامی تنازعات پر قابو پانا بہرحال بہت زیادہ مشکل ہے اور ان میں تیزی آنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے خاص کر ایسی تنازعات میں جہاں ریاستیں پانی کے بہا کو محدود کرنے کے اقدامات کرتی ہیں۔’
مصر، سوڈان اور ایتھوپیا تینوں ملکوں کا دریائے نیل پر بہت زیادہ انحصار ہے او ر ان میں دریا کے بالائی حصے میں گریٹ ایتھوپین ریینینس ڈیم پراجیکٹ پر کافی زیادہ سیاسی بیان بازی ہوتی رہی ہے
دنیا بھر میں بہت ساری مثالیں ہیں جہاں کشیدگی زیادہ ہے۔ بحیرہ ارال کا تنازعہ جو قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان کے درمیان ہے۔ لیونٹین یعنی مشرقی روم کی لیوانت کی ریاستوں کے درمیان دریائے اردن کا تنازعہ، جنوب مشرقی ایشیا میں چین اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان دریائے میکونگ کا تنازعہ۔
ان میں کسی بھی تنازعے نے ابھی تک تصادم کی صورت اختیار نہیں کی ہے۔ لیکن شمیئر ایک ایسے تنازعے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کے تصادم بننے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ مصر، سوڈان اور ایتھوپیا سب دریائے نیل پر انحصار کرتے ہیں اور طویل عرصے تک اوپر والے گریٹ ایتھوپین رینیسنس ڈیم (جی ای آر ڈی) منصوبے پر سیاسی بیان بازی ہوتی رہی ہے۔ پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس ڈیم کی جھیل ملک کی قدرتی جھیل تانا سے تین گنا بڑی ہے۔
جب ایتھوپیا کی حکومت نے اس منصوبے پر کام کرنے کا اعلان کیا، مصر اور سوڈان نے اس سال مئی میں مشترکہ جنگی مشقیں کیں، جنھیں واضح طور پر ‘نیل کے محافظ’ کہا جاتا ہے۔
یہ شاید آج کے سیاسی منظر نامے میں تمام آبی تنازعات میں تصادم کی صورت اختیار کرنے کے لحاظ سے سب سے بڑا خطرہ ہے، لیکن دنیا بھر میں کئی دوسرے تنازعے بھی ہاٹ سپاٹ ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی حکام اس سے قبل انڈیا کی اپ اسٹریم پانی کے استعمال کی حکمت عملی کو ‘پانچویں نسل کی جنگ’ کہتے ہیں، جبکہ ازبک صدر اسلام کریموف نے خبردار کیا ہے کہ پانی پر علاقائی تنازعات جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘میں مخصوص ممالک کا نام نہیں لوں گا، لیکن یہ سب کچھ اس حد تک خراب ہو سکتا ہے جہاں نہ صرف سنگین محاذ آرائی ہو سکتی ہے بلکہ جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔’
دریائے نیل کے بالائی حصے پر ایتھوپیا کے گریٹ رینیسنس ڈیم کی تعمیر نے ایتھوپیا دریا کے زیریں حصے کے ملک مصر کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا ہے پانی کی تقسیم کے معاہدے اس قسم کے تنازعات کو کم کرنے کا ایک عام طریقہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس قسم کے 200 سے زیادہ معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں، جیسے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنہ 1960 کا سندھ طاس معاہدہ، اور اسرائیل اور اردن کے درمیان ایک معاہدہ، ان کے امن معاہدے سے پہلے طے پا چکا تھا۔لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے ایک دہائی سے زائد عرصے سے کوشش کی گئی ہے کہ وہ بین الاقوامی دریاں اور جھیلوں پر عالمی آبی کنونشن متعارف کرائے جس کے نتیجے میں اب تک صرف 43 ممالک اس کی پابندی کرنے پر راضی ہوئے۔
ہارٹوگ کا کہنا ہے کہ جدید معاہدوں میں خشک سالی کے خاتمے کے پروٹوکول کو شامل کرنے کی ضرورت ہوگی، تاکہ جب حالات بدتر ہوجائیں تو زیریں ممالک کے بحرانوں میں پانی میں کمی کے خدشات اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو یقینی بنایا جاسکے۔
در حقیقت، یہ لیسوتھو، جنوبی افریقہ، بوٹسوانا اور نمیبیا کی قائم کردہ مثال کی آئینہ دار ہو گی، جنھوں نے سنہ 2000 میں مشترکہ وسائل پر خطرناک سطح پر کشیدگی کے بعد اورنج سینکو ریور کمیشن (اوریس کام) کے ذریعے آپس کے تعاون میں بہتری رستے اپنائے۔
اس مثال میں جہاں اضافی پانی کو جاری کرنا ضروری ہو جاتا ہے، مشترکہ آبی گزرگاہوں کے معاہدوں کا قیام اور مناسب استعمال کے اصولوں کو شامل کرنا کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کافی مددگار ثابت ہوا ہے۔ تاہم دوسری جانب تحقیق بتاتی ہے کہ آلودگی اور گندے پانی کو صاف کرنا دو انتہائی موثر حکمت عملیاں ہیں۔
شاید مصر اس پیغام پر توجہ دے رہا ہے۔ ملک کی حکومت نے پچھلے سال دنیا کے سب سے بڑے گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ساتھ ساتھ ملک میں 47 نئے ڈیسیلینیشن پلانٹس کی تعمیر کے لیے کئی سودے کیے تھے۔ اگرچہ مصری حکام ان پلانٹس کی تعمیر میں تیزی لائے ہیں، لیکن ان منصوبوں کا بڑا حصہ سنہ 2030 کے بعد تک مکمل نہیں ہو سکے گا اور ملک میں پانی کی صورت حال اب بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ہارٹوگ کا خیال ہے کہ مصر، ایتھوپیا اور سوڈان کو تنازعات سے بچنے کے لیے باہر سے مدد لینی پڑ سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ تینوں ممالک خود کوئی معاہدہ کریں گے لہذا کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بین الاقوامی سفارتی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک کے لیے اس تنازعے میں شامل ہونے کا بہترین راستہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ریپیرین (ایک دریا پر مشترکہ حقوق رکھنے والے) ممالک کو ایک سہ فریقی معاہدے پر پابندی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔’
افریقہ میں دریائے اورینج-سینگو کے بیسِن پر پانی تقسیم کے ایک معاہدے پر سنہ 2000 میں دستخط ہوئے تھے، لیکن اس دریا کے ابتدائی حصوں پر ڈیموں کی تعمیراب بھی ایک تنازع ہے
پیرو کو پانی کے ذرائع کو بہتر استعمال کرنے کے لیے اس نظام کو چلانی والی کمپنیوں کو اپنے منافع کا ایک حصہ تحقیق پر اور باقی حصہ گرین انفراسٹرکچر کو سیلاب کے پانی کے انتظام کو مربوط کرنے کے منصوبے پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
ویتنام میکونگ ڈیلٹا کے اپنے حصے کے ساتھ صنعتی آلودگی کے خاتمے کی کوششیں کر رہا ہے، اور روایتی طور پر استعمال شدہ پانی کے بنیادی ڈھانچے کو مربوط کر رہا ہے تاکہ اپنے شہری اور دیہی باشندوں کے درمیان پانی کی زیادہ مساوی تقسیم کو یقینی بنا سکے
چونکہ آب و ہوا کی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی دنیا بھر میں خشک سالی کے مسئلے کو مزید گہرا بنا رہے ہیں، اس لیے تنازعات اور ہجرت کو روکنے کے لیے اس طرح کے حل تلاش کرنے کی اہمیت پہلے سے زیادہ ضروری ہو جائے گی۔ پچھلے سال دسمبر میں، علی الصدر کے بصرہ چھوڑنے کے دو سال بعد، شہر کے 11 فیصد سے کم گھروں کو پینے کا صاف پانی میسر تھا۔
ہالینڈ سے سنہ 2020 میں تقریبا چونسٹھ لاکھ ڈالر کی اضافی امداد، جس سے یونیسف کے منصوبے کو مکمل کرنے میں سہولت ملی، اِس سے اب شہر کے کریکنگ واٹر انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں مدد مل رہی ہے، لیکن اس موسم گرما کے شروع میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے دوران شہر کے بہت سے حصوں کے پانی کے پمپوں کو بند کر دیا تھا۔
جب صاف پانی حاصل کرنے کے لیے روزانہ ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حالیہ مہینوں میں شہر کو مزید بدامنی کا سامنا کرنا پڑا تو ان حالت کی وجہ سے الصدر خاندان کے دیگر لوگ جو شہر میں رہ گئے ہیں، ان کی موجودہ حالت زار کے اثرات کو سمجھنا مشکل ہے۔ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے، الصدر کو خدشہ ہے کہ مشتعل مظاہرے جاری رہیں گے۔
علی الصدر کہتے ہیں کہ ‘جب میں نے احتجاج کیا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس سب کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے۔ میں تو صرف پینے کے لیے چند گھونٹ پانی مانگ رہا تھا۔’