کے الیکٹرک اور فیول ایڈجسٹمنٹ کا کھیل فیول ایڈجسٹمنٹ گیم کے الیکٹرک کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے

محمد عارف میمن
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے 2017 میں کے الیکٹرک ہیلپ لائن فون کرکے پوچھا تھا 2015 کا یہ فیول ایڈجسٹمنٹ کس مد میں وصول کیا جا رہا ہے؟ جس پر ہیلپ لائن سے جواب ملا کہ یہ وفاقی حکومت کا حکم ہے۔
میں نے اگلا سوال کیا وہ حکم نامہ مجھے کہاں سے اور کیسے مل سکتا ہے؟
اس پر ہیلپ لائن سے جواب ملا محترم یہ سرکاری دستاویزات ہوتے ہیں جو آپ کو نہیں دکھائے جاسکتے۔
میں نے کہا نیپرا نے تو فیول ایڈجسٹمنٹ لینے سے منع کیا ہے اور گزشتہ روز کی نیوز بھی موجود ہیں تو پھر کے الیکٹرک کس طرح یہ وصول کررہا ہے؟
آگے سے جواب ملا کہ نیپرا کا مجھے علم نہیں۔ ہمیں جو ہدایت ملی ہیں اسی حساب سے فیول ایڈجسٹمنٹ لیا جارہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ کے الیکٹرک ہیلپ لائن پر کال کرنے کا شکریہ۔
جس مکان میں ہم رہتے ہیں وہ دڑبے جتنے ہیں لیکن ان کا کرایہ ہزاروں میں وصول کیا جاتا ہے۔ جہاں ہم نوکری کرتے ہیں وہاں سے تنخواہ ہمیں گن کر چند ہزار دی جاتی ہے۔ مگر یوٹیلٹی بلز کی مد میں ادائیگی انگنت ہوتی ہے۔ مہنگائی دنیا کے دوسرے ممالک کو دیکھ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ تنخواہیں کانگو جیسے ملک کی طرح ادا کررہے ہیں۔
کے الیکٹرک نے جب سے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چارج لیا تب سے اب تک عوام کو لوٹنے کے سوا کوئی بہتری کا کام نہیں کیا۔ 2007 سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا سنتے آرہے ہیں، مگر یہ سلسلہ 2021 میں بھی جاری و ساری ہے۔ اووربلنگ کا سلسلہ بھی اول روز سے اپنے عروج پر ہے۔ ساتھ میں یہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ناجائز وصولی کا سلسلہ خدا جانے کب تک ہم پر مسلط رہے گا۔ کے الیکٹرک پاکستان کا واحد پرائیوٹ ادارہ ہے جو عوام کو الٹی چھری سے ذبح کررہا ہے لیکن اسے روکنے اور سوال کرنے والا ادارہ اس ملک میں آج تک سامنے نہیں آیا۔
کراچی رجسٹری میں مختلف کیسز زیر سماعت ہیں مگر کے الیکٹرک کے سلسلے میں اب تک عدالت عظمی نے جتنے بھی فیصلے دیے ان میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک نہ صرف قانون سے بالاتر ہے بلکہ اگر یہ چاہے تو ایک ہی دن میں پورے کراچی کو کنگال کرکے رکھ دے اور کوئی طاقت اس سے سوال تک پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتی۔ یہ کے الیکٹرک کہاں سے آیا، کس طرح اس نے کراچی پر اپنے شکنجے گاڑے، اس کا مالک کہاں ہے اور کون اس کے معاملات دیکھ رہا ہے یہ سب حکمرانوں کو اچھی طرح علم ہے۔
آج ہمارے ہاتھ میں جو بل ہیں ان پر فیول ایڈجسٹمنٹ مارچ 2021 کا مہینہ لکھا ہے۔ جب میں نے اسی مہینے کا پرانا بل دیکھا تو وہاں سال پہلے کا فیول ایڈجسٹمنٹ لکھا نظر آیا۔ ٹھیک اسی طرح پانچ سال پہلے والے بل دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ان میں بھی فیول ایڈجسمنٹ نظر آیا۔ اس فیول ایڈجسٹمنٹ کا صرف اور صرف حکمرانوں کو علم ہے لیکن کسی سرکاری دستاویزات میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ نہ ہی نیپرا کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ کے الیکٹرک کیا کررہا ہے۔ انہیں صرف اپنے حصے سے مطلب ہوتا ہے جو انہیں آرام سے مل رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک نجی چینل پر رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کے الیکٹرک سمیت دیگر پاور اداروں نے عوام سے تیس دن کے بجائے پینتیس سے چالیس اور بیالیس دن تک کا بل وصول کرلیا ہے۔ اس پر نیپرا کا یہ موقف قابل افسوس تھا کہ اس سلسلے میں کوئی تحریری شکایت آئے گی تو جانچ کریں گے۔
مطلب اگر کوئی شخص یا ادارہ آپ کو چوری اور بدعنوانی کی خبر دیتا ہے تو اس پر اس کا شکریہ ادا کرنے اور فوری کارروائی کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی نے شکایت تو نہیں کی ناں؟
فیول ایڈجسٹمنٹ گیم کے الیکٹرک کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے۔ بجلی مہنگی ہو یا نہ ہو، مگر وہ اپنا کام اسی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کراچی والوں سے تاقیامت وصول کرکے چلاتا رہے گا۔ ہر مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں رقم بھی 100 سے زائد یونٹ پر وصول کرنے کا مطلب صاف ظاہر کرتا ہے کہ کے الیکٹرک صرف اور صرف بڑی رقومات وصول کرنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ کے الیکٹرک کراچی والوں کیلیے سفید ہاتھی اور حکمرانوں کیلیے سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے۔ ان کے پاس اتنا پاور ہے کہ اگر صارف کا بل 2 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ بھی کردیں تو کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اسے کم کرسکے۔
کے الیکٹرک کیئر سینٹر کے مطابق کمپیوٹر سے نکلا ہوا بل صارف کو بھرنا لازم ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی کٹوتی یا غلطی کو درست نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں قانون دان کس طرح ٹیکنیکل باتوں میں پھنسا کر شکایت کنندہ کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے اسے ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد کس میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ انصاف کیلیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ اسی بات کا فائدہ کے الیکٹرک بھرپور طریقے سے اٹھا رہا ہے۔ ایک عام آدمی کو یہاں سے کبھی انصاف نہیں ملا اور نہ کبھی مل سکتا ہے۔ یہاں بھی اشرافیہ نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
یہاں چیف جسٹس صاحب سے ایک گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ کبھی کسی غریب سائل سے صرف ایک سوال پوچھیں کہ بھئی یہ بتا کہ یہاں تک پہنچنے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی؟ یقینا سائل اپنا کیس بھول کر ایک ایسی دردناک کہانی سنائے گا کہ سننے والے کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ جب سائل یہ بتائے گا کہ جناب عرصہ دراز سے انصاف کیلیے در در بھٹک رہا ہوں۔ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی ان گِدوں کے ہاتھوں لٹا کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ اب کسی کو دینے کیلیے بدن پر موجود ان کپڑوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ یقینا پھر آپ کو فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب آپ اپنے ٹھنڈے کمروں اور گاڑیوں سے باہر نکل کر عوام کے بیچ جائیں گے۔ ان سے بات کریں گے، ان کے دکھ درد سنیں گے۔ ورنہ ہمارا لکھنا اور بولنا ویسا ہی ہے جیسا آپ کا فیصلہ کے الیکٹرک کے سامنے ردی کے سوا کچھ نہیں۔