توہین رسالت کی آڑ میں ذاتی دشمنی کا شاخسانہ بے بنیاد الزام پر سری لنکن باشندے کا بہیمانہ قتل کرنے والے کیا مسلمان کہلانے کے لائق ہیں

جہالت نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا شاید کفار نے بھی نہیں پہنچایا

صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو فیکٹری کے اندر ان کے چند ایک ساتھیوں نے بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
فیکٹری میں موجود عینی شاہدین سے معلوم ہوا ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے گئِے پریانتھا کے کم سے کم چار ساتھی اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس مشتعل ہجوم کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ تاہم ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
موقع پر موجود ایک عینی شاہد کے مطابق جب پریانتھا کے چار ساتھی ان کو بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل رہے تھے تو اس وقت اگر مزید مدد فراہم ہو جاتی تو ممکنہ طور پر پریانتھا کی جان بچ سکتی تھی۔اس واقعے سے متعلق جب پولیس سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خیال رہے کہ پولیس نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ اب تک 100 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ہجوم پریانتھا کو مردہ حالت میں گھسیٹتے ہوئے وزیر آباد روڈ پر لے گیا تھا۔ موقع پر موجود پولیس افسر نے روکنے کی کوشش کی مگر نفری کم ہونے کی وجہ سے وہ انھیں نہ روک سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پریانتھا کی لاش کو سڑک پر رکھ کر آگ لگائی گئی جبکہ واقعے کے ذمہ دار آٹھ سے نو سو مشتعل لوگ ہیں۔
موقع پر کیا ہوا تھا؟
انجنیئر پریانتھا 2012 سے سیالکوٹ کی اس فیکٹری میں بطور ایکسپورٹ مینیجر ملازمت کر رہے تھے۔
حکومت پنجاب کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے فیکٹری کے بعض ملازمین ان سے نالاں تھے۔ رپورٹ کے مطابق کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ سری لنکن فیکٹری مینیجر نے مشینوں کی مکمل صفائی کا حکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی سٹیکرز اتارنے کا کہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹیکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا۔
جمعے کو فیکٹری میں موجود عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جب ہجوم مشتعل ہوگیا تو سری لنکن مینیجر کو فیکڑی کے اندر ہی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا گیا۔ اس موقع پر ان کے چار ساتھوں نے مشتعل ہجوم کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کی نہیں سنی گئی۔
عینی شاہد کے مطابق اس موقع پر کسی نہ کسی طرح وہ چاروں پریانتھا کو فیکٹری میں کسی محفوظ مقام پر لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران پولیس کو بار بار فون کرکے مدد طلب کی گئی۔
وہ پریانتھا کو کبھی ایک دفتر اور کبھی دوسرے دفتر میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے مگر مشتعل ہجوم کے سامنے ان کی ایک نہیں چلی۔
کچھ خاموش تماشائی بنگئے، باقی ان کو قتل کرنا چاہتے تھے
عینی شاہد کے مطابق اس دوران چاروں نے مشورہ کیا کہ پریانتھا کو کسی طرح چھت پر پہنچا دیا جائے تو شاید وہ بچ سکتے ہیں۔ وہاں ان انھیں کسی جگہ چھپایا جاسکتا تھا۔
عینی شاہد یہ نہیں بتا سکے کہ کتنے ساتھی پریانتھا کو چھت پر لے کر گئے تھے مگر وہ بتاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کو چھت پر پہنچا دیا گیا تھا۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین ہیں کیا؟
لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
مقتول سرت لنکن شہری پریانتھا کمارا کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے
مگر بدقسمتی سے صورتحال یہ تھی کہ اس وقت فیکڑی میں صرف وہ چار ہی تھے جو کہ پریانتھا کی جان بچانا چاہتے تھے۔ کچھ بالکل خاموش تماشائی بن چکے تھے اور باقی ان کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
پریانتھا کا اوپر چھت پر ہونا بھی خفیہ نہ رہ سکا اور مشتعل ہجوم چھت پر بھی پہنچ گیا۔ یہاں انھیں بچانے کے لیے ایک ساتھی مشتعل ہجوم کے سامنے کھڑے بھی ہوئے اور اپنی زندگی دا پر لگا کر انھیں محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
مگر مشتعل لوگ اس وقت پریانتھا کو گھسیٹ کر لے گئے۔ عینی شاہد کے مطابق وہ فیکٹری کی چھت تک زندہ تھے۔
اس موقع کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص ان کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس معاملے میں مقامی پولیس کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی اور اطلاع ملنے کے 20 منٹ کے بعد پولیس اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔
پریانتھا کو بچانے کی کوشش کرنے والے چاروں افراد بھی زخمی ہوے ہیں۔ وہ اس وقت منظر عام ہٹ گئے ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ خطرہ محسوس کررہے ہیں۔
سیالکوٹ میں پریانتھا کے ساتھ اظہارِ یکجہتی
سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سکریٹریٹ کے باہر پریانتھا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کیمپ لگایا گیا ہے جہاں تاجروں، شہریوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے بڑی تعداد میں پھول رکھ کر پریانتھا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے صدر میاں اکبر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تین دسمبر شہر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے: ملزمان انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں جن کے ساتھ کوئی بھی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
میاں اکبر کے مطابق انھوں نے اپنے طور پر اس واقعے کی تحقیقات کی ہے جس سے پتا چلا ہے کہ پریانتھا انتہائی پیشہ ور پروڈکشن مینیجر تھے جو اپنے کام اور معیار پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی قابلیت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں پریانتھا کے خاندان کے ساتھ ہیں۔
سیالکوٹ کا المناک واقعہ تاحال ملک کے ہر شہری کو سوگوار کرچکا اور کررہا ہے۔ جب بھی اس واقعے سے متعلق کوئی بات سامنے آتی ہے تو چشم تصور میں ایک نہتے شخص پر ہجوم کی یلغار کا منظر سامنے آجاتا ہے۔
مذہبی قوانین کا سہارا لے کر کسی بے گناہ کو جان سے مار دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ یہ واقعہ ہائی پروفائل اس لیے بن گیا کیونکہ اس واقعے میں مرنے والا ایک غیر ملکی شہری تھا اور شہری بھی اس ملک (سری لنکا) کا جس نے ہمیشہ ہمارے ملک کو احترام دیا اور ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ لیکن اس واقعے نے ہماری برسوں کی دوستی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس واقعے کے مرکزی ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلیے کس قدر سنجیدگی سے کام لیتی ہے۔
اس طرح کے ہر واقعے کے بعد مختلف دعوے کیے جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ تھا، اس کے بعد مستقبل میں اس قسم کے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے۔ لیکن ابھی عوام ایک واقعے کو بھلا نہیں پاتے کہ اسی اثنا میں دوسرا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ مذکورہ واقعے میں بھی کہا جاتا ہے کہ مقتول نے باقاعد طور پر معافی مانگی اور جب اس پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تو ایک دو ساتھی ورکروں نے، جو مقتول کی جان بچانا چاہتے تھے، انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔ لیکن ہجوم میں سے چند شرپسند جو اس سے ذاتی پرخاش رکھتے تھے، انہوں نے برملا کہا کہ وہ آج منیجر کو نہیں چھوڑیں گے۔
اس واقعے میں پولیس کا کردار بھی ماضی کے واقعات کی طرح ہی نظر آتا ہے۔ بالکل وہی عذر کہ ہمارے پاس نفری کم تھی، ہجوم بہت زیادہ تھا، ہجوم بہت زیادہ مشتعل تھا وغیرہ وغیرہ۔ اگر عام لوگوں کی بات کی جائے تو لوگوں کی بے حسی دیکھ عقل دنگ رہ گئی کہ انہوں نے اسے بچانے کے بجائے سیلفیاں لینے کو ترجیح دی، جس سے واضح طور پر ہماری اجتماعی بے حسی کا پتا چلتا ہے۔
موجودہ واقعہ سیالکوٹ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن قارئین کو یاد ہوگا کہ اس قسم کا ایک واقعہ غالبا دس برس پہلے بھی سامنے آیا تھا جس میں مشتعل ہجوم نے دو بھائیوں کو جان سے مار دیا تھا اور عذر یہ تراشا تھا کہ یہ ڈاکو ہیں۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات ایک ایسی ہستی کے شہر میں ہوئے ہیں جنہیں دنیا امن کے شاعر، محبت کے شاعر اور ملت کے شاعر کے نام سے یاد کرتی ہے، جو عدم تشدد کی بات کرتے تھے، امن، محبت اور روادری کی بات کرتے تھے۔ ان واقعات کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ شاید اقبال کے شہر کے عوام میں برداشت ختم ہوچکی ہے جو ہم سب کیلیے لمحہ فکریہ ہے۔
مذکورہ واقعے کے بعد حکومت کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ حکمت عملی بنانا ہوگی، کیونکہ تاحال ہمارے ملک پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور جب ہم گرے لسٹ سے نکلنے کیلیے پورا زور لگا رہے ہیں تو پہلے ایک مذہبی جماعت کے دھرنے اور حکومت کو اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کیلیے مجبور کرنے جیسا واقعہ اور اب مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک غیر ملکی کے بے رحم قتل نے حکومت کی گرے لسٹ سے نکلنے والی کاوشوں کو یقینا سبوتاژ کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو ہمارا پڑوسی ملک بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
سیالکوٹ شہر سے بننے والا کھیلوں کا سامان پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں خدشہ ہے کہ کہیں عالمی منڈی میں اپنی کھیلوں کی پروڈکٹس کو برآمد کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ یقینا اس تاثر کو زائل کرنے میں کہ ہم امن پسند نہیں، مغرب اور یورپ کو سمجھانے میں وقت لگے گا۔ اس لیے حکومت کو ان پہلوں کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی بنانا ہوگی اور اپنے وزرا کو بھی تنبیہہ کرنا ہوگی کہ اس قسم کے واقعے سے متعلق بیان دیتے وقت اپنے حواس کو بحال رکھیں۔
حیرت کی بات ہے کہ مذہب کیلیے قوانین موجود ہیں اور ان پر سزائیں بھی ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ عوام اس قسم کے واقعات میں خود ہی جج بن کر فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں اپنے قوانین اور عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے یا کیا عوام اپنے آپ کو ان قوانین سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں یا ان کے ذہنوں میں ماضی کے واقعات تو نہیں کہ اگر پہلے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگڑا تو اب کیا ہوگا؟ یہ سارے سوال ہیں جو پاکستانی قوم کیلیے لمحہ فکریہ ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہمیں کسی اور نے آکر نہیں بتانے بلکہ ہمیں خود ہی ڈھونڈنے ہوں گے۔ ہم میں برداشت کیوں نہیں ہے؟ ہم کیوں ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے؟ ہم کیوں ان مذہبی قوانین کی آڑ میں دوسروں سے ذاتی پرخاش نکالتے ہیں؟
ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے مجھے تو بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ ملک کے عوام کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والے ہیں اور ہر مذہب امن کی بات کرتا ہے۔ ہمارا ملک صوفیا، درویشوں، سنتوں، بھگتوں، پیروں، فقیروں، اولیا کرام سے جانا جاتا ہے، امن کے داعی شاعروں، ادیبوں، مصنفین، آرٹسٹوں اور کھلاڑیوں سے جانا جاتا ہے لیکن ہمارے ہی ملک میں جب اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو کوئی ایسی بات ہے جس کو بھولنے کی وجہ سے مندرجہ بالا تمام ہستیوں کے امن کے پیغام کے باوجود ہم پرامن نہیں ہیں۔
کیوں ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے؟ کیوں ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی کوشش میں رہتے ہیں؟ کیوں ہم کسی کو تسلیم نہیں کرتے ؟ یہ تمام کیوں ہمیں اس پیغام کی طرف لے جارہے ہیں کہ ہمیں اب اس نفرت، غصے اور شدت کو اپنے اندر سے ختم کرکے خود کو امن کا داعی ثابت بھی کرنا ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم دنیا کی پرامن قوم ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اس واقعے کے بعد کوئی غیرملکی ہماری صنعتوں، ہماری فیکٹریوں اور ہماری ملوں میں کام کرنے پر راضی ہوگا؟ کیا انہیں ہم یہ یقین دلا سکیں گے کہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوگا؟ کیا ہم انہیں یہ یقین دلا سکیں گے کہ ان کے تحفظ کو ہم یقینی بنائیں گے؟ کیا ہم دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ ہم تو اپنے مہمانوں کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں؟
یہ کام کسی ایک کا نہیں ہے۔ ہمارا دین، ہمارے بزرگ، ہمارے دانشور ہمیں بتا چکے ہیں اور مسلسل بتا رہے ہیں کہ ہم نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اس ملک کو پرامن کیسے بنانا ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں تبدیلی خود سے اور اپنے اندر سے شروع کرنی ہے، تب ہی ہم صحیح معنوں میں نئی نسل کو امن کا سبق پڑھا سکیں گے۔ امن کی ترویج کیلیے جدوجہد کرنا صرف سیالکوٹ کے شہریوں کیلیے ہی ضروری نہیں بلکہ پوری قوم کیلیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں پھر بدامنی کا کوئی سانحہ نہ ہوسکے۔
پاکستان کے قانون میں آرٹیکل 295 C کے تحت گستاخِ رسول کی سزا بطورِ حد قتل ہے۔ اور اس جرم کے پائے جانے اور اقرار یا شرعی گواہوں کی گواہی سے یہ ثابت ہوجانے کی صورت میں حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے۔ اور توہین رسالت سمیت تمام شرعی حدود کے نفاذ اور سزاں کا اجرا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے
عوام کی ذمے داری یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ہمارے معاشرے میں کوئی ایسا مجرم پایا جاتا ہے تو شریعت اور قانون کے تقاضے پورے کرے، اور ایسے مجرم کے خلاف پرامن قانونی چارہ جوئی کرکے اسے کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ فقط واللہ اعلم۔
سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری منیجر کا اندوہناک قتل کسی طور پر جہاں اسلام میں جائز نہیں وہیں قانون میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ اس پر آغاز میں ہی فتوی کا تذکرہ کردیا گیا ہے جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ اگر کہیں ایسا جرم ہوتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن ہم دین کو تو مانتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ دین کی ایک بھی نہیں مانتے۔
یہ افسوس ناک واقعہ ہماری جہالت کی بھرپور عکاسی کررہا ہے کہ ہم میں آج بھی شعور کی کمی ہے۔ واقعے کی تحقیقات کیلیے جہاں اعلی سطح پر کمیٹیاں بنادی گئی ہیں، وہیں وزیراعظم نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ اس ظمن میں کچھ ملزمان بھی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ لیکن کیا اس سے دین اسلام کو جو نقصان ہوا ہے، کیا وہ پورا ہو پائے گا؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔
دین سے محبت ایمان کا حصہ ہے مگر ہم اس حصے کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ سیالکوٹ واقعہ غیرمعمولی ہے۔ سری لنکا پاکستان کے دوست ممالک میں سے ہے۔ ہم کس منہ سے انہیں جواب دیں گے، ہم کس طرح اس منیجر کی جھلسی ہوئی لاش اس کے گھر والوں کو دیں گے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہیں جس کا جواب ابھی ہمارے پاس موجود نہیں۔
چلیے مان لیتے ہیں کہ سری لنکن منیجر توہین رسالت کا مرتکب ہوا تھا، تو کیا اس ملک میں قانون موجود نہیں جو اسے سزا دے سکے؟ ہم صرف مشتعل ہونا جانتے ہیں۔ ہم میں صبر، برداشت، رواداری سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ ہم بنا سوچے سمجھے ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں، جس کا مقصد صرف اور صرف شر پھیلانا ہوتا ہے۔
بھوک برداشت کی جاسکتی ہے مگر جہالت کبھی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح انتہائی کم اور ناخواندگی کی شرح سب سے زیادہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں انصاف موجود نہیں۔ تعلیم کے نام پر کرپشن کرنا آج فیشن بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں کو محض فیس سے مطلب ہے۔ ان انسٹیٹوشنز میں وہ لوگ پڑھا رہے ہوتے ہیں جنہیں خود ابھی پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کا نظام مکمل طور پر برباد ہوچکا ہے مگر کسی حکومت نے اس طرف دھیان نہیں دیا۔ پیسے دے کر نمبرز حاصل کرلیے جاتے ہیں، پیسے دے کر ڈگریاں مل جاتی ہیں۔ سب کام پیسوں سے یہاں آرام سے ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ مانگ ہی پیسوں کی ہے۔
سیالکوٹ واقعے پر اب جس طرح عالمی دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے اور جس طرح ہمارے دشمن ہم پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں وہ اب ہمیں بھگتنا پڑیں گے۔ جس طرح باہر سے لوگ یہاں آکر کام کررہے ہیں اسی طرح ہمارے ہم وطن بھی دیارِ غیر میں برسر روزگار ہیں۔ یہ واقعہ ان کیلیے کتنی پریشانی لے کر آئے گا، ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ طیش اور غصے میں آکر ہم نے ایک بہت غلط قدم اٹھایا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ہجوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جو انہیں سمجھاتا کہ یہ غلط ہورہا ہے؟
ہم کس طرف جارہے ہیں؟ ہم پہلے تو ایسے ہرگز نہ تھے۔ پیار، محبت، امن اس ملک کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ دنیا ہماری مہمان نوازی کی مثال دیا کرتی تھی۔ لیکن آج ہم دنیا میں تو رسوا ہو ہی رہے ہیں، ساتھ ساتھ دین سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ واقعہ ہوکر گزر گیا، مگر آنے والے وقتوں میں جو پریشانیاں اور مصیبتیں ہم پر ٹوٹیں گی، یقینا ہم اس سے ابھی واقف نہیں۔
حکومت، علمائے کرام اور انصاف فراہم کرنے والوں سے گزارش ہے کہ ملک میں کم از کم تعلیم کے معاملات سے کرپشن کا خاتمہ کردیا جائے اور تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنی پوری طاقت استعمال کیجیے۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہوگا تو ہمارے باقی کے نظام بھی بہتر ہوجائیں گے۔ ورنہ ہم آج جس جہالت میں جاچکے ہیں آنے والے وقتوں میں ہم دنیا میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ آپ لوگوں کی نسل باہر ممالک میں پڑھ کر مہذب شہری بن جائے گی، لیکن یہاں والے اندھیروں میں ہی بستے رہیں گے۔
ملک میں توہین مذہب کے نام پر اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن کی تحقیقات کے بعد علم ہوا کہ وہ واقعات ذاتی عناد یا غلط فہمی کی بنیاد پر پیش آئے۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے انتہائی سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر گزشتہ واقعات پر ہی حکومت صائب اقدامات کرتی تو آج یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔ ہر واقعے کی طرح سیالکوٹ واقعے کی بھی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ اس بار ذمے داران کیلیے مذہب کے نام پر نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہیے۔
سیالکوٹ واقعے کی جو ویڈیوز سامنے آئیں اس میں تشدد اور قتل کرنے والے صاف نظر آرہے ہیں۔ 900 لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ مرکزی ملزم فرحان ادریس سمیت 112 افراد بھی زیرِ حراست ہیں۔ انصاف یہی ہوگا کہ ان تمام لوگوں کو بھی بغیر کسی رحم، قتل عمد کی سزا سنائی جائے۔ ذمے داروں کو پھانسی پر لٹکایا جائے اور جو لوگ مذہب کے نام پر ان قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں ان کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔ تب ہی آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی۔
()