ادارے اپنی رٹ قائم کریں اداروں کو اپنا تقدس قائم رکھنے کیلئے اپنی رٹ قائم کرنی پڑتی ہے

کسی ملک یا معاشرے میں رہنے والے سارے لوگ اگر قانون پسند، امن پسند، محب وطن اور مثبت شہری بن جائیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت باقی رہے گی یا نہیں؟ کیوں کہ جب معاشرے میں جرم ہی نہیں رہے گا تو جرم کو کنٹرول کرنے کیلیے پولیس یا کسی دوسرے ادارے کی ضرورت ہی کیوں باقی رہے گی؟ اسی طرح اگر سارے ڈرائیور حضرات ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنالیں اور سالہا سال کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی نہ ہو تو حکومت آخرکار یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوجائے گی کہ آخر قومی خزانے سے بھاری بھرکم تنخواہیں ادا کرکے ایسا ادارہ کیوں قائم رکھا جائے جس کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔
ہمارا کامن سینس تو یہ کہتا ہے کہ حکومت نے قانون بناکر عوام کو بتادیا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تو بات ختم۔ کوئی بھی شخص ایسا کیوں کرے جس بات سے منع کردیا گیا ہے، جو خود اس کیلیے اور دوسروں کیلیے بھی فائدہ مند ہے۔ لیکن ایسا تو آج تک کہیں نہیں ہوا کہ کوئی قانون بنا ہو اور پھر اس کی خلاف ورزی کرنے والے میدان میں نہ اترے ہوں۔ حکومت قانون بناتی ہے اور اس قانون سے نالاں افراد اس کا توڑ پیدا کرنے میں لگ جاتے ہیں، کیوں کہ قاعدہ و قانون ان کی طبیعت کو موافق نہیں آتا اور ان کے مفاد کو زک پہنچاتا ہے۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے ادارے ان لوگوں کیلیے بناتی ہے جو قانون شکن ہیں۔ جو ہر حال میں امن کے خلاف ہیں اور افراتفری پھیلانا ان کا مشغلہ ہے۔ ان ہی لوگوں کیلیے سڑک پر اشاروں کا نظام وضع کرنا پڑتا ہے اور پھر ایک پوری فورس اس بات کو یقینی بنانے کیلیے کھڑی کرنی پڑتی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو کڑی سزا دی جاسکے تاکہ وہ آئندہ ایسا نہ کرے اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالے۔ اسی طرح چوری چکاری روکنے اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کیلیے پولیس جیسے ادارے قائم کرنے پڑتے ہیں اور معاملہ اگر چھوٹے پیمانے سے بڑے پیمانے پر منتقل ہو تو پھر ملک کو ایک پروفیشنل فوج کی ضرورت پڑتی ہے جہاں وہ ایک طرف ملک کے اندر ضرورت کے مطابق کام کرتی ہے اور دوسری طرف وہ اپنے ملک کے دشمنوں سے جنگ کی صورت نبرد آزما رہتی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ملک میں ضرورت کے مطابق اداروں کا وجود نہ ہو تو پھر مسائل بڑھنا یقینی ہوتا ہے۔ لیکن جب یہاں ضرورت کے مطابق ہر ایک ادارہ اپنی مطلوبہ فورس کے ساتھ موجود ہو اور پھر ملک میں افراتفری مچی ہو، قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا جارہا ہو، آئینی اداروں اور ان کے اراکین کو ببانگ دہل کیا سے کیا کہا جارہا ہو، اور سب کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دی جارہی ہو تو اس سے ملک کا ایک عام محب وطن شہری کیا سمجھے؟ کسے سچا سمجھے اور کسے قصوروار؟ کیا اس کے بھانت بھانت کی بولیوں میں الف لیلوی کہانیوں کو سننے کے علاوہ کوئی چارہ باقی رہ جاتا ہے؟
کیا ہمارے ملک میں جس کا جو دل چاہے کرتا رہے؟ سرعام میڈیا پر جس پر جو چاہے الزام لگادے؟ اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں۔ ہر کوئی خود کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان ثابت کرکے بیٹھا رہے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے اور ہر شخص اور ادارے کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنا مسئلہ متعلقہ فورم پر اٹھانا چاہیے اور متعلقہ ادارے کو انصاف کے ساتھ اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
ملک میں موجود آئینی اداروں کی اہمیت اگر غیر آئینی اداروں سے زیادہ ہے تو درست ہے لیکن اس پوزیشن میں ان کی ذمے داری بھی دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور ان کے کندھوں پر ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کٹھن ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ ادارے اس حوالے سے اپنی کمزوری دکھائیں گے تو ظاہر ہے پھر ان کی اہمیت وہ نہیں رہے گی جس کیلیے ان کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔ صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاک فوج، سپریم کورٹ، نیب وغیرہ کے بارے میں ہماری حکومت اور متحدہ اپوزیشن، جو گل ہائے پاشی فرما رہی ہیں اس سے عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہاں پر ہو کیا رہا ہے؟ اور یہ سلسلہ کہیں جا کر رکے گا بھی یا نہیں؟
آئے دن یہ صورتحال دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی کبھی ویڈیوز آرہی ہیں، تو کبھی آڈیوز۔ نیب کے بارے میں ساری صورت حال ہمارے سامنے ہے، الیکشن کمیشن اور ان کے ممبران کے بارے میں حکومتی وزرا، مشیر اور اراکین کیا فرما رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بس لے دے کر ایک نوٹس ہے جو ان کو بھیج دیا جاتا ہے اور وہ معزز رکن وہاں سماعت میں جاکر معافی مانگ لیتا ہے اور معاملہ ختم۔ اور پھر کسی ایشو پر وہ اس آئینی ادارے کی ایسی ہی دھلائی کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے اور یہ گڑیا گڈے کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ آخر الیکشن کمیشن ایسے لوگوں کو فوری کڑی سزا کیوں نہیں دیتا جو آئندہ آنے والوں کیلیے مثال بنے اور وہ ایسا نہ کریں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں آج کل ہماری حکومت اور اپوزیشن کے ہاتھوں جو مچھلی بازار لگا ہے اس کا اختتام کیسے ہوگا؟ کون سچا ہے اور کون جھوٹا، عام آدمی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ یہاں یہ بات سوچنے والی ہے کہ اقتدار کی لڑائی حکومت اور اپوزیشن کی ہے اور دونوں کی طرف سے کچڑ اچھالا جارہا ہے آئینی ادارو ں پر۔ دونوں ایک دوسرے کو عدالت جانے کا مشورہ دیتے ہیں، جاتا کوئی نہیں ہے۔
یہاں پر ہمیں اگر جان کی امان دی جائے تو یہ عرض کرنا بھی بے محل نہیں کہ اس حوالے سے ان آئینی اداروں نے بھی ان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے، ورنہ اگر پہلے دن سے جھوٹے الزامات پر کڑے فیصلے سنا دیے جاتے تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ الیکشن کمیشن اگر دلیری کا مظاہرہ کرے تو کسی بھی الیکشن میں دھاندلی اور الیکشن قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اگر اس حوالے سے کوئی کیس ہوتا بھی ہے تو اس کو انجام تک پہنچاتے پہنچاتے اسمبلی اپنی مدت پوری کرلیتی ہے۔ یہاں پر دہری شہریت کے کیس، فارن فنڈنگ کیسز نہ جانے کب سے چل رہے ہیں۔ کوئی فیصلہ نہیں ہورہا اور لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔
اسی طرح سپریم کورٹ اور ان کے ججوں کے بارے میں آج کل (اور پہلے بھی) جو خبریں متواتر چل رہی ہیں اور پھیلائی جارہی ہیں یا تو وہ سچی ہیں یا پھر جھوٹی، اس میں کوئی تیسرا آپشن تو ہے نہیں۔ اب اگر حکومت اور نہ ہی اپوزیشن عدالت میں جاتی ہے اور بس میڈیا میڈیا ہی کھیلتی رہتی ہیں اور آئینی اداروں اور ان کے اراکین کی عزت کی دھجیاں بکھیرتی رہتی ہیں تو کیا معزز عدالتوں کا کام نہیں کہ ان دونوں کو بلا کر سوموٹو ایکشن لے کر روزانہ کی بنیاد سماعت کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیں اور جھوٹے الزامات لگانے والے کو عبرت کا نشان بنائیں تاکہ یہ مسئلہ تو حل ہو۔
اسی طرح نیب کی کارکردگی پر خود سپریم کورٹ کئی سوالات اٹھا چکی ہے اور اپوزیشن نے تو دہائی مچائی ہوئی ہے۔ اب معزز عدالت نیب والے کیسز کی جلد سماعت کرکے ان کو ہاں یا ناں میں جواب دے تاکہ ایک حکومت کی پوری مدت کے دوران تو ان کا فیصلہ ہوجائے۔ نیب لوگوں کو پکڑ رہی ہے اور پھر عدم ثبوت کی بنا پر ان کی ضمانتوں کے سلسلے چل نکلے۔ اسی لیے ہم نے پہلے کہا ہے کہ بڑے اداروں کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان پر ذمے داری بھی اتنی ہی بڑی عائد ہوتی ہے۔ ہمارا موقف بس یہ ہے کہ یہاں جو کیسز چلتے ہیں وہ کسی منطقی انجام تک پہنچیں اور جلد پہنچیں۔
ساری بات کا لب لباب یہی ہے کہ ادارے اور فورسز بنائی جاتی ہیں تاکہ ملک سے جرائم کا قلع قمع کیا جاسکے گا اور مجرموں کو سزا دی جاسکے کہ وہ معاشرے کے امن کو تباہ نہ کرسکیں۔ اس کیلیے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی اور رٹ قائم کرنے کیلیے ان کے فیصلے بولنے چاہئیں۔ انصاف صرف ہو نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ جو ممبران، وزرا، حکومت یا اپوزیشن آئینی اداروں کی تضحیک کرتے ہیں ان کی معافی کسی صورت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ جو لوگ اپنے خلاف کیسز کو غیر ضروری طول دیتے ہیں ان کو ان کے مقاصد میں کام یاب نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔ صرف بے رحم انصاف ہی کسی بھی ادارے کو اپنی رٹ قائم کرنے دے سکتا ہے، بصورت دیگر لوگ ان کے فیصلوں پر تنقید کے علاوہ مذاق بھی اڑاتے ہیں۔
ایک اور خاص بات کہ اداروں کے افراد ریٹائرمنٹ کے بعد جو سچ بولتے ہیں اس کی تفتیش بہت ضروری ہے اور ان کے بیانات، حلف، آڈیو، وڈیو وغیرہ کی مکمل چھان بین کر کے عوام کو جہاں غیر ضروری بحث میں الجھنے سے بچایا جاسکتا ہے وہیں پر کسی کو بھی اپنی مرضی کے قاعدے قانون وضع کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
ادارہ چاہے آئین کی کسی شق کے تحت بنا ہو یا اس کے بغیر، اس کو اپنا تقدس قائم کرنے کیلیے اپنی رٹ قائم کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بغیر اس کے فیصلوں سے کھیلنے والے اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے ہیں۔
٭٭٭