بجلی کی مارکیٹ میں اجارہ داری کا خاتمہ

اس سال 9 مئی کو جہاں ملک بھر میں سیاسی ہنگامہ آرائی نے نیوز چینلز کی اسکرینوں کو یرغمال بنائے رکھا، وہیں نیپرا نے بجلی کی فروخت کے حوالے سے ایک اہم ترین معاملے کو اپنی ویب سائٹ پر خاموشی سے اپ لوڈ کردیا۔ نیپرا نے 9 مئی کو ملک بھر میں بجلی کی فروخت کرنے والی تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں، جن کو ڈیسکوز کہا جاتا ہے، کو نئے لائسنس جاری کرتے ہوئے مخصوص علاقے پر اجارہ داری کا حق ختم کرتے ہوئے نان ایکسکلوسو لائسنس کا اجرا کردیا ہے۔
نیپرا کے موجودہ چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے بجلی کی پیداوار ترسیل اور فروخت کے حوالے سے اہم انقلابی اقدامات پر عمل شروع کیا ہے، جس کا مقصد بجلی پیداوار سے لے کر اس کی فروخت کے عمل سے بتدریج حکومتی عملداری کو ختم کردیا جائے۔ اور بجلی کی خرید و فروخت اور پیداوار کے حوالے سے ایک مارکیٹ بنائی جائے۔ اس مارکیٹ کو Competitive Trading Bilateral Contracts Market (CTBCM) کہا گیا ہے۔
یہ سی ٹی بی سی ایم کیا ہے؟ اس کو حرف عام میں یہ سمجھیں ابھی تک بجلی کی خریداری کےلیے حکومت واحد خریدار ہوا کرتی تھی۔ مگر نئے نظام میں بجلی کے پیداواری یونٹس لگانے، ٹرانسمیشن نظام بچھانے اور بجلی کی فروخت کے اب حکومتی ضمانت کے بجائے ایک آزاد مارکیٹ یا بجلی کے اسٹاک ایکس چینج میں ہوا کرے گی۔
نئے نظام کے تحت این ٹی ڈی سی میں قائم Central Power Purchasing Agency (CPPA-G) جو کہ ملک بھر کے بجلی گھروں سے بجلی کی خریداری کرتے ہوئے اس کو این ٹی ڈی سی کے ذریعے تمام ڈیسکوز کو فراہم کرتی ہے، کو بتدریج ایک بجلی کے اسٹاک ایکس چینج میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جہاں پر ڈیسکوز یا سرمایہ کار بجلی کی خریداری اور بجلی کی پیداواری گنجائش کی خرید و فروخت کرسکیں گے۔
پہلے مرحلے میں سی پی پی اے جی کو تمام پاور پلانٹس کے معاہدے منتقل کردیے گئے ہیں، جو کہ اس وقت ٹیک اور پے (یعنی بجلی لو یا ادائیگی کرو) کی بنیاد پر لگے ہیں۔ ان کے معاہدوں کی مدت ختم ہونے کے بعد سی پی پی اے جی میں ان پاور پلانٹس کی بجلی لازمی خریدے جانے کے بجائے بجلی کی نیلامی ہوا کرے گی۔
یعنی اسی طرح اب ڈیسکوز یعنی بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی بجلی ان کے طلب کے مطابق خریدنا ہوگی۔ سی ٹی بی سی ایم کے قیام کےلیے اہم شرائط میں سب سے اہم شرط یہ تھی کہ بجلی کے پیداواری نظام کو تبدیل کرنے سے قبل بجلی کی خریداری کے نظام کو آزاد اور مارکیٹ بیس بنانا ضروری ہوگا۔ اور اسی لیے نیپرا نے سال 2021 میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے 20 سال لائسنس کی مدت ختم ہونے، نئے لائسنس کی منظوری سابقہ اجارہ داری یا مناپلی کے طریقہ کار کے بجائے کھلی مسابقتی مارکیٹ کے مطابق دی جائے۔
نیپرا نے اس حوالے سے ایک اجلاس سال 2020 میں کیا تھا، جس میں ڈیسکوز کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے ختم ہونے والے ڈسٹری بیوشن لائسنس کو اب اجارہ داری کے بجائے کھلی مارکیٹ کے طریقہ کار کے تحت جاری کیا جائے گا۔ اور مئی 2022 کو ڈیسکوز کو عبوری لائسنس جاری کیا تھا، جس میں EXCLUSIVITY کو ختم کردیا گیا تھا۔ جس پر ڈیسکوز کے نمائندوں نے مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے حکم امتناع لینے کا عندیہ دیا تھا۔ مگر دو سال سے زائد عرصہ کی بات چیت کے بعد بالآخر نیپرا نے ڈیسکوز کو مسابقتی لائسنس جاری کردیا ہے۔ فیصل آباد، گوجرانوالا، حیدرآباد، اسلام آباد، لاہور، ملتان، پشاور اور کوئٹہ کی جانب سے نیپرا کو خصوصی اجارہ داری کے ساتھ لائسنس کی تجدید کی درخواست دی گئی تھی۔ جس پر نیپرا نے ان تمام ڈیسکوز کے ڈسٹری بیوشن لائسنسز کو خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے مسابقتی لائسنس 9 مئی کو جاری کردیا ہے۔ جبکہ سال 2013 میں ٹرائبل ایریا ڈسٹری بیوشن کمپنی اور سال 2011 میں سکھر ڈسٹری بیوشن کمپنی کو خصوصی اجارہ داری کا لائسنس 20 سال کےلیے جاری ہوا تھا۔ ان دونوں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لائسنس کی مدت ختم ہونے پر انہیں غیر مسابقتی لائسنس جاری کردیے جائیں گے۔
اب نیپرا کے زیر غور کے الیکٹرک کے لائسنس کا معاملہ رہ گیا ہے، جس کی مدت جون 2023 میں ختم ہورہی ہے۔ اس لیے کے الیکٹرک نے پہلے ہی اپنا غیر خصوصی یعنی مسابقتی لائسنس کےلیے نیپرا میں درخواست دے دی ہے۔ جس پر نیپرا نے اعتراضات طلب کرلیے ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی نیپرا اس درخواست کی عوامی سماعت مقرر کرے گا۔ اس حوالے سے کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر میں مسابقتی بنیاد پر مقابلے کےلیے کے الیکٹرک نے سی ٹی بی سی ایم میں شمولیت کا تفصیلی پلان بھی جمع کروا دیا ہے۔ سی ٹی بی سی ایم قوانین کے تحت اہل صارفین مسابقتی اداروں سے بذریعہ کے الیکٹرک نیٹ ورک بجلی حاصل کرسکیں گے۔ عام صارفین کے حقوق کے تحفظ اور مسابقتی نظام کی طرف منتقلی کےلیے عام لائسنس اور سی ٹی بی سی ایم پلان ضروری ہے۔ ڈسٹری بیوشن لائسنس کے ساتھ کے الیکٹرک نے جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کی انفرادی ٹیرف بھی جمع کروائی ہیں اور آئندہ سات سال میں کے الیکٹرک نے کراچی اور منسلک انفرااسٹرکچر پر 484 ارب روپے سرمایے کا منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔ کے الیکٹرک کراچی اور ملحقہ علاقوں میں بجلی کی فراہمی کےلیے متبادل ذرائع سے 2200 میگاواٹ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرے گی۔مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا نیپرا کی جانب سے تمام ڈیسکوز اور کے الیکٹرک کے اجارہ داری ختم کرنے کے لائسنس سے عوام کو براہ راست فوری فائدہ ہوگا؟
اس کا جواب فی الوقت نفی میں ہے کیونکہ نیپرا کے قوانین کے مطابق پہلے مرحلے میں سی ٹی بی سی ایم کے تحت صرف ایک میگاواٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے ہی ملک بھر سے کسی بھی بجلی پیدا کرنے والے سے خریداری کرسکتے ہیں، جس کی تعداد ملک میں مجموعی صارفین کا صرف 16 فیصد ہے۔ مگر یہ عمل بتدریج عوام کو سہولیات کی فراہمی میں اہم ثابت ہوگا۔ کیونکہ اب مارکیٹ نئے سرمایہ کاروں کےلیے کھل گئی ہے۔ اور نئے سرمایہ کار آکر بہتر خدمات اور کم قیمت پر بجلی کی فراہمی کےلیے سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔