33 ارب کی مشکوک ادائیگیاں

پاکستان میں کون سا ایسا محکمہ ہے، جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ وہاں کرپشن نہیں ہوتی؟ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے ایسا محکمہ نہ مل سکے گا۔ المیہ یہ ہےکہ وطن عزیز میں مختلف عہدوں پر فائز افراد اپنے عہدوں کو عوام کی خدمت کرنے کا نہیں، بلکہ لوٹ مار کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ کسی بھی شخص کو سرکار کی جانب سے کوئی بھی عہدہ صرف اور صرف عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے دیا جاتا ہے، مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چھوٹے سے بڑے تمام ہی عہدوں پر متمکن افراد عوام کی نہیں، بلکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے فلسفے کے تحت دن رات اپنی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ تازہ ترین لوٹ کھسوٹ کی جو کہانی منظر عام پر آئی ہے، وہ ای او بی آئی سے متعلق ہے۔
رپورٹ کے مطابق ای او بی آئی کی جانب سے نیشنل بینک کے ذریعے پنشن کی مد میں 33 ارب روپےکی مشکوک ادائیگیوں پر پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی نے گزشتہ دنوں نیشنل بینک حکام کو طلب کرنے کے لئے خط لکھا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید کے زیر صدارت پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا کمیٹی نے ای او بی ائی میں ہونے والی بےضابطگیوں کا سخت نوٹس لیا کمیٹی نے نیب اور ایف آئی اے کے پاس ای او بی آئی سے متعلق درج مقدمات کی رپورٹ آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ ای او بی آئی کی جانب سے پنشن کی مد میں 33 ارب کی مشکوک ادائیگیوں کے معاملے پر کمیٹی نے نیشنل بینک کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں ای او بی آئی کی جائیدادوں کی خریدوفروخت کے دوران ہونے والی مالی بےضابطگیوں اور ملتان روڈ لاہور میں خریدی گئی اراضی سے متعلق معاملے کو بھی جلد حل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں اوور سیز پاکستانیز سے متعلق سال 18-2017 اور 19-2018 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بریفنگ میں کمیٹی کو بتایا کہ ای او بی آئی اور پرائما کو کے درمیان 2007 میں معاہدہ ہوا معاہدے کے مطابق ایجنٹ منصوبے کو بجٹ اور وقت کے اندر رہتے ہوئے مکمل کرنے کا زمہ دار ہے ای او بی آئی کی جانب سے پرائما کو نے ملٹی پرپز سنی پلیکس اور کمرشل کمپلیکس کے لئے کنٹریکٹ ایوارڈ کیا کنٹریکٹ خلاف ضابطہ طور پر زیادہ ریٹس پر دیا گیا اور 89 کروڑ 20 لاکھ روپے کی ذیادہ ادائیگی کی گئی اور منصوبہ بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوا سیکریٹری اوور سیز پاکستانیز ڈویڑن نے بتایا کہ معاملہ ایف آئی اے میں ہے، جس پر ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ انویسٹی گیشن مکمل ہے، فائنل چالان جلد ہی جمع کیا جائے گا۔ موبلائزیشن ایڈوانس 15 کے بجائے 20 فیصد زیادہ گیا، اس پر کمیٹی نے نیب اور ایف آئی اے سے ای او بی آئی سے متعلق کیسز پر پیش رفت کی تفصیلات طلب کر لیں۔
آڈٹ حکام نے شرکائ کو بتایا کہ ای او بی آئی کی جانب سے پنشن کی مد میں جنوری 2009 سے جون 2018 تک 33 ارب روپے کی مشکوک پےمنٹ کی گئی آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ رقم نیشنل بینک، تعمیر مائیکرو فائنانس بینک اور بینک الفلاح کے ذریعے تقسیم کی گئی۔ چئیر پرسن ای او بی آئی کا کہنا تھا کہ تعمیر مائیکرو فائنانس بینک اور بینک الفلاح کا ڈیجیٹلائز ریکارڈ جمع کروا دیا گیا ہے، جبکہ آڈٹ حکام نے کہا کہ بڑی رقم نیشنل بینک کی ہے، جو اب تک ری کنسلیشن ہو جانی چاہئے تھی۔ نیشنل بینک کو بلا لیا جائے، جس پر کمیٹی نے اس معاملے پر نیشنل بینک کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دشت تو دشت، مزار بھی نہ چھوڑے ہم نے!
گزشتہ کئی برس سے جاری کرپشن میں اب تک تو زندہ لوگوں کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کی کہانیاں ہی سامنے آتی رہی ہیں، مگر سائیں سرکار نے کرپشن کی دنیا میں نئے جھنڈے گاڑتے ہوئے اللّہ کے ولیوں اور صوفی بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا۔ شاید اس لوٹ مار کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہو کہ یہ اولیائ اللّہ اور صوفی بزرگ تو ویسے بھی زندہ نہیں ہیں اور ان چیزوں کی انہیں ضرورت نہیں ہے، جن کے لئے حکومت نے کروڑوں روپے کا فنڈ دیا ہے، چنانچہ شاید اسی سوچ کے تحت سندھ کے محکمہ اوقاف کے افسران نے صوفی بزرگوں کے مزارات کی مرمت کے فنڈز کو بھی نہ بخشا۔ سندھ کے مزارات کی مرمت اور دیکھ بھال کے فنڈز میں کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن سامنے آئی، جس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کی انسپکشن ٹیم نے محکمہ اوقاف سندھ کے افسران کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے۔ صوفی بزرگ سچل سرمست کے مزار، صوفی بزرگ نورعلی شاہ کے تین ہٹی کراچی کے مزار کی مرمت کا فنڈ بھی ہڑپ کرلیا گیا، اس کے علاوہ کنڈے شاہ کورنگی، غائب شاہ کے مزاروں کی مرمت بھی نہ ہوئی، لیکن مرمت کے لئے مختص فنڈز ہڑپ کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ محکمہ اوقاف کے دفاتر کی مرمت بھی ہونا تھی، لیکن وہاں بھی کوئی کام نہیں ہوا۔
وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم نے چیف ایڈمنسٹریٹر محکمہ اوقاف سندھ کو تحقیقات کے لئے طلب کیا تو موصوف پیش ہی نہ ہوئے وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم کا کہنا ہے کہ مزار اور محکمہ اوقاف کے دفاتر کے مرمتی کام کے 10 کروڑ روپے فنڈ میں خورد برد ہوئی ہے وزیر اعلیٰ سندھ انسپکشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق مزارات کی مرمت نہیں ہوئی، لیکن فنڈز ہڑپ کرنے کے لئے ٹھیکے داروں کو ایڈوانس ہے منٹ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ انسپکشن اینڈ انکوائریز کے ڈائریکٹر جنرل کی تحریری ہدایت کے باوجود چیف ایڈمنسٹریٹر محکمہ اوقاف اور دیگر افسران اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ پیش ہی نہیں ہو رہے۔ ان سب کا تحقیقات کے لئے پیش نہ ہونے کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ انہیں یقینی طور پر سیاسی لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے، ورنہ کرپشن کا الزام آئے اور متعلقہ سرکاری عہدے دار تحقیقات کے لئے پیش نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ ڈی جی وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم کا کہنا ہے کہ ٹھیکہ دینے کے لئے معاہدے سے پہلے ہی ٹھیکے داروں کو ایڈوانس ادائیگیوں کے ذریعے مبینہ کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چیف منسٹر انسپکشن ٹیم کو محکمہ اوقاف کے افسران کے خلاف مزارات اور دفاتر کی مرمت کے کام میں کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کے خلاف تحریری شکایت موصول ہوئی تھی، جس پر تحقیقات کی گئیں تو یہ خورد برد سامنے آئی۔
تحقیقات آگے بڑھیں تو نقدی کے ساتھ ساتھ صوفی بزرگوں کےمزارات کے لئے دیئے گئے 3 سونے کے تاج چوری ہونے کا انکشاف بھی ہوا۔ اس حوالے سے محکمہ اوقاف سندھ کے کلرک محمد علی شاہ کا نام سامنے آیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ حیدرآباد میں صوفی بزرگ عبدالوہاب شاہ جیلانی کے مزار پر گورنر سندھ کی آمد پر 5 تولہ سونے کے 3 تاج چڑھائے گئے تھے گورنر سندھ کی روانگی کے بعد تینوں سونے کے تاج محکمہ اوقاف کا کلرک محمد علی شاہ لے اڑا۔ کلرک کی جانب سے اس چوری کے پیچھے یقیناً یہ سوچ کار فرما ہو گی کہ اللّہ کے ولی کو سونے کے تاج کی کیا ضرورت ہے؟ چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری محکمہ اوقاف اور اینٹی کرپشن کو شکایات کے بعد حیدرآباد میں تعینات محکمہ اوقاف کے ملازم محمد علی شاہ کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہے سونے کے تاج اور چادریں بھی سرکاری خزانے میں جمع نہ کرانے کا انکشاف ہوا ہے تحریری شکایت میں کہا گیا ہے کہ کلرک کے عہدے پر فائز محمد علی شاہ حیدرآباد کے تینوں مزارات کا انچارج بنا ہوا ہے۔ درگاہ مکی شاہ کی 5 سال کے دوران لاکھوں روپے کی چادریں اور سونا چاندی بھی بیچ دیا گیا ہے۔ صوفی بزرگ عبدالوہاب شاہ کے مزار کی چادریں اور دیگر ملنے والا سامان بھی کلرک ہڑپ کر گیا۔ اینٹی کرپشن کو محکمہ اوقاف کے انچارج کی مبینہ کرپشن کی شکایت جمال الدین نامی سماجی کارکن نے کی، یہ سماجی کارکن لائق تحسین ہے کہ اس نے ایک غلط کام ہوتے دیکھا اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کی، ورنہ پاکستان میں تو یہ رویہ عام ہے کہ ہمیں کیا؟ جس کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ کرنے والے اتنے دیدہ دلیر ہوتے جا رہے ہیں کہ اولیائ اللّہ کے مزاروں کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔
پولیس کی ناقص کارکردگی کا پول گھل گیا
یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ جن سرکاری عہدے داران کو جو زمہ داری دی جاتی ہے، ان میں سے اکثر اپنی اس زمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے بجائے لفاظی اور دعوو¿ں سے کام لیتے ہیں، جیسے گزشتہ دنوں ڈی آئی جی ساو¿تھ عرفان بلوچ نے ایک مقامی اخبار کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں لوگ اب مرتے نہیں ہیں، بس اسنیچنگ ہو رہی ہے۔ ڈی آئی جی ساو¿تھ نے ماضی اور حال کا فرق واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کے حالات پہلے کیسے تھے اور اب کیسے ہیں؟ کراچی میں واردات کی ایک تاریخ رہی ہے کراچی 2 سے 3 کروڑ آبادی پر مشتمل ایک بہت بڑا شہر ہے، اگر ماضی کی بات کی جائے تو ایک وقت میں کراچی میں سیاسی تشدد عروج پر رہا ہے۔ 2013 میں کراچی میں 10 سے 15 لوگ روزانہ جان سے جاتے تھے۔ ڈی آئی جی ساو¿تھ نے کہا کہ پولیس اور لا انفورسمنٹ نے اس کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی اور اس میں کامیابی حاصل کی، چنانچہ پہلے کی طرح کرائم اب نہیں ہوتے۔ ڈی آئی جی ساو¿تھ نے دعویٰ کیا کہ پہلے لوگ مارے جاتے تھے، اب ایسے کرائم نہیں ہوتے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری بھی اب نہیں ہوتی، صرف اسنیچنگ ہو رہی ہے۔ ڈی آئی جی صاحب کا فرمانا تھا کہ آج کراچی میں ڈکیتی تو ہو رہی ہے، لیکن یہ ڈر اب کسی میں نہیں ہے کہ کوئی آپ کو اٹھا کر لے جائے گا۔
ڈی آئی جی ساو¿تھ کے مذکورہ بالا تمام دعوو¿ں کی قلعی سی پی ایل سی کی جانب سے جاری کی جانے والی حالیہ رپورٹ سے کھل جاتی ہے، جس میں جنوری سے اپریل 2023 تک 4 ماہ کے دوران ہونے والے جرائم کی تفصیل دی گئی ہے۔ سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق روشنیوں کا شہر کراچی جرائم کا اکھاڑہ بن گیا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، قتل وغارت گری’ لوٹ مار’ چوری، اغوائ برائے تاوان’ بھتہ خوری اور بینک ڈکیتی کے متعدد واقعات پیش آئے، جن میں
29ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ 4 ماہ میں 186 قتل کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ ڈکیتی مزاحمت پر 48 افراد قتل کئے گئے۔ شہر میں 29ہزار 365 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ 4 ماہ میں 9 ہزار 464 شہریوں کے موبائل فون چھینے گئے، 18 ہزار 953 شہریوں کی موٹرسائیکلیں چوری اور چھینی گئیں، 16 ہزار سے زائد موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں۔ 4 ماہ کے دوران شہریوں کو 754 گاڑیوں سے محروم کردیا گیا۔ اغوا برائے تاوان کی 2، بھتہ خوری کی 5 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ 211 کاریں، ایک ہزار 69 موٹرسائیکلیں ریکور کی گئیں۔ پولیس 161 موبائل فون ریکور کرسکی۔ ہرماہ 2 ہزار 366 موبائل فون چھینے گئے، جبکہ ہر ماہ 4738 موٹر سائیکلیں چوری اور چھینی گئیں۔
سی پی ایل سی کی جاری کردہ مذکورہ بالا رپورٹ نہ صرف ہوش ربا، بلکہ انتہائی شرم ناک اور ڈی آئی جی ساو¿تھ جیسے افسران کے منہ پر طمانچہ ہے، جو اپنے اعلیٰ افسران کی نظروں میں محض اچھا بننے اور نمبر بڑھانے کے لئے”سب اچھا” کی رپورٹ دے کر ان کو گمراہ کرتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ناممکن ہے، کیوں کہ یہ تیز ترین ابلاغ کا دور ہے، جس میں عوام نہ صرف ٹیلی ویڑن چینل، سوشل میڈیا، بلکہ اپنے موبائل فون سے ہی حقیقت حال سے اچھی طرح آگاہ رہتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ عوام ہی ہیں، جو آئے روز براہ راست جرائم پیشہ لوگوں کا شکار بنتے ہیں اور اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں کر پاتے۔
عوام بدستور ریلیف کے منتظر
ملک کا سیاسی ماحول بدستور گرما گرمی کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب مالی سال 2023-24 کیلئے سالانہ بجٹ کی تیاری کا وقت بھی آگیا ہے، ایسے وقت میں جبکہ ملک کا اقتصادی شعبہ سخت مشکلات سے دوچار ہے، قومی بجٹ کی تیاری بھی دشوار کار ہے، خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت وفاقی حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ میں تاخیر کے باعث نئے بجٹ کی تیاری میں شدید مشکلات ہیں، ان مشکلات میں ڈالر اور روپے کی شرح میں تناسب کا تعین نہ ہونے سے بجٹ تخمینہ جات میں دشواری آرہی ہے، نئے بجٹ کی تیاری کے حوالہ سے میڈیا رپورٹ میں یہ بھی آرہا ہے کہ اگلے مالی سال میں دکانداروں پر مزید ٹیکس بھی عائد کیے جائیں گے، اس ضمن میں آئی ایم ایف کی شرائط کی روشنی میں اسپیشل اسکیم لانچ کی جائے گی، بجٹ کی تیاری میں مشکلات کا اندازہ اقتصادی شعبہ کے اعداد و شمار سے بھی لگایا جاسکتا ہے، وزارت خزانہ کی جانب سے معیشت کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 10 ارب ڈالرز بتایا جارہا ہے جبکہ ملک میں گرانی کی شرح 35.4 فیصد دکھائی جارہی ہے، رپورٹ میں ماہانہ مہنگائی کی شرح میں 3.7 فیصد اضافہ بتایا جارہا ہے، اس سب کے ساتھ قابل اطمینان ہے کہ ملک میں گندم کی پیداوار بڑھی ہے اور اس وقت اس کا حجم دو کروڑ 75 لاکھ میٹرک ٹن ریکارڈ ہوا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہو یا پھر ڈالر کی بڑھتی قدر، قرضوں کے حصول کیلئے قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد ہو یا ٹیکسوں کے نظام میں ردو بدل، اس سب کا اثر ملک کے عام شہری پر گرانی میں اضافہ کی صورت میں پڑتا ہے۔ ایسے میں گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے الیکشن سے قبل عوام کو ریلیف دینے کا عندیہ دیا جارہا ہے، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس ریلیف کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں، عوام کیلئے ریلیف دینے کا عندیہ حکومت کی جانب سے عوامی مشکلات کے احساس کا عکاس ہے۔ عام شہری کو فوری ریلیف کے طور پر مارکیٹ کنٹرول کا ایسا محفوظ نظام دیا جائے کہ جس میں کم از کم مصنوعی گرانی ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کا خاتمہ ممکن ہو،اس مقصد کیلئے مرکز اور صوبوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز اداروں کو یکجا کرکے موثر حکمت عملی ترتیب دی جاسکتی ہے، اس پلاننگ میں مرضی کے آزمودہ سسٹم کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، جس کو جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے آپریشنل کردیا جائے، یہ نظام پہلے مجسٹریسی سسٹم کہلاتا تھا جو جنرل مشرف کے دور حکومت میں ضلعی حکومتوں کا نظام آنے پر ختم کردیا گیا۔ بعد میں اس کے باوجود کہ مارکیٹ کنٹرول سے متعلق عوامی شکایات میں اضافہ ہی ہوا ہے، اس نظام کو دوبارہ آپریشنل کرنے کی باتیں نتیجہ خیز مرحلہ میں داخل نہ ہوسکیں، درپیش حالات میں ضرورت ملک کو اقتصادی شعبہ میں مستحکم کرنے کیلئے موثر اور دیرپا حکمت عملی کی بھی ہے اس حکمت عملی کیلئے ضرورت وسیع مشاورت کی بھی ہے اس کے ساتھ پوری پلاننگ کو تکنیکی عملہ کیلئے آراستہ کرنا بھی ناگزیر ہے، ضروری یہ بھی ہے کہ یہ ساری منصوبہ بندی حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہوپائے، ساتھ ہی ضروری ہے کہ حکومتی سطح کے اقدامات کو ثمر آور نتائج کا حامل بنانے کیلئے مانیٹرنگ کا خصوصی انتظام بھی کیا جائے۔

آئی ایم ایف کے بجائے دوست ممالک سے رجوع کیا جائے
رواں ہفتہ کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگری منٹ پر دستخط نہ ہوئے تو مئی میں ادارے کے بورڈ کے سامنے پاکستان کا کیس پیش ہونے کا امکان ختم ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف کے 17 مئی تک کے بورڈ کے اجلاسوں کے مطابق اس معیاد کے دوران جمہوریہ ہلیز، گوئٹے مالا اور لکسمبرگ کے امور بورڈ کے اجلاسوں میں زیر غور آئیں گے تاہم ابھی پاکستان کا نام شامل نہیں کیونکہ اسٹاف لیول ایگری منٹ نہیں ہوسکا ہے۔ معاہدہ کے اعلان کے چار روز کے اندر اندر کسی بھی ملک کا کیس آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے چونکہ آئی ایم ایف پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی یقین دہانیوں سے غیر مطمئن ہے اور اس نے زرمبادلہ کے ذخائر دو ماہ کی درآمدات کے مساوی کرنے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ دوست ممالک کے بعد پاکستان نے مزید ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کی یقین دہائی کرائی مگر آئی ایم ایف پھر بھی مطمئن نہیں ہوا جس سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام ناروا شرائط پوری کرنے اور پیشگی اقدامات کے باوجود پاکستان کے اسٹاف لیول معاہدہ نہیں کرنا چاہتا اور اس کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس سے مزید ڈومور کی خواہش رکھتا ہے۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ آئی ایم ایف ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریزاں ہے۔ آئی ایم ایف کے اس رویے کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ عالمی دماغ مل بیٹھ کر اس سے خلاصی کی کوئی ٹھوس سبیل نکالیں۔ اگر اس کے چکر میں پڑے رہے تو حکمران عوام کو نہ ریلیف دے پائیں گے اور نہ ملک سے غربت کا خاتمہ ہوسکے گا۔ انہیں خود ہی اندازہ لگالینا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے حاصل کیے جانے والے اب تک کے قرضوں سے نہ معیشت بہتر ہوسکی اور نہ عوام کے حالات میں بہتر آئی۔ اس لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کے بجائے ہمیں دوست ممالک سے رجوع کرنا چاہیے جو غیر مشروط اور نیک نیتی سے پاکستان کے ساتھ معاونت پر آمادہ ہیں۔