بحریہ ٹاﺅن کا نقشہ اور سرکاری منظوری کے بغیر ایک اور پروجیکٹ ”بحریہ گرینز کراچی“

بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض نے اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے کھربوں روپے ٹھکانے لگانے کے بعد کراچی کے عوام غریب اور لوئرمڈل کلاس کو لوٹنے کے لئے بھی تازہ آئٹم تیار کرلیا۔ بظاہر کراچی میں لانچ کیا جانے والا یہ پروجیکٹ بحریہ گرنیز کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے لیکن در حقیقت اس کا کراچی کی حدود سے کوئی تعلق نہیںا ور یہ کراچی سے متصل سہون میں واقع ہے جو کراچی سے تقریبا 180کلو میٹر دور ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بحریہ ٹاﺅن نے سندھ کے سرکاری ادروں سے اس کی اجازت لینا گوارا نہیں کی اور از خود مذکورہ زمین جس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں یہ کونسی زمین ہے، کس کی ملکیت ہے ،اس کا حدود اربعہ کیا ہے، یہ کتنی اراضی پر اسکیم لائی جارہی ہے، سب کچھ مبہم رکھتے ہوئے بظاہرلاکاسٹ ہاﺅسنگ اسکیم کا اعلان کردیا۔
ویسے تو بحریہ ٹاﺅن کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ سب سے پہلے ملک کے بااثر میڈیا کو کروڑوں روپے کے اشتہارات دے کر ان کے منہ بند کردیتا ہے جس کی وجہ سے میڈیا ان کے عیوب و نقائص کو عوام الناس میں لانے سے باز رہتا ہے لیکن اس بار کچھ میڈیا گروپ نے یقینا صداقت کا علم بلند کیااور عوام کو ان کے پروجیکٹس کے بارے میں ہونے والی دھاندلی سے باخبرہونے کا موقع ملا ہے۔بحریہ ٹاﺅن کراچی نے اپنے نئے تعمیراتی منصوبے بحریہ گرینزکی بکنگ کھولنے کا اعلان کر کے تمام سرکاری قوانین کی دھجیاں اڑادی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی یتیم ہوچکا ہے اور یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پہلے تیس سال یہ یرغمال رہا۔ اب یتیم ہوچکا ہے۔ یہاں کوئی سیاسی مذہبی سماجی تنظیم نہیں جوکراچی کے حقوق کا تحفظ کرے اور کراچی والوں کو بحریہ ٹاﺅن اور ملک ریاض جیسے لٹیروں ڈاکوﺅں اور پاکٹ ماروں سے بچائے ،پہلے اس شہر پر فوج کی تخلیق کردہ متحدہ قومی موومنٹ کا جابرانہ قبضہ تھا۔ الطاف حسین تب مشرف اور ان کے ساتھیوں کی آنکھ کا تارہ تھے۔ جوان کی ہر فرمائش پوری کرتے تھے اب وہی الطاف قصہ پارینہ ہیں اور ان کی جگہ ملک ریاض نے لے لی ہے۔ کراچی کی زمینوں پر قبضے کا جو سلسلہ چائناکٹنگ سے شروع ہوا تھا۔ اسے آصف زرداری اور ملک ریاض نے سائنس بنادیا۔ دونوں نے مل کر بحریہ ٹاﺅن کراچی کے نام سے ایسا منصوبہ شروع کیا جس نے بظاہر لاکھوں انسانوں کو خوابوں کی زمین کا تصور دیا۔ لیکن اس کے پیچھے اربوں روپے کی لوٹ مار کی مکمل سازش تھی جو چائنا کٹنگ کی طرح کامیاب رہی۔ یہی ملک ریاض تھا جس نے الطاف حسین کو خوش کرنے کے لئے اس کے نام پر دو یونیورسٹیاں بتانے کا اعلان کیا تھا اور اس کے لئے لوٹ مار سے حاصل ہونے والے پیسے وقف کئے تھے۔ کراچی اس وقت دھوکے بازوں اور قبضہ گیروں کی ایک ایسی انجمن کے قبضے میں ہے جس کے سرخیل آصف زردری اور ملک ریاض ہیں ۔زرداری کراچی کے عوام سے انتقام لے رہے ہیں کیونکہ یہاں کے لوگوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ اس انتقام کے لئے زردری نے ملک ریاض کو مسلط کردیا اور پوری سندھ انتظامیہ کو غلا م بنا کر اس کے تابع کردیا۔کراچی کے لوگوں نے جن جماعتوں کوووٹ دیئے ہیں۔ یا جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کراچی کے نمائندے ہیں۔ان میں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف نمایاں ہیںلیکن بحریہ ٹاﺅن کراچی کی لوٹ مار پر دونوں جماعتیں گردن ڈال کر خاموش بیٹھی ہیںکیونکہ دونوں ملک ریاض کے دسترخوان کی ہڈیاں چچوڑتی ہیں۔ اگر تو وزیراعظم پچاس لاکھ گھر بنانے کا دعویٰ اس طرح پورا کررہے ہیں کہ بحریہ ٹاﺅن جیسی قبضہ گیر مافیا کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو یہ کام تو دوسرے بلڈر بھی کرسکتے ہیں۔ غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا۔ یا سندھ کے دور دراز علاقوں میں سستی زمین خرید کر کراچی کے نواح میں موجود مہنگی سرکاری زمینوں سے اس کا تبادلہ کرنا نا کلاس خرید کر سروے زمین میں بدلنا۔ بغیر این اور سی۔ بغیر سرکاری فیسیں جمع کرائے تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کرنا۔ بغیر نقشہ پاس کرائے دھڑا دھڑعمارتیں بنانا۔ یہ کام تو کراچی کا ہر دو نمبر بلڈر کرسکتا ہے۔ ایک ذریعے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بحریہ گرینز کراچی کے نام سے جو منصوبہ فروخت کے لئے پیش کیا گیا ہے۔اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ اس کی زمین کتنی ہے کہاں ہے اور اس کا لیگل اسٹیٹس کیا ہے۔ زمین کا ٹائٹل کس کے نام پر ہے؟۔چونکہ بحریہ ٹاﺅن نے اس منصوبے کے لئے کوئی کاغذ یا دستاویزکسی متعلقہ سرکاری ادارے میں جمع نہیں کرائی اس لئے کسی سرکاری ادارے کے پاس بھی اس زمین کا ریکارڈ نہیں ہے بتایا جاتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ بحریہ گرینز کی زمین کی ملکیت بحریہ ٹاﺅن کے پاس ہے ہی نہیں اور جوکچھ وہ بیچ رہی ہے وہ سب ہوا میں ہے۔ ذریعے کے بقول سندھ میں زمینیں تین قسم کی ہیں۔ ایک سروے زمین ،دووسرے نا کلاس زمین اور تیسری موروثی زمین، سروے زمین بورڈ آف ریونیو کی الاٹ کردہ ہوتی ہے اور ننانوے برس لیز پر دی جاتی ہے۔ یہ زمین کمرشل اور تعمیراتی مقاصد کے لئے استعمال ہوسکتی ہے۔ اگر ضروری چالان جمع کرادیئے جائیں تو دوسری زمین ناکلاس ہوتی ہے۔ یہ تیس یا تینتیس برس کی لیز پر دی جاتی ہے اور صرف زرعی مقاصد کے لئے ہوتی ہے اس پر کوئی تعمیرات منصوبہ نہیں بن سکتا لیکن یہ زمین سروے زمین میں تبدیل کرائی جاسکتی ہے اگر چہ اس کے لئے بھاری فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ اس لئے لینڈ مافیاچندایکڑ سامنے کی ناکلاس زمین کی فیس بھر کر اسے سروے زمین کرالیتی ہے اور بقیہ ساری ناکلاس زمین جو اس کے پیچھے ہوتی ہے اس کی پلاننگ کر کے بیچ دیتی ہے۔ تیسری زمین موروثی کہلاتی ہے اور یہ بھی صرف زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہوسکتی ہے۔بورڈ آف ریونیو کے ایک ذریعے نے کہا کہ جو بلڈر بھی پلاٹ پیچنا چاہتا ہے وہ سارے کاغذات متعلقہ سرکاری اداروں میں جمع کراتا ہے جہاں یہ چیک کیا جاتا ہے کہ زمین کا اسٹیٹس کیا ہے؟ یہ سروے ہے یا نہیں۔ اور نہیں تو اسے سروے زمین میں بدلنے کے لئے ضروری فیس جمع کرائی گئی ہے یا نہیں ذریعے کے بقول اس کے بعد سرکاری ادارہ این او سی جاری کرتا ہے۔ اور ہر سائزکے پلاٹ کی تعداد اور قیمت کا تعین کرتا ہے۔ جس کی پابندی بلڈرکو کرنی پڑتی ہے بلڈر قانوناً پابند ہے کہ جب بھی کوئی اشتہاراخبار میں دے گا۔ اس میں زمین کا سروے نمبر اور ایس بی سی اے کا این او سی نمبر ضرور شامل ہوگا۔تاکہ کوئی چیک کرانا چاہے تو اپنی تسلی کرلے بصورت دیگر وہ منصوبہ غیر قانونی سمجھا جائے گا۔ ذریعے کے بقول بحریہ گرینز کے کسی اشتہار میں نہ تو منصوبے کی زمین کا سروے نمبر ہے نہ این او سی نمبر ہے۔ اس لئے یہ منصوبہ سراسرغیرقانونی سمجھا جائے گا ذریعے کے بقول بحریہ گرینز کے کسی اشتہار میں نہ تو منصوبے کی زمین کا سروے نمبر ہے نہ این او سی نمبر ہے۔ اس لئے یہ منصوبہ سراسر غیرقانونی اور ناجائز ہے ذریعے نے بتایا کہ بلڈر سرکاری ادارے کو یہ بتانے کا پابند بھی ہے کہ وہ اس منصوبے میں کس سائز کے کتنے یونٹ پلاٹ یا فلیٹ بک کراے گا یہ پابندی اس لئے ضروری ہے کہ بلڈر تعداد سے زیادہ بکنگ نہ کرلے اور عام آدمی کا سرمایہ ڈوب نہ جائے۔بحریہ گرینز میں ان میں سے کسی قانون کا خیال نہیں رکھا گیا چونکہ بحریہ ٹاﺅن نے اس منصوبے کے ضروری کاغذات سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں جمع نہیں کرائے ۔اس لئے اتھارٹی نہ تو این او سی جاری کرسکتی ہے۔ نہ پلاٹ کی قیمت کا تعین کر کے اس کی پابندی کراسکتی ہے اور نہ تعداد سے زیادہ بکنگ پر نظررکھ سکتی ہے اس طرح اتھارٹی یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکتی کہ جس زمین پر اس منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے وہ سروے زمین ہے یا نہیں وہ ناکلاس ہے یا موروثی اب چونکہ اتھارٹی ایسی کوئی تفصیل عوام کی معلومات کے لئے جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے ضروری ہے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اس منصوبے کے غیر قانونی ہونے کا اشتہار جاری کرے تاکہ عدالت میں اس کی گردن نہ پھنسے۔واضح رہے کہ اتھارٹی ایسے اشتہار مختلف منصوبوں کی بابت جاری کرتی رہتی ہے جن میں عوام کو خبردار کیا جاتا ہے کہ یہ منصوبے غیر قانونی ہیں۔ عوام اس میں بکنگ نہ کرائیں ۔یاد رہے کہ اتھارٹی کے افسران نے کوئی تین چار بس پہلے بحریہ ٹاﺅن میں غیرقانونی تعمیرات گرانے کے لئے ایک آپریشن کیا تھا یہ آپریشن اس وقت کے چیف سیکریٹری کے حکم پر کیا گیا تھا لیکن آج وہ سارے افسر معطل ہیں اور موجودہ افسران اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتے اس لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کا نوٹس لے اور بحریہ گرینز کی بکنگ روک دے لیکن اس سے پہلے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اشتہار جاری کردے تاکہ کل کو عدالت میں وہ کہہ سکے کہ ہم نے اشتہاردے کر منصوبے کے غیر قانونی ہونے کا اعلان کردیا تھا ذریعے کے بقول کسی ایک شہری نے بھی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری یا سندھ ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت درخواست لگا دی تو یہ معاملہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے گلے پڑجائے گا۔
بحریہ ٹاﺅن نے اپنے پروجیکٹس کامیاب بنانے کے لئے ہمیشہ بڑے اسٹیٹ بروکرز کا ایک کارٹل بنایا جس سے دونوں نے مل کر خوب عوام اورالاٹیزکو لوٹالیکن بحریہ ٹاﺅن کی مارکیٹ 40 فی صد نیچے آنے کی وجہ سے پاکستانیوں اور خاص کر اوورسیزپاکستانیوں کے کھربوں روپے ڈوب گئے۔ چنانچہ اس بار رئیل اسٹیٹ ایجنٹس نے بحریہ گرینز کو سنہرا دھوکہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو لوٹنے کیلئے ایک بار پھر ہوائی قلعے فروخت کیلئے پیش کئے جارہے ہیں۔ جس منصوبے کی زمین ہی اب تک سامنے نہیں لائی گئی اس منصوبے کی بکنگ شروع کردی گئی ہے بحریہ گرینز کے بکنگ فارم میں موجود شق نمبر 5 اور 16 سے ثابت ہورہا ہے کہ یہ منصوبہ عوامی مفاد کے خلاف اور صرف بحریہ ٹاﺅن کراچی کے مفاد میں ہے۔ یہ باتیں سابق صدر ڈیفکلیریا سید شاہد علیم نے کیں۔ان کا کہنا تھا کہ بحریہ گرینزکے بکنگ فارم کی شقیں سراسر عوامی مفاد کے خلاف جاتی ہیں پہلے ہی ہزاروں شہری ان کے بچھائے سنہرے جال میں پھنس کر اپنی زندگی بھر کی کمائی اور اپنے خواب لٹواچکے ہیں۔ آج ان شہریوں کے پاس نہ پیر رکھنے کو اپنی زمین ہے نا سر چھپانے کو چھت اس پر ستم یہ کہ وہ اپنے جمع پونجی کی واپسی کیلئے ذلیل ہورہے ہیں دنیا کے کسی بھی قانون کی رو سے کسی بلڈریاکنسٹرکشن کرنے والے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے ان کی زندگی بھر کی کمائی ہتھیاکر ان کے حقوق غصب کرے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بحریہ گرینز کے بکنگ فارم کی شق نمبر 5 کے مطابق انتظامیہ کو حق ہے کہ وہ 2 اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کر بیٹھے تو وہ اپنی تمام رقم سے محروم ہوجائے گا یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ جبکہ اسی شق میں لکھا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے پلاٹ منسوخ کئے جانے پر پلاٹ لینے والے کو اس کی اصل رقم کا صرف 75 فیصد واپس کیا جائے گا جبکہ یہ رقم بھی پلاٹ کی منسوخی کے ایک سال بعد ادا کی جائے گی اور کل رقم کا بقیہ 25 فیصد بحریہ ٹاﺅن کی جیب میں جائے گا یہ اندھیر نگری نہیں تو اور کیا ہے؟۔اسپورٹس سٹی اور پیراڈائز کے ہزاروں الاٹی لاکھوں کروڑوں روپے بحریہ ٹاﺅن کے حوالے کرنے کے باوجود تا حال اپنے حق سے محروم ہیں ۔ اعلی عدلیہ کے احکامات کے باوجود نہ ہی انہیں قانونی زمین پر کہیں ایڈجسٹ کیا گیا ہے اور نہ ہی ریفنڈکلیم کرنے والوں کو ریفنڈ دیا جارہا ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر بحریہ ٹاﺅن کے پاس کہیں بھی کوئی قانونی طور پر ملکیتی زمین موجود ہے تو سب سے پہلے اس زمین پر ان لوگوں کا حق ہے جو گزشتہ کئی سال قبل اپنا سب کچھ بحریہ ٹاﺅن کو دے کر دربدر پھررہے ہیں ۔ ان مجبورمتاثرین کو ان کا حق دینے کے بجائے نئے منصوبے کے نام پر ایک بارے پھر لوگوں کو لوٹنے کا منصوبہ بنالیا گیا ہے بحریہ گرینز کے نام سے شروع کیا جانے والا نیا منصوبہ عوام کیلئے ایک اورسہنرا دھوکہ ثابت ہوگا۔ماضی کی طرح اس بار بھی بحریہ ٹاﺅن انتظامیہ منصوبے کی زمین اور اس کی ملکیت عوام کے سامنے لانے کے بجائے لوگوں کوسبز باغ دکھا رہی ہے گزشتہ منصوبوں میں بھی لاکھوں کروڑوں روپے لینے کے بعد شہریوں کو اضافی چارجز کے نام پر لوٹا گیا۔جب لوگوں نے اضافی چارجز کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور کئی لوگوں کی الاٹمنٹ منسوخ بھی کی گئی آج بھی ہزاروں شہری ان اضافی چارجز کے عذاب کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں بطور صدر ڈیفکلیر یا ابتدا میں ہی بحریہ ٹاﺅن کی دھوکہ دہی پر شدید احتجاج کیا تھا مگر پیسے کی لالچ میں متحد طاقتور لابی نے اس فراڈ کو سپورٹ کیا اور آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں بحریہ ٹاﺅن کے متاثرین اس وقت کو کوس رہے ہیں جب انہوں نے بہترین زندگی کی خواہش میں بحریہ ٹاﺅن میں اپنا سب کچھ لگا دیا اورآج وہی بحریہ ٹاﺅن انتظامیہ ان کی ہی کمائی کیلئے دھکے کھلا رہی ہے۔ اس سلسلے میںچیئرمین فیڈریشن آف ریئلٹرز پاکستان مسرت اعجاز خان نے کہا کہ بحریہ ٹاﺅن اپنے مظالم کے آخری دور میں پہنچ گیا ہے کیسز جیسے موشی مرض میں مبتلا ملک ریاض بظاہر روبصحت بتائے جارہے ہیں لیکن جس دن حکم خدا وندی سے ان کی قضا آگئی اس دن بحریہ ٹاﺅن کے ظلم و ستم کا ٹائٹینک ڈوب جائے گا بحریہ ٹاﺅن پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ ثابت ہوچکا ہے اس سنہرے دھوکے نے نہ صرف اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کی زندگی بھر کی کمائی سے محروم کیا ہے بلکہ ریاست اور ریاستی اداروں پر سے عام آدمی کا اعتماد بھی چکنا چور کردیا ہے کراچی،لاہور، پنڈی اور ڈی ایچ اے ویلی سمیت بحریہ ٹاﺅن کا کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا نہیں جس میں شفافیت اور ایمانداری سامنے آئی ہو اور یہ کہنا بالکل بھی غلط نہ ہوگا کہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاﺅن کی بنیاد رکھ کر تعمیرات کے شعبے سے جڑے چند مخصوص لوگوں کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جواءخانہ فراہم کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہزاروں متاثرین کی جمع پونجی لوٹنے کے بعد ایک بار پھر بحریہ گرینز کے نام پر لوٹ مار کی تیاری کرلی گئی ہے ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح اس نئے منصوبے کی بھی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے لوگوں کو اب سمجھنا ہوگا کہ زمین پر چلنے والے آسمان تک ان لالچی لوگوں کے لالچ ہی کی بدولت پہنچے ہیں۔ اگر اب بھی لوگ ان کے فراڈ اور سنہرے جال سے نہ بچے تو پھر کوئی ان کی مدد کو آگے نہیں ائے گا میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ظلم کی اس داستان کا آخری باب ہے کیونکہ ملک ریاض کی صحت سے متعلق سامنے آنے والے شواہد سے صاف نظر آتا ہے کہ پارٹی ختم ہونے والی ہے یہ ملک ریاض ہی تھے جو اپنے کام نکالنے کیلئے بیک وقت لوگوں کو خریدنے اور نہ بکنے والوں کے پیروں پر گرجانے کی حکمت عملی پر بخوبی عمل پیرا رہے ان کے بعد ان کے وارثوں میں کوئی ان کا عشر عشیربھی نہیں ہے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ہوسکتا ہے اللہ پاک کینسر جیسے موذی مریض سے لڑتے ملک ریاض کو آسٹرائیڈ پر اگلے کئی سال تک زندگی عطا کردے لیکن طبی نقطہ نظر سے اسٹرائیڈ لینے والے مریض کے پاس وقت بہت مختصر ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو نہ ہی علی ریاض میں اپنے باپ کی خصوصیات کردے لیکن طبی نقطہ نظر سے اسٹرائیڈ لینے والے مریض کے پاس وقت بہت مختصر ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو نہ ہی علی ریاض میں اپنے باپ کی خصوصیات موجود ہیں اور ہی ان کے دامادوں میں کوئی ایسا کمال۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک ریاض کے ایک قریبی شخص کا کہنا تھا کہ 75 گز کے پلاٹ بیچنے کیلئے بنائے جانے والے اشتہارات میں ملک ریاض جیسے شخص کا خود سامنے آنا ایسا ہی ہے جیسے چراغ بجھنے سے پہلے بھڑک رہا ہو اور ملک ریاض کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ شخص ہے جو آخری باری خود کھیلنے پر یقین رکھتا ہے۔
بحریہ ٹاﺅن کے گزشتہ پروجیکٹس کے غیر قانونی ہونے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی اور ایم ڈی اے سے اجازت لئے بغیرپروجیکٹ شروع کرنے اور اربوں روپے بٹورنے کی حقیقت سپریم کورٹ میں سوموٹوکیس کے ذریعہ بے نقاب ہوئی ۔اس سلسلے میں بحریہ ٹاﺅن متاثرین نے سندھ حکومت کو ارسال درخواست میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اس غیر قانونی پروجیکٹ بحریہ گرین کے حوالے سے سرکاری سطح پر وضاحتی اشتہار اخبارات میں شائع کرادیں جیسا کہ دیگر غیر قانونی پروجیکٹس اور تعمیرات کے حوالے سرکاری سطح پر اشتہارات شائع کئے گئے ہیں جو کہ آپ سب کی قانونی ذمہ داری ہے تاکہ سادہ لوح عوام اس غیر قانونی پروجیکٹ کی جعلسازی سے محفوظ رہیں کیونکہ کل معزز عدالتوں میں اس تحریری درخواست کے ساتھ پروجیکٹ کی رونمائی کے لئے میڈیا پر چلائے جانے والے اشتہارات بھی پیش ہونگے اور پھر حکام کو معزز عدالتوں میں اس کا بھی جواب دینا پڑیگا۔واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے 2018 میں بحریہ ٹاﺅن کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اس کی روشنی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے 2018 میں ہی اخبارات کے ذریعے ایک پبلک نوٹس شائع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ عوام بحریہ ٹاﺅن کے کسی بھی تعمیراتی منصوبے میں سرمایہ کاری سے پہلے ایس بی سی اے سے تصدیق کرالیں کہ بحریہ ٹاﺅن نے اس منصوبے کی این او سی حاصل کی ہے یا نہیں اس کے لئے عوام ایس بی سی اے کی ویب سائٹ چیک کرسکتے ہیں ۔نوٹس کے مطابق جو شخص این او سی کی تصدیق کے بغیر بحریہ ٹاﺅن میں بکنگ کرائے گا اس کی سرمایہ کاری محفوظ رہنے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور یہ کہ کسی تنازعے کی صورت میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اس کی مدد نہیں کرے گی ۔نوٹس میں کہا گیا ہے کہ عوام الناس اور متعلقہ سرکاری محکموں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بحریہ ٹاﺅن کو صرف 1330 ایکڑزمین کے لئے این او سی جاری کی ہے۔ جہاں وہ پلاٹ/یونٹ فروخت کرسکتی ہے یہ زمین ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سیکٹر 117 میں واقع ہے یہ این او سی 21 مارچ2014 کو جاری کی گئی تھی۔ زمین کے اس ٹکڑے کا لے آﺅٹ پلان بھی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 20 مارچ 2014 کو منظور کیا تھا یہ این او سی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہے تا ہم سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جاری کردہ مذکورہ این او سی سے ہٹ کر دیگر زمینوں پر بھی بحریہ ٹاﺅن کی تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں جہاں وہ ڈویلپمنٹ بھی کررہی ہے اور اسے فروخت بھی کررہی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ یہ ساری سرگرمیاں بلڈنگ اتھارٹی کی جاری کردہ این او سی کی خلاف ورزی ہیں کیونکہ یہ این او سی کی طے کردہ زمینی حدود سے باہر ہیں اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اجازت اور مرضی کے بغیر ہورہا ہے ہم یہ بھی واضح کردیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق چھ منزل سے اونچی عمارت تعمیر کرنا اور غیر قانونی ہے یہ پابندی بحریہ ٹاﺅن پر بھی عائد ہوتی ہے مگر بحریہ ٹاﺅن اس حکم کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ (بعد میں عدالت نے چھ میں دو کا اضافہ کر کے آٹھ منزل کردیا تھا)۔ عوام کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے بحریہ کی اس درخواست کو مسترد کردیا ہے جس میں اس عدالتی حکم کو روکنے استدعا کی گئی تھی ۔ جس کے مطابق بحریہ ٹاﺅن کے الاٹیز اپنی بقایااقساط ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے قائم کردہ اکاﺅنٹ میں جمع کرسکتے ہیں۔(عدالت نے اپنا حکم برقراررکھا)ان حالات میں عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ بحریہ ٹاﺅن میں کسی یونٹ(پلاٹ/گھر کی خریداری نہ کریں جب تک وہ اس بات کی تصدیق نہ کرالیں کہ مذکورہ منصوبے کے لئے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے کوئی نئی این او سی جاری کی ہے یا نہیں۔اگر اتھارٹی نے نیا این او سی جاری کیا ہوگا وہ وہ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہوگا تا ہم اگر کسی شہری نے بغیر این او سی کی تصدیق کے بحریہ ٹاﺅن میں یونٹ کی بکنگ کرائی تو اتھارٹی اس کی ذمہ دار نہ ہوگی، نہ کسی تنازعے کی صورت میں ثالث بنے گی۔ یہ نوٹس آج بھی موثر ہے کیونکہ ایس بی سی اے نے اسے واپس نہیں کیا نہ اس میں ترمیم کی اس نوٹس کے ذریعے اگر چہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اپنی پوزیشن واضح کردی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد کو اس نوٹس کا علم نہیں کیونکہ ایک تو یہ 2018 میں شائع ہوا تھا دوسرے انگریزی اخبارات میں شائع ہوا تھا جبکہ عوام کی اکثریت اردو اخبارات پڑھتی ہے ایس بی سی اے کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ ایک نیا اشتہار جاری کیں جس میں سابقہ اشتہارکا اعادہ ہو۔ یہ اشتہارآسان اردو میں ہو اور اسے سارے اخبارات میں نمایاں جگہ لگوانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام تک ضروری معلومات پہنچ سکیں بصورت دیگر ایس بی سی اے کو عدالت میں جوابدہی کرنی پڑے گی۔
تاہم ابھی تک سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بحریہ ٹاﺅن کے حالیہ پروجیکٹ بحریہ گرینز کے حوالے سے کوئی پبلک نوٹس نہیں دیا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ساتھ میں سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی بحریہ ٹاﺅن کے آگے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے کیونکہ سندھ کا گاڈ فادرآصف زرداری بحریہ ٹاﺅن کا سب سے بڑا سرپرست ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کو اب پتہ چل چکا ہے کہ وہ مزید لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا سکتا اس سے پہلے بحریہ ٹاﺅن کراچی کا جو بھی پراجیکٹ آپ لوگوں نے لائنوں میں لگ کر فارم خریدے اور ان فارموں کی مد میں ہی بحریہ ٹاﺅن کو اربوں روپے کا اضافی فائدہ ہوا تھا۔ لیکن پہلی بار ایسا نظرآیا ہے کہ بروکرز کی مارکیٹنگ کے باوجود ان کوشکار نہیں مل رہے ہیں۔ جس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ پروجیکٹ آنے سے پہلے ہی بحریہ ٹاﺅن نے پلاٹ کی قیمت کم دی۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں کو معائنہ کے لئے پراجیکٹ کی زمین دکھائی جارہی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
ایک بات قابل غور ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کراچی کے پرانے پراجیکٹس لانچ کرتے وقت بحریہ ٹاﺅن کے پاس 1300 سے 1500 ایکڑزمین تھی لیکن انہوں نے 54000 ایکڑپر پلاٹ بیچے جس کی وجہ سے 80 فیصد لوگوں کو پیسہ ابھی تک پھنسا ہوا ہے۔ پوری رقم کی ادائیگی کے باوجود ہزاروں الاٹیز آج بھی پلاٹس سے محروم ہیں اور اب بحریہ نے انہیں تنگ کرنے کی غرض سے ترقیاتی کام کے نام سے مزید 35 فیصد کا مطالبہ کردیا ہے۔ جس سے لوگوں میں مزید مایوسی پھیل گئی اور وہ اپنی جمع شدہ رقم واپس لینے کے لئے جاتے ہیں تو انہیں 25 فیصد کاٹ کر ایک سال بعد کے چیکس دینے پرلڑوایاجاتا ہے۔یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے متاثرین کی بھی ہے جنہیں چیکس تو مل گئے لیکن وہ باﺅنس ہوگئے اور اب یہ افراد اپنی جمع پونجی کے حصول کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں ہاﺅسنگ رائٹس اور تعمیراتی قوانین کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ہائی کورٹ کے وکیل ندیم احمد نے اس ضمن میں بحریہ گرینز میں سرمایہ کاروں کو مزید بڑے نقصان سے بچانے اور مذکورہ پروجیکٹس کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور متعلقہ ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اس معاملے میں فوری نوٹس کی غرض و غایت سے انہیں ایک لیگل نوٹس کردیا ہے جس کے مندرجات یہ ہیں ۔ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے ۔
بحریہ ٹاﺅن کی طرف سے نئے پروجیکٹ بحریہ گرینز ،لوکاسٹ اسکیم کی آڑ میں دراصل لوئرمڈل کلاس اور غریبوں کو لوٹنے کا ایک ایسا منصوبہ ہے جو بغیر کسی سرکاری اجازت نامے کے بغیر اعلان اور مشتہرکیا جارہا ہے۔
اور اس ضمن میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کوئی این او سی نہیں لی گئی۔
میسرز بحریہ ٹاﺅن نے مروجہ تعمیراتی قوانین کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاﺅن پلاننگ ریگولیشنز اور سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈی ننس 1979 کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔کے بی اینڈ ٹی پی آر کا باب 5 کسی بھی کمرشل پروجیکٹس کو عوام الناس میں مشتہرکرنے اور پلاٹس و یونٹس فروخت کرنے کے بارے میں قانون کی تشریح کرتا ہے لیکن بحریہ ٹاﺅن نے اس طریقہ کار کو اپنائے بغیر اپنا پروجیکٹس مشتہر کردیا ہے لہذا قانون کی رو سے یہ پروجیکٹ غیر قانونی اور قابل ابطال ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو کمرشل اور رہائشی تعمیرات جبکہ سیہون ڈولپمنٹ اتھارٹی مذکورہ زمین کی نگران ہیں اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے میں مکمل ناکام ہوگئے ہیں اور محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں جبکہ بحریہ ٹاﺅن گڈاپ ٹاﺅن کراچی میں اس سے قبل بھی اس طرح کے غیرقانونی ان پروجیکٹس کے ذریعہ معصوم اور سادہ لوح لوگوں سے کھربوں روپے لوٹ چکا ہے۔
یہاں تک کہ ایس بی سی اے میں اتنی ہمت بھی نہیں ہوسکی کہ وہ ایک سادہ اخباری بیان دے کر پروجیکٹ بحریہ گرینز کی غیر قانونی اشتہاری مہم اور پروجیکٹ کی حقیقت سے اپنی پوزیشن واضح کرے۔ حالانکہ بحریہ ٹاﺅن کے دیگر پروجیکٹس میں سپریم کورٹ کی طرف سے سوموٹوکیس میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پروجیکٹس کو غیر قانونی تسلیم کرچکا ہے۔
بحریہ ٹاﺅن کی طرف سے اپنے نئے پروجیکٹس بحریہ گرینز کی اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی تشہیر خود سندھ حکومت کی مجرمانہ خاموشی کو بے نقاب کررہی ہے اور اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ وہ ملک ریاض کے حکمران پارٹی کے گاڈ فادر سے قریبی تعلقات کے پیش نظر خود اسے عوام کولوٹنے اور نوچنے کا موقع فراہم کررہی ہے۔
نوٹس میں تعمیراتی قوانین کی ان شقوں کاتفصیل سے حوالہ دیا گیا ہے جن کی بحریہ ٹاﺅن نے خلاف ورزی کی ہے اور ایسی خلاف ورزی پر اتھارٹی سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس نے 198 کی سیکشن 7-A کے تحت کارروائی کرنے کی مجاز ہے لیکن اس نے یہ کارروائی نہ کر کے خود اس پروجیکٹ کی سرپرستی کا تاثر دے دیا ہے۔نوٹس کے آخری میں ڈی جی ایس بی سی اے سے کہا گیا ہے کہ وہ اس نوٹس کی وصولی کے 7 دن کے اندر قومی اخبارات میں اس پروجیکٹس کے بارے میں عوام کو آگاہی رہیں اور ان کے خلاف تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی کریں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں درخواست گزار کے پاس داد رسی کے لئے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا اور دوسرا کوئی وسیلہ نہیں ہوگا۔