بجلی کا بحران اور حکمران

نظام الدین
کرہ ارض کی آبادی کے تقریباً ایک گھرب سے زائد انسان تین سو بڑے شہروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جہاں بجلی کے نظام کو کوئی ایک کمپنی نہیں چلاتی
استمبول ایک کروڑ45لاکھ57ہزار باشندوں کا شہر ہے الیکٹرک کمپنیاں گیارہ
ڈھاکہ کی آبادی ایک کروڑ 45لاکھ۔ آٹھ الیکٹرک کمپنیاں
ماسکو۔ جہاں ایک کروڑ 31 لاکھ 57ہزار لوگ زندگی گزارتے ہیں انکی بجلی کی ضروریات 22 کمپنیاں پوری کرتی ہیں
ممبئی ایک کروڈ 24 لاکھ آبادی رکھتا ہے جس میں دس بجلی کی کمپنیاں ہیں۔
جبکہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ پچاس لاکھ سے زائد ہے جو دنیا کے 158 ممالک سے زائد آبادی والا شہر ہے
ان میں ترکمانستان۔کرغستان۔اسرائیل۔تیونس۔بیلجئیم۔پرتگال۔سویڈن۔متحدہ عرب امارات کیوبا۔ وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ان ممالک میں کئی کئی ادارے بجلی کی ترسیل کے نظام کو سنبھالتے ہیں۔
لیکن اتنے بڑے شہر کراچی کی روشنیوں کے لیے صرف ایک (کے الیکٹرک )
ہمارے حکمران آخیر بجلی کی سپلائی کی اجازت مختلف کمپنیوں کو کیوں نہیں دیتے ؟ ؟؟
بہرحال یہ حکمرانوں کا مسئلہ ہے۔میں صرف بجلی سے متعلق معلومات فراہم کرہا ہوں جو مستقبل میں ملک کے مفاد میں ہے !!
بجلی الیکٹرانز کا بہاو¿ ہوتی ہے اس بہاو¿ کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے کنڈکٹر کی ضرورت ہوتی ہے جیسے لوہا،پیتل، تانبہ،سلور، اور پانی وغیرہ، انسانی جسم بھی ایک کنڈکٹر ہے
۔ دھاتوں میں فری الیکٹرونز ہوتے ہیں جو پوٹینشل ڈفرینس ملنے پر حرکت کرتے ہیں۔ جبکہ انسانی جسم سیلز سے مل کر بنتا ہے۔ ان سیلز میں مختلف قسم کے عناصر ہوتے ہیں جو انسانی جسم کو الیکٹرک کرنٹ کا کنڈکٹر بناتے ہیں۔ ان عناصر میں سوڈئیم ¾پوٹاشئیم ¾کلورائیڈ ¾کیلشئیم ¾ وغیرہ۔ ہوتے ہیں ”
انسانی سیلز میں پانی اور اس میں حل ش±دہ برق پاشیدے انسانی جسم کو الیکٹرک کرنٹ کا موصل (کنڈکٹر) بناتے ہیں۔ اس کام میں زمین اہم کام انجام دیتی ہے کیونکہ جب انسانی جسم کو بجلی چھوتی ہے تو زمین کا ارتھ سرکٹ پورا کر دیتا ہے جس سے کرنٹ لگتا ہے ،؛ : بجلی جو سائنس دانوں کی ایک اعلی ایجاد ہے اسے اگر اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ بہت اچھی دوست ہے ۔اگر احتیاط سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ ایک خطرناک اور جان لیوا دشمن ثابت ہوتی ہے۔بجلی کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم اے سی بجلی ہے جو گھروں اور دفاتر میں استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری قسم ڈی سی بجلی ہے جسے بیٹریوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بجلی یا تو جنریٹر چلا کر یا آجکل شمسی توانائی سے۔ یعنی۔ سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ فیکٹریوں دفاتروں اور گھروں میں جو بجلی مہیا کی جاتی اس کو بڑے بڑے جینریٹرز کو پانی، گیس اور کوئلے سے چلا کر پیدا کی جاتی ہے۔
جبکہ موٹر گاڑیوں میں بجلی ان کے جنیریٹر یا آلٹرنیٹر جو کہ اس کے انجن کے چلنے ، سے پیدا ہوتی ہے۔گھروں کو بجلی اے سی 220 وولٹ اور 50 ہرٹز فریکونسی کی صورت میں مہیا کی جاتی ہے جبکہ موٹر گاڑیوں میں یہ بجلی 12 وولٹ ڈی سی کی صورت میں استعمال میں لائی جاتی ہے ۔ ڈی سی بجلی میں فریکونسی کا ذکر نہیں ہوتا کیونکہ ڈی سی بجلی کی فریکونسی صفر ہوتی ہے _
بدقسمتی سے۔: اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے اعتبار سے دنیا کے دس بحران زدہ ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔
جہاں بجلی کا بحران اس قدر سنگین ہے کہ اکثر و بیش تر 18 سے 20گھنٹے روزانہ بجلی منقطع رہتی ہے۔جبکہ چار ادارے بجلی کی پیداوار میں حصہ لیتے ہیں واپڈا ¾کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ¾پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن ¾آزاد طور پر چند ادارے شامل ہیں۔ انکی پیداواری صلاحیت 19500 میگا واٹ ہے۔جبکہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 15 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔ ڈیموں۔ ہائیڈل پاور پلانٹس۔ کی باقاعدہ مرمت و توسیع۔ نئے ڈیم تعمیر نہ ہونا اور نجی شعبے کی ریاستی مشینری کے ساتھ ملی بھگت سے کی جانے والی لوٹ مار کی وجہ سے بجلی کی پیداوار پورا سال طلب سے کم رہتی ہے۔ بجلی کی طلب میں 7سے 8.5فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتِ پاکستان کے اپنے اندازوں کے مطابق 2020ئ تک پاکستان میں بجلی کی طلب تین گنا بڑھ کر 54000میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ’0‘میگاواٹ بجلی کانیٹ اضافہ ہواہے۔ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے ’حکومتی اقدامات‘ کا اگر یہ ہی حال رہا تو مستقبل قریب میں ہی ملک کو 20000میگا واٹ بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکومت اس سلسلے میں بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر ابھی کچھ بھی نہیں کر سکی، رواں سال کے پہلے مہینے میں وزیر پانی و بجلی نے کابینہ کو بتایا تھاکہ بجلی کی156میگاواٹ پیداوار کے ا?ٹھ منصوبوں پر فوری کام شروع کر دیا جائے گا جن سے بجلی کی قیمت میں6.1فیصد اضافہ ہو جائے گا اور جب 1,994 میگا واٹ کے 14منصوبے مکمل ہو جائیں گے تو بجلی کی قیمت میں9.9فیصد مزیداضافہ ہو جائے گا۔حالانکہ سستی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع بھی ہیں مگر ان کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی۔ پاکستان میں متبادل توانائی بورڈ2003ء میں قائم کیا گیا تھامگر موجودہ دور تک ایسا کوئی پراجیکٹ نہیں لگایا جا سکا جس سے بجلی کی پیداوار بڑھ سکے اور قیمت کم کی جا سکے۔ملک کے بیشتر علاقے ”ہوائی چکیوں“ سے بجلی پیدا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہوا کی کم از کم 13کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو ونڈ انرجی کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے کراچی، ٹھٹھہ ، کوئٹہ ، جیوانی، حیدرآباد، بلوچستان کی ساحلی پٹی، صوبہ خیبرپختونخوا کی چند شمالی وادیوں اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں ہوا کے ذریعے تقریباً تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔اسی طرح شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا ایک سستا اور اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی پیدا کرنے کا کافی پوٹینشل موجود ہے کیونکہ پاکستان میں سال بھر میں فی مربع میٹر 19میگاواٹ سے زیادہ شمسی توانائی مل سکتی ہے جس سے پاکستان کے تقریباً 50ہزار دیہاتوں میں رہنے والی 90% آبادی کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرکے بجلی کی موجودہ لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح موجودہ دور میں پاکستان صرف 462میگا واٹ بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کی کررہا ہے جو ملکی پیداوار کا صرف2فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دنیا کے تیسرے بڑے یعنی185ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جو تیل کے کم از کم 400ارب بیرل کے برابر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 50ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت کے حساب سے بھی ہمارے مذکورہ کوئلے کے ذخائر کی مالیت 30 ٹریلین ڈالر ہے جو پاکستان کی موجودہ جی ڈی پی سے 187گنا سے بھی زائد ہے۔ کوئلہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود ہے تاہم تھر کے کوئلے کا شمار دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔اس وقت پاکستان کوئلے سے صرف 200میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے جو کل ملکی توانائی کا تقریباً 7%ہے جبکہ ہماری توانائی کی پیداوار میں کوئلے سے پیدا کی جانیوالی توانائی کا حصہ کم از کم 25% ہونا چاہئے۔ ان سب باتوں کے باوجود ملک میں بجلی کی کمی ایک اور وجہ سے ہے جس کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی اور وہ ملک میں بجلی ترسیل کے این ٹی ڈی سی نظام میں ٹرانسمیشن کا ضیاع ہے۔پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے اس خستہ حال ڈ ھانچے کی وجہ سے تقریباً35 فیصد بجلی ضایع ہوجاتی ہے۔ غیر قانونی کنکشن‘ میٹروں کے ساتھ ہیراپھیری اور دوسرے طریقوں سے سالانہ پچیس ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق بجلی کے اس نقصان کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں سب سے زیادہ وجہ کم موصل تاروں کی خریداری اور ان کی تنصیب ہے جبکہ : پوری دنیا میں بجلی پیدا کرنے کے نت نئے طریقوں کے ساتھ انسانی زندگی بچانے کے لیے الیکٹرک سپلائی کرنے والی کمپنیاں کوششیں جاری رکھتے ہوئے جدید سے جدید الیکٹرک ایکومینٹ تیار کرتی ہے میری نظروں سے برطانیہ کی کمپنی میڈ الیکٹرک مینوفیکچررز کا ایک ارتھ بریکر گزار جس کو کسی الیکٹرک سپلائی کی مین لائن پر لگادیا جائے تو اس کے بعد گزر نے والے کرنٹ پر آگر کسی شخص کا ہاتھ لگ جائے تو وہ بریکر فورن ٹرپ کر جائے گا اس طرح انسانی زندگی محفوظ رہتی ہے جبکہ پاکستان میں ارتھ بریکر کی بجائے سرکٹ بریکر لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں، کراچی میں بجلی کے کرنٹ لگنے سے جو اموات ہوئیں اس کی مختلف خامیاں اور خرابیاں ہیں جس سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ k الیکٹرک والو کو کون سمجھائے جو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں بلکہ دوسرے اداروں پر الزام عائد کرریے ہیںجبکہ k الیکٹرک والوں نے تمام مضبوط کوپر وائر بیچ کر کمزور سلور وائر لگادیا ہے اور جو پول لگائے ہیںان کو ار تھنگ ہی نہیں کیا حقیقت یہ ہے کہ جہاں جہاں بنڈل کیبل کیا گیا ہے وہاں نئے پول کو ارتھ نہیں کیا گیا۔ اور حالیہ بارشوں میں ہونے والی اموات کی بنیادی وجہ یہ بھی بنی ہیں۔ کسی بھی فالٹ کی صورت میں پول میں کرنٹ آنے پر ارتھنگ نا ہونے کے سبب لوگوں کو کرنٹ لگا جس سے بھاری جانی نقصان ہوا۔ k الیکٹرک نے ارتھنگ کا پیسہ بچا کر درجنوں افراد کی ہلاکتوں کی ذمدار بنی اور مزید کراچی کے لاکھوں شہریوں کی جان خطرے میں ہے ،میرے مشاہدے کے مطابق جتنے زیادہ وولٹ گراو¿نڈ کرنے ہوں اتنا ہی گہرائی میں گراو¿نڈ وائیر کو لے جانا پڑے گا. مثلاً اگر ایک فریج کی باڈی کو گراو¿نڈ کرنا ہے تو صرف ایک فٹ گہرائی بھی کافی ہے. لیکن اگر 220 وولٹ کو گراو¿نڈ کرنا ہو تو تقریباً 30 فٹ کی گہرائی تک جانا پڑے گا.موجودہ کمپنی نے بجلی کا عام کھمبا 7، 8 فٹ گہرائی میں لگا ہے۔ جو کہ ناکافی ہے اور وہ کنکریٹ میں ہوتا ہے، اس لئیے گراو¿نڈ وائیر الگ سے لگائی ہے ۔نجی شعبہ سے قبل KESC اوور ھیڈ 220 وولٹس تا 500000وولٹس تک جس قدر حفاظتی اقدام کرتی تھی اب اس۔کا عشر عشیر بھی نہیں اب تو تار بغیر ڈسچارج ھوئے زمیں بوس ھوتاھے یعنی پہلے تار ٹوٹ کر سپورٹنگ ارتھ وائر سے ٹچ ھوکر ڈسچارج ھونے کے بجائے زمیں پر آتا تھا سو پولز بھی Deeply Grounded ھوتے تھے پھر Tramnsmissoion lines خواہ وہ 20 وولٹس کی ھوں یا 500000 وو لٹس تار کبھی زمین بوس نہیں ھوتا تھا اور اب جتنا گھٹیا Transmission&Distribiotion کراچی میں ہے کہیں نہیں، یاد رہے کے ای ایس سی دوہزا پانچ تک وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرتا تھا تاہم نومبر،دو ہزار پانچ میں اسے نجی شعبہ کی تحویل میں دیدیا گیا جس کا مقصد اسکے انتظام کو بہتر بنانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے زریعے اسکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا بتایا گیا تھا،تاہم بجلی کے بار بار بریک ڈاو¿ن کے بعد اسے دوبارہ سرکاری تحویل میں لینے کے مطالبے میں شدت آرہی ہے پہلے یہ مطالبہ شہر کے کاروباری حلقوں کی جانب سے کیا جاتا تھا لیکن اب عام عوام اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بھی یہ مطالبہ کررہے ہیں،
یہ مضمون تحریر کرنے سے پہلے میں نے ( کے الیکٹرک) کے ترجمان سے انکا موقف معلوم کرنے کے لیے رابط بھی کیا لیکن انہوں نے کوئی مو¿قف نہیں دیا۔
اس لیے،k الیکٹرک کے پاس آگر کچھ وقت ہے تو وہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے شہریوں سے تعاون کرے بلوں کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ نئے سرے سے الیکٹرک کے نظام کو بہتر بنائے۔ اس میں سب سے اہم انسانی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔
٭٭٭