صحت اور تعلیم۔۔۔۔ساتھ ساتھ

اچھا طالب علم بننے کے لیئے آپ کو اچھی صحت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ایک بیمار جسم میں صحت مند دماغ کبھی بھی پرورش نہیں پا سکتا۔آجکل کے دور میں بچوں کو سیر و تفریح کے مواقع بہت کم میسر ہیں۔بچے صبح سکول جاتے ہیں۔آجکل کے دور میں سکول بھی چھوٹی چھوٹی رہائشی بلڈنگوں میں بنائے جاتے ہیں۔ان میں بچوں کو سیر و تفریح کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ چند سکول جن میں بچوں کے کھیلنے کے لیئے گرآونڈ اور جھولے وغیرہ لگے ہوتے ہیں ان میں عام طور پر بچوں کو جھولے لینے کی یا آذانہ پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔سکول مینجمنٹ کو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ بچے ان جھولوں کو توڑ نہ دیں۔سکول سے واپسی پر بچے آکر کھانا کھاتے ہیں تو ان کی اکیڈمی کا ٹائم ہو جاتا ہے یا گھر میں ٹیوٹر آجاتا ہے جو ان کو پڑھاتا ہے۔مغرب کے بعد عام طور پر بچوں کو پڑھانے قاری صاحب آئے ہوتے ہیں۔رات کا کھانا کھانے کے بعد بچے سکول اور ٹیوشن کا ہوم ورک کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔اور رات گئے سو جاتے ہیں۔ صبح ان کو سکول کے ٹائم پر بمشکل اٹھایا جاتا ہے۔
گویا آجکل کے بچے وقت کے غلام بن چکے ہیں۔وہ وقت کے مطابق چلتے ہیں۔ان کی تما م تر آذادی سلب ہوچکی ہے۔اصولی طور پر بچوں کو اپنے آپ کو خوش اور تروتازہ رہنے کے لیئے اپنی سہولت کے مطابق اپنے مشاغل اور ٹائم ٹیبل کا انتخاب کرنا چاہیے۔لیکن پرائیوٹ سکولزاور اکیڈمیز نے اپنے کاروبار کو چمکانے کے لیئے بچوں کی شٰخصیت کو ہی مسخ کر دیا ہے۔ ان کو نمبرز اور گریڈز کی دوڑ نے سب کچھ بھلا یا ہے۔ ان کے ذہن میں یہی بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ تمہیں کامیابی تبھی ملے گی جب تم ان کتابوں کو رٹا لگا لو گے اور امتحان میں اچھے نمبرز لے لوگے۔ یہ باتیں ان بچوں کے ذہن میں اتنی بری طری ڈالی جاتی ہیں کہ آجکل امتحان میں ناکامی کی وجہ سے خو دکشیوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کی فضا اسقد ر ذیادہ ہو چکی ہے کہ طلبائ اپنی کتابیں اور نوٹس اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ شیئر نہیں کرتے کہ کہیں وہ ذیادہ نمبر نہ لے جائے۔
اگر یہ کہاں جائے کہ دولت صرف پڑھے لکھے لوگ ہی کما سکتے ہیں یا وہ لوگ کہ جن کے پاس اعلی قسم کی ڈگریاں ہیں تو یہ بات بالکل غلط ثابت ہوچکی ہے۔ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست کو اگر دیکھا جائے تو ان میں ایک بھی پی ایچ ڈی نہیں ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ کبھی درسی کتا بیں نہیں پڑھیں۔ وہ لوگ دنیا کے کامیاب ترین اور امیر ترین لوگ ہیں۔ان پڑھ اور انگوٹھا چھاپ لوگوں کے پاس سینکڑوں پی ایچے ڈی ڈاکٹرز کام کرتے ہیں۔پیسے کا تعلق کبھی بھی آپ کے گریڈ ز اور نمبروں پر منحصر نہیں ہے۔ ڈگر ی اس بات کی گارنٹی نہیں ہوتی کہ آپ کو ایک بہت اچھی ملازمت ملے گی۔
بچوں کوپیسے کمانے کی ٹریننگ سکولوں میں نہیں دی جاتی۔صرف سکولوں میں ان بچوں اور ان کے والدین کی مجبوریوں او ر بے بسی کو استعمال کرکے ان سے ذیادہ سے ذیادہ پیسہ کمایا جاتا ہے۔ اگر آپ حقیتا کامیاب ہونا چاہتے ہیں ہو اپنی پیسہ کمانے کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔یہ سکھیں کہ ہم کس طرح سے محنت کرکے ذیادہ سے ذیادہ پیسہ کما سکتے ہیں۔تعلیمی اداروں سے ڈگری ضرور لیں لیکن اس ڈگری کے علاوہ بھی آپ کو بہت کچھ چاہیے۔ یہ تجربہ اور مہارت آپ کو اس فیلڈ کے ماہرین سے ملے تو آپ جس فیلڈ میں جانا چاہتے اسی فیلڈ کے کامیاب لوگوں سے ضرور رابط رکھیں۔