الیکٹرانک گیمز کے بچوں پر منفی اثرات

کل میں لاہور کے ایک قدیم اور معروف علاقے کرشن نگر میں اپنے بچپن کے دوست کی موبائل شاپ پر کافی عرصہ بعد ملاقات کےلیے گیا۔ اس دوران ایک شخص دکان میں داخل ہوا، اور موبائل کے مختلف ڈیزائنز کے کور دیکھنے کی فرمائش کی۔ اس شخص کے سامنے مختلف رنگ اور اقسام کے کورز کا ڈھیر بکھیر دیا گیا لیکن اس نے کہا نہیں میرے بیٹے کو پب جی پسند ہے، کوئی ایسا کور دکھائیں جس پر PUBG گیم کی تصویر ہو۔ جب ایسا کور نہ ملا تو وہ شخص باقی تمام ڈیزائنز مسترد کرکے چلا گیا۔ میں بہت حیران ہوا کہ والدین اپنے بچوں کی خواہشات کو اس حد تک پورا کرنے میں اپنے وقت کا زیاں کررہے ہیں کہ گیمز کے علاوہ موبائل کور بھی بچوں کے شوق اور مرضی کا ہونا چاہیے۔
کچھ دیر بعد دو بچے دکان میں داخل ہوئے۔ دونوں کو موٹے شیشوں والے چشمے لگے ہوئے تھے اور وہ کہنے لگے کہ ہمیں 20 ہزار تک رینج والا ایسا گیمنگ موبائل چاہیے جس کی ریم اور انٹرنل میموری اتنی ہو کہ ہم فلاں گیم اس میں کھیل سکیں۔ اس نوعمری میں اتنی بڑی رقم کے ساتھ کسی بڑے کے ساتھ کے بغیر خود مارکیٹ آکر موبائل خریدنا اور والدین کا بچوں کو اس مقصد کےلیے اتنی رقم مہیا کرنا میرے لیے حیران کن تھا کہ آخر والدین بچوں کی ان خواہشات کو پورا کرکے کون سے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں؟
اب تو کورونا لاک ڈاو¿ن کے بعد بچوں کو تعلیم کے نام پر ایسے الیکٹرانک گیجٹس تک رسائی کا آسان بہانہ بھی مل گیا ہے۔ خود والدین کو معلوم نہیں ہوپاتا کہ بچہ کتنا وقت تعلیم پر اور کتنا گیمز کھیلنے پر صرف کررہا ہے۔
آج کل عالمی سطح پر عمومی مسئلہ بچوں میں بڑھتا ہوا موبائل اور کمپیوٹر گیمز کا شوق اور رجحان ہے۔ آغاز میں عمومی طور پر والدین چھوٹے بچوں کو رونے سے چپ کروانے کےلیے موبائل مہیا کردیتے ہیں، اور اگر بچہ موبائل کا استعمال کرنا شروع کردے تو بڑے فخر اور خوشی سے اسے بچے کی ذہانت کا معیار بتاتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اسے ٹچ موبائل یا کوئی گیجٹ سمجھ میں آگیا ہے۔ آہستہ آہستہ والدین بچوں کی طرف سے Do More کے چکر میں موبائل پر مختلف گیمز چلا کر انہیں مصروف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ آہستہ آہستہ موبائل فون کا مستقل عادی ہوجاتا ہے۔
آج کل ہمارے بچے بہت زیادہ وقت موبائل گیمز پر صرف کرتے ہیں۔ کچھ نشہ آور کھیل جیسے Fortnite ،GTA وغیرہ بھی بچوں کے دماغ کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔ پی ٹی اے کے بیان کے مطابق حال ہی میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق PUBG گیم کی وجہ سے خودکشیوں کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ لاہور پولیس کے مطابق شہر میں دو نوجوانوں نے ویڈیو گیم ’پب جی‘ کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کرلی تھی۔ ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عارضی طور پر ویڈیو گیم ’پب جی‘ یعنی ’پلیئر ان نون بیٹل گراو¿نڈ‘ پر پابندی لگانے کا اعلان بھی کیا۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے (پی ٹی اے) کی جانب سے ویڈیو گیم پر لگائی گئی پابندی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ستمبر 2019 میں انڈیا کی ریاست کرناٹک کے ایک ضلع میں رگھوویر نام کے اکیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کی گردن کاٹ کر اسے قتل کردیا تھا۔ جسے اس کے والد نے موبائل پر یہی گیم یعنی ’پب جی‘ کھیلنے سے روکا تھا۔ اسی طرح ایک اور گیم جس کا نام رولیٹ (Roulette) ہے، اس کے منفی اثرات میں والدین کو معلوم ہوا کہ بچے پہلے اس سے شرط لگانے کے عادی بنے اور بعد میں اس گیم کے ذریعے جوئے کی لت میں پڑے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جو بچے بہت زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، ان میں جواری بننے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے، کیونکہ والدین ان سرگرمیوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔
شروع میں والدین بچوں کے شوق کی تکمیل کےلیے یہ سب سہولیات مہیا کرتے ہیں اور جب بچوں کو اس کی لت لگ جاتی ہے تو پریشان بھی ہوتے ہیں، کیونکہ بچوں میں ڈیجیٹل آلات خصوصاً موبائل گیم کی عادت اور لت کا نتیجہ بچوں میں افسردگی، معاشرتی اضطراب اور تنہائی پسندی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ دماغی صحت کے امور پر اس کے ممکنہ منفی اثرات کی وجہ سے جدید محققین بھی اس مسئلے کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔
ٹیکنالوجی محض کسی گیجٹ سے واقفیت کا نام نہیں، بلکہ وہ بچوں کے رہن سہن، میل جول اور سوچنے کے انداز کو یکسر بدل کر رکھ دیتی ہے۔ بچہ اپنے گردونواح سے بے خبر ہوکر ان گیمز میں اتنا زیادہ مشغول ہوجاتا ہے کہ نہ وہ تعلیم پر توجہ دے پاتا ہے اور نہ ہی جسمانی ہم نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر کسی جگہ سیر کےلیے بھی لے جایا جائے تب بھی بچے قدرتی مناظر کے مشاہدے کے بجائے اسکرین پر توجہ مبذول رکھتے ہیں۔ اور یہ صورتحال جب پیش آتی ہے تو والدین بہت زیادہ متفکر ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے نئی پود پہلی نسلوں سے بالکل مختلف انداز میں سوچتی ہے۔ لیکن اس سوچ کا تعلق حقیقی دنیا کے بجائے ڈیجیٹل ورلڈ سے زیادہ ہے۔ ویڈیو گیمز کی ایک قسم آن لائن ملٹی پلیئر گیمز سے متعلق ہوتی ہے۔ کیونکہ یہاں بچوں کو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں آن لائن گیمنگ کمیونٹی میں Acceptance مل رہی ہے۔ یقیناً اس کی وجہ والدین کی طرف سے بچوں کو وقت نہ ملنا یا والدین کا انہیں اپنی مصروفیات کی وجہ سے نظر انداز کرنا ہے۔
ویڈیو گیمز کے منفی اثرات کی وجہ سے بچوں میں کلائی، گردن اور کہنی میں درد، نیند کی کمی اور خرابی، موٹاپا، کمزوری یا ہاتھوں میں بے حسی (Peripheral Neuropathy) اور یہاں تک نظر کی کمزوری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ سب سے اہم رات کو دیر تک جاگنا۔ ظاہر ہے کہ ایسا بچہ صبح تعلیمی سرگرمیوں میں کس طرح سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچے کھیلنے سے قاصر ہوں تو بے چینی اور چڑچڑے پن کا احساس، پچھلے آن لائن کھیلے گئے گیم کے بارے میں خیالات یا اگلے آن لائن سیشن کی توقع کے ساتھ دلچسپی، کھیلے گئے گیم کے وقت کے بارے میں والدین سے جھوٹ بولنا شامل ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں میں گیمنگ کے منفی اثرات سے بچاو¿ کےلیے درج ذیل اقدامات کریں۔
1۔ گیمنگ کے اوقات کو بتدریج محدود کردیجئے۔ اسکرین کو چھپا کر کچھ کھیلنے سے منع کیجئے۔ گیم کھیلنے کی اجازت سے قبل پہلے ہوم ورک اور ورزش مکمل ہونے کی یقین دہانی کروائیے۔ اور آہستہ آہستہ بچوں کو گھریلو کاموں میں مشغول کیجئے، جیسے دسترخوان لگانا، برتن لگانا، سمیٹنا، گھر کے کاموں میں بچوں کو مشغول کرنا تاکہ ان کی ایک جگہ بیٹھنے کی عادت کا خاتمہ ہو۔
2۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ بچے زیادہ وقت فطرت کے ساتھ اسکرین کے بغیر گزار رہے ہیں۔ ان کے آمنے سامنے بات چیت میں اضافہ کیجئے۔ گھر کے بڑوں، دادا، دادی کے ساتھ سوشل سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیجئے۔ نماز اور عبادات کےلیے لڑکوں کو اپنے ساتھ اپنی نگرانی میں مسجد لے کر جائیے۔
3۔ بچوں کو گیم کا عادی ہونے پر طعنے نہ دیجئے، اس سے بچہ ردعمل کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ ان کا خود پر اور والدین سے تعلقات کے حوالے سے اعتماد بحال کیجئے۔ صبح فجر کے بعد پارک میں ان کو ورزش یا فٹبال، دوڑ جیسی مثبت سرگرمیوں کا عادی بنائیے۔
4۔ بچوں کو ایسے مشاغل کی طرف راغب کیجئے جس میں وہ کمپیوٹر کوڈنگ سیکھیں اور خود نئے نئے پروگرامز کو ڈیزائن کرسکیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی جسمانی سرگرمی، کوکنگ، کھیل کے حوالے سے انہیں یوٹیوب چینل شروع کرنے کی طرف بھی راغب کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بھی والدین کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
﴾﴿