کورونا ویکسین کے لیے جلدبازی وبا کو مزید بدتر کرسکتی ہے

معروف سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے لوگوں کو تحفظ فرام کرنے کے لیے جلدبازی میں غیرموثر ویکسین متعارف کرانا اس وبا کو مزید بدتر بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔
مختلف ممالک کی حکومتوں اور کمپنیوں کی جانب سے دنیا میں پہلی لائسنس شدہ ویکسین متعارف کرانے کا مقابلہ ہورہا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی بہتر خدمت کے لیے ضرورت ہے کہ اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک کم از کم 30 سے 50 فیصد موثر ویکسین تیار نہیں ہوجاتی۔
برطانیہ نے گزشتہ ہفتے کسی بھی ویکسین کی منظوری کے عمل کو رواں سال کے آخر تک تیزرفتاری سے مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں شیڈول صدارتی انتخابات سے قبل ایک ویکسین کا اعلان کرنے کے خواہشمند ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے ویکسین ضروری ہے مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور عالمی ادارہ صحت کے مشیر سر رچرڈ پیٹو کا کہنا ہے کہ پہلی ویکسین کو خریدلیا جائے گا اور دنیا بھر میں استعمال کیا جائے گا چاہے وہ زیادہ موثر نہ بھی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ویکسین آبادی کے معمولی حصے کو ہی تحفظ فراہم کرسکی تو اسے دیگر ویکسینز کے لیے معیار سمجھا جائے گا، جبک بعد میں مزید ناقص ویکسینز کی منظوری کا امکان بڑھ جائے گا۔
انہوں نے بتایا ‘میرے خیال ہر ایک جلدبازی سے کام لے رہا ہے، جو کسی طرح کی قومی فخر اور کمائی کی جلدبازی بھی ہے، کہ ایک ویکسین سب سے پہلے رجسٹر کرائی جائے اور ایسا ہونے پر دیگر ویکسینز کا تجزیہ مزید مشکل ہوجائے گا۔ ہمیں ایک ویکسین کی ضرورت ہے اور بہت جلد ضرورت ہے مگر ہمیں اس کی افادیت کے لیے ٹھوس شواہد بھی چاہیے ہوں گے’۔
متعدد ممالک میں ویکسینز کے ٹرائل ہورہے ہیں جن میں جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے کورونا سے زیادہ متاثر ممالک بھی شامل ہیں، جہاں دیگر ممالک کی جانب سے ٹرائلز ہورہے ہیں، جہاں کے نتائج سے ویکسین کی افادیت کا تیزی سے اندازہ ہوگا۔
اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین اس دوڑ میں آگے ہے مگر چین میں بھی 4 ویکسینز انسانی آزمائش کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔
برطانوی محکمہ صحت نے 28 اگست کو کہا تھا کہ وہ ایسے ہنگامی اقدامات کو یقینی بنارہا ہے جس سے محفوظ اور افادیت کے حوالے سے مناسب شواہد پر برطانیہ میں رواں سال ایک ویکسین کا لائسنس یقینی ہوسکے
31 دسمبر تک برطانیہ کو یورپین میڈیسینز ایجنسی کی جانب سے منظوری کا انتظار کرنا ہوگا، تاہم اگلے سال بریگزٹ کے بعد برطانیہ اپنی ویکسینز اور ادویات کو خود لائسنسز جاری کرسکے گا۔
برطانوی حکومت کے مطابق ویکسینز پر مشترکہ برطانوی کمیٹی کسی ویکسین کے لائسنس کے عمل کو آگے بڑھانے کی ذم دار ہوگی جس کی سربراہی آکسفورڈ ویکسین گروپ کے ڈائریکٹر پروفیسر اینڈریو پولارڈ کریں گے۔
سر رچرڈ پیٹو عالمی ادارہ صحت کے یکجہتی ویکسینز ٹرائل ایکسپرٹ گروپ کے رکن یں، جو دنیا بھر کے معروف سائنسدانوں کا تیار کردہ گروپ ہے، جس کا مقصد عالمی ادارے کو مختلف ویکسینز کے حوالے سے مشاورت فرام کرنا ہے۔
اس گروپ نے گزشتہ ہفتے طبی جریدے دی لانسیٹ میں کہا تھا کہ ایک ناقص معیار کی ویکسین وبا کو کسی ویکسین کے نہ ہونے سے زیادہ بدتر بناسکتی ہے، کیونکہ اس کے استعمال سے لوگ تصور کریں گے کہ اب انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں اور سماجی دوری کے اقدامات پر عملدرآمد رک جائے گا۔
گروپ کا کہنا تھا ‘ایک کم موثر ویکسین کووڈ 19 کی وبا کو مزید بدتر بنادے گی کیونکہ انتظامیہ کو لگے گا کہ اب خطرہ نمایاں حد تک کم ہوچکا ہے یا ویکسین کے عمل سے گزرنے والے افراد میں محفوظ ہونے کا غلط احساس پیدا ہوگا، جس کے نتیجے میں وہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کریں گے’۔
گروپ نے تمام ریگولیٹرز پر زور دیا تھا کہ وہ عالمی ادارہ صحت کی رہنمائی کو مدنظر رکھیں، جس کا کہنا ہے کہ 30 فیصد سے کم موثر ویکسین کو کسی صورت میں منظوری نہیں دی جانی چاہیے بلکہ کم از کم 50 فیصد افادیت پر ایسا ہونا چاہیے۔
امریکی ریگولیٹر ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ وہ اس مشورے پر عمل کرے گا مگر کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی دباو¿ پر یہ ادارہ کسی ویکسین کو لائسنس جاری کرسکتا ہے۔
عالمی سائنسدانوں کے گروپ نے کہا کہ متعدد ویکسینز کے حوالے سے یکجہتی ہی آگے بڑھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا ‘مختلف ویکسینز کے انفرادی ٹرائلز کے موازنہ کیساتھ، ایک گلوبل ملٹی ویکسین ٹرائل جسے ایک کنٹرول گروپ سے شیئر کیا جائے، سے زیادہ برق رفتار اور قابل انحصار نتائج مل سکیں گے۔