سائبر کرائم اور خودکشی میں اضافہ

 

محمد عمران چوہدری
کلیم جب ہوش کی دنیا میں واپس آیا تو 25 لاکھ روپے مالیت کا اے ٹی ایم کارڈ بن چکا تھا۔ اس کی منت سماجت، کچھ بھی تو کام نہ آیا۔ عزت بچانے کی خاطر اس نے اپنی جمع پونجی اس غیر ملکی حسینہ کے حوالے کرتے ہوئے رحم کی اپیل کی، مگر بات نہ بنی۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ وہ غیر ملکی حسینہ اسے بینک سے قرضہ لینے کےلیے کچھ وقت دینے پر تیار ہوگئی، کیونکہ ابتدائے محبت میں وہ اسے مالی حیثیت کے بارے سب کچھ بتا چکا تھا۔ کچھ دوستوں کے مشوروں پر اس نے رابطے کے سب ذریعے منقطع کردیے اور گویا اپنے طور پر محفوظ ہوگیا۔ اس لڑکی نے نئے نام اور فوٹو کے ساتھ آئی ڈی بنا کر دوستی کی درخواست کی۔ درخواست قبول ہوتے ہی اس نے بغیر کسی سوال جواب اور وارننگ کے وہ قابل اعتراض ویڈیو اس کے تمام دوستوں، رشتے داروں، بھائی، بھابیوں، بھانجے، بھانجیوں سب ہی کو ٹیگ کردی۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے آپ کو بتاتا چلوں ان کی بھی عام لوگوں کی طرح سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر آشنائی ہوئی۔ جو پہلے دوستی اور پھر حدود کو پار کرتی چلی گئی۔ اس معاملے میں پہل البتہ کلیم نے کی۔ حسینہ نے پوری تیاری کے ساتھ اپنی خواہشات کا اظہار شروع کیا اور کلیم جوش محبت میں ہر حد پار کرگیا۔ وہ دوشیزہ کمال مہارت سے تمام مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتی چلی گئی۔ آج کلیم دو سے تین بار خودکشی کی کوشش کرنے کے بعد ایک زندہ لاش بن چکا ہے۔
یہ صرف ایک کلیم کی کہانی نہیں، آج ہمارے اردگرد کئی ایک ایسے مرد و خواتین موجود ہیں جو اس قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ ایف ا?ئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال اور اس سال کے پہلے چار مہینوں میں پاکستان کے تین اہم شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کل 95 سائبر جرائم کے مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے ستر فیصد یعنی 76 معاملات خواتین کو بلیک میل کرنے سے متعلق تھے۔ ان معاملات میں کیس درج کروانے والی بھی خواتین ہی تھیں۔ ابتدا میں مرد خواتین کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کیا کرتے تھے، آج کل اس کام میں خواتین بھی پیش پیش ہیں، اور بعض جگہوں پر تو مرد مردوں کو بلیک میل کرتے پائے گئے، جس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں کراچی میں نوجوان لڑکوں سے زیادتی اور ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بناکر بلیک میلنگ میں ملوث 4 ملزمان کی گرفتاری ہے۔
ایک خبر رساں ادارے کے مطابق ایف آئی اے کو گزشتہ برس سائبر کرائمز کے متعلق 57000 کے قریب شکایات موصول ہوئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اس سلسلے میں سخت ترین قانون سازی کرے اور ہم سب ریاست کے معاون بن جائیں۔ کیوں کہ ایک محتاظ اندازے کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 7 کروڑ کے قریب آباد ی انٹرنیٹ استعمال کررہی ہے اور انٹرنیٹ پر معمولی سی بے احتیاطی آپ کو گہری دلدل میں لے جاسکتی ہے، جس کا انجام مسلسل ذلت و رسوائی یا پھر خودکشی پر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری آل اولاد انٹرنیٹ سے جڑے مسائل سے بچ جائے تو ہمیں اپنے گھر پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اس قدر توجہ کہ انہیں سات سمندر پار دوست بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ ہماری ان کے ساتھ اس قدر دوستی ہوکہ ہمیں ان کے موبائل، لیپ ٹاپ تک ہر قسم کی رسائی ہو۔
یاد رکھیے جو لوگ ایجادات، اختراعات سے گھبراتے ہیں وہ ترقی نہیں کرسکتے، لیکن جو لوگ ان ایجادات کے مثبت اور منفی پہلوو¿ں کو نظر انداز کردیتے ہیں وہ بھی تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام آج کے دور میں رابطوں اور تبادلہ خیال کا اہم ترین ذریعہ ہیں، مگر انہی ذرائع کو جھوٹ اور منفی سرگرمیوں کے فروغ کےلیے بھی بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی شرم کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، تو کوئی نفسیاتی مریض بن کر زندگی گزارتا ہے۔ اور آخر میں آپ سب کی معلومات کےلیے عرض کرتا چلوں کہ پاکستان پینل کوڈ 376/377 کے تحت ایسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ کے اردگرد کوئی ایسا فرد ہے جو انسان نما درندوں کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کا خواہش مند ہے تو اسے اس بات کی ترغیب دی جائے کہ قانون کی مدد سے ایسے درندوں کو عبرت کا نشان بنادیا جائے۔