کورونا کے دوران چھوٹے بچوں کیلئے محفوظ طریقہ تعلیم

سائرہ تنویر
کورونا وائرس کے پھیلاو¿ نے دنیا بھر میں کا وبارِ زندگی کو ب±ری طرح متاثر کیا ہے، خاص طور پر تعلیمی اداروں کی بندش سے چھوٹے بچے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے تعلیمی اداروں نے زوم کے ذریعے درس و تدریس کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اگرچہ بڑی جماعتوں کی حد تک تو یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا مگر چھوٹے بچوں کے لئے یہ تجربہ فائدہ مند ثابت نہیںہوا۔ چھوٹے بچے انفرادی سطح پر توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کیلئے صرف سلیبس کی تکمیل ہی اہم نہیں بلکہ بچوں کا اپنے ہم عمر بچوں سے رابطہ او ر سماجی تعلقات بھی سیکھنے کے عمل کیلئے خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ بچوں کو کاغذ پر پنسل سے لکھنے کی مشق کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو یاد کروانا، سمجھانا اور مزید یہ کہ ا±نہیں ایک استاد کے روبرو اپنی سوچ کے مطابق بات چیت کی بھی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے لیکن کمپیوٹر سکرین پر تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ اپنی توجہ قائم نہیں رکھ پاتے۔اس مشکل پر قابو پانے کے لئے امریکہ سمیت د±نیا کے کئی ممالک میں ما ئیکرو سکول کا تصور پیش کیا گیا جو مختصر مدت میں ہی انتہائی مقبول ہو گیا ہے۔ اس طریقہ کار میں زیاد سے زیادہ دس بچوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے جسے لرننگ پوڈ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے گھروں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے بچے ہم عمر ہوں۔ ایسے لرننگ پوڈ جن میں نہ صرف بچوں کی تعداد کو محدود کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ خاندان ایک دوسرے سے واقف بھی ہوتے ہیں، یہ نظام کلاس روم کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ اچھے موسم میں ک±ھلی جگہ پر بیٹھ کر بھی کلاس لی جا سکتی ہے جس سے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا خدشہ مزید کم ہو جاتا ہے۔
نوکری پیشہ والدین جو آن لائن کلاسز میں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کر سکتے، ا±ن کے لئے یہ لرننگ پوڈ کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس طریقہ کار سے فوائد حاصل کرنے کے لئے کچھ اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً
1- بچوں کی تعداد کم رکھی جائے
2 – پوڈ میں شامل لوگ دوسرے لوگوں سے میل جول میں خاص احتیاط کریں۔
3 – دوسرے لوگوں سے میل جول کے دوران ماسک کا استعمال کریں
4 – مناسب سماجی فاصلہ ہر صورت برقرار رکھا جائے
5- پوڈ کے تمام ممبران ایک دوسرے کو دیانت داری سے اپنے کنبے کی صحت اور معاشرتی سرگرمیوں سے آگاہ رکھیں تاکہ کسی ایک کے کورونا میں مبتلا ہونے پر دیگر کو محفوظ رکھا جا سکے۔
اس عالمی وباءکے دوران جہاں بہت سی نئی سرگرمیاں وجود میں آئی ہیں وہیں لرننگ پوڈ کی ضرورت اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کے لیے ایس او پیز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ان پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے اور تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ کس حد تک آگے بڑھایا جا سکتا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یقیناً والدین بھی اپنے بچوں کی تعلیمی اور تربیتی ضروریات کے پیش نظر نئے تخلیقی انداز اپناتے رہیں گے۔

کورونا کیسز میں اضافہ، مزید احتیاط ناگزیر ہے
رو¿ف سعید
لاک ڈاو¿ن سے معطل شدہ جملہ سماجی، معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے باوجود تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی میں تاخیر و التوا میں بظاہر بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کی بابت حکومتی مشینری کی غیر معمولی حساسیت و فکر مندی کا عمل کار فرما نظر آرہا تھا، پھر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سخت ایس و پیز کی لازمی شرائط کے ساتھ تعلیمی اداروں کی مرحلہ وار بحالی کا اعلان کر دیا گیا، ساتھ ہی ساتھ ہر مرحلے کی بحالی کو پچھلے مرحلے کے دوران کورونا کیسز کے بڑھنے یا نہ بڑھنے کے جائزے اور اس کے اطمینان بخش نتیجے سے مشروط بھی کر دیا گیا.
30 ستمبر کو تیسرے اور آخری مرحلے کے لئے پہلے دو مرحلوں کی طرح تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا حکومتی اعلان اس امر کا غماز تھا کہ تعلیمی اداروں کے کھلنے سے ممکنہ طور پر کورونا کیسز بڑھنے کا جو خدشہ لاحق تھا وہ بفضل خدا صحیح ثابت نہ ہو سکا.
یہ امر لائقِ ستائش ہے کہ بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کی فکر سے مغلوب حکومتی قوتوں نے تعلیمی اداروں کو با ضابطہ طور پر کھولنے سے قبل ایس او پیز کی انتہائی باریک بینی سے تیاری اور ان کی نوک پلک سنوارنے میں بڑی عرق ریزی کا مظاہرہ کیا اور پھر بالخصوص پنجاب کے وزیر تعلیم محترم مراد راس کے بیانات نے تعلیمی اداروں میں مجوزہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے حوالے سے اپنے غیر متزلزل عزم و ارادے کا اظہار بھی بڑے واضح انداز میں کیا.س
دوسری طرف تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر شعبوں اور مقامات پر بھی کورونا وائرس سے بچاو¿ کے لئے ایس او پیز پر پابندی پر عملدرآمد کیا گیا تاہم اس میں اتنی سختی نظر نہ آئی، یہی وجہ ہے کہ چاہے وہ شاپنگ سینٹرز و بازار ہوں، تفریحی مقامات و پارکس ہوں، تھیٹرز ہوں، سبزی منڈیاں ہوں یا ٹرانسپورٹ کے اڈے ہوں وہاں حکومت ماسک اور سماجی فاصلے کی پابندی پر عملدرآمد کی کوشش کرتی نظر آئی تاہم بعض عوامی حلقوں کو جس سنجیدہ طریقے سے ایس او پیز پر عمل کرنا چاہئے تھا وہ دیکھنے میں نہیں آیا.
حکومتی مشینری جس طرح ایس او پی پر عملدرآمد کے حوالے سے خوب کوششیں کرتی نظر آئی وہاں میڈیا نے بھی حکومتی پالیسی کا بھرپور ساتھ دیا. بچوں اور اساتذہ کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے خصوصی آگاہی مہم چلائی گئی، ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے جو ہنگامی انتظامات نظر آئے وہ قابل ستائش ہیں تاہم ان اقدامات میں مزید تیزی لانے کی ضرورت بہرحال موجود ہے کیونکہ پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد 3 لاکھ 21 ہزار سے بھی بڑھ چکی ہے جبکہ ماہرین نے اس تعداد میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کئے ہیں جب کہ سردی میں اس وائرس کے زیادہ تیزی سے متحرک ہونے کی شنید بھی ہے۔ لہذا کورونا ویکسین مارکیٹ میں جب تک نہیںآتی ہمیں احتیاط کو مزید سنجیدگی سے ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔