اداروں کی نا اہلی یا انتظامیہ کا فقدان،موجودہ حکومت بھی خواب غفلت کا شکار

 

کراچی کے علاقے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع سنگرچورنگی تا شاہ فیصل کالونی کو جانے والا روڈ جہاں ہزاروں لوگ شاہراہ فیصل، ایئرپورٹ، ملیر، صدر،نارتھ کراچی،سہراب گوٹھ و دیگر علاقوں میں جانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور انہی راستے پر موجود صورتحال یہ ہے کہ سیوریج کا نظام درہم برہم پڑا ہے۔سنگر چورنگی سے شاہ فیصل جوانے والے روڈ پر نکاسی آب کا حال بہت زیادہ خراب ہے۔ نالے کا پانی باہرسڑک پر آگیا ہے جس کی وجہ سے صبح سے رات تک ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے،اور اسی کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے۔ یعنی سنگرچورنگی سے باغ کورنگی تک کا جو سفر ہے یہاں ٹریفک جام رہتا ہے اور موٹر سائیکل ،کاررکشے اور ہیوی وہیکل اسی گندے نالے کے پانی میں سے اپنی گاڑیوں کو گزارتے ہیں۔ بس انتظامیہ اپنے اعلی افسران سے مجبور ہے اور عوام موجودہ حکومت کی نااہلی سے مجبور ہے مگر کیا کریں جینتا تو ہے اب چاہے نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو ،ویسے تو عوام کی زندگی کے ساتھ ان گنت مسائل ایسے لپٹے ہوئے ہیں کن کن مسائل کا ذکر کیا جائے۔ عوام گھر میں رہے تو پانی،بجلی،گیس کے مسائل نے گھیر رکھا ہے اور اگر عوام ان مسائل سے گھبرا کر گھر سے باہر نکلتی ہے تو باہر سیوریج کا مسئلہ درپیش ہے کوئی گلی کوئی سڑک ایسی نہیں جہاں سیوریج کا سسٹم بدحالی کا شکار نہ ہو۔ اور یہ سڑک جس کے متعلق بات کی جارہی ہے تو یہ مین شاہراہ ہے اور یہاں کا حال تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔مگرکیا کرسکتے ہیں کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح ہمارے سامنے وہی چہرہ لیکر پیش ہوئی جس سے ہم عوام اچھی طرح باخبر ہے۔ اعلی افسران کے کانوں پر نہ تو جوں رینگتی ہے اور نہ وہ ابھی خواب غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔مگر کیا کریں جینا تو ہر حال میں ہے جہاں قدم قدم پر ایک نیا مسئلہ درپیش ہے وہی ایک اور ایسا مسئلہ عوام کو درپیش ہے جس کا ذکر نہ کیا گیا تو یہ مظلوم عوام کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ سنگر چورنگی سے شاہ فیصل 2 نمبر جہاں یہ پل ختم ہوتا ہے اس پورے سفر میں دن کے اجالے میں عوام باحفاظت گزرجاتے ہیں مگر رات کی تاریکی میں گزرنے والی عوام اپنی قیمتی اشیا سے ہی محروم ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں۔۔۔!یہاں خاص مقامات کی نشاندہی کی جارہی ہے ،سنگر چورنگی سے آتے ہوئے راستے میں ایک مزار شریف آتا ہے اسکے بالکل سامنے ایک راستہ اندر گوٹھ میں جاتا ہے یہاں کچھ پولیس اہلکار رات کی تاریکی میں کھرے ہوتے ہیں جو ہر آنے جانے والے شہر کو روکتے ہیں اب یہاں کھڑنے کی کیا وجہ ہے یہ تو وہی جانتے ہیں مگر اکثر و بیشتردیکھا گیا ہے کہ موٹرسائیکل سواروں کو روک کرانکی چیکنگ کی جاتی ہے اور ان سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر بڑی ہیوی وہیکل سے مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ وہ طے شدہ بات ہے کہ رشوت دیئے بغیر یہاں سے آگے نہیں جاسکتے۔ ہماری پولیس کا یہ حال ہے کہ انہیں گورنمنٹ سے تنخواہ نہیں ملتی بس یہ غریب لوگ اپنا گزربسر شہریوں سے رشوت لیکر کرتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ان پولیس اہلکار کی سربراہی ان راہزنوں،ڈکیتوں کو حاصل ہے جو دیدہ دلیری سے شہریوں کو لوٹتے ہیں ، بس انکے ہاتھوں یرغمال غریب عوام ہی بنتے ہیں مگر ڈکیتوں کے یہ رکھوالے ہیں کیونکہ ڈکیتوں کے مال میں انکا بھی حصہ ہوتا ہے۔ یہ توایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے اب اسی روڈ پر آگے چلتے ہیں جہاں سنگر چورنگی سے کورنگی پانچ نمبر کا راستہ ہے۔ یہ اس سے بھی خطرناک ہے کیونکہ سنگر چورنگی پر انڈسٹریل ایریا لگتا ہے مگر یہاں کوئی پولیس اہلکار نظرنہیں آتے۔ ہمارے شہر کراچی کو جو حال ہے اس پر کچھ لکھنا اب محال ہوگیا، کہنے کو تو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہیں اور ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی ڈر اور خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،اب نہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رہا اور نہ ہی روشنیوں کا شہر کراچی رہا،آج عوام کی آہ و بکا کون سنے گا، عوامی مسائل کون حل کریگا، یہ مظلوم اور حالات کے ستائے ہوئے عوام کس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹاکر اپنے مسائل کی روداد کس کو سنائیں، حالا ت کے ستائے ہوئے عوام آج پھرمحمد بن قاسم کے منتظر ہیں کہ اس جیسا مرد قلندرہمارے اداروں میں آکر بیٹھ جائے اور ان اداروں کو چلانے والے مگرمچھوں کو لگام ڈال دے ،کالی وردی میں ملبوس بھیڑیوں کے گلے میں پٹہ ڈالے، تاکہ حالات کے ستائے ہوئے عوام پھر سے اپنا سر اٹھا کر جی سکیں،اپنا کھویا ہوا وقاردوبارہ حاصل کرسکیں۔وہ وقت بھی تھا جب شہر کراچی من امن و امان ،بھائی چارگی اس کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتا تھامگر اب حال یہ ہے کہ جیسے کسی بیوہ عورت کے سرسے چادر اتارکر اس کی عزت کو داغ داغ کردیا ہو بس یہ ہی حال میں کراچی شہر کا ہوگیا ہے۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا،اب بھی وقت ہے ہمارے ادارے کے افسران، موجودہ حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان صاحب اس ملک بالخصوص شہر کراچی سے مخلص ہو کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے عوام خوشحال ہو اور جن مسائل سے دوچار ہے ان سب سے انھیں چھٹکارا مل سکے، ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جب ہماری داستان بھی نہ ملے گی داستانوں میں۔۔۔۔۔!