انڈیا کورونا کے و ار لوگ اپنے عزیزوں کے لیے آکسیجن ڈھونڈتے پھر رہے ہیں

’آکسیجن، آکسیجن، کیا آپ مجھے آکسیجن دلواسکتے ہیں؟’
آج صبح میری آنکھ ایک انتہائی پریشان سکول ٹیچر کی فون کال پر کھلی جن کا 46 سالہ شوہر دہلی کے ایک ایسے ہسپتال میں کووڈ 19 سے لڑ رہا تھا جہاں آکسیجن کی شدید قلت تھی۔
میں خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ایک بار پھر وہی بات دہرائی جا رہی ہے۔ ایک ایسے شہر میں ایک اور دن جہاں اب سانس لینا بہت سوں کے لیے عیش و عشرت میں بدل گیا ہے۔
ہم فون پر لگ جاتے ہیں، ایس او ایس کالز بھیجتے ہیں۔ مانیٹر کی شور کرتی آواز کے درمیان وہ خاتون ہمیں بتاتی ہے کہ اس کے شوہر کا آکسیجن کی سطح انتہائی کم 58 تک چلی گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ 62 ہو جاتی ہے۔ اگر یہ سطح 92 یا اس سے کم ہوجاتی ہے تو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
وہ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ خوش ہیں کہ آکسیجن کی سطح بڑھی ہے۔ اور اُن کا شوہر اب بھی بات کر رہا ہے اور ہوش میں ہے۔
میں ایک ڈاکٹر دوست کو متنبہ کرتا ہوں جو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تعینات ہیں۔
اُن کا مجھے میسج آتا ہے ‘اگر مریض میں یہ سطح 40 تک چلی جائے تب بھی مریض بات کرنے کے قابل رہتا ہے’آکسیجن، آکسیجن، کیا آپ مجھے آکسیجن دلواسکتے ہیں؟”
میں نے اخبار اٹھایا۔ ایک معروف نجی ہسپتال میں شدید بیمار ہونے والے پچیس مریض دم توڑ چکے ہیں۔ہسپتال کے مطابق انتہائی نگہداشت یونٹ میں آکسیجن پریشر کو کم کیا گیا تھا اور بہت سارے مریضوں کو مینیؤل طریقے سے آکسیجن دی جارہی تھی۔
دو مرد اور ایک عورت کی تصویر ہے جن کے لیے ایک ہی سلنڈر کا استعمال ہورہا ہے۔ تین اجنبی افراد – ایک عوام کی لاپرواہی اور حکومت کی غفلت کی وجہ سے آنے والے عوامی سانحے کی لپیٹ میں زندگی کی اس امید کو تھامے ہوئے ہیں۔
دلی کے ایک ہسپتال پر لگا نوٹس جس میں درج ہے آکسیجن دستیاب نہیں مریض داخل نہیں کیے جا سکتے
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان افراد میں سے ایک کا 40 سالہ بیٹا کچھ ہی دن پہلے اسی اسپتال کے باہر بستر کے انتظار میں انتقال کر گیا تھا۔ اگرچہ اسے اسٹریچر ملا تھا رپورٹ میں اس پہلو کا بھی زکر کیا گیا جیسے اس سے کوئی فائدہ ہوا ہو۔
مگر غمزدہ انڈین شہری اس کے لیے بھی شکر گزار ہیں: اگر آپ ہمارے پیاروں کو بچانے کے لیے بستر، دوائیں یا آکسیجن مہیا نہیں کرسکتے ہیں تو،کم از کم ان کی لاشوں کو عزت سے رکھنے کے لیے کچھ فراہم کر دیں۔
جیسے جیسے دن گزرتا جارہا ہے، مجھے احساس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔
آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے مریض مر رہے ہیں۔ ادویات ابھی بھی کم ہیں اور بلیک مارکیٹ میں ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور خوف و ہراس کی حالت میں خریداری کی جا رہی ہے جیسے ہم جنگ کی حالت میں ہیں۔
بہت سے زاویوں سے حالات تو ایسے ہی ہیں۔
صبح کال کرنے والی ٹیچر کا پھر فون آیا۔ ہسپتال میں اضافی آکسیجن فلو میٹر بھی نہیں ہے، لہذا اسے یہ حاصل کرنا ہے۔
ہم فون پر لگ جاتے ہیں، ٹوئٹر پر اپیل کرتے ہیں۔ کوئی شخص آلے کا انتظام کرتا ہے، اس کا استعمال کر کر کے مریض کو سلنڈر سے ملنے والی سپلائی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
حکومت کے بیانات کے باوجود حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ آکسیجن ٹینکر مریضوں کو بچانے کے لیے بروقت شہر وں تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔ بستر نہیں ہیں اور دوائیں بھی کم ہیں۔
یہاں تک کہ انڈیا کے مراعات یافتہ طبقے کو بھی کوئی سہولیات میسر نہیں: ایک میگزین کے مدیر نے دوپہر کے وقت مجھے فون کیا، ایک ایسے بیمار شخص جو اُن کا واقف تھے اُس کے لئے آکسیجن سلنڈر ڈھونڈ رہے تھے۔
اُس اپارٹمنٹ کی عمارت جہاں میں رہتا ہوں وہاں رہائشی کچھ آکسیجن کانسنٹریٹر خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے جس میں کسی کو ‘سانس لینے میں دقت ہو ‘۔ یہاں 57 رہائشی کو وائرس لگ چکا ہے اور وہ اپنے گھروں میں الگ تھلگ رہ رہے ہیں۔.
دلی جہاں انڈیا کی بہترین طبی سہولیات موجود ہیں مگر وہاں کورونا وائرس کی وباء کے باعث انتہائی نگہداشت کے یونٹ 90 فیصد تک بھرے ہوئے ہیں
مریضوں کو اپنی مدد آپ کے سہارے چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ موت کا راستہ پر آہستہ آہستہ سفر ہے۔ کووڈ 19 ایک ایسی بیماری ہے جو اچانک آ لیتی ہے۔
ایک نیوروسرجن پال کلانیتھی نے اپنے دہلا دینے والی آپ بیتی ‘وین بریتھ بیکمز آئیر’ میں لکھا ‘یہاں تک کہ اگر میں مر رہا ہوں تب بھی جب تک موت واقع نہیں ہوجاتی تب تک آپ کو گزارا کرنا پڑتا ہے۔’
انڈیا میں فی الحال ایک مہلک وائرس کے شکار اکھڑتے سانسوں میں تسلی کے لیے کچھ زیادہ نہیں۔
انڈیا، کووڈ، جعلی ڈاکٹر
انڈیا میں ویکسین کے خلاف مہم چلانے والے ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کو روکنے کے لیے میڈیکل سائنس کی حکمت عملی سراسر غلط ہے۔
ایڈ مین اور ریحا کانسرا اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ بسواروپ رائے چوہدری کا کہنا ہے کہ انھوں نے کووڈ 19 سے متعلق اپنے جھوٹے دعوؤں سے کئی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں۔ بسواروپ کہتے ہیں کہ صرف ڈائٹ یعنی غذائی عادات سے کورونا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
تاہم بسواروپ نے خود پر تنقید کے باوجود یہ دعوے جاری رکھے ہیں۔ اپنی ویب سائٹ پر وہ ایک ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’میرے مطابق اکثر اموات کورونا وائرس سے نہیں بلکہ اس کے علاج کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔‘
انڈیا کے اس سوشل میڈیا سٹار، بلکہ سابقہ سوشل میڈیا سٹار، پر کئی پلیٹ فارمز نے پابندی لگا دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ روایتی طب ایک سازش ہے جس کے ذریعے ڈاکٹر اور بڑے کاروبار پیسہ بناتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بیماری سے بچنے میں ادویات مددگار نہیں ہوتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانوں کی ویکسین کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں۔‘
اپنی ویڈیوز میں وہ بتاتے ہیں کہ ان کا تشکیل کردہ ڈائٹ پلان یا نئی غذائی عادات کے ذریعے نہ صرف کووڈ 19 بلکہ ذیابیطس اور ایڈز کا علاج بھی ممکن ہے۔ اس ڈائٹ پلان میں پھلوں اور سبزیوں کی کثیر تعداد ہے۔
تاہم میڈیکل سائنس کے مطابق یہ سب بکواس ہے۔ لیکن اس دوران مسٹر چوہدری نے وبا کو اپنا پیغام پھیلانے کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔
وہ اپنے ماننے والوں کو بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں داخلہ ایک شخص کے مرنے کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ اور یہ کہ کووڈ 19 کا کوئی مریض جسے سانس لینے میں دشواری ہو اسے آکسیجن لینے کے بجائے کسی پنکھے کے سامنے بیٹھنے سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
ناقدین کے مطابق وہ خطرناک فراڈ کر رہے ہیں اور اس کے غلط مشوروں سے انڈیا میں کووڈ 19 کی خوفناک دوسری لہر مزید سنگین ہوسکتی ہے۔
کووڈ، دلی، شمشان
عالمی سطح پر نئے متاثرین کے اعتبار سے اس وقت انڈیا کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے
انڈیا کی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز کے سائنس ایڈیٹر ڈاکٹر سومائیا شیخ کا کہنا ہے کہ ’بسواروپ رائے چوہدری ایک عطائی ہیں۔ کافی سارے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں اور اس لیے وہ کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔‘
ان کی مقبولیت متعدد کتابوں، آن لائن ویڈیوز، کورسز اور براہ راست تقاریب سے بڑھی ہے۔
گذشتہ سال یوٹیوب، ٹوئٹر اور فیس بُک نے چوہدری پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن اس سے قبل وہ اپنے فالوورز کی فوج تشکیل دے چکے تھے۔ یوٹیورب پر ان کے قریب 10 لاکھ فالوورز تھے جب ان کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
آج بھی ان کے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر آفیشل چینل ہیں۔ بسواروپ کے فین ان کی ویڈیوز دیگر جعلی پراکسی اکاؤنٹس کے ذریعے پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔
واٹس ایپ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر کورونا وائرس سے متعلق جعلی معلومات کا پھیلاؤ روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ رابطہ کیے جانے پر ٹیلی گرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔
شہرت کا تحفہ
چوہدری خود کو ایک عام آدمی کہتے ہیں جو سائنس کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑ رہا ہے اور عوام کے ساتھ دھوکے سے پردہ اٹھا رہا ہے۔
وہ زور دیتے ہیں کہ ’کووڈ 19 عام فلو (نزلہ زکام) جیسا ہے۔‘ تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا وائرس اس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔
سائنسی شواہد موجود ہیں کہ ماسک پہننے سے کورونا سے بچا جاسکتا ہے تاہم وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ماسک سے وائرس کا پھیلاؤ نہیں رُک سکتا جبکہ اسے پہننے والے خود بیمار ہوجاتے ہیں۔
اسی سلسلے میں انھوں نے ’ماسک سے آزادی‘ کا نعرہ بنا رکھا ہے۔ شاید اس لیے کہ انڈیا میں بہت سی برادریاں آزادی لفظ سے باخبر ہیں اور ظلم و ستم کے باعث یہ ان کے مطالبات میں

اسی سلسلے میں انھوں نے ’ماسک سے آزادی‘ کا نعرہ بنا رکھا ہے۔ شاید اس لیے کہ انڈیا میں بہت سی برادریاں آزادی لفظ سے باخبر ہیں اور ظلم و ستم کے باعث یہ ان کے مطالبات میں اکثر سننے کو ملتا ہے۔
ماسک، چوہدری
چوہدری کا دعویٰ ہے کہ ماسک پہننے سے لوگ خود بیمار ہوجاتے ہیں تاہم اس میں کوئی صداقت نہیں
انٹرنیٹ پر دستیاب اپنی ایک کتاب (ای بُک) میں وہ ایسے کسی بھی شخص کو ایک لاکھ روپے انعام کی پیشکش کرتے ہیں جو ان کے سامنے یہ ثابت کردے کہ ’ویکسین نے کبھی کسی کی مدد کی ہے۔‘
درحقیقت طبی تحقیق میں ایسی سینکڑوں دستاویزات موجود ہیں جن میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کیسے ویکسینز نے دنیا بھر میں مختلف بیماریوں کو روکنے اور ان کے خاتمے میں مدد فراہم کی ہے۔ تاہم چوہدری اس سب کو رد کرتے ہیں۔
کورونا کا علاج ’ڈائٹ سے ممکن‘ جیسے جھوٹے دعوے
چوہدری نے قریب ایک دہائی قبل یہ پہلی بار یہ متنازع دعویٰ پیش کیا تھا کہ ڈائٹ سے علاج ممکن ہے۔
ان کا کیریئر کافی رنگین رہا ہے۔ انھوں نے بطور انجینیئر ٹریننگ حاصل کی، پھر بالی وڈ میں فلمسازی کی کوشش کی اور خود کو فلم کا سٹار بھی چُن لیا۔
وہ انڈیا اور ایشیا کی بُک آف ریکارڈز کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اس ادارے کو گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز کے طرز پر بنایا گیا ہے لیکن دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
ریسٹ آف ورلڈ نامی ٹیکنالوجی ویب سائٹ میں صحافی نیلیش کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ چوہدری کو اس وقت غذائیت میں دلچسپی ہوئی جب ان کی اہلیہ فلو جیسی بیماری سے ٹھیک نہیں ہو پا رہی تھیں۔
’انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ در در پھرے، ڈاکٹروں کو چیک کروایا اور خود اس کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ پھر وہ خود سب کچھ سیکھنے کی طرف بڑھنے لگے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ریسرچ پیپرز پڑھنے کے بعد ایک ایک جادوئی فارمولا بنا لیا جس میں ناریل پانی، کھٹے پھل اور سبزیاں شامل تھیں۔‘
انڈیا میں آیوروید ادویات سے علاج کی روایت چلی آرہی ہے جس میں کھانے پینے کی اشیا یا جڑی بوٹیوں سے بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
کووڈ 19، ہسپتال، آکسیجن
چوہدری کا دعویٰ ہے کہ آکسیجن لینے کے بجائے کووڈ 19 کے مریضوں کو کسی پنکھے کے سامنے بیٹھ جانا چاہیے
مگر چوہدری نے کئی بار یہ کہا ہے کہ جو لوگ ان کے مشوروں پر عمل کر رہے ہیں انھیں کافی فائدہ ہوا ہے۔
کرسٹوفر کے مطابق ’وہ انڈیا میں سب سے مقبول عطائیوں میں سے ایک ہیں۔ جب کووڈ 19 آیا تو چوہدری نے اعلان کیا کہ یہ فلو جیسی بیماری ہے جس کا علاج تین مراحل میں ڈائٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔‘
وہ مشاورت کی 500 روپے فیس لینے ہیں اور لوگوں کو اپنا ڈائٹ پلان بیچتے ہیں۔
کرسٹوفر بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے آن لائن نیوٹریشن کورسز، سرٹیفیکیشن پروگرامز اور کنسلٹینٹی سروس کے ذریعے ایک وسیع کاروبار تشکیل دیا ہے اور یہی ان کا بزنس ماڈل ہے۔ یہ بدل نہیں سکا، چاہے ان کے سامنے کوئی بھی بیماری ہو۔‘
چوہدری کا کہنا ہے کہ انھوں نے کووڈ 19 سے متاثرہ 50 ہزار سے زیادہ افراد کا علاج کیا ہے اور اس دوران کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ تاہم دلی میڈیکل کونسل کے ڈاکٹر ارون گپتا کہتے ہیں کہ اکثر لوگ وائرس سے صحتیاب ہوجاتے ہیں، چاہے وہ کچھ بھی کھائیں۔
’(یہ ایسا ہے جیسے) اگر آپ 100 مریضوں کی ذمہ داری لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے ان تمام کا علاج کردیا ہے۔ دراصل 97 فیصد تو بغیر کسی مداخلت خود ہی صحتیاب ہوجاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر گپتا کا کہنا ہے کہ اس غلط معلومات کو روکنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ’یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو روکے۔‘
چوہدری اپنے طریق? علاج پر قائم ہیں اور ان الزامات کو رد کرتے ہیں کہ انھوں نے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کیا وہ کوئی ثبوت دے رہے ہیں؟ مجھے نہیں لگتا۔‘
جُرم کا الزام
چوہدری کے خلاف ایک دعوے پر تحقیقات جاری ہیں جس میں ایک فرد کو واقعی نقصان پہنچا۔
دلی میں انجینئر جیدیپ بیہانی نے اگست 2017 میں چوہدری پر اپنی والدہ کی موت کا الزام لگایا تھا۔ بیہانی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی موت کا 100 فیصد قصور وار چوہدری کو قرار دیتے ہیں۔
شانتی بیہانی
شانتی بیہانی ذیابیطس اور دل کی بیماری کے علاج کے لیے دوا لے رہی تھیں
56 سالہ شانتی بیہانی ذیابیطس، دل اور تھائرائڈ کے بیماریوں سے متاثرہ تھیں۔ انٹرنیٹ پر چوہدری کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد انھوں نے سینکڑوں ڈالر خرچ کر اپنی والدہ کو ان کی ایک تین روزہ تقریب پر لے جانے کا فیصلہ کیا جس میں ذیابیطس کا علاج سکھایا جا رہا تھا۔
یہ تقریب دلی میں منعقد ہوئی اور اس میں پہلے ہی دن چوہدری نے شرکا سے مطالبہ کیا کہ اپنی ادویات لینا چھوڑ دیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے پاس ایک ڈبہ ہے۔ اس کا نام میڈیکل اورینج بوکس ہے۔۔۔ ہم تمام ادویات اس میں ڈالیں گے اور اسے لاک کر دیں گے۔ مجھے امید ہے آپ دوبارہ ان ادویات کو نہیں دیکھیں گے۔‘
چوہدری نے شرکا کو بتایا کہ شانتی کی طرح جن مریضوں کی صحت بُری ہے ان کی نگرانی کی جائے گی اور انھیں ضرورت کے مطابق کچھ ادویات دی جائیں گی۔ لیکن نئی غذائی عادات ان کی بنیادی دوا ہوگی۔
چوہدری نے شرکا سے کہا تھا کہ تمام ادویات اس ڈبے میں ڈال کر اسے لاک کر دیں
انھوں نے بتایا تھا کہ ’جب آپ یہ ڈائٹ شروع کریں گے تو آپ ہارٹ اٹیک پروف ہوجائیں گے۔‘
بیہانی متعدد ادویات لی رہی تھیں۔ لیکن یہ سب ادویات انھوں نے اس ڈبے میں بند کردی تھیں۔ اگلے ہی دن انھوں نے شکایت کی کہ ان کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ اور پھر وہ بیہوش ہوگئیں۔
اسی دوران انھیں ہسپتال کے جایا گیا جہاں وہ دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئیں۔
اپنی قانونی چارہ جوئی میں بیہانی چوہدری پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے طبی پیشے سے وابستہ ہونے کا جھوٹ بولا اور جعلی علاج تجویز کیے۔ اور یہ کہ کورس کے دوران انھوں نے ایمرجنسی سہولیات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم چوہدری ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
بسواروپ کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ انھوں نے زیمبیا میں الائنس انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ذیابیطس میں اعزازی پی ایچ ڈی حاصل کی ہے۔
یہ ادارہ اپنی ویب سائٹ کے مطابق افریقہ نہیں بلکہ کیریبیئن میں قائم ہے۔ یہ واحد ڈگری ہے جس کی بنا پر چوہدری خود کو ڈاکٹر کہلاتے ہیں۔ تاہم انھوں نے اس سے متعلق ہمارے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
بیہانی کے الزامات پر چوہدری کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شانتی بیہانی کافی بیمار تھیں اور پان مصالحہ کھاتی تھیں۔ تاہم ان کے بیٹے نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
اس ترجمان کا کہنا تھا کہ کورس کے دوران بیہانی اپنی والدہ کو ان کی ادویات بھی دیتے تھے۔ تاہم بیہانی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
بیہانی کا کہنا ہے کہ ان کے تجربے سے ایسے ہر شخص کو سیکھنا چاہیے جو چوہدری کے مشوروں کی پیروی کرتا ہے۔
’میں اپنی والد کو عمر کے اس حصے میں روز تنہا دیکھتا ہوں۔ میرے بچے اپنی دادی سے محروم ہوگئے ہیں۔ میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتا میں کیا محسوس کرتا ہوں۔‘

اکثر سننے