بلوچستان آج اس نہج تک کیسے پہنچا؟

مجاہد بریلوی
راقم یہاں بلوچستان کی حالیہ مزاحمتی تحریک کی روشنی میں ماضی کے اوراق الٹ رہے ہیں۔
بہرحال، یہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے کو قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی سارے سویلین اور فوجی حکمرانوں نے اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا۔
بلوچستان کو صوبے کا درجہ ہی آزادی کے 23 سال بعد یعنی 1970ء میں ملا اور پھر افسوسناک امر دیکھیں کہ بلوچستان کے عوام کی پہلی منتخب اسمبلی کو اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے محض 8 ماہ بعد ہی فارغ کردیا تھا۔ جس کے بعد بلوچستان میں کم و بیش 4 سال تک ایک طول و طویل جنگ ہوئی، بعد میں شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں جہاں ساڑھے 4 ہزار بلوچ مزاحمت کار مارے گئے وہیں کم و بیش اتنے ہی سیکیورٹی فورسز کے جوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس نقصان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان میں، بلوچوں کی حمایت اور غیرت پر جب جب بندوقوں کی گھن گھرج سے وار کیا گیا تو اس کا جواب بھی اسی زبان میں دیا گیا۔
اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی پہلی منتخب حکومت کے خاتمے، بھٹو دور میں نیپ کے بلوچ، پختون رہنماؤں پر چلنے والے حیدرآباد سازش کیس اور پھر بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح بلوچوں، پختونوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم کا شیرازہ بکھرا اس نے بلوچستان کی تاریخ نہ صرف بدل دی بلکہ یہ ایک ایسی راہ پر گامزن ہوگئی کہ جس کا ہر راستہ ’بند گلی‘ کی طرف جارہا تھا۔
بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کا آغاز تو قیامِ پاکستان کے وقت بانء پاکستان محمد علی جناح کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، جب بلوچستان کی سب سے معتبر اور مقتدر شخصیت خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ جھالاوان کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے تھے۔ مگر اسلحہ اور وسائل کی کمی کے سبب یہ مزاحمتی بلکہ علیحدگی کی تحریک چند ماہ میں دم توڑ گئی۔
آغا عبدالکریم اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ یاد رہے کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔ آغا عبدالکریم افغانستان میں چند ماہ کی دربدری کے بعد پاکستان واپس لوٹ آئے جہاں انہیں برسوں قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلنا پڑا۔
ایک دہائی کے بعد، یعنی 1958ء میں بلوچ ایک بار پھر بغاوت کے لیے آمادہ ہوئے، اور تب خان آف قلات کے تاریخی قلعے پر چڑھائی بھی کی گئی۔ نصف صدی گزر گئی مگر ابھی تک یہ ایک راز ہے کہ پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والے خان آف قلات نے ہمارے روایتی پڑوسی دشمن ملک سے مل کر آزاد بلوچستان کی سازش کی یا پھر وہ خود ایک سازش کا شکار ہوئے؟ اس صورتحال کا تانا بانا اس وقت کے صدر اسکندر مرزا سے مل رہا تھا جو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان سے گٹھ جوڑ کرکے اس سرزمین پر پہلے مارشل لا کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے ’خان آف قلات‘ کی نام نہاد بغاوت محض ایک بہانہ تھی۔
تاہم ’خان آف قلات‘ کے قلعے پر چڑھائی اور ان کی گرفتاری کو بلوچ مزاحمتی تحریک کے قائدین نے تسلیم نہیں کیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ہی بلوچستان کی سیاست کے 4 بڑے نام ابھر کر سامنے آئے۔ میری مراد بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، سردارعطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی سے ہے جن کی کرشمہ ساز شخصیت بذات خود اس وقت ایک تحریک کا روپ دھار چکی تھی۔
1958ء کی یہ وہ تاریخی مزاحمتی تحریک تھی جس میں نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو پاکستانی ریاست میں قرآن کے نام پر پہاڑوں سے اُتارا اور پھر حیدرآباد جیل میں پھانسیوں پر چڑھا دیا۔
نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کی پھانسی نے بلوچستان کے عوام اور پاکستانی حکمرانوں کے درمیان ایک ایسی دیوار بلکہ پہاڑ کھڑا کردیا جسے 6 دہائی بعد بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔ 1958ء کے بعد 1962ء میں ایک بار پھر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں ہی بلوچستان کے جنگجو سرداروں کا ایوبی آمریت سے ٹکراؤ ہوتا ہے مگر یہ دور ذرا مختصر تھا۔
1970ء میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان کو پہلی بار صوبے کا درجہ ملنے سے اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ مزاحمت کار بلوچ جنگجوؤں کو اعتماد میں لے کر ایک ایسی فضا بحال کرتے جس سے علیحدگی پسندوں اور آزادی کا نعرہ لگانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ مگر بھٹو صاحب جیسے سیاستدان بھی اپنی پارٹی میں موجود عقابوں کے سبب ایک ایسی سازش کا شکار ہوگئے کہ جس کا انجام ایک بار پھر طویل خانہ جنگی پر ہوا۔
مگر تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ بلوچوں اور پختونوں کی نمائندہ جماعت نیپ میں ایک ایسا دھڑا تھا جو اسلام آباد کے حکمرانوں سے تال میل رکھنے کے بجائے کابل اور ماسکو سے نظری اور عسکری تعلق رکھنے کو ترجیح دیتا تھا۔ نیپ کی 2 صوبوں میں حکومت ہوتے ہوئے بھی اس پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان اس وقت لندن میں بیٹھے تھے۔ وہ نیپ کے پشاور کنونشن میں اپنے ساتھیوں کے ذریعے یہ بیان جاری کرتے ہیں کہ ‘ان کی پارٹی کا بلوچ گورنر بھٹو کے جال میں آگیا ہے۔ بھٹو ناقابلِ اعتبار ہے اس لیے ہمیں مزید اس کے ساتھ چلنے کے بجائے دونوں حکومتیں چھوڑ دینی چاہئیں ‘۔
پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بلوچوں، پختونوں کی منتخب حکومتوں کا 1972ء میں خاتمہ اور پھر اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور پھر اس کے 56 قائدین پر ’حیدرآباد سازش کیس‘ کا مقدمہ ایسے بڑے سانحات و واقعات تھے جس کے اثرات بعد کے برسوں میں بلوچستان پر اتنے گہرے پڑے کہ ان کا ازالہ آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال نیشنل عوامی پارٹی ایک روشن خیال قوم پرست سیاسی جماعت تھی اور اس کے بلوچستان میں اثرات بڑے گہرے تھے۔
بھٹو حکومت نے مسلسل 4 سال تک نیپ کی قیادت کو حیدرآباد جیل کی کال کوٹھریوں میں نظر بند کیے رکھا اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ نے محرومیوں کے احساس سے بھپرے شدت پسند بلوچ نوجوانوں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دی کہ وہ سرحد پار سے فکری اور عسکری امداد لے کر جہاں معتدل اور ایک حد تک محبِ وطن سرداروں، نوابوں کی جمہوری سیاست کا راستہ بند کردیں وہیں قیامِ پاکستان کے بعد سے چلنے والی گوریلا جنگ کو ہی بلوچستان کی محرومیوں کا واحد حل قرار دے کر اس کی کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔
نواب خیر بخش مری اور میر غوث بخش بزنجو کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی کا احتجاجی مظاہرہ
ہمارے دوست صوفی جمعہ نے حال میں ایک کتاب ‘فریب ناتمام’ لکھی ہے۔ آج کے بلوچستان کی صورتحال کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بہرحال جولائی 1977ء میں جانا اس لیے ضروری ہے کہ جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت نے پاکستان کی سیاست، معاشرت اور دینی رواداری کو ہی ملیامیٹ نہیں کردیا تھا بلکہ بھٹو دشمنی میں نیشنل عوامی پارٹی کی اس قیادت کو تقویت دی جو ایک طویل عرصے سے آزاد بلوچستان اور پختونستان کی خواہاں تھی

نواب اکبر بگٹی اپنی 7 دہائیوں پر محیط سیاست میں ہمیشہ متنازع رہے۔ ان کے مخالفین کی تعداد ہمیشہ ان کے حامیوں سے زیادہ رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ سردار عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کی گوشہ نشینی اور پھر غوث بخش بزنجو کے انتقال نے انہیں 90ء کی دہائی تک آتے آتے بلوچستان کی سیاست میں سب سے اونچے منصب پر فائز کردیا۔
اگر اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نہ آتی تو شاید بلوچستان کا مسئلہ اس سنگین نہج پر نہ آتا۔ میاں نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے دوران بلوچ قوم پرستوں سے مسلم لیگ (ن) کے تعلقات اگر بہت مفاہمانہ نہ تھے تو بہت مخالفانہ بھی نہ تھے۔
1998ء میں جب نواز شریف ایٹمی دھماکا کرنے کوئٹہ سے چاغی گئے تو ان کی گاڑی کو ڈرائیو کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ سردار اختر مینگل کر رہے تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے جو مخاصمت تھی وہ تو سمجھ آتی ہے مگر بلوچستان کا معاملہ دوسرا تھا۔
جنرل پرویز مشرف یہ حقیقت نہ جان سکے کہ مری، مینگل اور بگٹی اور بزنجو کی حامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے حقیقی نمائندے اگر اسلام آباد اور بلوچستان کی پارلیمانی سیاست سے باہر رہے تو پہلے ہی سماجی اور معاشی طور پر محرومیوں کے شکار بلوچوں کے غیض و غضب میں اضافہ ہوگا کہ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں نوجوان تعلیم یافتہ بلوچوں کی وہ پیڑھی بھی تیار ہوچکی ہے، جسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ انہیں خاص طور پر سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ان کی ہی زمین سے نکلنے والے معدنی ذخائر کی آمدنی سے بھی محروم رکھا گیا۔
بلاشبہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے نمائندے کے طور پر جب چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید نے نواب اکبر خان بگٹی سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تو اسے نتیجہ خیز بنایا جاسکتا تھا۔ مگر پھر یہی وہ وقت تھا جب جنرل پرویز مشرف مری کے علاقے میں جلسہ کرتے ہوئے ایک راکٹ حملے میں بال بال بچ گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس کی براہِ راست ذمہ داری مری اور بگٹی پر ڈال دی تھی۔
جنرل مشرف پر اس حملے کے بعد سوئی، کوہلو، اور ڈیرہ بگٹی میں فوجی چوکیوں پر حملوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس دوران ایک حملے میں 19 فوجی اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے جواب میں اکبر خان بگٹی کی رہائش گاہ پر پہلا حملہ ہوا، اور تمام تر فاصلوں اور رکاوٹوں کے باوجود الیکٹرانک میڈیا بھی ڈیرہ بگٹی پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔
برسوں سے میڈیا سے دُور اکبر خان بگٹی کے لیے چینلوں کی اسکرینیں ایک نیا میدان جنگ تھیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کا سرخ و سفید چہرہ جب ٹی وی کی اسکرینوں پر آتا اور ان کی بارعب کاٹتی ہوئی زبان اسلام آباد کی سویلین فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چلتی تو ایسا لگتا کہ بلوچستان ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
مگر حقیقت یہ تھی اس وقت نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ دیگر قبائل تو چھوڑیں خود بگٹیوں کی بھی اتنی تعداد نہ تھی کہ وہ کوئی طویل لڑائی کے متحمل ہوتے۔ ڈیرہ بگٹی کو چھوڑنا نواب اکبر خان بگٹی کی ایک جنگی حکمت عملی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ مری، بگٹی، جنکشن پر جب وہ اپنا مورچہ بنائیں گے تو سارا بلوچستان ان کے پیچھے کھڑا ہوگا۔ نواب صاحب ایک بھرپور عظیم الشان زندگی گزار چکے تھے اور وہ اب خود کو ایک ہیرو اور افسانوی کردار کی حیثیت سے بلوچستان کی تاریخ میں زندہ دیکھنا چاہتے تھے اور پرویز مشرف نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا تھا۔
میر گل خان نصیر، سردار عطا اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو
2013ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی ڈاکٹر مالک بلوچ کی منتخب حکومت نے بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی کمانڈ کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا۔ وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اور نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل خان بزنجو کی حکومت کے ڈھائی سال بجا طور پر بلوچستان کی کرپشن اور حبس زدہ صوبے میں خوشگوار ہوا کا جھونکا تھے، مگر اسلام آباد میں بیٹھی مسلم لیگ (ن) اور ایک حد تک اقتدار میں آنے کے لیے ذرا جلد بازی کا شکار ڈاکٹر مالک کی حکومت وہ غلطی کر بیٹھی جو بہرحال اس کی مجبوری بھی تھی۔ مگر اس کا نقصان مستقبل میں سارے صوبے کو اٹھانا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کے معاہدے کے تحت ڈھائی سال کی مدت پوری کرنے کے بعد روایتی سردار ثنا اللہ زہری مسلم لیگ (ن) کے وزیرِ اعلیٰ بنے تو دراصل یہ واپسی تھی روایتی سرداروں، نوابوں کے طرزِ حکمرانی کی۔ سینیٹ میں صادق سنجرانی کو لانے اور ایک نئی صف بندی کے لیے پیپلزپارٹی جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال ہوئی اور سردار ثنا اللہ زہری کی حکومت کو ختم کرکے قدوس بزنجو کو لے کر آئی، اس کے بعد باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کو تو وجود میں آنا ہی تھا۔ یہ دراصل ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا، جس میں نمائندہ قوم پرست جماعتوں کو پیچھے دھکیل کر اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایسا گھاٹے کا سودا کیا جس کے نتائج اسے مستقبل میں زیادہ سنگین صورتحال میں بھگتنے پڑیں گے۔
سی پیک اور گوادر کی اقتصادی اور جغرافیائی اہمیت کے سبب پاکستانی ریاست کے دشمنوں کے لیے بہرحال بلوچستان اپنے وسیع رقبے اور کھلی مغربی سرحدوں کے سبب ایک سوفٹ ٹارگٹ رہا ہے۔
بلوچستان مسئلہ کیا ہے؟ بظاہر اس سوال کا جواب بڑا صاف اور سیدھا تھا۔
بلوچستان کو جب 23 سال بعد 1970ء میں صوبے کا درجہ ملا تو ایک مختصر سے گروہ کو چھوڑ کر تمام ہی بلوچ قوم پرست سرکردہ رہنما اس بات پر متفق تھے کہ اگر بلوچستان کو حقیقی معنوں میں صوبائی خودمختاری دے دی جائے اور ریاستی امور میں برابر کی بنیاد پر شراکت کا موقع ملے تو بلوچستان کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں کہ اسے حل نہ کیا جاسکے۔
فروری 1973ء میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو سے نواب اکبر خان بگٹی گورنر بلوچستان کے عہدے کا حلف لے رہے ہیں —ڈان/ وائٹ اسٹار آرکائیوز
1948ء، 1958ء، 1962ء اور پھر 1971ء کی سنگین خونریزی کے بعد جب وطنِ عزیز میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو بلوچستان کی نمائندہ سیاسی تنظیم نیشنل عوامی کے مقتدر اور معتدل رہنما میر غوث بخش بزنجو نہیں بلکہ پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کرنے والے مری، مینگل، بگٹی قبائل کے سخت گیر سرداروں اور نوابوں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ 1973ء کے آئین پر ایک نواب خیر بخش مری کو چھوڑ کر بلوچستان کے قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام اراکین نے دستخط بھی کیے اور ریاستِ پاکستان سے وفاداری کا حلف بھی اٹھایا۔
مگر 80ء اور 90ء کی دہائی اور پھر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کے بعد کی حکومتوں نے جو تجربے کیے، ان کی وجہ سے بلوچستان کے مسئلے کو گنجلک اور گمبھیر تو ہونا ہی تھا کہ آنے والے دنوں میں ڈاکٹر مالک بلوچ جیسا کوئی معتدل قوم پرست نمائندہ سامنے نظر نہیں آتا۔
بلوچستان کی حالیہ مزاحمتی تحریک مستقبل میں کتنا خطرہ بن سکے گی، اس کا انحصار اندرون سے زیادہ بیرون پر ہے۔ شاید اسی لیے گریٹر بلوچستان کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ اس خطے کے بڑے کھلاڑی، حتیٰ کہ روایتی دشمن بھارت بھی ایک نیا بنگلہ دیش بنانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ بات بھی اسلام آباد میں بیٹھے سویلین حکمرانوں کو یاد رہے کہ کوئٹہ میں بیٹھی باپ میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ ان حریت پسند بلوچوں کا نہیں کہ جو غلام بن کر رہیں، چاہے غیروں کے یا اپنوں کے۔
سہیل یوسف
اس وقت بلوچستان کے اکثر حصے خشک سالی سے متاثر ہیں لیکن اب تک ہماری پاوری ہورہی ہے جو ختم نہیں ہوپارہی۔ اور دوسری جانب سینیٹ انتخابات میں ضمیر فروشی کے چرچوں، سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے عدم برداشت اور ٹویٹر پر شرمناک ٹرینڈز کا چرچا ہے۔ روایتی میڈیا کو ہوش کہاں کہ بلوچستان کا نوحہ پڑھے۔ اس کی آنکھوں کا ٹیسٹ کرایا گیا تو اسے بلوچستان میں سونا چاندی، پیتل اور تیل توخوب نظر آیا لیکن بھوک، بیماری اور ناخواندگی سے مجروح بلوچستان کے باشندے اسے دکھائی نہیں دیتے۔ پھر سی پیک کے ثمرات بھی بلوچستان سے ابھی بہت دور ہیں اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو واشک کے لوگوں کے دن بدلیں گے بھی یا نہیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ آب وہوا میں تبدیلی ہے اور اس بلا کا انگریزی نام کلائمیٹ چینج ہے۔ اس وقت بلوچستان میں دو برس سے بارشیں نہیں ہوئیں۔ ہرموسم کا رنگ شدید ہوگیا ہے۔ سردی اذیت ناک ہوجاتی ہے تو کبھی بارش سیلاب میں ڈھل جاتی ہیں۔کہیں گرمی غضب ڈھاتی ہے تو کبھی بارشیں روٹھ جاتی ہیں۔ یہی وہ موسمیاتی شدت ہے جس نے پورے پاکستان کو اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن واچ کے مطابق پاکستان کلائمیٹ چینج سے متاثرہ سات بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اب اسے بلوچستان کے کئی اضلاع کے چرواہے اور کسان بھی جھیل رہے ہیں لیکن وہ اس کی سائنس سے ناواقف ہیں کیونکہ انہیں اپنی بقا کی فکر لاحق ہے۔
پہلے پیاز اور کپاس کی فصلیں کمزور ہوگئی تھیں۔ اب بارش نہ ہونے سے کھڑی گندم میں کیڑے مکوڑے امڈ آئے ہیں جسے اب جانور کھا رہے ہیں۔ ہر موسم نے شدت دکھائی جس سے زراعت تباہ ہوچکی ہے۔اگر دو تین ماہ یہ سلسلہ جاری رہا تو بے زبان مویشیوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور بربادی اپنی انتہا پر ہوگی۔مقامی کسان حمل رودنی سے جب ٹیوب ویل کی تنصیب کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اول تو علاقے میں بجلی کی فراہمی میں غیرمعمولی تعطل ہے اور حکومت نے 2007 سے ٹیوب ویل اور بجلی پر سبسڈی ختم کردی ہے۔ رہا سوال شمسی بجلی گھر کا، تو ایک ٹیوب ویل چلانیکیلئے15 سے 16 لاکھ روپے درکار ہیں، جو عام کسان کی سکت سے باہر ہے۔ اس گاؤں میں 40 سے 50 گھرانے ہیں اور چند زمینوں پر ہی شمسی سیل نصب ہیں۔ مارچ میں محکمہ موسمیات نے اس سال ماہ جنوری کو 1961 کے بعد سے سترہواں خشک ترین مہینہ قرار دیا ہے۔ اس کا اثر بلتستان سے لے کر بلوچستان تک میں بالخصوص زراعت پر نمایاں رہا۔ لیکن بلوچستان میں یہ مظہر عروج پر تھا جہاں موسمِ سرما کی بارشیں سب سے کم رہیں۔ تاہم موسمیاتی ماہر، سردار سرفراز نے کہا کہ مارچ میں بارش ہوسکتی ہے اور پنجاب میں اس کا اثر دیکھا گیا ہے لیکن بلوچستان اب بھی پیاسا ہی ہے۔
واشک کے ایک اور دیہات کے رہائشی نبی بخش نے بھی خشک سالی سے متاثرہ گندم کی برباد ہوتی ہوئی فصل کا نوحہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ میرے کھیت میں ٹیوب ویل تو ہے لیکن اسے چلانیکیلئے درکار بجلی نہیں۔تاہم انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے دیگر زرعی علاقوں میں عین یہی صورتحال ہے۔علاقے میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور مریضوں کو کوئٹہ یا کراچی لے جانا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر نصیب میں شفا ہو تو ٹھیک ورنہ واشک میں ہی اس بیمار کی قبر بنتی ہے۔ حمل رودنی اور نبی بخش نے مقتدر حلقوں سے کہا کہ علاقے کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ انہوں نے ٹیوب ویل کی تنصیب میں حکومتی مدد، بجلی میں سبسڈی اور سولر پاور پلانٹ پر بھی زور دیا۔ تاہم نبی بخش نے علاقے میں ڈیم کی تعمیر کی تجویز بھی دی ہے۔لیکن یہاں میں پلاٹ پر جھپٹنے، سرکاری خرچ پر حج کرنے اور ایک ہی موضوع پر دس دس پروگرام کرنے والے اینکروں سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ بلوچستان کے مسائل پر لب کشائی کب کرو گے؟مارگلہ پہاڑیوں کے غاروں کے غلام منصوبہ سازو تمہیں تڑپتا بلکتا بلوچستان نظر کیوں نہیں آتا؟ طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں تم بلوچستان کب جاؤگے؟کب؟ جب بلائیں بلوچستان کو چاٹ جائیں گی۔
۔