صحافت کا عالمی دن اور پاکستان میں صحافت

وارث پراچہ
دنیا بھر میں یوم آزادی صحافت منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد کسی دباؤ کے بغیر آزاد اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچانا ہے۔ آزادی صحافت کا آغاز 1991سے نمیبیا سے شروع ہوا۔ 29 سال سے آزادی یوم صحافت منایا جا رہا ہے لیکن آج بھی صحافی کو خطرات لاحق ہیں۔
اکتوبر 2010 میں وکلا ایوان عدل میں اپنے ساتھی وکلا کی گرفتاری کو بنیاد بنا کر سراپا احتجاج تھے۔ اسی اثنا میں میڈیا ٹیمیں بھی وہاں پہنچیں اور رپورٹنگ کا آغاز کیا۔ دوران رپورٹنگ جیو نیوز کے سینئیر رپورٹر احمد فراز وکلا کی جانب سے زد و کوب ہوئے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ وکلا کا منفی چہرہ دکھا رہے ہیں۔
احمد فراز کا کہنا ہے کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور ان کی تضحیک کی گئی۔ ان کا بتانا ہے کہ 2010 میں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعے کو گزرے نو برس ہو گئے ہیں لیکن تاحال کیس سرد خانے کی نذر ہے۔
لاہور میں بھی ایسا شرمناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں صحافیوں پر تشدد کیا گیا۔ کیمرہ توڑ دیا گیا، تضحیک آمیز جملے کسے گئے. اسی تناظر میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے احمد فراز نے بتایا کہ بد ترین تشدد اور گالم گلوچ کے بعد میں اب بھی صحافی ہوں اور آئندہ بھی اپنا کام دل جمعی کے ساتھ سر انجام دیتا رہوں گا۔انہوں نے بتایا تشدد کا مقدمہ ایف آئی آر نمبر 10/1035 کے تحت دو اکتوبر 2010 کو تھانہ اسلام پورہ لاہور میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں 392، 506، 337 سمیت 148 اور 149 کی دفعات شامل کی گئیں۔ مقدمہ تھانہ اسلام پورہ کے ایس آئی مختار احمد نے درج کیا۔
انہوں نے بتایا کہ کیس نو سال سے عدالت میں ہے لیکن اس پر سماعت نہیں ہوتی لہذا کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ احمد فراز کا بتانا ہے کہ کام میں مصروفیت کے باعث انہیں عدالت جانے کے لئے کافی پریشانی کا سامنا رہا۔ انہوں نے بتایا انہیں کسی قسم کی دھمکی نہیں دی گئی لیکن اس وقت کے بار کے صدر ساجد بشیر نے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جھگڑنے والے وکلا سے صلح صفائی کر لیں یہ ہمارے دوست ہیں۔ انہوں نے بتایا بار کا صدر ہونے کے ناطے ساجد بشیر نے انہیں صلح کی پیشکش کی تھی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ تشدد کے بعد ان کا مورال کم ہوا لیکن جلد ہی اس حالت پر انہوں نے قابو پا لیا۔ کیس کے متعلق موجودہ صورتحال پر انہوں نے بتایا کہ اب فریقین کی جانب سے کیس ختم کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے احمد فراز کے بھائی سرفراز نے دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد سارا خاندان سہم گیا تھا۔ بچے ڈرے ہوئے تھے اور اپنے والد سے گھر سے باہر نہ نکلنے کا مطالبہ کرتے تھے۔
کیمرہ مین حنان بھی اس روز تشدد کا شکار ہوئے، ان کا کہنا ہے انہیں متعدد بار فرائض سر انجام دیتے ہوئے اس طرح کی کشیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا 50 ہزار مالیت کا کیمرہ بھی توڑا گیا جس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ نقصان کے ازالے کے لئے انہوں نے ایف آئی آر 10/1035 درج کروائی۔
اسی واقعے میں زخمی ہونے والے روزنامہ جنگ سے منسلک صحافی شیراز نے دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اس لئے زد و کوب کیا گیا کہ وہ آئینہ کیوں دکھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافی ایک ہی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ یہ کہ وہ سچ دکھانیپر سمجھوتہ کر لے۔ مبادہ صحافی کو چاروں اطراف سے خطرات کا ہی سامنا ہے.ان کے بیٹے کا بتانا تھا کہ ہم ان کو تلقین کرتے ہیں کہ ایسے حالات سے بچنے کی کوشش کیا کریں۔ رپورٹنگ کرتے ہوئے اس طرح کے اشتعال پھیلانے والے عناصر سے دور رہا کریں۔
رپورٹرز ساں فرنٹئرز(آر ایس ایف) کی جانب سے بنائی جانے والی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2017 کی 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پی پی ایف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2002 سے 2019 تک یعنی گزشتہ 17 برسوں میں 48 صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے جبکہ 24 کو کام کے دوران قتل کیا گیا، 171 کو شدید جبکہ 77 کو معمولی زخمی کیا گیا، 26 صحافیوں کو اغوا جبکہ 26کو حراست میں لیا گیا۔ 32 میڈیا ہاو?سز پر حملہ کیا گیا۔ 30 لوگوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ 2002 سے لیکر 2019 تک ٹوٹل 699 تشدد کے واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ ان صحافیوں کے قاتل ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں اور آزاد پھر رہے ہیں۔
ہائی کورٹ کے سینئیر وکیل عمران قیصر بٹر کا بتانا ہے کہ صحافی اور وکلا کی اخلاقی تربیت ہونی چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ حادثہ اچانک ہوتا ہے جس کی وجہ سے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کے بقول تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو ان کو کوئی وکیل ہی نہیں ملتا۔ وکیل ملنے کی صورت ڈر کے مارے وہ عدالت نہیں جا پاتے۔ یعنی ہر صورت میں صحافی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دنیا میڈیا گروپ کے ایڈیٹوریل بورڈ سے منسلک سینئیر ایڈیٹر کاظم جعفری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ تین چار عشروں میں میڈیا انڈسٹری نے خوب ترقی کی ہے‘ لیکن بد قسمتی سے میڈیا ورکرز ترقی معکوس کی جناب گامزن ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کا ایک ایسا طبقہ ہے جو یا تو بہت معمولی مشاہرے پر کام کرتے رہے ہیں یا بغیر کسی معاوضے کے، علاوہ ازیں ان دنوں کار زار صحافت میں ورکرز کے تحفظ کی طرف بھی میڈیا مالکان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
پی پی ایف کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے قتل میں ملوث صرف پانچ افراد کو سزا دی جا سکی ہے۔ جن میں سے دو صحافیوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ ایوب خان خٹک کے قاتل کو عمر قید اور 0.5 ملین روپے جرمانے کی سزا جبکہ ولی خان بابر کیس میں ملزم کو سزائے موت سنائی گئی۔ تاہم سزا کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
پی ایف یو جے کے صدر رانا محمد عظیم کا کہنا ہے کہ 10 اکتوبر 2010 کے واقعے کے بعد ہم نے سخت رد عمل دیتے ہوئے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔ بعد ازاں بار کونسل کے عہدیداران نے وفد کی شکل میں ہم سے ملاقات کی۔ تاہم اس معاملے کو وقتی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا آمر کے دور میں زیادہ آزاد تھا بہ نسبت موجودہ جمہوری دور کے۔
لاہور پریس کلب کے قائم مقام صدر ذوالفقار مہتو کا کہنا ہے کہ پریس کلب کی جانب سے ہمیشہ ایسے فعل کی مذمت کی گئی ہے جو آزادی صحافت میں رکاوٹ بنا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی اور مقدمے کے اندراج تک سراپا احتجاج رہے۔
عرب نیوز سے منسلک ڈاکٹر رضوان صفدر کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک یا بالخصوص ایسے ممالک جہاں پر سکیورٹی اداروں کا عمل دخل ذیادہ ہے وہاں صحافی محفوظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سچ بات کرنے والوں کے تحفظ کا بند و بست کرے۔ مگر جب ریاست ہی ان عوامل میں شامل ہوگی تو معاملات الجھتے ہی ہیں۔
صوبائی وزیر اطلا عات و نشریات صمصام بخاری کا دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم دو بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اول: ہم میڈیا ہاؤسز کے ساتھ مل کر صحافیوں کے تحفظ پر کام کریں گے، دوم:ہم صحافیوں کی تربیت کروائیں گے کہ اگر انہیں کسی کشیدہ ماحول میں رپورٹنگ کرنی پڑے تو انہیں پتا ہو کے اپنے آپ کو کیسے تحفظ دینا ہے۔ صوبائی وزیر اطلا عات و نشریات نے کہا کہ اس کے علاوہ اور بھی منصوبے ہیں لیکن ان کے بارے میں ابھی نہیں بتایا جا سکتا۔
شعبہ ہائے زندگی میں صحافت مشکل ترین پیشہ ہے جس میں نیوز سٹوری، رپوٹنگ، نیوز ایڈیٹنگ، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور پرنٹنگ سمیت ہر کام انتہائی محنت طلب ہوتا ہے۔ جب ساری دنیا سوتی ہے تو صحافی جاگ کر اپنی قلم چلاتے ہیں۔ جب ایک صحافی عوام کو آگاہی دینے کے لئے حقائق سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
گزشتہ کئی عشروں سے صحافت اور صحافتی ادارے جبر کا شکار ہیں، عالمی سطح پر مخصوص ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، جو خلاف ورزی کرتا ہے، منظر عام سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود آج بھی نظریاتی صحافی اور ادارے آزادی اظہار اور حرمت قلم کیلئے سر بکف ہیں۔ پاکستانی میڈیا اور میڈیا سے وابستہ وہ ورکنگ جرنلسٹ ہوں یا وہ مالکان جنہوں نے صحافت کو بطور کیریئر اختیار کیا، اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود آزاد صحافت کے علم کو تھامے ہوئے ہیں، انہی کے عزم اور حوصلوں نے سچائی جاننے اور عوام کے سامنے حقائق پیش کرنے کے مشن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ بلاشبہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے جو باقی تینوں ستونوں، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو بھی طاقت مہیا کرتا ہے، اس طرح ریاست کی عمارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔
صحافی نہ صرف عوامی مسائل اورانتظامی اداروں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور سچ کی کھوج لگا کر اسے عوام تک پہنچاتے ہیں بلکہ حکومت اور رعایا کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں، اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران بعض اوقات لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں صحافت سے وابستہ ایسی تمام شخصیات کو جنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے وقت کے جابر حکمرانوں کے تمام مکروہ عزائم کو ناکام بنایا۔
بلاشبہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا وہ آئینہ ہے جس میں کرپٹ عناصر اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور پھر اپنا عمل اور کردار درست کرنے کی بجائے آئینہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ صحافتی اداروں کو مالی گزند پہنچا کر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا کوئی نئی بات نہیں، آمریت ہو یا جمہوریت ہر دور کے حاکموں نے صحافت کی آزادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمرانوں کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ صرف اپنی شان میں قصیدے پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ آمریت منتخب حکمرانوں کے بھی خمیر میں رچ بس گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی تنقید بھی انہیں گراں گزرتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اقتدار میں آتے ہی بیحد گراں گزرتی تنقید کو کنٹرول کرنے کے لیے، قومی خزانے کے پیسے بچانے کا نعرہ لگا کر اشتہارات بند کر کے میڈیا ہاوسز اور اشاعتی اداروں کو شدید مالی نقصان پہنچایا جس سے ملک بھر میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد بے روزگار ہونا شروع ہوئے۔ آج پوری میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہے، اشتہارات کم ہونے اور فنڈز نہ ملنے کے باعث اخبارات اور چینلز بند ہورہے ہیں اور صحافی بیروزگار ہورہے ہیں۔ اپنی تمام عمر شعبہ صحافت میں گنوا کر صحافتی تجربہ پانے والے یہ افراد آخر کہاں جائیں گے، ان کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ اس صورتحال پر ملک بھر سے صحافی معاشی حقوق اور آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی تشکیل دینے پر زور دے رہے ہیں۔
تین مئی کے دن دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن”ورلڈ پریس فریڈم ڈے“ منانے کا مقصد پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات، مسائل اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ آج اگر ہم تحمل سے اس بات پر غور کریں تو انتشار اور بحرانی صورتحال میں صرف اخبارات ہی ہیں جو دیانت داری سے خبر کو سیاق و سباق کے عین مطابق ریٹنگ، بریکنگ نیوز کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر حقائق کی جانچ پرکھ کے بعد شائع کرتے ہیں اور نامساعد حالات میں بھی اپنی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی صحافی برادری نے ہمیشہ جمہوریت کی ترویج اوراستحکام کے لئے جدوجہد کی ہے اور عدم تحفظ کے احساس کے باوجود بھی سربکف صحافی عوام کو حق اور سچ سے باخبر رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ حکومت کو صحافیوں کے مسائل کے حل اور ان کے معاشی مستقبل کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لانا چاہئیں۔