پولیو کا خاتمہ۔۔۔۔اجتماعی ذمہ داری

محمد احمد
صحت مند نسل ہی کسی بھی ملک و قوم کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مہذب دنیا میں زچہ و بچہ کی صحت پر بھرپور توجہ دینے کے ساتھ بچے کی پیدائش کے بعد اسکی صحت مندانہ طریقے سے پرورش پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، یہی صحت مند بچے کل کو صحت مند جسم اور دماغ کے ساتھ قوموں کو ترقی و کامیابی کی منازل طے کرواتے ہیں۔ یوں تو انسان کو ہمیشہ سے ہی مختلف وبائی امراض کا سامنا رہا ہے لیکن اس نے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں سے بیشتر پر قابو پا لیا۔ گزشتہ صدی کی بات کی جائے تو انسان نے جدید ریسرچ کی بدولت جن بیماریوں پر قابو پایا ان میں ایک نہایت خطرناک مرض پولیو بھی ہے جو پانچ سال تک عمر کے بچوں کو لاحق ہوتا ہے اورانہیں زندگی بھر کیلئے معذور بنا دیتا ہے تاہم بدقسمتی سے کرہ ارض پر پاکستان دنیا کے ان دوممالک میں شامل ہے جہاں ابھی تک پولیو کا سو فیصد خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ان ممالک میں افغانستان بھی شامل ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں سنہ 2020 میں ڈبلیو پی وی کیسز 84 اور ویکسین ڈرائیو پولیو وائرس ٹو 83 سامنے آئے اور رواں صدی کی دوسری دہائی میں یہ مرض ایک بار پھر تیزی سے پھیلا اور بڑی تعداد میں بچے اس مرض سے متاثر ہوئے۔ حکومت نے اس چیلنج کو قبول کیا، حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کی شبانہ روز محنت کی بدولت صوبہ پنجاب میں صورتحال نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے۔صوبہ پنجاب میں گزشتہ سال 2020 میں 14 کیس رپورٹ ہوئے۔ ضلع قصور جو کہ طویل عرصہ سے پولیو فری ہے اس ضلع کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ان اضلاع کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں پولیو وائرس کے پھیلنے کے خطرات کم ترین ہیں، پاکستان کی دیگر اکائیوں کی بھی پولیو کے خاتمہ کیلئے جدوجہد سے انکار ممکن نہیں۔
ملک سے پولیو کے خاتمہ کیلئے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے حکومت پاکستان نے سال 2020 کے دوران 7 قومی انسداد پولیو مہمیں چلائیں جبکہ رواں سال کی دوسری انسداد پولیو مہم 29 مارچ سے شروع ہوئی اور 02 اپریل تک جاری رہی۔ ضلع قصورمیں بھی انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے تمام وسائل برؤے کار لائے گئے۔ ضلع بھر میں 5لاکھ 41ہزارسے زائد پانچ سال تک عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کیلئے 3444 پولیو ورکرز تعینات کئے گئے۔ ان صحت محافظ ٹیموں نے گھر گھر جا کر، فکسڈ اور ٹرانزٹ پوائنٹس پر بچوں کوپولیو کے قطرے پلائے۔ مہم کے دوران لاری اڈا جات، مین داخلی راستوں اور دیگر اہم ایریا میں کیمپ لگائے گئے۔علاوہ ازیں تمام ہسپتالوں میں پولیو ڈیسک بھی قائم کئے گئے جہاں پر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔
پولیو کے اسباب پر نظر ڈالی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیو کا مرض ایک خطرناک وائرس سے پھیلتا ہے جو بچوں میں قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے انہیں زندگی بھر کیلئے معذور بنا دیتا ہے۔ پولیو وائرس جسم کا ایک وائرل انفیکشن ہے جو پیرا لائیز اور سانس لینے میں مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیو کو کنٹرول کرنے کیلئے باقاعدہ بار بار مہمیں چلائی جاتی ہیں تاکہ حملے سے پہلے اس وائرس کو روکا جا سکے۔پاکستان کو پولیو فری بنانے کیلئے حکومتی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر بھی ہمیں ازبر ہوچکی ہیں۔ عوامی سہولت کیلئے پولیو کے قطروں کی با آسانی ہر گھر تک فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ مزید سہولت کیلئے محکمہ صحت کی موبائل ٹیمیں بھی تشکیل دی جاتی ہیں جو گھر گھر جا کر پانچ سال تک کی عمر کے چھوٹے بچوں کو حفاظتی قطرے پلاتی ہیں۔حکومت کی جانب سے ان تمام اقدامات کے باوجود بعض لوگ اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر اپنے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکاری ہوجاتے ہیں، ان کا یہ عمل معصوم بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے دو چار کرسکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے پاکستان کو پولیو فری بنانے کیلئے مسلسل سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں اور تسلسل کے ساتھ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے کی مہم بھی جاری رہتی ہے تاکہ ملک پاکستان کو پولیو فری بنایا جاسکے اور ہماری آئندہ نسلیں معذوری سے محفوظ رہ سکیں۔نوٹ: ادارے کا قلمکار کے خیالات اور پیش کردہ مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔