کیا آپ کورونا حملے کا انتظار کررہے ہیں؟

محمد عمران
اکثر پاکستانیوں کی طرح ہمارے خاندان والوں کا خیال تھا کہ کرونا وائرس کا وجود نہیں ہے، اوراگر ہے بھی تو یہ ہم پاکستانیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اسی لیے ہمارے ہاں ماسک کے استعمال کو فضول سمجھا جاتا تھا، ماسک لگانے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، (میرے ساتھ کام کرنے والے بھائی عبدالرحمن جو حال ہی میں پاکستان سے لوٹے ہیں،فرمارہے تھے کہ پاکستان میں قیام کے دوران نے انہوں نے ماسک کا استعمال نہیں کیا، مگر کیوں؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ کیوں کہ ابوظہبی میں میں نے انہیں بغیر ماسک کبھی نہیں دیکھا، بولے کہ وہاں پرماسک استعمال کرنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے) میرے محلے کی مسجد میں نہ صرف نماز کا اہتمام بغیر سماجی فاصلے کے ہوتا تھا بلکہ ماہانہ محفل جس میں زردے اور پلاو کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے پورے جوش جذبے سے منعقد ہوتی تھی، احباب کی خوشی غمی میں بھرپور شمولیت کی جاتی جیسے دنیا بھر میں جولوگ کورونا کا شکار ہورہے ہیں یہ کسی اور سیارے کی باتیں ہیں، اور وہ سب جو اس وقت اہل پاکستان کی اکثریت کررہی ہے۔یہ شائد ایسے ہی چلتا رہتا مگر پھر یوں ہوا کہ ہمارا کزن وکی کورونا کا شکار ہو گیا، وکی نے میرے خاندان والوں کو جگا دیا تادم تحریر وکی کو آکسیجن بیڈ پر ایک ہفتے سے زائد ہوچکا ہے، مگر ہمارے ہاں ماسک کا استعمال اور دیگر ضابطوں پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ اگر یہ سب کچھ حکومت کی ہدایت پر شروع ہوچکا ہوتا تو آج وکی آکسیجن بیڈ پر نہ ہوتا۔آج ہماری کوتاہیوں کی بدولت کئی وکی کورونا کا شکا ہوچکے ہیں۔ کیا آپ بھی ہسپتال کے بستر کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا اس کے بغیر ہم احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے؟ دراصل ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جسے جگانے کے لیے حادثے کی ضرورت ہوتی ہے، ہم تو ریلوے کا پھاٹک اس وقت تک نہیں لگواتے جب تک حادثہ نہ ہوجائے۔ دنیا بھر میں سڑکوں اور پلوں کی زندگی مقرر کی جاتی ہے، اس مدت کے ختم ہونے پر چاہے وہ درست حالت میں کیوں نہ ہو اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں پل اس وقت تک زیر استعمال رہتے ہیں جب تک وہ زندگیاں لینا شروع نہ کردیں۔
آپ اندازہ کیجیے کہ دنیا بھر میں 128540982 افراد کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، 2808308 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور ہم کورونا کو حقیقت ماننے سے انکاری ہیں۔ ہم اسے میڈیا کا شورو غوغا سمجھ رہے ہیں، جو کفار کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور عوام کو گمراہ کررہا ہے۔ دنیا بھر میں 547727346 ویکسین کی خوراکیں دی جا چکی ہیں مگر ہم سمجھ رہے ہیں کہ کفار اس ویکسین کے ذریعے ہمارے جسموں سے ایمان نکالنے کی سازش کررہے ہیں۔ کون سا ایمان، وہی ایمان جو اس قدر مضبوط ہے کہ پانچ وقت نماز پر تو کھڑا نہیں کرسکتا، جو اس قدر مضبوط ہے کہ ہم بیت اللہ کے اندر مسلمان ہی حاجیوں کی جیبیں کاٹ رہے ہوتے ہیں، وہی ایمان جس کی بدولت ہم عشق رسول ﷺ میں جان دینے کو تیار ہیں مگر تاجدار مدینہ حضرت محمدﷺ کی احادیث پر عمل کرنا ہو تو مولوی صاحب سے درمیانی راہ نکالنے کی درخواست کر رہے ہوتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے پانی سر سے گزر جائے اور ہمارا جاگنا بیسود ہوجائے ہم جاگ جائیں، خدانخواستہ ہم پر وہ وقت آجائے کہ ہم آفس جانے کی بجائے ہسپتال جائیں، ہمارا کوئی وکی کورونا کا شکار ہوجائے اور ہم خواب غفلت سے جاگیں۔ بہتر ہے کہ ہم کورونا کو حقیقت مان کر حکومت کی ہدایات پر عمل شروع کر دیں کیونکہ وطن عزیز میں صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جارہی ہے، تازہ ترین صورتحال کے مطابق 20000 سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں، اموات کی شرح ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اس لیے اگر دل نہ مانے تب بھی حکومت کی ہدایات پر اللہ کا حکم سمجھ کر عمل کریں کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ:- (مفہوم)اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرواور جو تم میں حاکم ہے اس کی اطاعت کروتاجدار مدینہ، راحت وقلب و سینہ وجہہ وجود کائنات، حضرت محمد ﷺ کا فرمان عالیشان:- (مفہوم)سنو، اور مانو اگر تم پر حبشی غلام جس کا سر کشمش کی طرح پچکا ہوا ہومسلط کر دیا جائے۔آئیے ہم عہد کریں نہ صرف یہ کہ خود کرونا سے بچیں گے بلکہ اپنے اردگرد موجود افراد کو بھی اس بات پر قائل کریں گے کہ حکومت وقت کی ہدایات پر عمل کریں، تاکہ وطن عزیز کو کرونا سے پاک کیا جاسکے۔
افشاں صبوحی
50 سالہ فریدہ ایک گھریلو ملازمہ ہیں۔ وہ رمضان کے مہینے میں لازماً 15 روز کی چھٹی لیتی ہیں چاہے اس کے لیے آدھی تنخواہ کی بھی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ وبا کے خطرات کے باوجود بھی وہ شہر بھر میں گھوم کر اپنے سابقہ آجیر اور فلاحی اداروں کا چکر لگائیں گی۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’لمبی لائنوں میں لگنے کے لیے بہت صبر چاہیے ہوتا ہے لیکن، آخر میں اس صبر کا پھل بھی مل جاتا ہے۔ میں اس دوران کھانے کی اشیا، کپڑے اور اتنی رقم جمع کرلیتی ہوں جو میری 2 ماہ کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے، اور یوں میں عید کے لیے کچھ تیاریاں کر لیتی ہوں‘۔
فریدہ کے 7 بچے ہیں اور 12 پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ فریدہ کے شوہر ایک مزدور تھے۔ وہ بہت پہلے ایک کثیر المنزلہ سے گر کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کے 3 بیٹوں میں سے ایک کباڑی کا کام کرتا ہے، ایک بیٹے کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا اور ان کے سب سے بڑے بیٹے کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ ان کی 3 بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ وہ اپنے مرحوم بیٹے کی بیوہ، اس کے 2 بچوں، اپنے بڑے بیٹے اور غیر شادی شدہ بیٹی کی کفالت کرتی ہیں۔
امید کی جارہی ہے کہ اس رمضان میں صدقات اور خیرات میں اضافہ ہوگا اور اس سے غریب طبقے کو عارضی ہی ٹھیک لیکن کچھ آرام ضرور پہنچے گا۔ اس کے علاوہ فلاحی اداروں اور تنظیموں کو ملنے والے عطیات میں بھی اضافے کی امید کی جارہی ہے۔ گزشتہ رمضان ملک میں تقریباً 150 ارب روپے کے عطیات دیے گئے تھے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس سال یہ 10 فیصد اضافے کے ساتھ 165 ارب روہے تک پہنچ جائیں گے۔
دی سیٹیزن فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) کے چیئرمین احسن سلیم نے عطیات میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس وبا نے سب کو ہی متاثر کیا ہے۔ اپنے قریبی حلقوں میں ہونے والے نقصان اور موت کا خوف لوگوں میں ہمدردی کا جذبہ ابھارتا ہے‘۔
بشیر علی محمد ایک بڑے کاروباری ہیں۔ وہ کورونا کے اثرات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’موجودہ صورتحال ہمدردی کی متقاضی ہے۔ عطیات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس سال جمع ہونے والے عطیات شاید ماضی کی نسبت سب سے زیادہ ہوں۔ غربت اور مہنگائی نے عام آدمی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کی ہر ممکن مدد کریں‘۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں ماہِ رمضان کے دوران سب سے زیادہ عطیات دیے جاتے ہیں۔ فلاحی کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے ملک بھر سے سالانہ بنیاد پر جمع ہونے والے عطیات کا نصف اسی ماہ میں جمع ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ممکنہ معاونین تک رسائی کے لیے بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم چلائی جاتی ہیں۔ یہ معاونین وہ افراد ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مناسب اداروں یا افراد کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی ایک دینی فریضہ ہے۔ ہر وہ شخص جو زکوٰۃ دینے کا اہل ہے وہ اپنے مال کا ڈھائی فیصد حصہ غریبوں میں تقسیم کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال ان عطیات کا بڑا حصہ صحت کے شعبے کی طرف جائے گا۔ ماجد عزیز ایک معروف کاروباری رہنما ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’کئی بڑے کاروباری افراد اور ادارے اپنے ملازمین کے لیے ویکسینیشن پروگرامز میں مدد کر رہے ہیں۔ انڈس اسپتال نے ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت وہ فیکٹریوں میں جاکر ملازمین کو ایک خوارک والی کین سائنو ویکسین فی فرد ڈھائی ہزار روپے کے عوض لگاتے ہیں۔ انٹرلوپ فیصل آباد اپنے ملازمین کو ویکسین لگوانے والی پہلی فیکٹری تھی اور اس فہرست میں نوینہ گروپ اور ای بی ایم بھی شامل ہیں‘۔
ماجد عزیز نے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ اداروں کے بجائے افراد کی مدد کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور لوگ اب براہِ راست اپنے ارد گرد موجود افراد کی مدد کرنے کو ترجیح دیں گے۔
ٹی سی ایف کے احسن سلیم نے اس امکان سے اختلاف تو نہیں کیا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ معتبر اداروں کو صحت کے شعبے کے علاوہ ملنے والی امداد میں کمی نہیں آئے گی۔ ان کے مطابق ’ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے معاونین تعلیم پر یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے ہماری مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔ کورونا وائرس کے اثرات نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ جب بھی غریب خاندانوں پر مشکل وقت آتا ہے تو سب سے پہلے لڑکیوں کو ہی اسکولوں سے نکالا جاتا ہے۔ ہم اس سے نمٹنے کے لیے ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے طلبہ اور اساتذہ فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر ان کے علاقوں میں ضروری اشیا کی تقسیم میں مدد کرتے ہیں‘۔
ہارون قاسم کراچی کی ایک کاروباری شخصیت ہیں جو فلاحی سرگرمیوں میں بھی سرگرم رہتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ’اس سال نسبتاً خاموشی ہے۔ لوگ اس طرح زکوٰۃ کے لیے اپیل نہیں کر رہے جس طرح وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ اس میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے عطیات کے حوالے سے وضع کردہ قوانین کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔ میرے اندازے میں اس سال زکوٰۃ جمع کرنے کی کوششیں کچھ کم رہی ہیں‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کاروبار کے اچھے نتائج نے کاروباری برادری کے عزم میں اضافہ کیا ہے۔ میرے خیال میں کچھ دنوں میں زکوٰۃ کی اپیلوں میں اضافہ ہوجائے گا اور اس بار زیادہ عطیات کی امید کی جارہی ہے‘۔
انڈس اسپتال کے سی ای او عبد الباری خان نے ڈان کو بتایا کہ ’کورونا کے خلاف جدوجہد میں ہم صف اوّل میں شامل تھے، اس وجہ سے گزشتہ سال ہمیں ملنے والے عطیات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ بات درست ہے کہ عطیات میں اسپتالوں کے ساتھ ساتھ کھانا، صابن، سینیٹائزر اور ماسک تقسیم کرنے والے فلاحی اداروں کو ترجیح دی گئی۔ تعلیم اور ہنر سکھانے والے کچھ اداروں کو شاید اپنے ہدف سے کم عطیات ملے ہوں۔ گزشتہ سال لوگوں نے اپنے جاننے والوں کی مدد کو ترجیح دی تھی‘۔
عبدالباری مزید کہتے ہیں کہ ’تاہم اس سال ہمیں ملنے والے عطیات میں کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ کورونا کے منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں جس کے تحت کئی لوگوں کی نوکریاں ختم ہوگئیں اور کاروبار متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ کورونا کی موجودہ تیسری لہر کے دوران جو غیر یقینی کی صورتحال موجود ہے اس کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں۔ اس صورتحال اور فلاحی اداروں کی بڑھتی ہوئی ضروریات نے عطیات دینے والوں کو پریشان کیا ہوا ہے‘۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر طفیل کے مطابق ’اس سال زکوٰۃ کی ادائیگی زیادہ رہے گی۔ پنجاب کے کچھ بڑے کاروباری افراد نے بڑے پیمانے پر عطیات دینے کا اعلان کیا ہے۔ گوہر اعجاز (لیک سٹی والے) اور دن گروپ نے انڈس اسپتال کو ایک، ایک ارب روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ یو ایس اپیریل نے فلاحی سرگرمیوں کے لیے اپنے منافع کا 20 فیصد دینے کا اعلان کیا ہے جو اربوں میں ہوگا۔ اس وجہ سے انڈس اسپتال کی جانب سے لاہور میں ایک نیا مرکز تعمیر کرنے کا اعلان حیرت کا باعث نہیں ہے‘۔
زبیر طفیل نے کہا کہ ’کراچی میں دوا ساز اداروں جیسے اوسط درجے کے ادارے تو دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں لیکن سیمنٹ، اسٹیل اور ٹیکسٹائل کے شعبے کے بڑے کھلاڑی اب تک سامنے نہیں آئے ہیں‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیلانی فاؤنڈیشن کراچی سے روزانہ 4 کروڑ روپے کے عطیات حاصل کر رہا ہے اور کراچی کو پاکستان میں عطیات کا مرکز کہا جاتا ہے۔
انجم نثار کا کہنا ہے کہ ’اس سال عطیات میں کچھ اضافہ تو ضرور ہوگا لیکن انہیں کسی بڑے اضافے کی توقع نہیں ہے۔ دیگر فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ اس رمضان میں عطیات کے حجم کا تعین کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔