بائیکاٹ کیجئے لیکن… ہمیں تحقیق کی مضبوط روایت کو فروغ دے کر طاقت پکڑنی ہوگی۔

تزئین حسن

یہودی مصنوعات کا بائکاٹ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ ہمیں تحقیق کی مضبوط روایت کو فروغ دے کر طاقت پکڑنی ہوگی۔ میرا جوتا ہے جاپانی، یہ پتلون انگلستانی۔سر پہ لال ٹوپی روسی، پھر بھی دل ہے ہندوستانی۔لیجنڈری اداکار راج کپور پر فلمایا گیا، اتنے ہی بڑے لیجنڈری پلے بیک سنگر مکیش کے گائے ہوئے اس نغمے کا شمار برصغیر کے مقبول ترین کلاسکس میں ہوتا ہے۔ لیکن یہ صرف نغمہ نہیں,عالمی تجارت سے جڑی ایک آفاقی حقیقت کا اظہار بھی ہے، جس کا انکار کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ہم اپنے بچپن سے دیکھتے ہیں کہ جب کسی عالمی سیاست کے تناظر میں یہود و نصاری پر غصہ اتارنا ہو تو ایک دوسرے کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اس ملک یا مذہبی گروہ کی تیار کردہ تجارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔آج کل بھی سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی نصیحتیں گردش کر رہی ہیں جو ایک دوسرے کو بائیکاٹ کا مشورہ دے رہی ہیں۔ بظاہر اس دلیل میں وزن بھی محسوس ہوتا ہے۔مسلم دنیا اس وقت کرہ ارض کی ایک چوتھائی آبادی ہے۔ ہم ہر ماہ امریکا، چین، اسرائیل، فرانس، ہندوستان سمیت کتنے ہی ملکوں کو لاکھوں، کروڑوں کا نہیں اربوں ڈالر کا بزنس دیتے ہیں۔ اگر ہم کسی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کریں تو اس ملک یا مینوفیکچررز کو خاطر خواہ نقصان ہونا چاہئے۔ اور اس ملک کو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی میں ہماری مرضی کے مطابق تبدیلی لے آنی چاہیے۔ لیکن افسوس! پچھلی کم ازکم ایک صدی میں کوئی عارضی نقصان ہم کسی مینو فیکچرر کو پہنچانے میں شاید کامیاب ہوئے ہوں، لیکن پالیسی میں تبدیلی؟ ہم اچھی طرح جانتے ہیں ایسا کبھی ممکن نہیں ہوسکا اور نہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ ہماری شدید ترین کمزوری اور بے بسی کا اظہار ہے کہ زوال کے اس دور میں ہم 180 کروڑ مسلمان دنیا کیلئے محض مارکیٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشی بائیکاٹ بھی کامیاب نہیں۔لیکن ذرا سوچیے، کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ایک یہودی کی تیار کردہ ایپ فیس بک استعمال کرنا چھوڑ دیں جس پر ایک دوسرے کو بائیکاٹ کی تجویز دیتے ہیں؟ کمپوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل، فرانسیسی آبدوزیں، امریکی ایف سکسٹین، کورونا کی ویکسین، ڈنمارک کا موبائل نیٹ ورک استعمال کرنا چھوڑ دیں؟ چلئے یہ سب تو چھوڑ بھی دیں، لیکن کیا انڈین ٹماٹر استعمال کرنا چھوڑ سکتے ہیں یا انڈین جان بچانے والی ادویہ؟جدید دور کی ان سب انسانی ضروریات پوری کرنے والی مصنوعات اور خدمات کا استعمال صرف اس وقت چھوڑا جاسکتا ہے جب ہم خود اپنی آبادی کیلئے ان ہی جیسی اعلی مصنوعات اور سروسز مہیا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کا حامل ملک ہے۔ ہم اگر اپنی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کیلیے ہی مینوفیکچرنگ کرتے اور خدمات مہیا کرتے تو بغیر ایکسپورٹس ہماری اکانومی خود کفیل ہوجانی چاہیے تھی۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے اپنی ضرورت کے ٹماٹر تک نہیں اگا سکتے۔ مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو اور انڈیا سے تعلقات خراب ہوں تو ہمارے ہاں ٹماٹر کا بھا دس گنا بڑھ جاتا ہے۔ جان بچانے والی ادویہ کی قلت ہوجاتی ہے۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی انڈسٹری کو تباہ کر دیا۔ ہماری ناک کے نیچے، چین کی سستی مصنوعات پاکستان کی انڈسٹری کو بند کرواتی رہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ گذشتہ دنوں یوٹیوب پر معروف موٹیوشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کا ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔ لیکچر کے شروع میں انہوں نے اپنے ایک باصلاحیت کاروباری دوست کا قصہ سنایا جو 60 کی دہائی میں ریڈیو بنا کر بیچا کرتا تھا، جس کی قیمت پاکستانی مارکیٹ میں وہ اس وقت 100 روپے وصول کرتا تھا، لیکن چین سے سستے ریڈیو آنا شروع ہوئے، جس کی قیمت پاکستانی مارکیٹ میں 60 روپے وصول کی جاتی تھی تو اس کا بزنس ٹھپ ہوگیا۔قاسم علی شاہ ایک دفعہ ناکام ہوکر دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے فلسفے کو بیان کررہے تھے، لیکن یہاں اس لیکچر کے تذکرے کا مقصد، چین کی سستی مصنوعات کی بغیر رکاوٹ درآمد کے باعث پاکستانی انڈسٹری کی تباہی کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ معاشی تباہی ہماری ناک کے نیچے خود ہماری رضا سے ہوتی رہی ہے لیکن ہم نے آج تک اعداد و شمار پر کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پاک چین دوستی میں ہماری حیثیت صرف مارکیٹ کی ہے یا جھولی پھیلانے والے کی؟ ہم چین سے ایڈ تو مانگتے ہیں, لیکن ٹریڈ نہیں۔چینی پروڈکٹس کی کامیابی کے پیچھے ان کی انتھک محنت کے ساتھ تحقیق اور نالج اکانومی، سیاسی عزم، اور ٹریڈ ڈپلومیسی ہے۔ امن عامہ کی صورتحال، قانون کی حکمرانی اور ٹریڈ اور مینوفیکچرنگ کا انفرااسٹرکچر دراصل سیاسی عزم سے ہی ممکن ہے، جو تجارت کیلیے لازمی ہے۔ کامیاب پروڈکٹس کے پیچھے یونیورسٹیز میں تحقیق ضروری ہوتی ہے اور پروڈکٹس کو دنیا میں بیچنے کیلیے ٹریڈ ڈپلومیسی۔ اور ان سب کے پیچھے سیاسی عزم ضروری ہے۔ جو ہم پر حکومت کرنے والوں اصل حکمرانوں میں نظر آتا ہے، نہ ہی ان کے بٹھائے ہوئے کٹھ پتلی حکمرانوں میں۔ اور ہمارے ہر لحظہ اکھاڑ پچھاڑ کے سیاسی حالات میں شاید ممکن ہی نہیں۔اور چلیے چین تو ہمارا دوست ہے، ہمارا یہی حال بھارت کے ساتھ بھی ہے۔ انڈیا سے ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں پانچ گنا سے بھی کم ہیں۔ 2019 میں ہم نے انڈیا سے 216 ملین ڈالر کی برآمدات اور 1503 ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ براہ راست ٹریڈ کی بات ہورہی ہے۔ انڈیا ہم سے دوسرے ملکوں کے ذریعے بھی تجارت کرتا ہے جو رجسٹرڈ نہیں ہوتی، مثلا 2016 میں ایک فیچر کے سلسلے میں ریسرچ کے دوران معلوم ہوا کہ انڈیا دبئی کے ذریعے سلے سلائے کپڑے، شلوار قمیض پاکستان ایکسپورٹ کرتا ہے جو گجرات میں تیار ہوتے ہیں۔چلیے انڈیا تو آج ایک بڑی اکانومی ہے۔ گذشتہ 40 برس سے تاریخ کی بدترین تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ایران کو لے لیجئے۔ ایران سے 2019 میں ہم نے 1400 ملین ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں، جبکہ ہماری برآمدات محض 12 ملین کی تھیں۔ افغانستان کے علاوہ تقریبا ہر ملک سے تجارت میں ہم ہی خسارے میں ہیں۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک کا حال ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بائیکاٹ بائیکاٹ چلانے میں بھی مسلم دنیا میں سب سے آگے ہم ہی ہیں۔90 کی دہائی میں مشرق وسطی کی ریاستیں آزاد ہوئیں تو ہمارے قائدین ہمیں مشرق وسطی سے تجارت بڑھنے اور پاکستان کی قسمت بدلنے کے خواب دکھانے لگے۔ آج تیس سال گزرنے کو آئے ہیں، ان خوابوں کی تعبیر کہیں نظر نہیں آتی۔مسلم دنیا سے ہمارے تعلقات اس وقت خاصے بہتر تھے لیکن 96 میں عمرے کیلئے مکہ جانے کا اتفاق ہوا، تو میں نے نوٹ کیا کہ دنیا بھر کی پروڈکٹس سعودی بازاروں میں دستیاب تھیں سوائے پاکستان کے۔ حیرت ہوتی تھی کہ سب سے مہنگے مصلے اور باب کعبہ (ملتزم) کے قد آدم ماڈل اٹلی کے، سب سے اچھی کوالٹی کے حجاب یعنی اسکارف تھائی لینڈ کے، الیکٹرونکس مصنوعات جاپان اور کوریا کی، تسبیحات اور ہزاروں دوسری روزمرہ استعمال کی اشیا چین کی۔اس وقت بھی سعودی عرب میں دس لاکھ کے قریب پاکستانی موجود تھے اور کم ازکم مکہ مدینہ میں ہر جگہ نظر آتے تھے، لیکن نہیں نظر آتی تھی تو کوئی پاکستانی پروڈکٹ۔ بعد ازاں کوئی پانچ سال وہاں رہائش کا موقع ملا تو آم اور چاول کے علاوہ پاکستانیوں کی اپنی ضرورت کی کچھ اشیا تھیں جو جدہ کی چند مخصوص دکانیں، وہاں مقیم پاکستانیوں کیلیے امپورٹ کرتیں مثلا پھول جھاڑو، شان اور نیشنل فوڈز کے مصالحے، ہمدرد کا روح افزا اور اس نوعیت کی دوسری اشیا۔آج گلوبل معیشت کے دور میں بھی معاشی بائیکاٹ کسی حد کامیاب ہوسکتے ہیں اگر حکومت کی سطح پر ہوں۔ 2009 میں گستاخی کے خاکوں کے دوران فیس بک کے بائیکاٹ کے مقابلے میں 2012 میں یوٹیوب کا سرکاری بائیکاٹ زیادہ طویل عرصے تک کامیاب رہا۔ لیکن پھر وہی بات کہ جب تک متبادل موجود نہیں ان اقدامات کی حیثیت محض نمائشی ہے جو محض وقتی جوش میں شروع تو کردیے جاتے ہیں، لیکن پتہ بھی نہیں چلتا اور ختم بھی ہوجاتے ہیں۔جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے تو شاید بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ایسے بائیکاٹ اگر دوسرے ملکوں کے داخلی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے بجائے، اپنی معیشت کی بہتری کیلیے ہوں اور ان کے پیچھے تحقیق اور ٹریڈ ڈپلومیسی کے طاقتور انجن بھی اپنا کام کر رہے ہوں اور معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی عزم بھی موجود ہو تو یہ پاکستان کو دور رس معاشی فوائد سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ پھر شاید دنیا ہماری بات سننے پر تیار ہو۔اپنے قیام کی ابتدائی دہائیوں میں چین اور بھارت دونوں نے اپنی مارکیٹیں عالمی تجارت کیلیے طویل عرصے تک بند رکھیں اور جب تک نہ کھولیں، جب تک ان کی اپنی صنعتیں اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوگئیں۔ یہ دونوں ملک پاکستان کے ساتھ آزاد ہوئے تھے اور ان کی آبادی اور مسائل دونوں ہی پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھے۔چین نے ڈبلیو ٹی او میں 2001 میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت تک خود چین کی اپنی صنعتیں نہ صرف اپنی ضروریات کیلیے خود کفیل ہوچکی تھیں بلکہ باقی دنیا کی ضروریات بھی سستے داموں پورا کرنے کی اہلیت رکھتی تھیں۔ چینی مصنوعات نے کب امریکی مارکیٹس پر قبضہ کیا، سرد جنگ کے خاتمے کی خوشی اور مشرق وسطی کو جنگ کے جہنم میں دھکیلنے میں مصروف امریکا کو اس طرف دھیان دینے میں بہت دیر ہوگئی۔چینی کی معاشی ترقی اور عالمی مارکیٹوں پر قبضے کے پیچھے دیگر وجوہات کے علاوہ امریکی یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل وہ لاکھوں طلبا بھی ہیں جو تحقیق کے میدان میں امریکی مہارت کا فائدہ اٹھانے کیلیے پچھلے 72 سال میں چین نے امریکی یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں بھیجے۔ یہی اسٹرٹیجی بھارت نے بھی اپنائی۔ آج ان میں سے لاکھوں نہیں تو ہزاروں امریکا اور مغربی دنیا کے دوسرے حصوں میں بیٹھ کر بھارتیوں اور خود امریکیوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں اور ہزاروں وطن واپس آکر اپنی صلاحیتوں سے اپنے ملک کی ترقی میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں جو سرد جنگ کے آغاز سے امریکا کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود تحقیق کے شعبے میں امریکی اتحاد کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔آج امریکا بھی اگر چین کا معاشی بائیکاٹ کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ جذباتی باتیں جتنی چاہیں کرلیجئے، دنیا نہ مارک زکر برگ کی فیس بک کا بائیکاٹ کرسکتی ہے نہ ہی بالی وڈ کا، نہ امریکی جنگی طیاروں کا۔ یہ ڈارون کے Survival of the fittest یعنی طاقتور کی بقا کے فلسفے پر چلتی ہے۔ اگر ہم واقعی اس کا بائیکاٹ کرکے اپنی مرضی کے فیصلوں کیلیے اسے جھکانا چاہتے تو ہمیں تحقیق کی مضبوط روایت کو فروغ دے کر طاقت پکڑنی ہوگی۔ باقی سب مذہبی قائدین کے ڈرامے ہیں۔