پاکستان، وبائی امراض اور افواہیں

محمد مشتاق ایم اے
کورونا ویکسین کیا واقعی جان لیوا ہے؟ افواہیں پھیلانے والوں کو میڈیکل کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ جب سے کورونا صاحب نے دنیا میں ڈیرہ لگایا ہے، تب سے اس کی حقیقت اور علاج کے بارے میں پوری دنیا میں ایسی ایسی کہانیاں منظر عام پر آئی ہیں کہ جن پر کئی ضخیم کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے تو اپنے علم کے مطابق لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہی، لیکن اصل رونا اس بات کا ہے کہ زیادہ کہانیاں ان لوگوں کی طرف سے مہیا کی گئی ہیں جن کو میڈیکل کی الف ب سے بھی دور کا واسطہ نہیں۔اس سلسلے میں جہاں نیم حکیموں نے لوگوں کی جہالت سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، وہیں پر بازار میں موجود مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں اور دیگر ادویہ جن کے بارے میں یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ یہ کورونا کے علاج میں موثر ہیں، ان کے دام ہمارے ملک میں راتوں رات سونے کی قیمتوں سے بھی آگے نکل گئے۔ اس کے ساتھ دم، درود اور تعویز والوں نے بھی اپنی دکان چمکانے کا دھندہ جاری رکھا اور عام آدمی ان سب مافیاز کے خلاف چومکھی لڑائی لڑنے کا قابل نہ ہونے کی وجہ سے لٹتا بھی رہا اور پٹتا بھی رہا۔حکومت اپنے تئیں درست معلومات دینے کی کوشش کرتی رہی مگر یہاں المیہ یہ ہے کہ سچی بات کم اور جھوٹی بات زیادہ مشہور ہوتی ہے اور لوگوں کو بھاتی بھی ہے۔ جس وجہ سے عام آدمی حکومتی موقف کے بجائے اس کے مخالف موقف کا زیادہ حامی رہا ہے، جس وجہ سے لوگوں نے زیادہ احتیاط بھی نہیں کی اور زیادہ نقصان کی وجہ بھی لوگوں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔اب جبکہ کورونا تقریبا ڈیڑھ سال سے ہمارے ساتھ ہے اور پوری دنیا کی حکومتیں اس عرصے کے دوران اس کے علاج کیلیے مختلف ویکسینز تیار کرکے اپنے عوام کو لگانے کا بھی آغاز بھی کرچکی ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی حکومت کی کاوشوں سے مختلف ممالک جن میں چین، برطانیہ اور روس شامل ہیں، کی ویکسینز اپنے عوام کو فری لگانے کا آغاز کرچکی ہے۔ جو ویکسینز اب تک لوگوں کو لگ چکی ہیں یا لگائی جارہی ہیں، ان میں چائنا کی سائنو فارم اور سائنوویک، برطانیہ کی آسٹرازینی کا اور روس کی سپوتنک شامل ہیں۔ حکومت کی کاوشوں سے اب 30 سال سے 40 سال کی عمر والوں کو بھی ویکسین لگنا شروع ہوچکی ہے اور حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ملک کے ہر شہری کو جلد از جلد ویکسین لگ جائے تاکہ اس مرض سے چھٹکارا پایا جاسکے۔لیکن یہاں بھی ہماری ذہین قوم پیچھے نہیں رہی اور کورونا کے خلاف لگائی جانے والی ویکسینز کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈہ زور و شور سے جاری ہے اور زیادہ تباہی اس حوالے سے ان لوگوں نے پھیلائی ہوئی ہے جن کا نہ میڈیکل فیلڈ سے تعلق ہے اور نہ ہی وہ کورونا کو خود سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ساتھ تو جو کر رہے ہیں سو کر رہے ہیں، مگر یہ دوسرے لوگوں کیلیے بھی خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ عوام کے ایک مخصوص گروہ کا یہ ردعمل کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا، بلکہ جب بھی ملک میں کوئی ایسا کام حکومتی سطح پر شروع ہوتا ہے تو نیم خواندہ افراد کا گروہ اور کچھ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس کی مخالفت میں میدان میں کود پڑتا ہے اور ہر اس عمل کی مخالفت کو دانستہ یا نادانستہ اپنا فرض عین سمجھتا ہے جس میں حکومتی عمل کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ اس قسم کی مخالفت کی تاریخ پرانی ہے اور اسی قسم کے طرز عمل کی وجہ سے ہمارے ملک سے ابھی تک پولیو کا خاتمہ بھی نہیں ہوسکا کہ پولیو کی ویکسین کے بارے میں بھی ان پڑھ اور ایک مخصوص طبقہ فکر نے ایسی ایسی باتیں پھیلائیں کہ ان کے زیر اثر عوام نے اپنے بچوں کو پولیو ویکسن لگوانے سے ہی انکار کردیا۔ اور پھر یہاں تک ہی بس نہیں ہوا بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں پولیو ویکسین لگانے والے ورکرز پر حملے کیے گئے، جس سے کئی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر پولیو ویکسین لگانے والے عملے کی حفاظت حکومت کیلئے ایک الگ درد سر بن گیا۔انہی وجوہ کی وجہ سے ہمارے ملک میں 2019، 2020 اور 2021 میں بھی پولیو کیسز سامنے آئے۔ ہمارے علاوہ افغانستان دوسرا ملک ہے جو پولیو فری نہیں ہے، اس کے علاوہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ پولیو کے خلاف ہمارے ملک میں 1970 کی دہائی میں کام شروع ہوا تھا اور کافی تگ و دو کے بعد کامیابی کی طرف گامزن ہوئے، لیکن پھر اسی منفی سوچ نے اپنا کام دکھایا اور ہم آج بھی ہم ان دو ممالک میں شامل ہیں جو اپنے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کیلیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ پولیو ویکسین کے بارے میں بھی بہت زیادہ منفی باتیں پھیلائی گئیں۔اس کے بعد ہمارے ملک میں ایک دور ڈینگی کا بھی آیا، جس میں انسانی جسم کے خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی ہوجاتی ہے اور ان کی تعداد زیادہ کم ہوجانے کی وجہ سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے اور لوگوں کی اموات ہوئیں بھی۔ اس دور میں ایک طرف حکومت ڈینگی کو کنٹرول کرنے کیلیے کئی پروگرامز شروع کررہی تھی اور لوگوں کو ایس او پیز پر عمل درآمد کیلیے منتیں کر رہی تھی تو دوسری طرف مخالف مافیاز بھی سرگرم تھے، جو لوگوں کو مختلف علاج کی مدد سے پلیٹ لیٹس میں اضافے کی خوش خبریاں دے کر ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ اور جس کے ہتھے جو چڑھا اس نے اسی کو غنیمت جانا۔ اس وقت حکومت کی موثر حکمت عملی اور طبی عملے کی انتھک کوششوں سے اس وبا پر قابو پایا گیا مگر کئی لوگوں نے ڈینگی کی بہتی گنگا میں دونوں ہاتھ دھو کر خود کو نہ صرف اچھا مسلمان بلکہ ایک اچھا انسان بھی ثابت کیا۔اب ہم بات کرتے ہیں کورونا کی، جس نے آنا فانا دنیا میں تباہی مچا دی اور اصل جانی و مالی نقصان سے زیادہ اس کے خوف نے لوگوں کو موت کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ جن لوگوں میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہوئیں انہوں نے اسپتال جانے سے ہی انکار کردیا کہ وہاں اگر کورونا نہ بھی ہو تو کورونا ڈیکلیئر کردیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کو ہوا میں اڑا دینے سے کورونا زیادہ پھیلا اور نقصان بھی زیادہ ہوا، جسے کم کیا جاسکتا تھا۔ ایک طرف کورونا کے خلاف جنگ چل رہی تھی جس میں طبی عملہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے پیاروں کی جدائی برداشت کرکے کورونا کے مخصوص وارڈز میں ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا اور دوسری طرف ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے مافیاز اپنے پاس موجود مختلف اشیا کو کورونا کا واحد علاج بتا کر ان کے دام کئی گنا بڑھا کر اس غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع ہوگئے، جو خود یا ان کے پیارے اس موذی وائرس کا شکار ہوچکے تھے۔ کسی نے سنعا مکی کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے تو گیس سلنڈر والوں نے مرتے سسکتے مریضوں کی سانسوں پر دکانداری کرکے جنت کے ٹکٹ خریدے۔ اس طرح جس طرح کسی کا دا لگا، اس نے لگایا۔اب جب سے حکومتی سطح پر کورونا ویکسین لگنا شروع ہوئی ہے اس کے خلاف بھی مختلف قسم کا پروپیگنڈا چل رہا ہے کہ ویکسین لگوانے سے الٹا نقصان ہے۔ فلاں بندے نے لگوائی اس کو کورونا ہوگیا۔ فلاں کو بخار ہوا جو ٹھیک نہیں ہوا۔ یہ باہر سے منگوائی گئی ویکسینز نجانے کس چیز کی بنی ہوئی ہیں، کیونکہ غیر مسلموں نے بنائی ہیں اس کا رزلٹ پتہ نہیں کیا نکلے گیا وغیرہ وغیرہ۔الغرض جو جتنا نالائق ہے وہ اتنا ہی زیادہ غلط تجزیہ معاشرے میں عام کررہا ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں ویکسین کے خلاف ایک انجانا سا خوف پیدا ہوچکا ہے اور مزید ہورہا ہے۔ حیرت تو اس بات کی ہے اس طرح کی باتیں پھیلانے والوں میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ پڑھا لکھا طبقہ عام آدمی کی ویکسین کے خلاف رائے بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن اسے خود اور اس کے غلط پروپیگنڈے کا شکار ہونے والوں کو اپنے ہونے والے نقصان کا اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ وہ بیک وقت اپنے لیے اور دوسروں کیلئے خطرہ ہے۔مندرجہ بالا صورتحال کی روشنی میں میری رائے ہے کہ حکومت کو اپنے اقدامات کو ملک میں نافذ کرنے اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے کچھ اس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عام آدمی کی صحت اور جان کی حفاظت ممکن بنائی جاسکے اور وہ بلا خوف و خطر حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہوسکیں۔1۔ حکومتی اقدامات کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تاکہ وہ لوگوں کی جانوں سے نہ کھیل سکیں۔2۔ جیسے ہی کوئی مافیا غریب عوام کی مجبوری کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کرے حکومت اپنے اداروں کے ذریعے فی الفور اس کا قلع قمع کرے۔3۔ عوام کو مافیاز کے پھیلائے گئے جال سے بچانے کیلئے حکومتی سطح پر درست اور بروقت معلومات کا اجرا بہت ضروری ہے، تاکہ لوگ گمراہ نہ ہوں۔4۔ کورونا ویکسین لگانے کی رفتار تیز کی جائے اور اگر ضروری ہو تو ویکسین لگانے والے مراکز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔5۔ ویکسین کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے یہ بات طے ہے کہ سارے لوگ ویکسین نہیں لگوائیں گے جو اپنے علاوہ دوسروں کیلیے بھی ہمیشہ خطرہ بن کر منڈلاتے رہیں گے۔ لہذا ان کو ویکسین کے نیٹ ورک میں لانے کیلئے ضروری قانونی اقدامات کرنے ہوں گے۔6۔ کورونا ویکسین کی تیاری میں اسلام اور غیر اسلام کی بحث کے توڑ کے طور پر ملک کے ممتاز علما اور مفتی حضرات کی رائے عوام میں پھیلایا جانا ضروری ہے۔ یہ بحث ویسے بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ویسے ہم کون سی ساری چیزیں مسلمانوں کی بنائی ہوئی استعمال کررہے ہیں۔ اس چیز کو اجاگر کیا جائے۔7۔ کورونا وائرس کے خلاف مارکیٹ میں دستیاب (اگر واقعی ہوں) ادویہ اور دیگر اشیا کی قیمتوں پر گہری نظر رکھ کر ان میں من مانے اضافے کو ہر صورت روکا جائے۔8۔ حکومت اپنی طرف سے جاری کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد کو لازمی یقینی بنائے۔ محض میٹنگ کرنے اور اعلان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک ان پر عمل نہ ہو۔9۔ تعلیم کے حوالے سے حکومت کو کوئی راستہ ضرور نکالنا ہوگا۔ کیونکہ بچوں کا پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ناسمجھ طلبا و طالبات وزیر تعلیم کو بہت دعائیں دے چکے ہیں لیکن ان کے نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا اور کون کرے گا، یہ بات کوئی نہیں بتا رہا۔10۔ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اسکولز کھولنے کے حق میں کوئی مظاہرہ نہیں کرتے جبکہ پرائیویٹ اسکولز کو بڑی جلدی ہے کہ کھولے جائیں۔ اس میں دونوں طبقات اپنا فائدہ دیکھتے ہیں، لیکن حکومت کوئی ایسی پالیسی اپنائے کہ پرائیویٹ اسکولز کے مالی فائدے اور سرکاری اسکولز کے عملے کے چھٹیوں والے فائدے کے بجائے ہمارے طلبا و طالبات کا کسی طرح تعلیمی فائدہ ہو اور ان کا مزید نقصان نہ ہو۔ کیونکہ یہ تو اس قوم کے کل کے معمار ہوں گے۔11۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایس او پیز پر عمل درآمد نظر نہیں آتا۔ راستے میں چیکنگ پوائنٹس پر کوئی خاص چیکنگ نہیں ہوتی، جس سب لوگ اسے مذاق سمجھتے ہیں اور ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔12۔ اس کے علاوہ بھی تمام ایسے اقدامات اٹھانے ضروری ہیں جن سے مافیاز اور نیم خواندہ افراد کے غلط پروپیگنڈے سے بھولے بھالے عوام کو بچایا جاسکے۔