ستائشی فیصلے اور المیے

شایان تمثیل
ہماری معزز عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کئی ایسے فیصلے صادر کررہی ہے جو ستائش کے لائق ہیں۔ کراچی کو تجاوزات سے پاک اور اس کے اصل حلیے میں واپس لانے کیلیے تجاوزات کے خاتمے اور سرکاری املاک کو وا گزار کرانے کا فیصلہ یقیناً قابل ستائش ہے لیکن ان ”اچانک” فیصلوں سے کئی انسانی المیے بھی جنم لے رہے ہیں۔
معزز عدلیہ کا کام انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور حق کا بول بالا کرنا ہے۔ عدالتوں میں جو بھی فیصلے لیے جاتے ہیں وہ قوانین کی روشنی میں ہی پاس کیے جاتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید نہیں کی جاسکتی، لیکن ان فیصلوں پر عملدرآمد اور ان کے مضمرات پر غور نہ کرنے کے باعث جو المیے جنم لے رہے ہیں، اس نے عوام کو بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔
کراچی کی پرانی صورت میں بحالی کے تحت تجاوزات کے خلاف آپریشن کی کہانی نئی نہیں۔ 2018 میں اچانک ایک فیصلہ صادر ہونے کے بعد محض چند دن میں ہزاروں دکانیں گرا دی گئی تھیں۔ یہ تک نہیں سوچا گیا کہ برسہا برس سے ان دکانوں میں کاروبار کرنے والے کیا کریں گے؟ کہاں جائیں گے؟ بس آناً فاناً فیصلہ لیا گیا، انتباہی نوٹس جاری کیا گیا، اور دکانوں کو مسمار کرنے کا کام شروع۔ لیکن حالیہ فیصلے میں الہ دین پارک میں قائم 450 دکانوں کو مسمار کرنے سے پہلے دکان داروں کو اتنا وقت بھی نہیں دیا گیا کہ وہ دکانوں سے اپنا قیمتی سامان ہی نکال سکیں۔ (یہ اور بات کہ بعد میں یہ قیمتی سامان ”چوری” کرتے ہوئے پولیس والے پکڑے گئے)۔
پچیس برسوں سے قائم نسلہ ٹاور گرائے جانے کا حکم بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ صرف اس ایک پروجیکٹ میں کتنے فلیٹ اور ان میں مقیم کتنی آبادی ہے اس کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ نسلہ ٹاور گرائے جانے کے بعد یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ کہاں رہیں گے؟ اس پر کوئی بات نہیں کررہا۔
محمودآباد اور گجر نالہ کے اطراف قائم رہائشی عمارتوں کو مسمار کرتے ہوئے بھی یہ نہیں سوچا گیا کہ ان ”بے گھر” لوگوں کا کیا ہوگا؟ رہائش اور کاروبار سے محروم ہوجانے والے کیا بے روزگاری میں اضافے کے باعث جرائم کی جانب تو راغب نہیں ہوجائیں گے؟
اس وقت سوشل میڈیا اور مسمار کی جانے والی تجاوزات پر ”متاثرین” کی جانب سے احتجاج جاری ہے۔ ان ”اچانک” اور نتائج سے بے پرواہ فیصلوں کے باعث جن انسانی المیوں نے جنم لیا ہے اس جانب حکومتی زعما اور ارباب اختیار کی بالکل بھی نظر نہیں ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے برسوں پہلے اپنی تمام عمر کی جمع پونجی خرچ کرکے ان ”غیر قانونی” تعمیرات میں بکنگ کروائی اور بعد ازاں مکمل قانونی طور پر تمام ضوابط پر عمل کرتے ہوئے رہائش اختیار کی، ان کو یوں اچانک بے دخل کیا جانا کہاں کا انصاف ہے؟
سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگائی جارہی ہیں کہ غریب کا جھونپڑا مسمار کرکے طاقتور لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ بحریہ ٹاؤن اور بنی گالہ ریگولرائز کرنے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ الہ دین پارک کی دکانیں مسمار کرنے کے فیصلے پر راتوں رات عمل کیا گیا لیکن اس سے تھوڑا آگے ہی چورنگی کی بائیں طرف ”غیر قانونی” قائم نیوپلیکس سینما کی طرف کسی کی نظر نہیں۔ یہاں تک آتے قانون کے رکھوالوں اور فیصلے صادر کرنے والوں کے پر جلتے ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ جس طرح بنی گالہ اور بحریہ ٹاؤن کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ لیا گیا، ایسے ہی برسوں سے قائم ان پروجیکٹس کو بھی ریگولرائز کردیا جاتا، تاکہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی کرنے والے یوں دربدر نہ ہوتے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسے مبنی بر انصاف فیصلے لیے جاتے لیکن اس کے ساتھ کچھ دیگر حقائق کو بھی مدنظر رکھا جاتا۔ عوام کی طرف سے جو سب سے پہلا اعتراض اٹھایا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ جب یہ ”غیر قانونی” تعمیرات ہورہی ہوتی ہیں تو قانون اور حکومتی ادارے کہاں سوئے ہوئے ہوتے ہیں؟ ان عمارات کی تعمیر کی اجازت کون دیتا ہے؟ کون ان سرکاری اور عوامی زمینوں کو کمرشل کرکے پیسے بناتا ہے؟ یہ نقشے کہاں پاس ہوتے ہیں اور اس پورے معاملے میں کون کون اس گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہوتا ہے؟ آج تک جتنی بھی تجاوزات کے نام پر املاک کو مسمار کیا گیا، کیا کہیں بھی ایسی مثال ملتی ہے کہ ان بلڈرز، سرکاری افسران اور اس پوری مافیا کے کسی ایک فرد کو بھی پابند سلاسل کیا گیا ہو، جو ان غیر قانونی تعمیرات میں ملوث رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا گیا؟
ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ بلڈرز جنھوں نے یہ تعمیرات کیں، وہ سرکاری افسران جنھوں نے اجازت دی یا چشم پوشی اختیار کرنے کے پیسے وصول کیے، ان سب کے خلاف پہلے کارروائی کی جائے۔ ان کی جیبوں سے پیسے وصول کرکے پہلے متاثرین کو دیئے جائیں تاکہ وہ اپنی رہائش اور کاروبار کہیں اور کرسکیں، اس کے بعد ہی ان ”تجاوزات” کا خاتمہ کیا جائے۔ یقین جانیے جب اس مافیا کے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا، حقیقی انصاف کی مثال پیش کی جائے گی، بلڈرز اور سرکاری افسران کے خلاف سخت اور ”اصلی” کارروائی عمل میں لائی جائے گی، ان عوام دشمنوں کو جب روڈ پر لایا جائے گا، تب ہی ان واقعات اور تجاوزات سے نجات مل سکے گی۔ ورنہ ہر کچھ عرصے بعد ایسے ہی فیصلے ہوں گے اور انسانی المیے جنم لیتے رہیں گے۔ اور اصل ”مجرم” یونہی دندناتے پھریں گے اور معصوم عوام کو لوٹتے رہیں گے۔
(