سندھ حکومت کے متعصب اقدامات کراچی اور حیدرآبادکے شہری ملازمتوں سے محروم

آئین پا کستان اور سول سرونٹس رول میں لکھا ہے کہ گریڈ ایک تا گریڈ پندرہ کی بھرتیوں پر صرف اور صرف اُسی ضلع کے مقامی ڈومسائل ہولڈر لوگ بھرتی ہو سکتے ہیں، مگر کراچی میں آج تک یہ قانون اُلٹا لاگو کیا گیا یہاں پرچیف منسٹر ہاؤس، سندھ سیکریٹریٹ نمبر 1ـ2ـ3ـ4 ـ سندھ سیکرٹیریٹ سے جڑے تمام ڈپارٹمنٹ میں 1 سے 15 گریڈ کے 99 فیصد لوگ غیر مقامی بھرتی کئے یہی حال17 سے 21 گریڈ کے افسران کا ہے 99 فیصد غیر مقامی ہیں ـ ہائیکورٹ ـ سٹی کورٹ ـ دیگر ڈسٹرک کورٹ میں 80 فیصدی ملازم غیر مقامی بھرتی کئے ہیں جبکہ جج 95 فیصد غیر مقامی ہیںـ کے ایم سی کراچی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، واٹر بورڈ کے ڈی اے، ڈی ایم سیز میں 30ـ40 فیصد ملازم و افسران غیر مقامی بھرتی کئے ہیں، محکمہ ہیلتھ سمیت تمام کراچی کے ہسپتالوں میں 1 سے 17 گریڈ پر 85 فیصد غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیا
کراچی الیکٹرک 80 فیصد غیر مقامی۔۔
ایسے محکمے جس کے نام میں کراچی آتا ہے کے ایم سی، کے الیکٹرک، کراچی پولیس لائن اُس سمیت سارے کراچی میں واقع سارے صوبائی اور وفاقی دفاتر سوئی گیس، کسٹم، نادرا، ایف آئی اے، پاسپورٹ سمیت دیگر تمام ڈپارٹمنٹ کا یہی حال ہےـ کراچی کے واٹر سپلائی، کراچی کا پراپرٹی ٹیکس، کراچی کی گاڑیوں کا ٹیکس، کراچی کی ہر چیز کا انچارج لاڑکانہ نواب شاہ خیر پور سہون کا ہےـ
مزے کی بات کراچی کے لیے رینجرز کی بھرتی ہو رہی ہے بھرتی سینٹر کے پی کے پشاور میں بنایا واہ واہ، جہاں دیکھو جس محکمے کو اُٹھا لو مقامی حقدار کے حق پر غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا ہوا ہے ـ کراچی کا کچرا تک اٹھانے والے ڈپارٹمنٹ سالڈ ویسٹ بورڈ کراچی آفس میں 90 فیصد ملازم اندرون سندھ کے مختلف اضلاع کے ہیں۔
ان تمام محکمہ جات میں غیر مقامی ملازموں کی تعلیم میٹرک انٹر اور گریجویشن انجینرنگ میڈیکل وغیرہ سب میں پی آر سی ڈومسائل انکے اپنے مقامی ضلعوں اور تحصیلوں کے ہیں یعنی تعلیم اپنے علاقائی ڈومسائل سے کی ہے،
پھر یہ کراچی میں ملازمت کیسے کر رہے ہیں
کیا اپنے ضلع اور تحصیل کے ڈومیسائل پر کراچی میں ملازمت کر رہے ہیں؟
کیا کراچی کو جعلی ڈومسائل بنوا لیا؟
دونوں غیرقانونی ہیں۔ میڈیا میں اس سلسلے میں کافی بحث چھڑی اور سندھ حکومت کے تعصب پر مبنی رویوں پر باقاعدہ رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس سلسلے میں بے حسی اورڈھٹائی کے عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے تمام تر تنقید کو اپنی ٹھوکروں میں رکھا ہوا ہےـ اس سلسلے میں روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی رپورٹ ملاحظہ ہو
”حکومت سندھ نے اپنے معروف قوانین و اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہری وترقیاتی اداروں اور سرکاری اسپتالوں کا کنٹرول غیر مقامی افسران کے سپرد کردیا ہے جس کے نتیجے میں ڈومیسائل کے حامل افسران اپنی حق تلفی محسوس کرنے کے ساتھ احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں۔”جسارت ”کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان دنوں کراچی کے انتظامی سربراہ کمشنر اور ضلعی سربراہان یعنی 7 ڈپٹی کمشنرز میں سے کوئی بھی مقامی ڈومیسائل کا حامل نہیں ہے۔ ان ڈپٹی کمشنر میں ڈی سی کیماڑی مختار ابڑو، ڈپٹی کمشنر ساوتھ ارشاد علی سدھر، ڈپٹی کمشنر ایسٹ محمد علی شاہ، ڈپٹی کمشنر ویسٹ، سلیم اللہ اوڈھو، ڈپٹی کمشنر ملیر جاور علی لغاری، ڈپٹی کمشنر کورنگی عرفان سلام میروانی اور ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ سینٹرل ڈاکٹر محمد بخش راجہ دھاریجو ہیں۔ یہی نہیں موجودہ حکومت نے کراچی کی تاریخ میں پہلی بار کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کا سربراہ بھی ایک غیر مقامی افسر ناصر عباس سومرو کو تعینات کیا ہوا ہے۔ اسی طرح شہر کی لیاری اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھی غیر مقامی سربراہان کے حوالے کیا ہوا ہے۔ ان میں لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کی اسامی پر محمد اسحٰق کھوڑو اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ڈی جی کی اسامی پر ڈاکٹر وسیم شمشاد کو تعینات کیا ہوا جو باالترتیب اندرون سندھ اور پنجاب کے ڈومیسائل ہولڈر ہیں۔جسارت کی تحقیقات کے مطابق کراچی کے جناح میڈیکل سینٹر، کارڈیویسکولر ڈیزیز سول اسپتال کراچی اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ڈیزیز جو شہر کے تین بڑے اسپتال کہلاتے ہیں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی غیر مقامی ڈومیسائل کے حامل ہیں جبکہ کورنگی، لیاری’ملیر سعود آباد، نئی کراچی اور دیگر اسپتالوں کا کنٹرول بھی غیر مقامی یا کراچی سے باہر سے تعلق رکھنے والے میڈیکل آفیسرز کے حوالے ہے۔ شہر کے 106 تھانوں میں 105 ایسے ہیں جہاں غیر مقامی افسران کو بحیثیت ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے’ جس کی وجہ سے جرائم کی وارداتوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ ادہر محکمہ کالج ایجوکیشن کے ذرائع نے جسارت کو بتایا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ کالجز کراچی میں اب کوئی بھی مقامی ڈومیسائل کا حامل افسر موجود نہیں ہے’یہ دفتر مقامی افسران نہ کھپے کا نمونہ بن چکا ہے جبکہ شہر کے 145 فعال کالجز میں سے 132کالجوں میں اندورن سندھ سے تبادلہ کرکے یہاں تعینات کیے جانے والے غیر مقامی افسران بحیثیت پرنسپل تعینات ہیں۔ اس صورتحال کا منفی اثر کراچی کے تعلیمی نظام پر پڑ رہا ہے جبکہ مقامی افسران میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ خیال رہے کہ نیب نے سندھ حکومت سے گزشتہ ماہ گریڈ ایک تا 22 کے ان تمام افسران کی فہرست طلب کی تھی جو رورل ڈومیسائل کے حامل ہیں مگر کراچی اور حیدرآباد کی شہری اسامیوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے نیب کے اس خط کی مذمت کی تھی اور اسے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن جسارت کی اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ سندھ حکومت چونکہ کوٹے کے مطابق سرکاری افسران کے تقرر نہیں کرتی اس لیے مذکورہ فہرست نیب کو فراہم نہیں کرنا چاہتی۔
کمشنر کراچی غیر مقامی
7 ڈپٹی کمشنرز غیر مقامی
ڈائریکٹر جنرل بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی غیر مقامی
ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے غیر مقامی
ڈائریکٹر جنرل لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی غیر مقامی
ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر مقامی
ایم ایس جناح میڈیکل سینٹر غیر مقامی
سربراہ کارڈیویسکولر ڈیزیز غیر مقامی
ایم ایس سول اسپتال غیر مقامی
سربراہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ڈیزیز غیر مقامی
ایم ایس کورنگی اسپتال غیر مقامی
ایم ایس لیاری جنرل اسپتال غیر مقامی
ایم ایس سعود آباد اسپتال غیر مقامی
ایم ایس نیو کراچی اسپتال غیر مقامی
106 تھانوں میں 105 غیر مقامی ایس ایچ او تعینات
145 فعال کالجز میں سے 132 کالجوں میں غیر مقامی پرنسپل تعینات.
سندھ کے وزیراعلی سمیت پوری کیبنٹ غیر مقامی۔
میونسپل کمشنرز سارے غیر مقامی۔۔
2458 ڈی ایس پی۔ایس پی۔ایس ایس پی غیر مقامی۔
امن وامان برقرار رکھنے والے سارے غیر مقامی۔
KMC.DMCs.KWSB.KDA.NADRA.
ٹریفک پولیس سب میں غیر مقامی افراد تعینات۔۔۔
بھکاری۔۔۔سارے غیر مقامی۔
جرائم پیشہ۔۔۔سارے غیر مقامی۔
لینڈ گریبر۔۔۔سارے غیر مقامی۔۔”
سندھ حکومت کے ان غیرقانونی کاموں اور تعیناتیوں مشیر داخلہ بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر نے نیب کی طرف سے بھی نوٹس لیا گیاـ بتاریخ 12 فروری 2020 کو چئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ایک لیٹر لکھا جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ کس طرح سندھ حکومت ملازمتوں کی تقرر و تعینیاتیوں میں قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہےـ انہوں نے چئرمین نیب کی اس جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ سندھ گورنمنٹ کے نوٹیفیکیشن نمبر
SOI (S& GAD)23/1771/75ـ77, DATEDـ16ـ01ـ1971 اور نوٹیفیکیشن نمبر SOVIII Reg(S&GAD)1ـ8/71 بتاریخ 17 اگست 1974 کے مطابق صوبے سندھ کے شہری علاقوں کو ملازمتوں میں?40 فیصد اور دیہی علاقوں کو 60 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے، لیکن سندھ حکومت نے اس تقسیم کو اپنی ذاتی صوابدید پر نظرانداز کرتے ہوئے 99 فیصد کوٹہ دیہی سندھ کو الاٹ کر دیا ہے جس سے شہری علاقوں کی حق تلفی ہو رہی ہے جو آئین و قانون کی شدید پامالی کے زمرہ میں آتا ہےـ حکومت سندھ کے ان غیرقانونی اقدامات کے باعث شہری سندھ کے مکین شدید بے چینی، بیروزگاری اور ناانصافی کا شکار ہیں، اپنے خط میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ حیدرآباد میں دی گئی 5550 ملازمتیں مذکورہ تقسیم کے باعث حیدرآباد کے شہریوں کو ملنا تھیں اور اسی طرح 30561 ملازمتیں کراچی کے شہریوں کا حق تھا لیکن سندھ حکومت نے تمام تر ملازمتیں کوٹہ برخلاف اندرون سندھ کے دیگر اضلاع سے کرکے شہری سندھ کے مکینوں کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے اور یوں سندھ حکومت قومی احتساب آرڈی ننس 1999 کے تحت ایک قومی جرم کی مرتکب ہوئی ہے جس پر اس کے خلاف فوری کارروائی کی جائےـ
چنانچہ قومی احتساب بیورو نے 7 اپریل 2021 کو ایک لیٹر نمبر ــــــــــــ بنام سیکریٹری ایس اینڈ جی ڈی اے کو لکھا اور اس میں کہا گیا ہے کہ وہ گریڈ 1 سے 22 تک کے سرکاری ملازمین کا ریکارڈ فراہم کرے جن کا ڈومیسائل سندھ کے دیہی علاقوں سے ہے اور وہ فی الوقت کراچی اور حیدرآباد میں ملازمتیں کر رہے ہیںـ نیب نے حکومت سندھ سے یہ تفصیلات قومی احتساب آرڈی ننس کے دفعہ 27 کے تحت فی الفور طلب کیں، جس کے جواب میں سندھ حکومت کے سیکشن افسر الطاف حسین نے 5 مئی 2021 کو چیف سیکرٹری سندھ، آئی جی سندھ اور سیکرٹری ایس اینڈ جی ڈی اے کو مذکورہ تمام تفصیلات فراہم کرنے کے لئے ایک لیٹر لکھ دیا اور انہیں ہنگامی بنیادوں پر مذکورہ تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کر دیـ
قانون کی بے توقیری اور سندھ سمیت پورے پاکستان میں قانون کی دھجیاں اڑانے کی سرکاری روش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی سیکشن افسر الطاف حسین نے 8 مئی 2021 کو ایک خط دوبار مذکورہ سندھ حکومت کے عہدیداروں کو لکھا اور 5 مئی کو لکھے گئے جس میں نیب کو گریڈ 1 سے 22 کے افسران کی تفصیلات ہنگامی بنیادوں پر فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی اس سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اس خط میں دستبرداری کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئیـ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب نے سندھ حکومت کی اس قانونی شکنی اور بے توقیری کے خلاف قومی احتساب آرڈی ننس کی دفعہ 27 کی خلاف ورزی پر ہنوز کوئی کارروائی کیوں نہیں کی، کیا عمران خان کی حکومت جس کا پہلا نعرہ ہی انصاف تھا،حکومت سندھ سے بلیک میل ہو گئی اورانہوں نے سندھ حکومت کی لاقانونیت اور ملازمتوں میں حق تلفی سے متعلق خود سے اٹھائے گئے سوالات پر کیوں خاموشی اختیار کر لی؟ چئیرمین نیب نے حکومت سندھ کے اس طرز عمل اور قانون شکنی پر حکومت سندھ کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اتنے عرصہ تک نیب سندھ حکومت کے خلاف کوئی ریفرنس دائر کیوں نہیں کیا؟
اس کی ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے کی وفاقی حکومت خود سندھ حکومت کے خلاف سیاسی مصلحت کا شکار ہو گئی اور انہوں نے پیپلز پارٹی کی متعصب انداز حکمرانی کی بو کو محسوس کرتے ہوئے محاذ آرائی سے گریز کرنے کی پالیسی اختیار کر لی اور سندھ کی شہری عوام کو سندھ کی وڈیرہ شاہی کے آگے نوچنے اور بھنبھوڑنے کے لیے چھوڑدیا کیونکہ سندھ حکومت سندھ کے تقریبا تمام وڈیروں کو اپنے ساتھ ملا کر خود کو انتہائی مضبوط بنا چکی ہے اس لئے وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی بلیک میلنگ کے آگے ہتھیار ڈال دئیےـ
یہاں ایک پہلواور سامنے آیا کہ پیپلز پارٹی جو خود کو ایک قومی پارٹی کہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی درحقیقت سندھ کے قوم پرستوں کی ایک سرپرست بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے درپردہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کا یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر ان کے اقتدار کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو وفاقی حکومت کے خلاف سندھ کارڈ کا استعمال کرنے میں انہیں چنداں دیر نہیں لگے گی اور یوں پاکستان کے داخلی معاملات میں پیچیدگی کا ایک دروازہ اور کھل جائے گا جس کا ثبوت پیپلز پارٹی نے قوم پرستوں کو بحریہ ٹاؤن پر یلغار کرنے اور علی الاعلان سندھو دیش کے نعرے لگانے والوں کے خلاف خاموش تماشائی کا کردار ادا کرکے سب کے سامنے پیش کر دیا ہےـ
اس سلسلے میں ذیل میں موقر روزنامہ امت میں شائع ہونیوالی رپورٹ نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ سندھ حکومت کی کھلی بدمعاشی پر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصدق کس طرح صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، ملاحظہ فرمائیں
”کراچی۔۔۔نیب کی طرف سے کراچی اور حیدرآباد میںتعینات سندھ کے دیہی علاقوں کا ڈومیسائل رکھنے والے افسران کی تفصیلات طلب کرنے کے معاملے پر سندھ اور نیب میں ٹھن گئی۔ سندھ حکومت کی طرف نیب لیٹر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔وزیراعلیٰ سندھ کی برہمی پر محکمہ سروسز نے محکموں کو تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق ارسال کیا گیا لیٹر منسوخ کردیا گیا۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کوتفصیلات فراہم کرنے کے لیے ایک اور لیٹر ارسال کریں گے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے بھی مزاحمت کا اعلان کردیا غیر آئینی اقدام کی ہر فورم پر مذمت کرنے کا اعلان۔تفصیلات کے مطابق نیب کی طرف سے سندھ کے افسران کی تفصیلات طلب کرنے کے معاملے پر سندھ حکومت اور نیب کے درمیان ٹھن گئی ہے اور سندھ حکومت نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی حکومت کی ہدایات پر نیب کراچی کی طرف سے سندھ کے دیہی علاقوں کے ڈومیسائل رکھنے والے گریڈ ایک سے 22 تک کے افسران و ملازمین کی کراچی اور حیدرآباد میںتعیناتیوں سے متعلق تفصیلات طلب کرنے پر سندھ حکومت نے سخت اعتراض اٹھاتے ہوئے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سندھ حکومت کی طر ف سے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ سروسز کو ہدایات جاری کی کہ فوری طور پر افسران کی تفصیلات سے متعلق جاری کیا جانے والا لیٹر منسوخ کیا جائے۔ سندھ حکومت کی ہدایات کی روشنی میںمحکمہ سروسز نے فوری لیٹر جاری کرتے ہوئے تمام صوبائی محکموں، آئی جی سندھ، تمام کمشنرز،ڈی سیز،ایڈیشنل چیف سیکریٹریز اور محکمہ سروسزکے سیکشن افسران کو کئے جانے والے لیٹر
(01)2021/OB/1ـSGA&CDNOـSOI میں ہدایت کی گئی ہے کہ اس سے قبل افسران کی تفصیلات کی فراہمی کے لئے 5 مئی کو لکھاجانے والا لیٹر منسوخ تصور کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام کی طرف سے 27 اپریل کو لکھا جانے والا خط محکمہ سروسز کی طرف سے خفیہ رکھا گیا اور اس سے متعلق سیکریٹری یا وزیراعلیٰ سندھ سے اجازت طلب کئے بغیر صوبے کے تمام محکموں،کمشنرز،ڈپٹی کمشنرز،سیکریٹری،سندھ اسمبلی،آئی جی سندھ اور تمام اتھارٹیزکے چیئرمینزکو لیٹر ارسال کرتے ہوئے تفصیلات طلب کرلی تھیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلی سندھ کو سوشل میڈیا کے ذریعے نیب لیٹر سے متعلق معلوم ہوا جس پر انہوں نے چیف سیکریٹری سے تفصیلات طلب کیں اور سخت برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت جاری کی کہ محکمہ سروسز کے ایسے لیٹر کو منسوخ کیا جائے جس کے ذریعے افسران کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق نیب کی طرف لکھے جانے والے لیٹر CVCـ1/NO.201888
/1729/2021(NAB)K/00ـ2/931 سے متعلق سخت ہدایات جاری کرنے سے پہلے وزیراعلی سندھ نے آئینی ا ور قانونی ماہرین سے بھی کی۔وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے برہمی کا اظہار کئے جانے کے بعد اب محکمہ سروسز کا کہنا ہے نیب کو کسی بھی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ نیب نے جو تفصیلات مانگی ہیں وہ نیب دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں کا ڈومیسائل رکھنے والے افسران کی کراچی اور حیدرآباد میں تعیناتی کی تفصیلات طلب کرنے سے متعلق نیب کا لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد نیب ترجمان نے وضاحت جاری کرتے ہوئے تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ نیب نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر نیب کے خط کا حقیقت کے برعکس تاثر لیا گیا ہے اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ نیب جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر غیر مقامی افراد کو جعلسازی کے ذریعے ڈومیسائل جاری کرنے کی تحقیقات کررہا ہے۔ قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نا اہل قرار کو جعلسازی کے ذریعے انہیں ڈومیسائل جاری کر کے دیہی کوٹے پر انہیں اہم عہدوں پر بھرتی کیا گیا جس کی تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہے ترجمان کا کہنا ہے کہ نیب ایسی تعیناتیوں اور بھرتیوں کی تصدیق کی جارہی ہے اور نیب کی طرف سے سندھ حکومت مزید تفصیلات کے ساتھ ایک اور لیٹر ارسال کیا جائے گا۔ نیب بنا فرق کے شفافیت کی بنیاد پر تحقیقات جاری رکھنے پر یقین رکھتا ہے نیب سرکاری افسران کے انتظامی امور میںمداخلت نہیں کررہا جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر ہونے ولای بھرتیوں اور تعیناتیوں کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ دوسری جانب نیب کی طرف سے تفصیلات طلب کرنے کے معاملے پر سندھ کی بیوروکریسی میں سخت تشویش پائی جارہی ہے۔ متعدد افسران کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے چھوٹے ملازمین و افسران کو برداشت نہیں کررہا۔ یہ انوکھی تحقیقات ہے جو نیب نے شروع کی ہے جو اس کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہے اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سندھ ترقی پسند پارٹی ڈاکٹر قادر مگسی نے سوال اٹھایا کہ کیا وفاق اور نیب نے باقی سارے چور پکڑ کرجیلوں میں بند کردیئے ہیں ملک میں لوٹ مار کے سب ذمہ دار بے نقاب کردیئے گئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی سندھ پر یلغاری غیر قانونی اور غیر آئینی ہے نیب نے صوبائی معاملات میں مداخلت کر کے سندھ پر بد ترین حملہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف سندھ کے لوگوں کو انہی کے وسائل سے محروم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف سرکاری ملازمین کو بھی بے دخل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔عوام تحریک کے سربراہ لطیف پلیجو نے کہا کہ وفاقی حکومت کو جن معاملات پر مداخلت کرنی چاہیے ان پر خوش ہے اور ان معاملات پر مداخلت کی جارہی ہے جو اس کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب سندھ کی تاریخ کو چیلنج کررہا ہے۔ افسران کا ریکارڈ اور ڈومیسائل طلب کرنا آئین اور قانون کے برعکس ہے جس کی ہرفورم پر مذمت اور مزاحمت کی جائے گی۔ اس سلسلے میں پی پی پی کی اپنی سیکریٹری اطلاعات پلوشہ خان نے وزیراعظم کے احتساب سے متعلق مشیر شہزاد اکبر کی ہدایات پر نیب کی طرف سے جاری لیٹر کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ نیب کا لیٹر صوبے پر حملہ ہے شہزاد اکبر وہی کام کررہا ہے جو بنگلا دیش میں کیا گیا تھا ہم اب شہزاد اکبر کا ڈومیسائل چیک کریں گے۔”
پیپلزپارٹی کے عمائدین اور رہنماؤں نے آئین و قانون کی پامالی پر جس طرح معاملے صوبائی عصبیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اس کا انداز مذکورہ بالا خبر سے بخوبی ہو جا تا ہےـ پیپلز پارٹی کی اس ڈھٹائی اور دیدہ دلیری ہر وفاقی حکومت کیا ایکشن لیتی ہے یا سیاسی مصلحت کے پیش نظر معاملہ کو جوں کا توں چھوڑ دیتی اور سندھ کے شہری عوام کو ان وڈیرہ شاہی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گاـ کیونکہ مولا علی کرم اللہ وجہہ کا قول قیامت تک سنہری لفظوں میں یادگار رہے گا کہ ” کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت نہیں”
٭٭٭