اندھیرے سے ڈرتا ہوں میں ! 2021 میں پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور پر 1896 واقعات رپورٹ ہوئے

سعدیہ مظہر
زینب پچھلے تین سال سے مسلسل بھیک مانگنے آتی ہے۔ جب وہ پہلی بار دروازے پر آئی تب اس کی گود میں ایک چند ماہ کی بچی تھی۔ وہ کہتی تھی میرا شوہر معذور ہوچکا ہے، ہمارے پاس کھانے کو نہیں۔ آج اس کے تین بچے ہیں اور وہ پیٹ سے ہے۔ اب کی بار برداشت ختم ہوئی تو اس کو جھڑک دیا کہ جب کھانے کو نہیں تو بچے پیدا کرنے کا کسی نے ٹھیکہ دیا ہوا ہے؟ وہ ہنسی اور کہنے لگی یہ اب مجھے کما کر کھلائیں گے۔
یہ صرف ایک زینب نہیں ہے، یہ ایک ذہن ہے، سوچ ہے جو یقین رکھتا ہے کہ ہر آنے والا بچہ ان کیلیے بہترین روزگار کا ذریعہ ہے۔ بھیک مانگے گا، کسی دکان پر چھوٹا لگ جائے گا یا پھر کسی کے ہاتھ چڑھ جائے گا۔ ایک محدود اندازے کے مطابق پاکستان کے تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں ایسی چھوٹی چھوٹی دنیائیں آباد ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اب جب بچوں پر جنسی تشدد، کم عمری کی شادی کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہو تب ایسی آبادیوں میں جنم لینے والی ننھی جانیں کتنی محفوظ ہوں گی؟
بچوں کو جنسی تشدد اور ہر قسم کی لاقانونیت سے محفوظ بنانے والی ایک این جی او کی 2021 کی رپورٹ، جو کہ چھ ماہ کے دورانیے پر مشتمل ہے، کے مطابق 2021 میں پورے پاکستان سے بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور پر 1896 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جنہیں صرف کسی بھی جگہ پر رپورٹ کردیا گیا مگر بہت سے واقعات آج بھی دبا دیے جاتے ہیں یا پھر جن کو اہم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ رپورٹ شدہ کیسز کے حساب سے روزانہ اوسطا 10 بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال ان واقعات میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہم جس ریاست مدینہ کی تمنا لیے ہوئے ہیں وہاں بچوں پر تشدد کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جنسی زیادتی کے 1084، اغوا کے 523 اور گمشدگی کے 238 واقعات ہوئے جبکہ کم عمری کی شادی کے 51 واقعات رپورٹ ہوچکے۔
این جی او کی اس رپورٹ میں شایع کردہ ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ رہا کہ جنسی تشدد بچیوں پر مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وہ معاشرہ جہاں باشعور عورت آج بھی اپنے حقوق کی جنگ کیلیے عورت مارچ کا سہارا لے رہی ہے اور مسلسل تنقید بھی سہہ رہی ہے، اسی معاشرے میں وہ بچیاں جو اپنے حقوق سے ویسے ہی لاعلم ہیں تو آواز اٹھانا یا مدد مانگنا تو ایک خواب کے سوا کچھ نہیں ہے ان کیلیے۔
انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں شاید کسی ذی روح کو اس تکلیف سے بچا پائی ہوں یا امید کی ایک کرن پولیس ہے۔ لاہور سے گمشدہ دو بہنوں کا سراغ بھی پنجاب پولیس نے موبائل لوکیشن کے ذریعے لگایا اور وہ بچیاں ساہیوال سے بحفاظت مل گئیں۔ مگر لاپتہ، گمشدہ کتنے بچے ایسے ہوں گے جو ابھی تک کسی شمار ہی میں نہیں۔
جنسی تشدد کے حوالے سے اگر مزید بات کی جائے تو اس کا شکار بچوں کی عمریں 6 سال سے 15 سال تک ہیں، اپنے لیے خواب بننے کے خواب دیکھ رہے ہوتیکی ہیں، یعنی وہ جو ابھی لڑکھڑا کر چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے خوابوں کو کس بے دردی سے نوچا جاتا ہے۔
صوبہ پنجاب، وہ صوبہ ہے جہاں پر جنسی درندگی، جنسی تشدد، گمشدگی اور کم عمری کی شادی کے سب سے زیادہ یعنی 60 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پنجاب کے حوالے سے بہت سی تفصیلات پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں جن سے پنجاب پولیس کے بہت سے افسران خود لاعلم ہیں۔ دیہی علاقوں میں ان واقعات کی شرح شہری علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
یہ اعداد و شمار ہماری پولیس، انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والی تنظیموں اور بہت سے اداروں کیلیے طمانچے سے کم نہیں کیونکہ جب ہم ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں، حقوق نسواں کیلیے آواز بلند کرنے والوں کو بے لگام، بدزبان اور گمراہ کہتے ہیں تو وہاں حقوق کے تحفظ کا حصار کون بنائے گا؟
پنجاب سیفٹی ایپ، ایک احسن قدم تھا اگر اسے واقعی استعمال میں لایا جاتا۔ مگر یہ قدم کسی ادارے نے نہیں ہر باشعور اور پڑھے لکھے شہری نے اپنے ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلیے خود اٹھانا ہے۔
جنسی تشدد کا شکار بچہ، کس ذہنی اذیت سے گزرتا ہے ہم میں سے کون سمجھ سکتا ہے، وہ بڑا ہوکر بھی کس احساس کمتری اور خوف میں مبتلا رہتا ہے یہ سمجھنا بھی ناممکن ہے مگر احساس ہونا بھی کافی ہے۔