زلزلوں سے بچا ئوممکن ہے؟

عابد ضمیر ہاشمی
آٹھ اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو سولہ سال مکمل ہو گئے۔ اِس سانحہ میں ہزاروں افرادلقمہ اجل بنیلاکھوں گھر زمین بوس ہو گئے تھے۔ آٹھ اکتوبر 2005 کی صبح آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلہ نے آزاد کشمیر کے شمالی اضلاع کو اس بری طرح جھنجوڑ ا کہ آن کی آن میں 80 ہزارانسان لقمہ اجل بن گئے اور ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے۔چھ لاکھ گھر تباہ ہوئے اور لاکھوں خاندان آنا فانا بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور ہو گئے۔
سات اعشاریہ چھ شدت کے اس زلزلہ کا مرکز مظفرآباد سے بیس کلومیٹر شمال مشرق میں تھا ،ابتدائی نقصان کا تخمینہ تقریبا 124ارب روپے لگایا گیا۔ا سکولہسپتالسڑکیں اور سرکاری دفاتر سب کچھ ڈھیر ہو چکا تھا۔ یہ قیامت ِصغری کئی ماں کی گودیں کئی بچوں کے سر سے والدین کا سایہ کئی بچے یتیم کئی چمن اجڑ گئے محلوں میں سونے والے تہہِ خاک ہوئے تب دنیا پانچ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر یعنی تقریبا چار سو ارب روپے لیکر مدد کو پہنچی سانحہ اکتوبر میں تباہ ہونے والے شہر پہلے سے کہیں بہتر آباد ہو چکے ہیںلیکن ان شہروں کے مکین اپنے ان پیاروں نہیں بھلا پائیںجو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو کر ان قبرستانوں میں آبسے۔یہ قیامت ِصغری ہمیں کئی سبق دے گئی!زلزلہ آیااور آکر ہوگیا رخصتمگروقت کے رخ پر تباہی کی عبارت لکھ گیا!
قدرتی آفات میں زلزلہ ایسی آفت ہے جوکرہ ارض پر جہاں بھی آتا ہے وہاں تبا ہی وبربادی لاتا ہے۔ دنیا میں ابھی تک کوئی ایسانظام ایجاد نہیں ہو ا جس سے زلزلہ کا پیشگی پتہ چل سکے۔ بیسویں اوراکیسویں صدی میں کئی تباہ کن زلزلے آئے جو لاکھوں جانوں کو لقمہ اجل بنا گئے۔ زلزلوں کا مختصرا احوال یوں ہے؛ 1920 میں چین میں زلزلہ میں دولاکھ پینتیس ہزار افراد ہلاک ہوئے 1921 میں چین میں دو لاکھ افراد جان سے گئے 1923 میں جاپان کے شہر کالا ہاما میں ایک لاکھ چالیس ہزار القمہ اجل بنے 1935 میں پاکستان کے شہرکوئٹہ میں ساٹھ ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے 1980 میں اٹلی کے زلزلہ میں 83 ہزار افراد شہید ہوئے تھے 2001 میں ہندوستان کے شہر گجرات میں چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے 2004 میں سونامی سے ہندوستان انڈونیشیا سری لنکا اور تھائی لینڈ میں دولاکھ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔
2005 میں آزاد کشمیر میں قیامت خیز زلزلہ میں کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 70 ہزار افراد شہید ہوئے تھے۔ ابھی وہ زخم ہرے ہی تھے کہ میرپور آزاد کشمیر زلزلہ سے لرز اٹھا جس سے 26 افراد جان سے گئے کئی افراد زخمی شاہراہیں کھنڈرات بن گئیں کئی گھر ویران رہی سہی کسر آفٹر شاکس نے نکال دی۔ زلزلوں میں مالی نقصانات کا تخمینہ کھربوں ڈالر میں تھا 26 اکتوبر 2015 میں پاکستان میں 8.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی علاقہ اور باجوڑ ایجنسی میں 270 تک افراد شدید اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہونے کے ساتھ ہی اربوں روپے مالیت کی املاک کو نقصان پہنچا تھا۔
اِس وقت دنیا بھر میں روایتی جنگوں کا تصور بدل رہا ہے۔ اب معاشی واقتصادی جنگیں لڑی جا رہی ہیں خلا میں بالادستی قائم کرنے والی قوم ہی اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرسکتی ہے۔ سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی نے ایک نئی جہت پیدا کی ہے ابھی تو سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی کا آغاز ہے یہ ٹیکنالوجی کہاں تک پہنچے گی؟ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کائنات کا سارا نظام ہی لہروں سے چل رہا ہے ہر ستارے اور سیارے کی حرکت سے جوارتعاش پیدا ہورہا ہیاس کے اثرات ہماری زمین اور دوسرے سیاروں پر بھی پڑتے ہیں۔ اب سائنس ان بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کرنا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی۔ اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریبا ہر مسلمان واقف ہے جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں۔ ہماری کہکشاں (گلیکسی وے) میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں۔ سورج سے ہزاروں گنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔
کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں۔ جوہری سائنسدانوں نے انتہائی خوفناک اور شدت کے ساتھ زلزلے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہوگا کہ براعظموں کو جدا کردے گا اور اس سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ میگا سونامی کے ٹکرانے سے امریکہ اور ایشیا میں تقریبا 4کروڑ افرادہلاک ہو سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن میں جوہری انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ڈاکٹر نے دعوی بھی کیا ہے کہ یہ سونامی اور زلزلہ اس قدر شدید ہوگا کہ صرف امریکہ کے مغربی ساحل پر 2 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے سوالبارڈ نامی جزیرے میں تمام جینز کو محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا۔ سوالبارڈ نارتھ پول اور ناروے کے بیچ میں واقع ایک ٹھنڈا جزیرہ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے سرد علاقہ ہے۔ اس کا درجہ حرارت ہمیشہ منفی ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس میں حفاظتی تہہ خانہ بنایا گیا ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 130 میٹر بلند ہیجو کسی بھی سمندری آفت یا سطح سمندر کے بڑھنے کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔ اس میں تین والٹس بنائے گئے ہیں جن میں 15 لاکھ بیجوں کے سیمپلز فی والٹ رکھے جاسکتے ہیں۔ مجموعی طورپر 45 لاکھ نمونے رکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 18 ڈگری رکھا جائے گاجوکہ ان بیجوں اور جینز کی عرصہ دراز تک حفاظت کیلئے ضروری ہے۔ 19 جون 2006 کو اس گلوبل سیڈ والٹ کا سنگِ بنیاد ناروے سویڈن فن لینڈ ڈنمارک اور آئی لینڈ کے وزرائے اعظم نے رکھا تھا اور 26 فروری 2008 کو اسے مکمل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 60 لاکھ مختلف اقسام کے بیج مختلف ملکوں کے جینز بینکوں میں محفوظ ہیں لیکن یہ تمام بینک قدرتی آفات اور نیوکلیئر جیسے خطرات سے محفوظ نہیںجس کے باعث ان کی بقا یقینی نہیں۔
2005 کا ہولناک زلزلہ ہمیں منصوبہ بندی انسانی جانوں کے ضیاع کے سد ِباب کے لیے بروقت منصوبہ بندی کا عندیہ دے گیا لیکن اس کے باوجود ہم بے خبر ہیں۔ اس کے باوجود کہ سائنسدانوں نے بارہا متنبہ کیا ہے کہ زمین کی گردش میں کمی کے باعث تباہ کن زلزلوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زمین ہمیں زلزلوں سے پانچ سال قبل متنبہ کرنا شروع ہو جاتی ہے سائنسی نقطہ نظر سے جب انرجی زیادہ مقدار میں ہوتی ہے تو اس کا اخراج یا زمین کی گردش میں کمی کے باعث زمین میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے جس کے باعث زلزے آتے ہیں۔ اگر ہم اسلامی نقطہ ِ نظر سے دیکھیں تو 14سو سال قبل زلزلوں کے حوالہ سے آگاہی دی جا چکی کہ جب یہ زمین انسانوں کے گناہوں سے بھر جاتی ہے تو اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کانپ اٹھتی ہے جس سے زلزلے تباہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی حادثہ بلا وجہ یا اچانک نہیں ہوتا اس کے پیچھے بڑا ہوم ورک ہوتا ہے اس حوالہ سے اگر ہمیں بار بار آگاہی دی جارہی تو ہمیں اپنے گناہوں سے معافی مانگنی چاہیے۔
دوسری طرف ہمیں اپنی عمارتوں رہائشی علاقوں کی بھی دیکھ بھال کرنی چاہیے کیونکہ عمارتوں کے ناقص ہونے کی وجہ سے 2005 کے زلزلے میں کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ سانحہ 2005 کے بعد یہ امر کسی بھی طور پر خطرے سے خالی نہیں کہ سینکڑوں خستہ اور بوسیدہ عمارتیں کسی بھی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ کئی خطرناک قرار دی جانے والی اکثر عمارتوں میں آج بھی شہری یا طلبا رہائش پذیر ہیں۔ کسی بھی قدرتی آفت کے نتیجہ میں یہ عمارتیں ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنیں گی۔ دوسری بات کہ ہماری عمارتیں کسی سٹرکچرل انجنیئرنگ کے تحت ڈیزائن بھی نہیں کروائی جاتیں، ایسی کئی بوسیدہ ناقص عمارتوں کے گرنے سے پاکستان کے کئی شہروں میں انسانی جانیں ضائع ہوچکیں۔ متعدد سروے بھی کئے گئے جن میں یہ سب سے زیادہ خطرناک اور حادثوں کا باعث بوسیدہ اور اپنی عمر پوری کر چکی یہ عمارتیں ہیں مزید برآں ہزاروں کی تعداد میں کئی اور خطرناک و بوسیدہ عمارتیں زمین بوس ہونے کو تیار ہیں۔ آزاد کشمیر ریڈ زون میں شامل ہے جس میں ایک فالٹ لائن موجود ہے جس کے متحرک ہونے سے بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔ کئی عمارتیں اسی فالٹ لائن کے اوپر تعمیر ہو چکیں، باقی ماندہ کئی عمارتیں بھی ناقابل استعمال ہیں لیکن کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں طلبا وطالبات اور دور درازعلاقوں کے لوگوں ان عمارتوں میں قیام پذیر ہیں جو کسی بھی وقت ان عمارتوں کے باعث یا تو زندگی کی بازی ہار سکتے ہیں یا معذوروں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔
مزید کئی ایسی عمارتیں جو محض پینٹ یا فرضی مرمت وغیرہ کے ساتھ ان کا اصل چہرہ پوشیدہ ہے لیکن وہ قابل استعمال کسی صورت نہیںعمارتوں کے گرنے اور منہدم ہونے کی بہت وجوہات ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم مستحکم ڈھانچے کے بغیربنایا جانا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس بلڈنگ میں کتنا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے یا پھر عمارت کتنے عرصہ تک قابل ِ استعمال رہ سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ دولت کی بچت کی خاطر ماہرین کی رائے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بے ڈھنگی چار پانچ منزلہ عمارتیں ہزاروں انسانی جانوں کو نگل چکیں یا وہ مفلوج ہو کر ملک و معاشرے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ جب کہ دیگر اسباب میں شکتہ و بد حال عمارتوں کی بر وقت مرمت پر بھی کوئی توجہ نہ دیا جانا شامل ہے۔
دوسری طرف ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس حوالہ سے قانون موجود ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ بہت حساس ہے تاکہ وقتی بچت کی خاطر انسانی جانیں موت کے منہ میں نہ دھکیلی جائیں، قانون کے مطابق عمارتیں بنائی جائیں تو بڑی سے بڑی آزمائش کو بھی ٹالا جانا ممکن ہے۔ ان خطرات کے پیش نظر سائنس دانوں کی ایک کمیٹی اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کی حفاظت اور بقا کیلئے کرہ ارض پر بدترین صورتِ حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس میں کوئی بہت بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے یا ایٹمی جنگ کی وجہ سے کسی ملک یا خطے کی زمینی پیداواری صلاحیت کا یکسر ختم ہوجانا ، کوئی خاص بیج کی نسل کا دنیا سے یکسر ختم ہوجانا جیسے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتہائی جدید اور محفوظ انتظام کرنا ہوگا جس پر عالمی سطح پر موثر فیصلے ضروری ہیں تا کہ بیک وقت عالم انسانیت کی مجموعی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔