”مہنگائی” نیازی حکومت کا ایک ہی تحفہ!

نیازی حکومت کے غریبوں پر وار روز اول سے لے کر تا حال جاری و ساری ہیں۔ ہر پندرہ روز، مہینے بعد کیا،بعض اوقات تو یوں محسوس تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے آئے روز معلوم ہوتا ہے کہ پیٹرول کے نرخ بڑھ گئے، دوائیں مہنگی ہوگئیں، سونا مہنگا ہوگیا، ڈالر مزید چڑھ گیا، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ گئے، سریا، سیمنٹ مہنگے ہوگئے،گھروں کی قیمت بڑھ گئی، پلاٹ مہنگے ہوگئے، ٹرین کے کرائے بڑھ گئے، کرائے کے گھروں کے کرائے زیادہ ہوگئے، ڈاکٹروں نے فیس بڑھا دی، گھی، آٹا، دال، چینی، چاول،مہنگا ہوگیا۔مرغی اور گائے بکرے کا گوشت مہنگا ہوگیا،ٹماٹر،آلو،پیازمہنگاہوگیا،غرض ضروریات زندگی کی وہ کون سی چیز ہے، جس کے متعلق یہ سننے میں نہ آیا ہو کہ وہ مہنگی ہوگئی ہے۔ڈیری فارم والے بھی دھمکا رہے ہیںکہ دودھ 160 روپے لیٹر کردیا جائے گا۔پوری دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ جس کا جس چیز کا اور جتنا دل چاہے، مہنگا کردے۔ آخر کسی بھی ملک کی حکومت اور متفقہ،عدلیہ کا کیا مصرف ہوگا ہے!وزیر،مشیراور مختلف محکمے کسی مرضی کی دوا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے، مہنگائی کرنے میں خود حکومت پیش پیش ہے۔ جیسے پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو یہ حکومتی ادارہ کرتاہے، بجلی، گیس کے نرخ بڑھتے ہیں تو حکومتی ادارے نیپرا کی منظوری سے دوائیں مہنگی ہوتی ہیں تو حکومتی سرپرستی میں ڈالرکا ریٹ بڑھتا ہے تو حکومت کی منشا سے ،غرض ہر شعبہ زندگی میں پیدا ہونے والی مہنگائی کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے،جب پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کرائے بڑھادیئے جاتے ہیں کہ پیٹرول مہنگا ہوگیا ہے، ہم کیا کریں؟ پیٹرول مہنگا ہونے کے ساتھ ہی ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ یعنی پیٹرول کے نرخ مہنگائی کے اتارچڑھائوکے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ پیٹرول کے نرخوںمیں اضافے کا تعلق اوگرا سے جوڑاجاتا ہے، تا ہم اس کے ڈانڈ ےآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی ملتے ہیں،جو حکومتوں کو قرض دیتے وقت مختلف شرائط رکھتے ہیں، ان میں ٹیکس،بجلی،گیس،پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ اور روپے کی قدرکم کرنے کی شرط بھی شامل ہوتی ہے۔
نیازی حکومت نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچایا،نہ آج تک کسی قسم کا ریلیف دیا ہے۔ہرشعبہ زندگی کی ہر ہر چیز مہنگی اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے ،مگرانتہائی تعجب اور افسوس ناک بات ہے کہ صدر،وزیراعظم سمیت کسی حکومتی ذمہ دار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی نہ ان کے ماتھے پر بل آتا ہے، نہ ان کی طر ف سے کسی قسم کی تسلی یا تشفی سامنے آتی ہے ،یہ کیسی بے حس اورسنگ دل احکومت ہے ،جو عوام کی فریاد پر قطعی کان نہیں دھرتی اور صرف اپنی من مانی کرتی اور قرض دینے والے اداروں کو خوش کرتی جارہی ہے۔ نیازی حکومت کے عوام دشمن اقدامات سے ظاہرہوتا ہے کہ جیسے وہ پاکستانی عوام سے کسی قسم کا انتقام لے رہے ہیں، شاید اس بات کا کہ وہ ان کے جھانسے میں کیوں آئے؟اور ان کو ووٹ کیوں دیا؟
نیازی حکومت سے ویسے تو پورا پاکستان نالاں ہے، مگر باالخصوص اہل کراچی شدید ناراض اور مشتعل ہیں کہ 2018 ء کے انتخابات میں کراچی سے عمران نیازی اور اسکی پارٹی کے امیدواروں کو بہت بڑی تعداد میں ووٹ دئیے گئے تھے اور عمران نیازی سمیت ان کی پارٹی کے کئی امیدوار اپنی نشستوں پر جیت گئے تھے۔تا ہم نیازی نے کراچی کی اپنی نشست چھوڑدی تھی۔ مگر اہل کراچی نے عمران نیازی کی خوب صورت باتوں،وعدوں پر اعتبار کر کے ان کے ”بلے” کو جو اعزاز اور عزت بخشی تھی،وہی بلا کراچی والوں کے سرپرآج ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہے۔ ”سائیں سرکار” تو کراچی والوں سے نہ جانے کس جنم کا اور کس جرم کا انتقام اور بدلہ لے رہی ہے، مگر وفاقی حکومت بھی کراچی کو بری طرح نظر انداز کر کے اور اس شہر کے مسائل سے چشم پوشی کر کے احساس محرومی کو مزید بڑھارہی ہے۔ جیسے گزشتہ برس وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا گیا تھا، مگریہ 1100 ارب روپے نہ جانے کس خفیہ تہہ کانے یا خفیہ اکائونٹ میں پڑے ہوئے ہیں کہ آج تک باہرہی نہیں نکلے؟اس صورتحال میں سندھ حکومت سے مایوس اہل کراچی میں وفاقی حکومت سے بھی مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور اگر یہی صورت برقراررہی تو آئندہ انتخابات کے حوالے سے بڑے دعوے سے یہ پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ کراچی سے تحریک انصاف کا بھی صفایا ہوجائیگا۔
2019 کی اصلاحات ایکٹ
ہر پاکستانی کے دل کی آواز
پارلیمنٹ کے ارکان کو پنشن نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے سیلیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں۔2. مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے. ان کی تنخواہ ویسے تو ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے، لیکن اگر اتنی کم نہیں کی جا سکتی تو اتنی ذیادہ بھی نہیں ہونی چاہئیے، جتنی کہ اس وقت ہے۔(فی الحال تو یہ طریقہ رائج ہے کہ وہ اپنی تنخواہ میں اضافے کے لئے خود ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی سے من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں)3. ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے۔4. تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے یا یہ ہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں۔ (وہ نہ صرف یہ رعایت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ان کو انجوائے کرتا ہے اور وہ باقاعدہ طور پر اس میں اضافہ کرتے ہیں – جوکہ سرا سر بدمعاشی اور بے شرمی بیغیرتی کی انتہا ہے.)5. ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو، حال یا ماضی میں سزا یافتہ ہوں، موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر لحاظ سے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان کے خاندانوں کی جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے۔.6. پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے.7. اگر لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی توپارلیمنٹ کینٹین میں سبسیڈائزڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنی چائیے۔8.ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے. اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے۔* پارلیمان میں خدمت کرنا ایک اعزاز ہے، لوٹ مار کے لئے منافع بخش کیریئر نہیں *9. ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلی ہونی چاہیئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہواور NTS ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو.10.ان کے بچے بھی لازمی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں11. سیکورٹی کے لیے کوئی گارڈز رکھنے کی اجازت نہ ہو ۔12 ایک خاندان سے ایک ہی فرد ایم این اے یا ایم پی اے یا سینیٹر بنے ،ماں باپ ، بہن بھائی، بیٹا مل کر “قومی خدمت” کی کوشش سے باز رہیں، پارلیمینٹ قومی خدمت کا ادارہ ہے نا کہ خاندانی اجارہ داری کا مرکز ۔ 13 جو بھی عوامی نمائندگی میں آئے وہ اور اس کا خاندان اپنے کاروبار کے لئے سرکار سے انٹرایکشن سے باز رہے ۔14 اراکین اسمبلی و سینیٹ پر بیرون ممالک سے تعلیم پر پابندی لگائی جائے اور ان کے اہل خانہ بیوی بچوں کو ملکی تعلیمی اداروں سے حصول تعلیم کا پابند کیا جائے ۔ 15 تین مرتبہ سے زیادہ ایک شخص کو ممبر پارلیمان بننے پر پابندی عائد کی جائے ۔16 ممبر پارلیمان کی جانب سے سرکاری محکموں کو کی جانیوالی سفارشات کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنے کا قانون بنایا جائے ، خواہ سفارش تحریری ہو یا ٹیلیفونک اس کا ریکارڈ بنانا لازمی قرار دیا جائے ۔ 17 اگر ممبر پارلیمان کے اثاثہ جات میں دوران مدت رکنیت خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے تو اس کے بارے میں ذرائع یا منی ٹریل سے عوام کو باقاعدہ آگاہ کرنے کا قانون بنایا جائے ۔
افغانستان جنگ میں 2 ٹریلین ڈالر جھونک دئے گئے!
افغانستان جنگ میں 2 ٹریلین ڈالر جھونک کر امریکہ نے کیا حاصل کیا؟افغانستان میں تقریبا 20 سال کی جنگ کی لاگت 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوچکی ہے لیکن اتنی خطیر رقم کے بعد امریکہ پٹ کر واپس گیا اور آج پھر فاتحین کی حکومت ہے.2018 میں بران یونیورسٹی نے اس حوالے سے جنگ کے تخمینے پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ اندازہ لگایا کہ امریکہ نے جنگ کے مختلف پہلوں پر کتنا خرچ کیا اور کیا ان اخراجات نے اپنے مقاصد حاصل کیے؟ اور جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کو مزید کتنا خرچہ بھگتنا پڑے گا؟ 2001 میں جب القاعدہ کے نام نہاد دہشت گردانہ حملوں کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں پہلی فوجی کارروائی کا اعلان کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنا اور طالبان پر حملہ کرنا تھا ہم چند ہی سالوں میں یہ جنگ جیت لیں گے۔ جبکہ آج اس جنگ کے 20 سال بعد افغان فاتحین افغانستان کی حکومت دوبارہ حاصل کر چکے ہیں،جبکہ امریکہ بدترین شکست کھا کر منتیں ترلے کرکے نکل چکا ہے.امریکہ نے افغانستان میں رہتے ہوئے 20 برس کے دوران کئی منصوبوں پر پیسہ خرچ کیا جن میں انسدادِ منشیات پر 10 ارب ڈالر خرچ کیے گئے جبکہ اب بھی افغانستان دنیا کی 80 فیصد ہیروئن کی فراہمی کرتا ہے گو کہ اب فاتحین کی حکومت آنے کے بعد منشیات پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.سال 2018 کی ایک رپورٹ میں افغانستان کے تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جنرل نے انسداد منشیات کی کوششوں کو ایک “ناکامی” قرار دیا تھا کہ افیون کی کاشت سے لڑنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی افغانستان عالمی سطح پر غیر قانونی افیون کی 80 فیصد پیداوار کا ذریعہ ہے، یار رہے، اس پیداوار میں ایک بڑا حصہ سی آئی اے کا بھی تھا.جنگ سے پہلے اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ، 1996 سے 2001 کے دوران، جب فاتحین کی حکومت تھی،افغانستان نے افیون کو قریب قریب مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔ آج افیون کی کاشت آمدنی اور ملازمتوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سب سے بڑی معاشی سرگرمی ہے۔افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینے کے لئے 90 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے، امریکا کی کوشش تھی کہ ہزاروں افغان فوجیوں کی تربیت کی جائے، انھیں جدید اسلحے، جنگی جہازوں، ڈرونز اور ہیلی کاپٹرز سے لیس کیا جائے تاکہ یہ اپنی لڑائی خود لڑ سکیں. اس رقم میں ذیادہ تو خرچ ہونے والی امریکی رقم افغان آرمی اور پولیس کی تربیت، تنخواہوں اور سامان کی فراہمی میں خرچ ہوئی. لیکن اس کے باوجود افغان فوج آج اپنی حفاظت کرنے سے قاصر رہی اور جدید اسلحہ سے لیس ہونے کے بعد بھی ہتھیار پھینک گئی. اس کے علاوہ خود امریکہ کو افغانستان میں کئی 100 ارب ڈالر سے ذیادہ کا سامان چھوڑنا پڑا.رپورٹ کے مطابق 24 ارب ڈالر افغانستان کی معاشی ترقی پر خرچ کیے گئے، جبکہ جنگ سے وابستہ اخراجات نے 2007 کے بعد سے افغانستان کی معیشت کے سائز کو تقریبا دگنا کردیا ہے۔ لیکن اسے مستحکم اور کامیاب معیشت نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ سارا پیسہ کرپشن کی نذر ہو چکا. 2015 سے جب غیرملکی فوجوں کی موجودگی میں کمی آنے لگی تو اس وقت تک ایک چوتھائی یا زیادہ افغان بیروزگار ہوچکے تھے.عالمی انسدادِ کرپشن کے ایک گروپ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق حالات یہاں تک جا ہہنچے تھے کہ افغان کمپنیاں ہندوستان اور پاکستان سے سستی لیبر کی تلاش میں تھیں۔ جبک معدنیات کے شعبے میں خود کفالت کی امیدیں جس پر پینٹاگون نے فخر کیا تھا کہ افغانستان میں معدنیات کی مالیت 1 ٹریلین ڈالر ہے، اس پر بھی پانی پھر گیا تھا۔ چین اور دوسری جگہوں سے چند کمپنیوں نے کان کنی میں سرمایہ کاری شروع کی، لیکن ناقص سکیورٹی اور بنیادی ڈھانچے نے کسی اہم ادائیگی کو روک دیا اور کام ٹھپ ہوچکا۔اس کے علاوہ 30 ارب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو کے پروگرام پر خرچ ہوئے جس میں سے بیشتر رقم کرپشن اور ناکام منصوبوں کی نذر ہوگئی، امریکی ٹیکس دہندگان نے افغانستان میں تعمیرِ نو کی کوششوں کی حمایت کی جس میں امن کی بحالی ، مہاجرین کی امداد اور سیلاب کے لئے امداد ، برفانی تودے اور زلزلوں میں مدد کی کارروائیاں شامل تھیں لیکن امریکی ٹیکس دہندگان کا یہ پیسہ بھی ڈوب گیا۔انسپکٹر جنرل نے جو رقم پائی ، ان میں سے بیشتر رقم ایسے پروگراموں میں ضائع ہوتی تھی جن کا وجود ہی مشکوک تھا یا پھر وہ رقم کرپشن اور بندر بانٹ کی نذر ہوگئی. بحالی کے کاموں میں امریکی رقم سے ایسے اسپتال بنانے گئے جس میں مریضوں کا علاج نہیں ہوتا, ایسے اسکول تعمیر کیے جہاں طالبان علم کو تعلیم نہیں دی جاتی تھی (یہاں تکہ ان میں سے بیشتر اسکول سرے سے موجود ہی نہیں)جن فوجی اڈوں پر رقم خرچ کی گئی وہ بھی بیکار پڑے رہ گئے اور بعض کا تو وجود ہی نہیں. انسپکٹر جنرل نے 2008 سے لے کر 2017 تک تعمیر نو کی کوششوں میں $ 15.5 ارب ڈالر فراڈ اور کرپشن میں ضائع کیا۔اس کے علاوہ امریکہ نے افغان جنگ بھاری قرض لیکر لڑی جس کی وجہ سے امریکہ کو 2023 تک یہ قرض 500 ارب ڈالر سود سمیت ادا کرنا ہے. اس کے علاوہ امریکہ اس جنگ میں 2 ٹریلین ڈالر پہلے ہی جھونک چکا ہے جبکہ قرضوں کی مد میں اور مزید سہولیات کے لیے آگے کے اخراجات الگ ہیں، جس میں سب سے بڑا قرضہ امریکہ نے چین کا دینا ہے۔مزید یہ کہ امریکہ کے 2060 تک 1.4 ٹریلین ڈالر سابق فوجیوں، زخمیوں اور معذوروں کو سہولیات پر خرچ ہوں گے جن کی ضروریات انکی معذوری اور بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتی رہیں گے.صرف عراق اور افغانستان میں لڑنے والے سابق فوجیوں پر اب تک 350 بلین ڈالر سے زائد رقم طبی امداد اور معذوروں کی دیکھ بھال پر خرچ کی گئی ہے. جبکہ اس میں سے نصف افغانستان میں ہونے والے فوجیوں کے نقصانات پر خرچ ہوگا.اسطرح ان دو ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھا کر امریکہ افغانستان میں سوائے بدترین اور ذلت بھری شکست کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکا۔