آزادی صحافت اور پیکا قانون پاکستانی صحافیوں کو خوفزدہ کرنے اور خاموش کرانے کا ذریعہ

 

سحر بلوچ
‘میں پچھلے پانچ سال سے اپنے بیٹے کو سکول نہیں بھیج رہا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ میرے بیٹے کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ میری رپورٹنگ کی وجہ سے مجھے شدید ذہنی اذیت کا شکار بنایا جارہا ہے،’علا الدین کلیار نے فون پر بتایا۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، خبریں اخبار بہاولپور سے منسلک علا الدین کلیار نے مبینہ طور پر ایک وزیر کی سرپرستی میں کام کرنے والے گینگ کے بارے میں چولستان میں چار ہزار ایکڑ زمین ہتھیانے کی رپورٹنگ کی تھی۔
علا الدین نے رپورٹنگ کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا اکانٹ پر بھی ان رپورٹوں کو شئیر کیا۔ لیکن علا الدین نے کہا کہ ‘اس رپورٹ کے چھپنے کے بعد سے میرا اپنا احتساب شروع ہوچکا ہے۔’
‘میرے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر کے مجھے پچھلے سال تین ماہ جیل میں رکھا گیا۔ مجھے مارا پیٹا گیا اور کہا گیا کہ میں یہ رپورٹ واپس لے لوں اور کہہ دوں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے۔ میں نے انکار کر دیا۔’
انھوں نے کہا کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد ان کے گھر کے باہر کوئی نہ کوئی کھڑا رہتا تھا۔ ‘اسی لیے میں نے اپنے بیٹے کو سکول سے نکال لیا ہے اور اب میں خود اسے گھر میں پڑھا رہا ہوں۔’
‘پیکا کے قانون کا بے دریغ استعمال’
ہر سال دو نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے سزا سے بچنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی آزادی صحافت سے متعلق اعداد و شمار اور صورتحال مسلسل تشویشناک نظر آرہی ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ کسی مقامی صحافی کو صحافت کرنے کے جرم میں قید یا ڈرایا دھمکایا گیا ہو۔ فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ علا الدین کا مقدمہ دور دراز علاقوں میں ہونے والے مقدمات کی بہترین مثال ہے۔
ہم نے جب علا الدین کے معاملے کی تحقیقات کروائی تو پتا چلا کہ زمینوں پر قبضے کے معاملات خاصے عرصے سے چل رہے تھے۔ اور پہلی بار کسی نے اس کو رپورٹ کیا جس کے بعد یہ صورتحال سامنے آئی تھی۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو کسی کو کان و کان خبر نہ ہوتی کہ علا الدین کے ساتھ کیا ہوا۔’
اسی سلسلے میں میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ ‘قانون کے ذریعے آن لائن اختلافِ رائے کو جرم قرار دینا’ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت زیادہ تر صحافی آن لائن پلیٹ فارم تک محدود ہو چکے ہیں۔ اور پچھلے تین سالوں میں ان آن لائن پلیٹ فارموں کو بھی صحافیوں کے لیے مزید تنگ کر دیا گیا ہے۔
صحافت کا نیا قانون
پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈنینس سے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی تک
صحافت
اسی طرح شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیکا یعنی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا قانون پاکستانی صحافیوں کو خوفزدہ کرنے اور خاموش کرانے کا ذریعہ بن کر ابھرا ہے ‘کیونکہ اس میں آن لائن اظہار کو جرم قرار دیا گیا ہے۔’ جبکہ اس قانون کا استعمال کرنے والے افراد اور ادارے قانون سے مبرا ہیں۔
مثال کے طور پر فریڈم نیٹ ورک کی نئی تحقیق کے ذریعے پتا چلا ہے کہ 2019 سے 2021 کے درمیان پیکا یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت ‘دو درجن سے زائد پاکستانی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔جبکہ 56 فیصد تعداد ان آن لائن صحافت کرنے والوں کی ہے جن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان افراد میں سے تقریبا 70 فیصد کو گرفتار کیا گیا اور پیکا کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی۔ جبکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘گرفتار ہونے والوں میں سے نصف کو مبینہ طور پر تحویل میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔’
23 صحافیوں اور آن لائن صحافیوں کے خلاف ہونے والے واقعات کے تجزیے بھی اس رپورٹ میں موجود ہیں۔ ان صحافیوں کو یا تو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پیکا کے تحت نوٹس بھیجے تھے یا پھر اسی قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
اس قانون کے تحت پاکستان کا صوبہ پنجاب صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک صوبہ رہا ہے۔ جہاں 23 میں سے 10 مقدمات رپورٹ ہوئے ہیں اور اسلام آباد میں 08 مقدمات درج ہیں۔
صحافیوں کے خلاف پیکا کے تحت شکایت کرنے والوں میں دو تہائی اکثریت شہریوں کی ہے جبکہ سرکاری محکموں میں سے شکایت کنندگان کے طور پر زیادہ تر افراد نے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کا نام لیا۔
ان الزامات کی نوعیت کیا ہے؟
صحافیوں کے خلاف درج شدہ شکایات میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس اداروں کے خلاف آن لائن بات کرنے یا رپورٹ کرنے کے بارے میں تھی۔ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے خلاف فوج، انٹیلیجنس اداروں، حکومت اور عدلیہ کے خلاف رائے یا تنقید کی شکایات کی بنیادی نوعیت مبینہ ہتک عزت تھی۔
گرفتار ہونے والے صحافیوں میں سے کئی کے خلاف قانون کی دیگر دفعات بھی شامل کی گئیں جس کے تحت چند صحافیوں کو چند دن جبکہ کچھ کو کئی دن قید میں گزارنے پڑے۔ ان میں سے تمام صحافی ضمانت لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
کن صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے؟
اقبال خٹک نے بتایا کہ اب تک درج ہونے والی شکایات میں زیادہ تر ان صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو اپنا یوٹیوب چینل چلاتے ہیں یا پھر کسی ادارے سے منسلک نہیں بلکہ فری لانسنگ کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، پیکا قانون کی دفعہ 20 صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ استعمال کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیکا کے قانون کو تقریبا ایک تہائی صحافیوں نے عدالت میں چیلنج کیا اور وہ ان مقدمات میں کامیاب بھی ہوئے۔