تحریک لبیک پاکستان کو قومی مفاد کے نام پر رعایت

کیا حکومتی اقدامات نے ملک میں بزور بازو مطالبات منوانے کی روش کا راستہ ہموار کیا؟

شہزاد ملک
حکومت پاکستان اور مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ خفیہ رکھا گیا لیکن گذشتہ چند دنوں کے اندر اس جماعت کو ملنے والے سرکاری ریلیف نے جہاں اس معاہدے کے نکات سے پردہ اٹھانا شروع کیا وہیں اس سارے عمل میں حکومتی عجلت پر سوالات اور ملک کے سیاسی اور سماجی مستقبل پر ممکنہ دور رس نتائج پر بحث کو جنم دیا ہے۔
اتوار کو وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالے جانے کے بعد حکومت نے تحریک لبیک کو رعایت دینے کی جو وجوہات گنوائیں ان میں قومی مفاد سر فہرست تھا لیکن کیا حکومتی اقدامات نے ملک میں پر تشدد واقعات اور بزور بازو مطالبات منوانے کی روش کا راستہ روکا یا مزید ہموار کیا، یہ اب تک غیر واضح ہے۔
مذہبی جماعت کو رعایت پہلی مرتبہ نہیں دی گئی
کالعدم جماعتوں کے امور پر گہری نطر رکھنے والے تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ریاست نے پہلی مرتبہ کسی پرتشدد جتھے کے سامنے قومی مفاد کی آڑ میں سرنڈر کیا ہو بلکہ ماضی بھی اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں پر مختلف تنظیموں کے ساتھ معاہدے کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ اسی قسم کی رعایت کسی وقت میں جماعت اسلامی کے ساتھ بھی کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ایک افغان تنظیم نے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی تھی اور اس کے ساتھ بھی اس وقت کی حکومت اور ریاست نے مذاکرات کیے تھے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جتنی رعایت مذہبی جماعتوں کو دی گئی ہے اس طرح کی رعایت دوسری جماعتوں کو نہیں دی گئی کیونکہ ان مذہبی جماعتوں کو ان کے بقول نظریہ پاکستان کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ تحریک لبیک پہلے سے ہی الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے اس لیے یہ جماعت پہلے سے ہی قومی دھارے میں ہے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک لبیک کا کسی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنوا دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں بہت سی جماعتیں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر کے اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ان کے ساتھ اس طرح مزاکرات نہیں کیے جاتے جس طرح مذہبی جماعتوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔
تجزیہ نگار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے جب تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تو قوم کو بتایا گیا کہ یہ معاہدہ قومی مفاد میں کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک وہ قومی مفاد کی تعریف سمجھنے سے قاصر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں جب سپریم کورٹ کی طرف سے فوجی مارشل لاز کو جائز قرار دیا گیا تو اس وقت بھی قومی مفاد میں نظریہ ضرورت اتحاد ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی نظر میں قومی مفاد کی تعریف الگ ہے اور قوج کی نظر میں قومی مفاد کی کوئی اور تعریف ہے۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز برسرپیکار رہی ہیں اور اب اس جماعت کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں جس نقطے پر فوری اور کم طاقت صرف کر کے عمل درآمد ہو سکتا ہے وہ لاڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی تھی لیکن اس پر بھی آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کرنا اور پھر اس معاہدے کی روشنی میں اس کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنا ہی تھا تو حکومت کو یہ کام اسی وقت ہی کرنا چاہیے تھا جب شاہدرہ کے قریب تحریک لبیک کے کارکنوں نے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جاتا، تو ہو سکتا ہے کہ سادھوکی کے قریب نہ پولیس اہلکاروں کی جانیں جاتیں اور نہ ہی پولیس اہلکار وہاں سے بھاگ نکلتے جو کہ ادارے کی بدنامی کا باعث بنا۔
پولیس
تحریک لبیک پاکستان کی مجلس شوری کے رکن پیر عنایت الحق شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے حکومت سے جو معاہدے کیے تھے وہ پورے کر دیے ہیں اور اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ تحریک لبیک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو پورا کرے۔
پیر عنایت الحق شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت نے ان کی جماعت کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکال دیا ہے لیکن ابھی تک ان کی جماعت کے آٹھ سو کے قریب کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں موجود ہیں اور پولیس اہلکار ان کارکنوں کو تھانوں میں بلوا کر حاضری لگوا رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے بارے میں جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اس کی کاپی گورنر سٹیٹ بینک کو بھی بھیجی گئی ہے تاہم پیر عنایت الحق شاہ کا کہنا ہے کہ ان سمیت جتنے بھی کارکن فورتھ شیڈول میں ہیں ان کے بینک اکانٹس ابھی تک بحال نہیں کیے گئے۔
رکاوٹیں
مذہبی جماعتوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت
تجزیہ نگار افتخار احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں نکالنے کا مطالبہ ایک فطری عمل ہے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے حکومتی فیصلے کے بعد کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر چند تنظیموں نے بھی اپنا نام اس فہرست سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔افتخار احمد نے کہا کہ جہاں ریاست اپنی عملداری پر سمجھوتہ کرے تو وہاں پر ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دنیا پاکستان کے حالات کو دیکھ رہی ہے اور وہ حکومت وقت سے ضرور سوال کرے گی کہ کچھ عرصہ پہلے جن شدت پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اب کن وجوہات پر ان کو اس فہرست سے نکالا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماں کی طرف سے بھی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ کراچی میں ان کے دفاتر کو بھی دوبارہ کھولا جائے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ تحریک اہلسنت والجماعت کی طرف سے ان کو اس فہرست سے نکالنے کا مطالبہ کوئی انھونی بات نہیں بلکہ اس طرح کا مطالبہ دیگر تنظیموں کی طرف سے بھی آ سکتا ہے جنھیں کالعدم جماعت قرار دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کے بارے میں بطور ریاست پاکستان کا رویہ دوسری جماعتوں سے ہٹ کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس بارے میں اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اگر کسی جماعت کو کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا جائے تو اس کو اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہوں اور محض ذاتی عناد کی بنیاد پر کسی جماعت کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل نہ کیا جائے۔
ممکنہ آپریشن سے معنی خیز مذاکرات تک: ٹی ایل پی کے ساتھ معاملات میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟
عید میلاد النبی کے جلوس کے احتجاجی مارچ میں تبدیل ہونے کے بارے میں کسی بھی قانون نافذ کرنے والے یا انٹیلیجنس ادارے کو پیشگی اطلاع نہیں تھی
لاہور سے 21 اکتوبر کو شروع ہونے والے کالعدم مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے عید میلاد النبی کے جلوس سے لے کر 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے تک اس کالعدم تحریک کا احتجاجی مارچ مختلف نشیب و فراز سے گزرا۔
اس دوران اس تنظیم کے سرکردہ رہنماں اور ریاست کے اہم ترین عہدوں پر فائز بعض شخصیات کے مابین مذاکرات کے کئی دور ہوئے جس میں ان شخصیات نے مختلف اوقات میں مختلف قسم کے مقف اختیار کیے۔
ان 10 روز کے دوران کئی مرتبہ انکار ہوا، جو بعد میں اقرار میں بدلا اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اس احتجاجی مظاہرے کے خلاف ریاستی ایکشن ہوتے ہوتے ٹل گیا۔
حکومت، فوج، آئی ایس آئی، بعض اہم قومی رہنماں اور خود اس کالعدم تنظیم کے رہنماں نے ان مذاکرات کے دوران مختلف طرح کے مقف اختیار کیے اور ریاستی سطح پر متضاد نوعیت کے اشارے ملتے رہے اور فیصلے بدلتے رہے۔
یہ سارا معاملہ شروع اس وقت ہوا جب 21 اکتوبر کی شام کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والا جلوس اپنے مقررہ وقت پر اختتام پذیر ہونے کے بجائے طوالت اختیار کر گیا۔
لاہور پولیس اور قانون نافذ کرنے اور نگرانی کرنے والے اداروں کے ہاتھوں کے طوطے اس وقت اڑ گئے جب سٹیج سے اعلان ہوا کہ میلاد کا یہ جلوس ختم نہیں ہو گا بلکہ احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کرے گا۔
اس اعلان نے پولیس، صوبائی حکومت اور خاص طور پر انٹیلیجنس اداروں کے لیے ناصرف خطرے کی گھنٹی بجا دی بلکہ بعض اداروں کے لیے سبکی کا سامان بھی کر دیا۔
بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ اس جلوس کے احتجاجی مارچ میں تبدیل ہونے کے بارے میں کسی بھی قانون نافذ کرنے والے یا انٹیلیجنس ادارے کو پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ ان اداروں کی یہ نالائقی بہت سے اہم انٹیلیجنس اہلکاروں کی اپنے اعلی افسران کے ہاتھوں کھنچائی کا باعث بھی بنی۔
لاہور پولیس میں اعلی سطح پر ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کو بھی اسی سستی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔
جوں جوں اس جلوس کا رخ لاہور کے خارجی راستوں کی طرف بڑھتا گیا، صوبائی کے بعد وفاقی حکومت میں بھی تشویش پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ وزیرِ اعظم کو اطلاع فراہم کی گئی جس کے بعد لاہور میں وفاق کے زیر انتظام ایک اہم انٹیلیجنس ادارے کے دفتر میں بعض متعلقہ وزرا اور حکمران اتحادی جماعتوں کے رہنماں کا ایک غیر رسمی اجلاس بھی ہوا۔
اس اجلاس کی کارروائی سے باخبر ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اس جلوس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ حکمران جماعت کی قیادت اور بعض صوبائی وزرا نے اس جلوس کو بزور طاقت روکنے پر اصرار کیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس بارے میں اعلی ترین سطح سے تحریری حکم کے بغیر طاقت کے بھرپور استعمال کی مخالفت کی۔
وہاں یہ ذکر بھی ہوا کہ اپریل میں اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس نے ایکشن لیا تھا جسے سیاسی حمایت نہیں ملی اور پولیس کو سبکی کے ساتھ جانی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
دوسری طرف اس انٹیلیجنس ایجنسی کے ریجنل ذمہ دار، جن کے دفتر میں یہ اجلاس ہو رہا تھا، انھوں نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ کسی بھی سیاسی مینڈیٹ کے بغیر اس جلوس کے شرکا سے بات چیت تک ممکن نہیں ہے۔
اس شش و پنج میں پہلی رات گزری اور اگلی صبح یہ جلوس لاہور کی حدود سے باہر نکل چکا تھا اور اس دوران تشدد کے واقعات میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں بھی ہو چکی تھیں۔
ذرائع کے مطابق معاملہ وزیرِ اعظم تک پہنچا جنھوں نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے ٹیلی فون پر بات کی اور ہدایت کی کہ یہ جلوس اسلام آباد میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔
اس مختصر حکم میں سیاسی حکمت عملی یا سمت کے تعین کا عنصر موجود نہیں تھا۔ ان دونوں رہنماں نے اگلے روز ملک سے باہر بھی جانا تھا لہذا اس مختصر حکم کو پنجاب حکومت کے حوالے کر کے وزیراعظم سعودی عرب اور وزیر داخلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے دبئی روانہ ہو گئے۔
ٹی ایل پی کا مارچ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا اور اس دوران بغیر کسی سیاسی اور حتمی فیصلے کے پولیس اور انتظامیہ انھیں روکنے کی نیم دلانہ سی کوششیں کرتی دکھائی دی۔ اس دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے اور غیر مسلح پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ان کے زخمی اور ہلاک ہونے کی خبروں میں تیزی آ گئی۔
حکومت کا تحریکِ لبیک سے معاہدے کا اعلان، تفصیلات سامنے آنے تک لانگ مارچ جاری رہے گا
اس موقع پر وزیر اعظم نے وزیرِ داخلہ کو فورا واپس پہنچنے اور ٹی ایل پی کے ساتھ انگیج کرنے کا حکم دیا۔
شیخ رشید اسلام آباد پہنچے اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے ہمراہ وزیرِ اعلی کے خصوصی طیارے میں لاہور روانہ ہو گئے۔
لاہور میں انھوں نے ٹی ایل پی کی شوری کے بعض ارکان سے مذاکرات کیے جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ شیخ رشید نے اس دوران مختلف ریاستی اداروں کے حکام سے رابطے کیے اور انھیں بھی ان مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر راضی کر لیا۔
ان رابطوں سے واقف شیخ رشید کے بعض قریبی ذرائع نے بتایا کہ اس موقع پر طے پایا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی سے براہ راست رابطہ کیا جائے۔
یہ حربہ کامیاب رہا اور ٹی ایل پی شوری کے بعض ارکان کی موجودگی میں سعد رضوی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں حکومت ان سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
ذرائع کے مطابق ان میں سرِ فہرست یقین دہانی یہ تھی کہ جب تک حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان بات چیت جاری رہے گی، ان کا احتجاجی مارچ جہاں ہے وہیں رکا رہے گا اور یہ کہ وہ اسلام آباد کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ کو کھول دیں گے۔
شیخ رشید نے بعد میں اپنے ایک قریبی ساتھی کو بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ٹی ایل پی کے صفِ اول کے رہنماں میں سب سے معقول اور لچک دار رویہ سعد رضوی نے اختیار کیا۔
شیخ رشید واپس اسلام آباد آ گئے اور سعد رضوی جیل واپس چلے گئے، لیکن جی ٹی روڈ پر حالات نہیں بدلے۔
وزیرِ اعظم سعودی عرب سے واپس اسلام آباد پہنچے اور اپنی جماعت کی کور کمیٹی سے ملاقات کی۔ شیخ رشید نے صورتحال پر بریفنگ دی جس کے بعد مشاورت کا سلسلہ شروع ہوا اور متعدد ارکان نے اپنی رائے ظاہر کی۔ ٹی ایل پی کی سٹریٹ پاور کے ساتھ ساتھ اس کی مستقبل میں انتخابی مقبولیت پر بھی بات ہوئی۔
اس طویل اجلاس کی روداد سے واقف بعض ذرائع کہتے ہیں کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے بہت کم ایسے اجلاس دیکھے ہیں جس میں اتنی واضح اور دلیرانہ بات چیت اور مقف سامنے آیا ہو۔
بعض رہنماں نے اس معاملے کو صلح صفائی سے حل کرنے پر زور دیا جس میں شیخ رشید سرِ فہرست تھے مگر بڑی اکثریت سے یہ رائے مسترد ہوئی اور ٹی ایل پی کو ہر قیمت پر روکنے اور بغیر معاہدے کے گھر واپس بھیجنے پر اتفاق ہوا۔
اس اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وہ معروف جملہ کہا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ عسکریت پسند گروہ کے طور پر نمٹا جائے گا۔ پنجاب کو رینجرز کے حوالے کیا گیا اور ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی گئی۔
وزیراعظم نے مسلح افواج اور انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان کو بنی گالہ میں مدعو کیا اور اس معاملے پر مشاورت شروع ہوئی۔
وزیرِ داخلہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے جن کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشاورت مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا جو ٹی ایل پی سے کسی بھی قسم کے معاہدے یا بات چیت کے خلاف تھا۔

وزیرِ اعظم نے اجلاس کو واضح طور پر بتایا کہ وہ ریاست کی رٹ ہر حال میں برقرار رکھنا چاہیں گے۔
اگلے روز وفاقی وزیرِ داخلہ سے کہا گیا کہ وہ پریس کانفرنس اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے یہ پیغام سخت ترین لہجے میں ٹی ایل پی تک پہنچائیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اتوار کے روز شیخ رشید کی پریس کانفرنس کے فورا بعد وزیرِ اعظم نے انھیں فون کیا اور اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لہجے اور الفاظ میں وہ سختی واضح نہیں تھی جس کی انھیں ہدایت کی گئی تھی۔
اگلے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا اور ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا مقف دہرایا کہ ریاست کی رٹ ہو یا نہ ہو، یہ معاملہ قابل بحث یا قابل مذاکرات نہیں ہے، اس لیے ٹی ایل پی ریاستی رٹ تسلیم کرے، احتجاج ختم کرے اور اپنے گھروں کو جائے، ورنہ طاقت استعمال ہو گی۔
اس اجلاس میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ اگر ٹی ایل پی ایسا کر لیتی ہے تو پھر اس کے ساتھ لاہور میں بات ہو سکتی ہے۔ متعلقہ اداروں کو آپریشن کلین اپ کی تیاری کی ہدایت کے ساتھ یہ اجلاس ختم ہوا۔
جس وقت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا یہ اجلاس اسلام آباد میں جاری تھا، اس دوران بریلوی علما کرام کا ایک گروپ اچانک راولپنڈی میں نمودار ہوا۔ اس گروپ کی راولپنڈی اور پھر اسلام آباد میں چند خفیہ ملاقاتیں ہوئیں اور واقفان حال کے مطابق اسلام آباد کا ماحول اچانک تبدیل ہو گیا۔
انھی علما کا وفد مفتی منیب کی سربراہی میں بنی گالہ پہنچا اور ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کا فیصلہ اس کالعدم گروہ کے ساتھ معنی خیز مذاکرات میں تبدیل ہو گیا۔ شیخ رشید مذاکراتی کمیٹی سے اور فواد چوہدری فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہو گئے اور مفتی منیب اس سارے عمل میں اندر ہو گئے۔
بنی گالہ کے بعد یہ وفد کہاں گیا، کس سے ملا، مذاکرات میں کون کون شامل رہا، اس دوران جو معاہدہ ہوا اس میں کیا یقین دہانیاں کروائی گئیں، یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ریاست کے سیاسی ستونوں کے بعض اہم ترین افراد کو بھی یہ تفصیل معلوم نہیں۔
وزارت داخلہ کے سیکریٹری ان مذاکرات میں وفاق کی نمائندگی کرتے اور نوٹس لیتے رہے جبکہ ان کے باس یعنی شیخ رشید ان کی سرگرمیوں سے بھی لاعلم اور لاتعلق رہے۔
رات گئے ایک تصویر جاری ہوئی اور معاہدے کی کاپی تھامے ‘مذاکراتی ٹیم’ کے ایک رکن کا یہ جملہ سنائی دیا کہ فوجی سربراہ جنرل باجوہ نے ان مذاکرات میں ‘ہزار فیصد’ کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ اعلان کرنے والے موصوف ان مذاکرات میں کس کی نمائندگی کر رہے تھے۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے خفیہ مذاکرات پر عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور ٹی ایل پی کے ارکان کی رہائی کے علاوہ اس پر سے کالعدم کا ٹھپہ ہٹانے کے لیے کارروائی بھی جاری ہے۔
لیکن اس سارے معاملے میں وزیراعظم کی رائے اب کیا ہے؟ کیا وہ ذاتی طور پر اپنے اس مقف پر قائم ہیں جو انھوں نے اپنی جماعت کی کور کمیٹی کے سامنے رکھا اور پھر فوجی سربراہان کے سامنے قطعی انداز میں اس پر ڈٹے رہے؟
اس سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم ہاس کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رکھنے والے ایک سرکاری افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جاننے کے لیے آپ فواد چوہدری اور ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں۔