جدید دور کے وحشی اقوام عالم مسلمانوں پر ظلم و ستم پر خاموش اور بے حس تماشائی بنی ہوئی ہیں

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ مظلوم اور غریب کیلیے یہ دنیا ایک بدنما جگہ ہے۔ یہاں جو بات شاذ و نادر ہی تسلیم کی جاتی ہے وہ مظلوموں کی حالت زار ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے دنیا بطور خاص مغربی ممالک اندھے ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی آرڈرکیلئے بننے والے قوانین سراسر منافقت ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ قوانین مظلوم کی دادرسی تو بعید بلکہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں۔ عسکری لحاظ سے طاقتور ممالک کمزوروں کو دہشت گردی سے لڑنے کی آڑ میں جبر اور دہشت کا نشانہ بناتے ہیں، جبکہ امیر ترقی کے نام پر غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمیشہ طاقت اور دولت کی وجہ سے فرق تو رہے گا، لیکن جب ایک چھوٹی سی اقلیت دولت اور وسائل پر قابض ہوجائے اور اکثریت انتہائی غربت میں مبتلا رہے تو یہ غریبوں میں نفرت اور ناراضی کا باعث بنتی ہے۔ وہ تشدد جو بعض اوقات نتیجہ خیز ہوتا ہے وہ اپنے مفادات کے حصول میں امیر اور طاقتور کے تشدد کے مقابلے میں معمولی ہوتا ہے۔
آج دنیا میں نفرت اور تشدد اس منافقانہ ورلڈ آرڈ اور پالیسیوں کی بدولت ہے جو دوسری جنگ عظیم کے فاتحین نے بنایا تھا جس میں بنیادی طور پر امریکا، برطانیہ اور فرانس بلکہ سابق سوویت یونین بھی، جو اب روس میں تبدیل ہوچکا ہے، شامل تھے۔ ان ممالک نے اپنے مفادات کی حفاظت کیلیے اقوام متحدہ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنائے۔ اس درجہ بندی کے نظام میں یہ ممالک اختیارات پر تقریبا مکمل غلبہ رکھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اب بھی ان اداروں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکیں تو وہ اپنے مفادات کے حصول کیلیے جہاں اور جس حد تک ضرورت محسوس ہو ان اداروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ بطور ثبوت گزشتہ پچاس سال میں امریکی پالیسیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کسی امریکی مطالبے کی مخالفت کیلیے ہمت کر بھی لے تو امریکا اس کو نظر انداز کرکے اپنی من مانی کرتا ہے، جیسا کہ 2003 میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے عراق پر حملے کی مثال موجود ہے۔ اس حملے کے بعد سے اب تک تقریبا دس لاکھ افراد جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، عراق میں مارے جاچکے ہیں۔ جبکہ 1.5 ملین عراقی امریکا اور اقوام متحدہ کی جانب سے 90 کی دہائی میں نافذ کردہ پابندیوں کی بدولت لقمہ اجل بنے۔
امریکا نے عراق میں جنگ کے دوران اپنے ہتھیاروں میں استعمال شدہ یورینیم کو استعمال کیا جس سے عراقی آب و ہوا اور جین پول مستقل طور پر آلودہ ہوچکے ہیں۔ یہ کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں میں انتہائی اضافے کا باعث بن چکا ہے۔ علاوہ ازیں ابوغریب اور گوانتاناموبے کے ٹارچر چیمبرز امریکا کی حقیقی فطرت کی نشانیاں ہیں۔ نہ صرف یہ طاقتیں جن کو عالمی مخالفت اور ناپسندیدگی سے استثنی حاصل ہے بلکہ ان کے کٹھ پتلی اور اتحادی بھارت اور صہیونی ریاست اسرائیل بھی خود کو عالمی قوانین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کیں۔ کوئی اور ریاست بالخصوص مسلمان ممالک اس طرح کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے تو ان کیلیے اس کے سنگین فوجی اور سیاسی نتائج برآمد ہوتے۔ لیکن یہ دونوں ممالک فلسطین اور کشمیر میں قتل عام کرنے کے باوجود لاڈلے بچے ہیں۔
امریکا کئی دہائیوں سے دوسرے ممالک کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ امریکا نے کئی ممالک میں رہنماں کو قتل کروایا اور حکومتوں کے تخت الٹ دیئے، ہمیشہ سی آئی اے کی زیر قیادت بغاوتوں کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کا بڑے پیمانے پر قتل ہوا۔ انڈونیشیا میں 1966 میں جنرل سہارتو نے صدر احمد سوکارنو کو اقتدار سے معزول کیا اس کے بعد پانچ سے دس لاکھ کے درمیان شہری قتل ہوئے تھے۔ ویت نام میں دو ملین یا اس سے زائد لوگ اس وقت ہلاک ہوئے جب امریکا نے مبینہ طور پر کمیونزم کو شکست دینے کیلیے فوجی مداخلت کی۔ اسی طرح کمبوڈیا میں 20 لاکھ لوگ مارے گئے۔
سوویت یونین بھی کسی طور پر کم نہیں تھا۔ ان کی یلغار اور افغانستان میں 10 سالہ جنگ کے نتیجے میں ڈیڑھ ملین افغان ہلاک ہوئے اور پچاس لاکھ مہاجرین پیدا ہوئے۔ افغانستان کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا اور اس کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملے اور قبضے کے دوران لاکھوں افغانیوں کا قتل عام کیا اور لوگ بے گھر ہوئے۔
اسرائیل، امریکا کا ناجائز بچہ ہے، وہ بھی ایسا ہی خونیں ریکارڈ رکھتا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی طرف سے ایک ناحق ایکٹ کے ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح فلسطینیوں کی زمین یورپی آبادکاروں کو تحفے میں دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ قیام کے بعد اسرائیل نے دسیوں ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا، سیکڑوں دیہاتوں کو تباہ کیا اور اب غزہ اور مغربی کنارے میں لاکھوں لوگوں کے بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کرنے پر مجبور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ یہ جیلیں اسرائیلی سفاکیت کیلیے مشہور ہیں۔ جولائی 2006 میں اسرائیل نے حزب اللہ کو ختم کرنے کیلیے لبنان پر حملہ کیا۔ 34 دن کی لڑائی میں 1300 لبنانی شہری مارے گئے، کئی دیہات مکمل تباہ کردیے گئے۔ 7 ارب ڈالرز کی لاگت کے لبنانی انفرااسٹرکچر کو تباہ کردیا گیا اور اقوام متحدہ صرف مذمت تک محدود رہی۔ امریکا نے جان بوجھ کر جنگ بندی میں رکاوٹ ڈالی تاکہ صہیونیوں کو حزب اللہ کو تباہ کرنے کا وقت دیا جائے۔
دوسری جانب بھارت نے دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دے رہا۔ لاکھوں کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی کیلیے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے بھارت کشمیریوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے اور غیرقانونی طور پر ہندوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسایا جارہا ہے تاکہ مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے، لیکن دنیا کی اکثریت اس ظلم و ستم پر خاموش بیحس تماشائی بنی ہوئی ہے۔
آج دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ تہذیب کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہیں وہ اپنے مفادات کیلیے بے رحم درندے ہیں اور بیگناہوں کے بے دریغ قتل میں ملوث ہیں، جبکہ جو لوگ اس طرح کی بربریت سے انکار کرتے ہیں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ حقیقی دہشت گرد اور وحشی وہ ہیں جو بے گناہوں کا قتل عام کرنے کے بعد دنیا کے سامنے قابل احترام سیاستدانوں کی حیثیت سے گھوم رہے ہیں، جبکہ دل کی گہرائیوں سے وہ یقینی طور پر جانتے ہوں گے کہ حقیقت کو ہمیشہ الٹا کے نہیں رکھا جاسکتا۔