مہنگائی سے پریشان قوم

مہنگائی سے پریشان قوم
ملک میں چینی کا بحران شدید ہوگیا ہے، صرف دو ہفتوں کا ذخیرہ رہ گیا، کرشنگ شروع نہ ہوئی تو بحران شدید ہوجائے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بحرانی سیاست نے ملک کو بند گلی میں پہنچادیا ہے، جب ملک کو تبدیلی کی نوید سنائی گئی تھی تو جمہوریت نے بھرپور انگڑائی لی، سسٹم کی فرسودگی سے عوامی نفرت بڑھنے لگی، ایک آزاد سماجی فضا کو محسوس ہوا کہ پاکستان پرانی سیاست گری کی خواری کے ناز اٹھانے سے عاجز آچکا ہے، یہ سنتے سنتے ان کے کان پک گئے تھے کہ پرانی حکمرانی گھاٹے کا سودا ہے، عوام کو جو سسٹم ملا تھا، سیاسی اشرافیہ، بیورو کریسی، سیاستدانوں اور تاجروں نے ایک تجربہ کے طور پر برتنا شروع کیا۔ عوام اس انتظار میں رہے کہ نئی حکومت آتے آتے ایک سسٹم بنا ہی لے گی، پہلے تو کام چلتا رہا، سر زمین بے آئین کے طور پر جمہوریت کا سفر چلتا رہا لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی جمہوریت کو چلانے کی جستجو ، امنگ اور نظریاتی خواب دھندلاہٹ کا شکار ہونے لگے پھر بکھرنا شرع ہوگئے۔ ہماری قومی زندگی میں مسائل اور المیوں کی آمد کی آندھی اچانک نہیں چلی، جمہوریت سے کھلواڑ سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح ہمارے نظام سے جڑا رہا، سیاستدانوں، غیر جمہوری طاقتوں، ملا ملٹری الائنس اور بیوروکریسی نے مل کر ملکی جمہوریت کی شیرازہ بندی میں اپنا حصہ ڈالا لیکن رفتہ رفتہ جدید جمہوری ریاست کی تعمیر و ترقی کیلئے جس انسان دوست سسٹم کی عوام توقع رکھتے تھے، وہ پوری نہ ہوسکی۔ اس کی ہیئت ترکیبی اور تفہیم میں اہل سیاست نے بڑا دھوکا کھایا اور دیگر طاقتوں کے اشتراک و تعاون سے پاکستان نے مسائلستان کو اپنا گھر بنالیا۔ آج ملک کا بچہ بچہ سوالات کے بھنور میں گرفتار ہے، اسے صبر آزما چیلنجز نے گھیرے میں لے لیا ہے، ہم مہنگائی کے برمودا ٹرائی اینگل میں پھنسے ہوئے ہیں، دانشور سوال کرتے ہیں کہ وطن کو کیسا سماجی و سیاسی نظام چاہیے تھا، وہ کیوں قوم کو نہیں مل سکا، ہم نے ہمسائیگی کا کون سا جمہوری سسٹم خطہ میں رواج دیا۔ امن کی پالیسیوں، اسلحہ کی دوڑ کے جنون اور اقتصادی ترقی کے کونسے دل نشیں ماڈلوں کی تلاش میں ہمارے حکمراں سرگرداں رہے۔ کبھی یاد آیا کہ دستور حیات قرآن اور سیرت نبویۖ، ایک مکمل اسوہ حسنہ ہمارے سامنے موجود ہے پھر کسی اور مال کی کیا ضرورت ہے مگر معاشی، سیاسی اور اقتصادی ماڈلوں کی افراط و تفریط میں حکمرانوں نے چینی ماڈل کو پسند کیا لیکن بنیادی خرابی سسٹم تعمیر میں مضمر تھی، جمہوریت کیلئے بھی مغرب نے علم، آزادی، انکسار، تحمل،رواداری اور فکری آزادی کو اساسی اہمیت دی، فلسفہ کو فروغ دیا، انسانی اقدار کی اہمیت و حرمت کو اولیت دی، ان کی درس گاہیں ادب، وقار اور تہذیب و تمدن کے بنیادی قلعے تھے۔ بدقسمتی سے قومی سیاست میں فکر و نظر سے زیادہ ناجائز پیسے کو رواج دیا گیا، سائنس و ٹیکنالوجی کی قدر و قیمت تمدنی قدروں سے مربوط نہیں ہوسکی، نقل مافیا نے امتحانی وقار کا جنازہ نکالا ہے’ متقدر نصابی نشستوں کی قیمتیں لگتی رہیں، اصول تھا کہ ملازمت نہیں ملتی جب تک امیدوارپیسے نہ دے۔مہنگائی کا سیلاب روز بروز خوفناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور چینی کے بعد ٹماٹربھی غریب کی پہنچ سے دور گئے ،شہرقائد میں فی کلوگرام قیمت 200 روپے تک پہنچ گئی۔تفصیلات کے مطابق شہرقائد کے بازاروں میں آج کل ایرانی ٹماٹرزکی بھرمار ہے،جسے استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دیکھنے میں خوبصورت اور مہنگا ہے، لیکن ذائقہ نہیں ہے۔ ایرانی ٹماٹر خود بھی لال ہے اور ان کی قیمت پوچھنے والے کا بھی رنگ لال کردیتی ہے۔ملک میں قیمت کا انتظام اپنی گرفت کھو رہا ہے اور نتیجہ میں بازار میں بکنے والی اشیاء کے نرخ بغاوت پر اتر آئے ہیں، چینی کے روگ کا ابھی سوگ پورا نہیں ہوا کہ ٹماٹر نکل آئے ہیں میدان میں، وہ بھی مہنگے فروخت ہورہے ہیں۔اس موسم میں بدین کا ٹماٹر تیار ہورہا ہے کوئٹہ کا ٹماٹر ختم ہے۔ اس لئے ملکی ضرورت بدین کا ٹماٹر پوری کررہا ہے، دیکھنے میں خوبصورت ہے، لالی بھی سرخ گلاب کی سی ہے۔ رہی قیمت کی بات تو وہ 200 روپے کلو ہے۔کہنے والے کہیں گے کہ ایران سے درآمد کیا ہے اس لئے تبادلے کا بھائو ہے۔بقول شخصے بدین سے کب آئے گا اس دوران ایران سے کتنا منگوانا ہے اور اسے کتنی سہولت سے منگوایا جاسکتا ہے، اس پرانتظامیہ نے کام نہیں کیا اور یہ بات کسی کے علم میں ہے کہ وہ باغی ٹماٹر کی قیمت سے فائدہ اٹھائے گا۔ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی سبزیوں کی بھر مار کے باوجود شہر میں بہت کم سبزیاں 100 روپے یا اس سے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔مارکیٹ سروے کے مطابق ٹماٹر کی ایک بار پھر قلت ہے اور ٹماٹر 200 سے 240 روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے، سیزن کے باوجود گاجریں 80 روپے کلو، مولی 80 روپے کلو فروخت کی جارہی ہے جبکہ مٹر 300 روپے کلو میں دستیاب ہے۔سبزی فروشوں نے بتایاکہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ترسیل کی لاگت بڑھ گئی ہے، سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سبزیاں آرہی ہیں جن کی ترسیل کی لاگت زیادہ ہے۔سبزی فروشوں کے مطابق زیادہ تر گاہک دام پوچھ کر چلے جاتے ہیں 10 میں سے 2 سے 3 گاہک ہی خریداری کرتے ہیں، ٹماٹر کلو کے بجائے ایک پائو خریدتے ہیں، اسی طرح دیگر سبزیوں کی خریداری بھی محدود ہوچکی ہے، شہر میں آلو کی نئی فصل کی پیداوار 80 روپے کلو فروخت ہورہی ہے جبکہ پرانا آلو بھی 50 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ پتہ نہیں عوام ابھی کتنی آزمائشوں سے مزید گزریں گے لیکن ایک بات طے ہے کہ ان میں اب مہنگائی کا بوجھ مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔
نیب ترمیمی آرڈیننس
صدر عارف علوی کی جانب سے نیب کے تیسرے ترمیمی آرڈیننس 2021 کی منظوری کے بعدنیا آرڈیننس گزشتہ روز جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت دائر ریفرنس نیب کے دائرہ اختیارمیں رہیں گے اوران ریفرنسوں کی احتساب عدالت ہی سماعت کرے گی، نئے ترمیمی آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کے عہدہ کی میعاد چار سال مقرر کردی گئی ہے جبکہ انہیں عہدہ سے ہٹانے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہوگا۔آرڈیننس کا اطلاق گزشتہ ماہ 6 اکتوبر سے کیا گیا ہے جب ترمیمی آرڈیننس کے تحت موجودہ چیئرمین نیب کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیئرمین کے تقرر تک اپنے فرائض اداکرتے رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔نئے آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے کر صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے۔ جبکہ چیئرمین نیب صدر مملکت کی متعینہ شرائط پر چار سال تک اس منصب پر کام کریں گے۔ نئی ترامیم کے تحت عوام الناس سے دھوکہ دہی اور فراڈ کے کیسز کے علاوہ مضاربہ کیسز بھی واپس نیب کے حوالہ کردیئے گئے ہیں اور ان کیسز کو 6 اکتوبر 2021 سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے بقول پہلے والے نیب آرڈیننس سے یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ منی لانڈرنگ کے کیسز کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکال دیا گیا ہے، اس لیے اب نئے ترمیمی آرڈیننس میں یہ واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق کیسز نیب کے دائرہ اختیار میں ہی رہیں گے۔ ماضی میں احتساب کے ادارے سے متعلق یہ تاثر پختہ ہوچکا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے چیئرمین نیب کا تقرر عمل میں آنے کے باعث اس ادارے کی حکومتی تابع فرمان ادارے کی حیثیت بن چکی ہے جو آزادی کے ساتھ احتساب کا عمل جاری نہیں رکھ سکتا۔اسی تناظر میں نیب کو حکومتی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا تاثر بھی قائم ہوا جبکہ کسی حکومتی شخصیت کے خلاف نیب کی کارروائی خارج از امکان سمجھی جاتی تھی اور اس حوالہ سے سابق حکمرانوں کی جانب سے چیئرمین نیب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔چنانچہ 2008ء کی اسمبلی میں جب سسٹم میںموجود بعض خامیوں کی اصلاح کیلئے آئین پاکستان میں 18 ویں ترمیم کا عمل شروع ہوا تو اس ترمیم میں نیب کے ادارہ کو آزاد و خود مختار بنانے کی شق بھی شامل کرلی گئی جبکہ 18 ویں آئینی ترمیم ہائوس میں متفقہ طور پر منظور کرانے کا کارنامہ سر انجام دیا گیا تاکہ آئندہ بھی کبھی 18 ویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو۔ اس ترمیم کی بنیاد پر چیئرمین الیکشن کمیشن کی طرح چیئرمین نیب کے تقرر اوربرطرفی کا آئینی طر یق کار متعین کیا گیا ہے اور نیب ایکٹ کے ذریعے نیب کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد احتساب کے ادارے کو مکمل آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔
ماحولیاتی آلودگی خطرناک
ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کیلئے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک عالمی رہنمائوںنے 2030 تک جنگلات کی کٹائی کو روکنے اورکاربن گیسوںکے اخراج کو صفر تک لانے کے اہداف کے حصول کیلئے نئی مہم کے آغاز پر زور دیتے ہوئے سرکاری اور نجی شعبہ میں بیس ارب ڈالرز جمع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔کانفرنس میں پاکستانی پویلین عالمی رہنمائوں کی توجہ کا مرکز بن گیا،جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور یو اے ای کے وزیر ماحولیات نے پاکستانی پویلین کا دورہ کیا۔اس وقت پوری دنیا کو ماحولیاتی تغیر کا سامنا ہے،اگربروقت مناسب تدابیر اختیار نہ کی گئیں اور درجہ حرارت بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرہ ارض ماحولیاتی تغیر کی لپیٹ میں آکر انسانوں اوردیگر جانداروں کیلئے انتہائی خطرناک ہوجائیگا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حکومتوںکے درمیان ماحولیات تغیر کے پینل کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیامیںماحولیاتی تبدیلی تیزی سے وقوع پذیر ہورہی ہے، بعض تبدیلیاں تو ایسی ہیں جنہیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال میںبھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اگرکمی نہ لائی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ گنا اور موسمی درجہ حرارت میں دو ڈگری اضافہ ناگزیر ہوجائے گا، اس طرح سے بڑھتا درجہ حرارت کرہ ارض پر موجود زندگی کیلئے نقصان دہ بن جائیگا۔ اگر ہم اس تناظرمیںپاکستان کی بات کریں تو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دس ارب درخت لگانے کے منصوبہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، رواں برس ایک ارب درخت لگائے جائیں گے جب کہ پہلے مرحلہ کے اختتام پر 2023تک 3.2 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔موسمی اثرات کو کم کرنے کیلئے ملک میں قابل تجدید توانائی کا استعمال تیس فیصد تک لے جانے، آب پاشی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال، پلاسٹک کوایک سے زائد بار استعمال کے قابل بنانے کے اقدامات، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کی تیاری اور دیگر منصوبوں پر بھی حکومتی سطح پر کام جاری ہے۔ حکومتی اقدامات اور کوششیں اپنی جگہ لیکن دوسری جانب پاکستان میںپچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوںکے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جارہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں دریائوں اور زیر زمین پانی اور ہوا کی آلودگی پیدا ہوچکی ہے جو اب خطرناک حدود میں داخل ہوچکی ہے۔کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے، یہاں بھی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں کے بادل، لاکھوں گاڑیوں کا دھواں اور صنعتوں کے فضلہ نے سمندر کو بھی آلودہ کردیا ہے۔
ملک میں طبی سہولتوںکافقدان
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ساٹھ فیصد ویکسی نیشن والے شہروں سے پابندیاں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے، ملک بھر میں ان تمام سہولیات کا تسلسل مکمل ویکسین لگوانے اور ماسک کے لازمی استعمال سے مشروط ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمرکی سربراہی میںمنعقدہ اجلاس میں ویکسی نیشن میں کارکردگی دکھانے والے شہروں میں معاملات زندگی درجہ بدرجہ معمول پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ انتہائی خوش کن اور حوصلہ افزا خبر ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلائو میں کمی عوام کے ویکسین لگوانے میں دلچسپی اور تعاون اور حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں سامنے آرہی ہے، معمولات زندگی بحال ہونے جارہے ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان بھر میں ڈینگی کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کے باعث اسپتالوں میںمریضوں کیلئے جگہ کم پڑتی جارہی ہے، پچھلے برسوں میں بھی ڈینگی کی تباہ کاریاں بہت زیادہ رہی ہیں، ان دنوں بھی ملک بھر میں ڈینگی کے مرض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔صوبہ پنجاب خاص طور پر اس کا دارالحکومت لاہور، صوبہ خیبرپختونخوا اور سندھ میں ڈینگی کا شکار ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسپتالوں نے مزید مریضوں کو لینے سے انکارکردیا ہے۔پنجاب کے اسپتالوں میں کوروناکے مریضوں کے بستر ڈینگی کے متاثرین کیلئے مختص کردیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں ڈینگی کے کیسز کے خطرناک حد تک جا پہنچنے کے بعد انسداد ڈینگی مہم شروع کی گئی ہے۔طبی ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے ہی کورونا کی وباء نے عام آدمی کی کمر توڑ رکھی ہے ‘ علاج معالجہ مہنگا ہے، ادویات کی قیمتیں بلند ہیں، جب گھر میں کوئی بیمار اور بھوکا ہو تو پھر اس کی سوجھ بوجھ ختم ہوجاتی ہے ۔ پاکستان میں ہیلتھ ایجوکیشن کا فقدان ہے ملک کو صحت عامہ کے حوالہ سے بے شمار مسائل درپیش ہیں، خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی اتائیت کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اشیاء خورونوش میں بڑھتی ہوئی خطرناک ملاوٹ سے پاکستان میں ہر سو تیزی سے پھیلنے والے لاتعداد متعدی امراض لمحہ فکریہ ہیں۔ ادویات یا تو جعلی ہیں یا پھر انتہائی ناقص لیکن حکومت کا اس طرف کوئی دھیان نہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، ادویات کی قیمتیں کم کرنے پر حکومت کی توجہ نہیں ہے۔ پچھلے دنوں 35 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن اس کے کچھ دن بعد ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 150 فیصد مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کا غریب طبقہ ادویات کی قیمتیں ادا کرنے سے قاصر ہے جس میں شوگر و کینسر سمیت زیادہ تر ادویات جان بچانے والی ہیں۔
پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات قائم کئے جائیں
افغانستان سے ا مریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم میںاضافہ دیکھنے میں آیا ہے جوخوش آئند ہے۔ افغانستان میں اعلیٰ معیار کے پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جو پاکستان نے درآمد کی ہیں جس کے بعد ملک میں مختلف پھلوںکی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔پڑوسی ملک سے تجارت کاسب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اس طرح ٹرانسپورٹ کا کرایہ بچایا جاسکتا ہے جس سے مہنگائی میں کمی آتی ہے۔گزشتہ دو ماہ میںخالص قندھاری انار پاکستان نے درآمد کیا جس سے انارکی فی کلو قیمت میںکمی آئی۔آج کل کے دور میں ترقی کا دارو مدار معیشت پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم بلا تفریق رنگ نسل اور مذہب دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیںاور پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے پر خاص توجہ دیں۔کیونکہ پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے اور خطہ میں قیام امن کیلئے بھی ضروری ہے کہ خطہ میںموجود تمام ممالک باہمی تجارت کو فروغ دیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ملک کے برآمد کنندگان کے ساتھ ایک وفد تشکیل دے جو افغانستان جاکر وہاں کی مارکیٹ کاجائزہ لے اور پاکستانی مصنوعات افغانستان کو برآمد کرنے کا منصوبہ بنائے۔دونوںملکوں کی حکومتوں کو جہاں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں دو طرفہ تجارت کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور مہنگائی میں کمی آئے۔جبکہ پاک افغان تجارت کے فروغ سے اسمگلنگ کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔نئی افغان قیادت کوتسلیم کرنا یا نہ کرنا ایک سیاسی معاملہ ہے، ہمیں سیاست کو پس پشت ڈال کر تجارت کو فروغ دیناہوگا۔