اپنی اپنی جمہوریت

پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کے کئی رنگ ہیں، ہر سیاسی پارٹی کے جمہوریت کے اپنے اپنے نظریات اور اپنے اپنے سیاسی نعرے ہیں۔ ہم نے پاکستانی سیاست کو جمہوریت کے مختلف رنگوں میں دیکھا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے جمہوریت کا پاکستانی سیاستدانوں نے خود ہی جنازہ نکالا، ان سیاستدانوں نے جمہوریت کی آڑ میں عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیے ہیں۔ حالانکہ پاکستانی سیاست میں جمہوریت کا نعرہ ایک عوامی نعرہ ہوتا ہے جمہوری حکومتیں خالص عوام کے ووٹ کی طاقت سے وجود میں آتی ہیں لیکن ہمارے حکمران ہمیشہ نااہل ثابت ہوئے ہیں۔
جب سے اس ملک میں غیر جمہوری طاقتیں وجود میں آئی ہیں ان کی کامیابی کے پیچھے ہمیشہ ہمارے سیاستدان ہی نظر آئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا، ان کی غیر آئینی حکومتوں کو تسلیم کیا یہاں تک کہ ان غیر جمہوری حکومتوں کا حصہ بھی بنے، وزارتیں بھی لیں۔ ہمارے سیاست دان غیر جمہوری قوتوں کے لیے جمہوری حکومتوں کے خلاف آلہ کار بھی بنے ہیں۔ پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی جمہوریت کو اپنی نظر سے دیکھتی رہی ہے۔ جب بھی عوام غیرجمہوری قوتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ہر دفعہ ہمارے سیاستدانوں نے عوام کی بجائے غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔ ہمارے حکمران کبھی بھی ماضی سے نہیں سیکھتے بلکہ جب بھی جمہوریت کو قائم کرنے کا وقت آیا تو اس وقت ہمارے سیاستداں عوام کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کو زیادہ اہمیت دیتے رہے ہیں۔
نواب لیاقت علی خان سے لیکر عمران خان تک پاکستان میں جمہوریت برائے نام رہی ہے، کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا، ہر وزیراعظم سازش کی نذر ہوتا رہا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے خود غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔ اس دوران ہمارے ادارے بھی سیاست کی نذر ہوئے اور اداروں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے جس کا خمیازہ قوم نے ایوب خان کی صور میں بھگتا۔ پھر ایوب خان نے ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار میں حصہ دیا جس کو ہمارے سیاستدانوں نے بخوشی قبول کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر جمہوریت اور جمہوری رویئے کو قربان کر دیا۔
اس طرح جمہوریت پاکستانی سیاست سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی، غیر جمہوری قوتیں ہمیشہ کے کے لیے جمہوریت پر حاوی ہو گئیں۔ تب سے لیکر اب تب حقیقی جمہوریت اس قوم کو نصیب نہیں ہوئی۔ پھر 1973 سے 1979 تک بھٹو صاحب نے عوام کو جمہوریت کے نام پر دوبارہ بیدار کرنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ اس وقت بھی قوم مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا تازہ تازہ غم لیکر بیدار ہوئی تھی لیکن پھر غیر جمہوری قوتوں نے بھٹو کو بھی نہ رہنے دیا۔ آخر کار ایک عوامی لیڈر جو عوامی نعروں کی وجہ سے عوام میں مقبول تھا اس کو بھی آخر کار پھانسی کے پھندے تک پہنچایا گیا۔ اس وقت بھی ہمارے سیاستدانوں کا ضمیر نہیں جاگا۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس وقت بھی غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا، ایک پاپولر لیڈر کے ساتھ جمہوریت کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
یہ سب ہمارے تلخ ماضی کا حصہ ہے، اس وقت بھی ہمارے سیاستدانوں کے پاس موقع تھا کہ جمہوریت کو مضبوط کرتے اور جمہوریت کی خاطر ہمارے سیاستدان غیر جمہوری قوتوں کی بجائے ایک عوامی لیڈر کے ساتھ کھڑے ہو جاتے لیکن اس وقت بھی ہمارے سیاستدانوں نے ملک کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔
بھٹو صاحب کے بعد جونیجو کی شکل میں نظریہ ضرورت کے مطابق جمہوریت کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ نظریہ ضرورت والی جمہوریت زیادہ عرصہ نہ چل سکی کیونکہ بھٹو پنجاب کا بھی مقبول ترین لیڈر تھا۔ پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے پنجاب سے ہی نظریہ ضرورت کے تحت لیڈر کی تلاش شروع کر دی گئی اور نواز شریف کی صورت میں نظریہ ضرورت والی جمہوریت کے تحت پنجاب کو ایک نیا لیڈر دیا گیا جس نے اپنے ذاتی مفاد کی خاظر جمہوریت کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے مقابلے میں بے نظیر بھٹو تھیں۔
اس وقت بے نظیر بھٹو واحد لیڈر تھیں جو حقیقی جمہوری رویہ رکھتی تھیں۔ جو غیر جمہوری قوتوں کے نشانے پر تھیں۔ پھر 1988سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اقتدار میں رہے۔ یہ دور جمہوریت کا بد ترین دور تھا۔ اس دوران غیر جمہوری قوتوں نے دونوں لیڈران کو اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا۔ جموبریت کا یہ دور جمہوریت کے لیے گالی بن گیا تھا۔ اس دوران خوب کرپشن ہوئی، ملک کا پیسہ باہر منتقل ہوا، عوامی وسائل کو ذاتی استعمال میں لایا گیا، اداروں میں سیاسی مداخلت عام ہو گئی۔ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگ گئیں، ایک دوسرے کی حکومتوں کو سازشوں سے گرایا گیا، عوام کو جمہوریت سے نفرت کرائی گئی۔ یہ دس سال جمہوریت کے نام پر مذاق تھے۔
ان دونوں حکمرانوں نے پھر غیر جمہوری طاقتوں کو وار کرنے کا موقع دیا، 1999سے 2008تک جمہوریت کے ساتھ پھر مذاق شروع ہو گیا۔ ان دونوں بڑی پارٹیوں میں سے نئی پارٹیاں وجود میں آئیں، یہ دور بھی جمہوریت کے لیے بد ترین دور تھا، اس دوران بھی سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر اہمیت دی، سیاستدانوں نے اپنے ہی رہنماوں کے خلاف غیر جمہوری طاقتوں کا ساتھ دیا، اس دور میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر باہر تھے، پھر بے نظیر نے غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ این آر او کیا، اس کے بعد بے نظیر ملک میں واپس آئیں۔ اس کے بعد نواز شریف بھی پاکستانی سیاست میں واپس آئے، نواز شریف کو ملک میں واپس لانے میں بے نظیر بھٹو کا سب سے بڑا کردار ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں نواز شریف کی سیاست کو بے نظیر بھٹو نے دوبارہ زندہ کیا۔
پھر بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوگئی، اقتدار غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ سے نکل کر جمہوری قوتوں کے ہاتھ آیا لیکن اس وقت جمہوریت ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی۔ عوام بیدار ہو چکے تھے، 2008سے لیکر 2021 تک تاحال جمہوری حکومت ہی چل رہی ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت رہی، اس دوران عوام ایک تیسری قوت کو بھی دیکھ رہے تھے، یہ جمہوریت کی تیسری شکل تحریک انصاف کی صورت میں تھی۔ جمہوریت کے اس نئے دور میں عوام نے غیر جمہوری قوتوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اپنا سیاسی رویہ نہیں بدلا۔ آج بھی ہمارے سیاستدانوں نے ہمارے ملک کی سیاست کو غیر جمہوری قوتوں کے سائے میں رکھا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں زرداری نے پیپلز پارٹی کو بہت کمزور کیا، ایک نیشنل پارٹی کو ایک صوبے کی پارٹی میں تبدیل کیا گیا جس سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا گیا۔
نواز شریف پہلے تو پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے لیکن پھر اچانک ن لیگ کو یاد آیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ رہ کر اپنے ووٹ بنک کو کمزور کر رہے ہیں کیونکہ نواز شریف کی ساری سیاست ہی پیپلز پارٹی کے خلاف تھی۔ نواز شریف دوبارہ اپنی پرانی سیاست کی طرف چلے گئے، پھر 2011 میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان میں پاکستان کی تاریخ کا بڑا جلسہ کر کییہ ثابت کیا کہ پاکستان کی سیاست میں ایک تیسری قوت بھی آچکی ہے، عوام کے ایک سمندر نے تحریک انصاف کو اپنی پارٹی سمجھا اور ساتھ میں عمران خان کو نوجوانوں نے اپنے مسیحا کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا لیکن پھر 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے ایک صوبے میں حکومت بنائی، مرکز میں ن لیگ کی حکومت بنی، نواز شریف تیسری دفعہ ملک کے وزیراعظم بنے۔
حالات نے ایک نیا موڑ لیا جب تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف ملک کا سب سے بڑا لانگ مارچ کیا اور اسلام آباد میں 124دن کا تاریخی دھرنا بھی دیا جس سے ملک کی سیاست کا رنگ ہی بدل گیا۔ حالات ن لیگ کی حکومت کے لیے مزید خراب ہوتے چلے گئے، پھر پانامہ کا اسکینڈل آیا جس میں اس وقت کے وزیراعظم کی فیملی کے نام تھے، اس سکینڈل نے ن لیگ کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔ کیسز عدالتوں میں چلے نواز شریف نااہل ہوئے پھر نواز شریف کو سزا ہوئی۔ یہ لمحہ ن لیگ کی سیاست کا بدترین لمحہ تھا، نواز شریف نے اپنی نااہلی کی ذمہ داری غیر جمہوری قوتوں پر ڈال دی۔ نواز شریف نے کہا مجھے ایک سازش کے تحت حکومت سے نکالا گیا ہین لیگ کے جمہوری دور میں سانحہ ماڈل ٹاں ہوا۔ پھر پاکستان تحریک انصاف کا تاریخی 126دن کا دھرنا ہوا، سانحہ اے پی ایس ہوا لیکن پھر 2018کے الیکشن کے بعد عمران خان اقتدار میں آئے۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے مزید کمزور ہوئی ہے، مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ اس وقت ملک مہنگائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہے۔ عوام نے عمران خان کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے گی لیکن موجودہ حکومت نے عام آدمی کی زندگی کو مزید ابتر کر کے رکھ دیا ہے۔ اس حکومت میں حکومت مخالف تحریک بنی جس کو پی ڈی ایم کا نام دیا گیا لیکن پی ڈی ایم عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کی طرف نکل پڑی۔ عوام اب پی ڈی ایم کی ذاتی مفادکی تحریک سے بھی تنگ آچکے ہیں۔ آپ اندازہ کریں اس ملک میں ہر پارٹی کی اپنی اپنی علیحدہ جمہوری سوچ ہے، پاکستان میں 3بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جس میں ایک تو حکمران جماعت ہے، دوسری دونوں سیاسی جماعتیں عوام کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کو اہمیت دے رہی ہیں۔ کوئی جماعت عوام اور ملک کا نہیں سوچ رہی۔
آج کل جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اور کھیل کھیلا جارہا ہے، وہ ہے آڈیو اور ویڈیو کا کھیل۔ یہ اپنی اپنی جمہوریت کو بچانے کا کھیل ہے، اب ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفاد میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ اب وہ کسی کی بھی ذاتی ویڈیو نکال کر خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اداروں کو بد نام کر رہے ہیں، ملک کا وقار مجروح کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اپنی انا کیلئے اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ان کی نظر میں ان کی اپنی ذات ہی جمہوریت اور ریاست ہے، نہ ہی ریاستی اداروں کا خیال ہے نہ ہی جمہوریت کا خیال ہے۔ ہمارا ملک اب تصادم کی طرف جارہا ہے، جس ملک میں عدلیہ کی بے توقیری ہو، جس ملک میں سلامتی کے اداروں کی بے توقیری ہو، اس ملک کا پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمائے، آمین۔۔۔
()