پاکستان کے بنگالی اور بنگلہ دیش کے بہاری پچاس سال سے شناخت کے منتظر بے نام لوگ

میدان میں لاکھوں لوگ جمع ہیں جو نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔
ہجوم کے درمیان تھوڑی سی جگہ میں ایک چھوٹی میز اور دو کرسیاں رکھی گئی ہیں۔۔۔ میز پر پہلے سے ٹائپ شدہ ایک دستاویز رکھی ہے۔۔۔
مشرقی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پاکستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اور انڈین آرمی کے لیفٹننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔
پھر وہ لوگوں کے شور اور میڈیا کے کیمروں کی چندھیا دینے والی فلیش لائٹوں کے درمیان باری باری ایک ہی پین سے ‘انسٹرومنٹ آف سرینڈر’ یا ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرتے ہیں۔ جنرل نیازی کرسی سے اٹھتے ہیں اور ہولسٹر سے اپنا ریوالور نکال کر جنرل اروڑہ کو پیش کر دیتے ہیں۔
اور یوں سینکڑوں میل دور دو خطوں کے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں پلک جھپکتے میں ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہیں۔ آج اِن میں سے کچھ لوگ بنگلہ اکثریتی زبان والے ملک میں اردو بولنے والوں کے نام سے جانے جاتے ہیں تو کچھ کی پہچان اردو کو قومی زبان کے طور پر اپنائے ملک میں بنگالی بولنے والوں کے طور پر کی جاتی ہے۔
کراچی، پچاس سال بعد۔۔۔
یہ پاکستان کے شہر کراچی کی سب سے بڑی کچی آبادی مچھر کالونی ہے۔ یہاں کی اکثریت بنگالی بولنے والے افراد کی ہے جو زیادہ تر ماہی گیری یا اس سے منسلک دیگر کاروبار کے ذریعے روزگار کماتے ہیں۔
66 سال کی صوفیہ پہلے جھینگے چھیلنے کا کام کرتی تھیں لیکن ایک ٹانگ سے معذور ہو جانے کے بعد سے وہ اپنی بیٹی اور ان کے بچوں کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ وہ ان بنگالیوں میں شامل ہیں جو سنہ 1971 سے بھی پہلے سے کراچی میں رہ رہے ہیں۔
میں جنگ سے چار سال پہلے آئی، سٹیمر پر بیٹھ کر۔ پانی کے جہاز کا 70 روپے کرایہ تھا۔ نانی کے ساتھ میں کراچی میں آئی تھی۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی۔ اِدھر ہی بڑی ہوئی۔ نانی نے میری شادی کر دی۔ پھر نانی مر گئیں۔ اس ٹائم میرا شوہر گنے کی مشین چلاتا تھا پانچ روپیہ دہاڑی میں۔ اس ٹائم مکان کا کرایہ دس روپے تھا۔ ٹرام کے دس پیسے کا کرایہ، چاول ڈھائی من بوری ڈھائی سو روپے کا تھا۔ ہم اس ٹائم سے کراچی میں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ کے قریب بنگالی بولنے والے افراد آباد ہیں جن کی اکثریت کراچی میں ہے۔ پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں میں سے تقریبا 70 فیصد یا 20 لاکھ کو شہریت کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ صوفیہ اور ان کا خاندان ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔
ہمارے پاس بھٹو کے وقت کا شناختی کارڈ ہے۔ الیکشن میں ہم نے بھٹو کو ووٹ دیا عوامی لیگ کو نہیں دیا۔ اب ہمیں کہتے ہیں تم دہشت گرد ہو۔ بولتے ہیں بنگالی کو کارڈ نہیں دیں گے۔ تم بنگالی ہو بنگلہ دیش جا۔ ہم بولے ہم تو پرانے بنگالی ہے ابھی کا بنگالی نہیں ہے۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہم اِدھر کراچی میں آیا۔
کون پاکستانی ہے؟
1971 میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش قائم ہوا تو وہ علاقے جو اب پاکستان میں شامل ہیں وہاں بنگالی زبان بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔ جہاں کچھ بنگالی افراد بنگلہ دیش ہجرت کر گئے وہیں بہت سوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔
پاکستان میں شہریت کے قانون یعنی سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے مطابق ایسے تمام لوگ جو سولہ دسمبر 1971 سے پہلے ان علاقوں میں رہائش پذیر تھے جو اب پاکستان کا حصہ ہیں وہ پاکستان کے شہری تصور ہوں گے۔ اِس کے علاوہ سٹیزن شپ ایکٹ میں ایک ‘برتھ لا’ یا ‘پیدائش کے قانون’ کی شق بھی موجود ہے یعنی والدین کی شہریت کی قانونی حیثیت سے قطع نظر جو بھی بچہ پاکستان میں پیدا ہوگا وہ پاکستان کا شہری تصور ہوگا۔
1973 میں پاکستان میں پیپر بیسڈ شناختی کارڈ کا اجرا ہوا جبکہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ سنہ 2002 میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے قیام کے بعد جاری ہونا شروع ہوئے۔
نادرا گائیڈ لائنز کے مطابق وہ شخص پاکستانی شہری تصور ہوگا جو یہ ثابت کر سکے کہ وہ یا اس کے اجداد 1978 سے پہلے بھی پاکستان میں رہائش پذیر تھے۔
1978 کا حوالہ اِس لیے دیا جاتا ہے تاکہ ان بنگالی افراد میں تفریق کی جا سکے جو سقوطِ مشرقی پاکستان سے پہلے یہاں رہائش پذیر تھے اور وہ جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد تلاشِ معاش میں پاکستان آئے۔ ماہرین کے مطابق 1980 اور 1990 کی دہائی میں آنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کی اکثریت اب واپس جا چکی ہے۔ اِس کی وجہ بنگلہ دیشی ٹکے کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہے جس کے بعد اب پاکستان میں رہ کر روزگار کمانا زیادہ فائدہ مند نہیں رہا۔
‘بنگلہ دیش نہیں دیکھا’
صوفیہ کے نواسے یاسین احمد فشری میں ایک سی فوڈ پراسیسنگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے دیگر بہن بھائی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر پائے۔ یاسین کی تعلیم بھی صرف میٹرک ہی ہے۔ اِس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اعلی تعلیم کے لیے والدین کے شناختی کارڈ درکار ہوتے ہیں۔
شناختی کارڈ کے بغیر سکولوں کالجوں میں داخلہ نہیں ملتا۔ اِس لیے بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ تعلیم نہیں ہوتی تو اچھی ملازمت نہیں ملتی۔ اگر کسی کمپنی میں بھی جا معمولی کلرک کی نوکری کے لیے تو وہ بھی این آئی سی (شناختی کارڈ) مانگتا ہے۔ شناختی کارڈ کی وجہ سے پولیس والے بھی تنگ کرتے ہیں۔ بنگالی بول کر آتے جاتے گاڑی میں بیٹھا لیتے ہیں۔ بہت تنگ کرتے ہیں۔
یاسین بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے مقامی دفتر جاتے ہیں تو ان سے ان کے والدین کی پاکستانی شہریت کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔
میری والدہ اور نانی کا شناختی کارڈ بنا ہوا تھا لیکن کچھ سال پہلے وہ ایکسپائر ہو گیا۔ جب ہم رینیو (تجدید) کرانے گئے تو ہمیں کہا کہ 1971 سے پہلے کا کوئی سرکاری ڈاکومنٹ لائیں۔ وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
ہمیں کہا جاتا ہے ہم بنگالی ہیں پاکستانی نہیں ہیں۔ ہم یہاں بارڈر کراس پر آیا ہے۔ میں اور میرے بہن بھائی یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ میرا دادا دادی یہاں پر انتقال ہوا ہے۔ میرا والد صاحب یہاں پر انتقال ہوا ہے۔ تو ہم کیسے پاکستانی نہیں ہوئے؟ ہم نے تو صرف بنگلہ دیش کا نام سنا ہے دیکھا تو کبھی نہیں ہے۔
بے وطن لوگ
کچھ حلقوں کا دعوی ہے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے اجرا کے ساتھ ہی پاکستان میں مقیم بنگالی بولنے والے افراد کے مسائل کا آغاز ہوا۔ سنہ 2000 میں ‘نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی’ (نارا) بنائی گئی تو بے شمار لوگوں کے پرانے قومی شناختی کارڈ بلاک کر کے انھیں زبردستی نارا کارڈ دیے گئے۔
مچھر کالونی میں ایک سماجی تنظیم چلانے والی طاہرہ حسن کہتی ہیں کہ بنگالی بولنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جسے کبھی نہ کبھی قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے لیکن بعد میں بلاک کر دیے گئے۔ جن لوگوں کے پاس شہریت کے درکار ثبوت نہیں ہیں ان کے لیے سٹیزن شپ ایکٹ میں ترمیم کی جا سکتی ہے لیکن میرے خیال میں اگر موجودہ قوانین کو ہی درست انداز میں نافذ کر دیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
وکیل اور سماجی کارکن ضیا اعوان کے مطابق یہ وہ پاکستانی ہیں جو متحدہ پاکستان کے شہری تھے۔ یہ، اِن کے آبا اجداد اور اِن کی اولادیں پیدائشی پاکستانی ہیں۔
شہریت پاکستانی بنگالیوں کا حق ہے جو انھیں ضرور ملنا چاہیے۔ پاکستان میں بے شمار ایسے پناہ گزین ہیں جن کے اپنے ملک موجود ہیں لیکن پاکستانی بنگالیوں کا کوئی ملک نہیں۔ اِن لوگوں کے ساتھ ہمارا رویہ دیگر تارکینِ وطن افراد اور غیر ملکیوں سے مختلف ہونا چاہیے۔
ضیا اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستانی بنگالیوں کا مسئلہ ابھی تک اِس لیے بھی حل نہیں ہو سکا کیونکہ اِس میں کئی پیچیدہ سیاسی، اقتصادی اور آئینی مسائل درپیش ہیں۔ انھیں شہریت دینے کے بارے میں کئی حلقوں کو تحفظات ہیں جن میں سے کچھ جائز بھی ہیں۔ لیکن ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایک قومی سطح کا مکالمہ کر کے اِس مسئلے کو حل کیا جائے۔ اِس کے علاوہ یہ افراد جن کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں ان کی ڈویلپمنٹ کی بھی ضرورت ہے تاکہ اِن کا معیارِ زندگی بلند کر کے اِنھیں قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔’
یاد رہے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سنہ 2018 میں پاکستانی بنگالیوں کو شہریت کی دستاویز دینے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ شہر کے نزدیک اردو بولنے والے بہاریوں کا محمد پور کیمپ ہے۔۔۔
یہاں داخل ہوں تو پہلی آواز جو کانوں میں سنائی دیتی ہے وہ پاکستانی موسیقی ہے۔ دکانوں پر بکتی کئی اشیا ‘میڈ اِن پاکستان’ ہیں اور کہیں کہیں مقبول پاکستانی ڈراموں اور فلموں کے پوسٹر بھی دیواروں پر لگے نظر آ جاتے ہیں۔
یہاں بنارسی کپڑے کا ایک چھوٹا کارخانہ چلانے والے پچپن سالہ منظور رضا خان اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔
تب بنگلہ دیش نام کے کسی ملک کا وجود نہیں تھا۔ آج یہاں کچھ لوگ طنزا ہمیں پاکستانی کہتے ہیں کچھ رضا کار کہتے ہیں کچھ ‘ماوڑا’ (تضحیک آمیز نام جو لفظ ‘مارواڑی’ سے نکلا ہے) کہتے ہیں۔ لیکن ہم نہ پاکستانی ہیں اور نہ ہی رضا کار۔ میں نے تو کبھی پاکستان نہیں دیکھا۔ میری پیدائش یہیں کی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک اردو بولنے والی فیملی میں پیدا ہوئے۔ اگر ہم کسی بنگلہ بولنے والے گھر میں پیدا ہوئے ہوتے تو اعلی تعلیم حاصل کر کے اچھی ملازمت کرتے۔
بنگلہ دیش کے ‘بہاری’
1947 میں جب تقسیمِ ہند کے بعد مغربی اور مشرقی پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو صوبہ بہار کے اکثر مسلمان جغرافیائی قربت کی وجہ سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے۔ یہ لوگ اردو بولتے تھے اور ان کے طور طریقے اور رسم و رواج مقامی بنگالی افراد سے مختلف تھے۔
جب بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک نے زور پکڑا تو اِن اردو بولنے والے بہاریوں نے متحدہ پاکستان کی حمایت کی۔ 25 مارچ 1971 کو علیحدگی پسندی کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے پاکستانی فوج نے ‘آپریشن سرچ لائٹ’ شروع کیا۔ بنگالی قوم پرست مسلح تنظیم مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے لیے متحدہ پاکستان کے حامی بنگالی اور اردو بولنے والے رضاکاروں اور مذہبی پارٹی جماعتِ اسلامی کے ارکان پر مشتمل عسکری تنظیمیں ‘البدر’ اور ‘الشمس’ قائم کی گئیں۔
پاکستانی فوج کی شکست کے بعد اِن دونوں تنظیموں کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے جنگی جرائم کے الزام میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے عہدیداروں کے خلاف مقدمات چلائے اور سزائیں دیں۔ مقامی اردو بولنے والی آبادی بھی عتاب کا نشانہ بنی اور لاکھوں لوگوں کو ریڈ کراس کے کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا۔ آج بنگلہ دیش کے کئی شہروں میں چھ سے سات لاکھ ایسے بہاری اور ان کی اولادیں بستی ہیں۔
اِن میں سے تین سے چار لاکھ، 116 مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اِن کیمپوں میں بنیادی شہری سہولیات کا فقدان ہے اور یہ کسی کچی آبادی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کیمپوں میں رہنے والوں کی تیسری نسل اب خود کو بنگلہ دیشی سمجھتی ہے، بنگلہ زبان بولتی ہے اور وہی تمام حقوق چاہتی ہے جو کسی دوسرے بنگلہ دیشی کو حاصل ہیں۔
برابر کے شہری
بنگلہ دیش سٹیزن شپ ایکٹ سنہ 1971 کے مطابق وہ تمام لوگ جو 26 مارچ 1971 کے بعد سے ان علاقوں میں رہتے تھے جو بعد میں بنگلہ دیش بنے ملک کے شہری ہیں۔
2003 اور 2008 میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اردو بولنے والوں کو بنگلہ دیشی تسلیم کیا۔ 2003 میں انھیں ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا گیا اور جب 2007 میں ملک میں قومی شاختی کارڈ کا اجرا شروع ہوا تو 2008 میں سپریم کورٹ نے اردو بولنے والوں کو شناختی کارڈ دینے کا حکم بھی دیا۔
سیکرٹری جنرل ‘اردو داں نئی نسل ایسوسی ایشن’ محمد حسن 2003 میں بنگلہ دیشی سپریم کورٹ میں داخل کی جانے والی رٹ پٹیشن کے دس درخواست گزاروں میں سے ایک تھے۔ ان کے مطابق بنگلہ دیش میں رہنے والے اردو بولنے والوں کی نئی نسل نہ تو خود کو بہاری کہلانا پسند کرتی ہے اور نہ ہی محصور پاکستانی بلکہ وہ اپنے آپ کو بنگلہ دیش کی ایک لسانی اقلیت تصور کرتے ہیں۔
‘آج بنگلہ دیش میں بسنے والے لاکھوں اردو بولنے والوں کے پاس ملک کی شہریت ہے جس کے ذریعے وہ ووٹ دے سکتے ہیں، سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرا سکتے ہیں اور پراپرٹی خرید اور کاروبار کر سکتے ہیں۔ صرف یہ ہے کہ کیمپوں میں رہنے والے اکثر لوگ پاسپورٹ کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ اس کے لیے ایک مستقل پتے کی ضرورت ہوتی ہے۔’
‘پاکستان جا’
لیکن بنگلہ دیشی اردو بولنے والوں کی مشکلات ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں ہیں۔ 1971 کے تلخ تجربات اب بھی اردو اور بنگلہ بولنے والوں کے درمیان اختلافات کا سبب ہیں۔ پاکستان واپس جانے کے طعنے آج بھی بہت سے بہاریوں کو سننے کو ملتے ہیں۔ 105 سالہ محمد حنیف ان میں سے ایک ہیں۔
‘کیونکہ میں اردو زبان بولتا ہوں اِس لیے مجھے ہر وقت اپنی جان کی فکر رہتی ہے۔ میں کہیں آ جا نہیں سکتا۔ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں بہاری ہوں۔ بنگلہ دیش ہی ہمارا وطن ہے لیکن اس نے ہمیں نہیں اپنایا۔ پاکستان بھی ہمیں نہیں اپناتا۔ ہم بغیر جڑ کے ایک ایسا درخت ہیں جو اب سوکھتا جا رہا ہے۔’
محمد حنیف آج بھی اس اچھے وقت کو یاد کرتے ہیں جب ان کے پاس مغربی پاکستان میں اپنا گھر اور زمین تھی۔
‘اس وقت اعظم خان گورنر تھے۔ وہ ٹائم اچھا تھا کیونکہ میں بنارسی کپڑا بنانا جانتا تھا اور یہاں اِس کام کے کاریگر نہیں تھے۔ ہم خوشحال تھے لیکن جنگ کے بعد ہم کہیں کے نہیں رہے۔’
‘صرف شناخت کافی نہیں’
سماجی کارکن محمد حسن کے مطابق بنگلہ دیش میں اردو بولنے والے افراد کو شناخت تو مل چکی ہے لیکن صرف شاختی کارڈ اور ووٹر لسٹ میں اندراج ہی تمام مسائل کا حل نہیں۔
‘میرے خیال میں اردو بولنے والے لاکھوں بنگلہ دیشیوں کی آبادکاری اور انھیں مراعات دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اِس کے لیے درکار سیاسی فہم و ادراک کی کمی ہے۔ آج بھی بنگلہ دیش کی کسی سیاسی پارٹی نے اِس مسئلے پر کوئی واضح موقف نہیں اپنایا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں اِن لوگوں سے ووٹ تو لے لیے جاتے ہیں لیکن اِن کی سماجی اور معاشی ترقی اور بنگلہ دیشی معاشرے میں شمولیت پر اب تک کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔’
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلہ دیش میں بے شمار لوگ اپنی شناخت محصور پاکستانیوں کے طور پر کراتے ہیں اور موقع ملنے پر پاکستان منتقل ہونے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ لیکن محمد حسن اِسے صرف ایک سیاسی نعرہ گردانتے ہیں۔
‘محصور پاکستانیوں’ کی وطن واپسی پاکستان کی سیاست میں بھی کافی عرصے تک زیرِ بحث رہی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق 1971 اور 1993 کے درمیان ایک لاکھ ستر ہزار ‘محصورین’ کو پاکستان لایا جا چکا ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے ایک بیان میں دفترِ خارجہ کا موقف تھا کہ بنگلہ دیش میں باقی رہ جانے والے اردو بولنے والے افراد اب پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہیں۔
بنگالی
اچھے مستقبل کی خواہش
بات پاکستان میں رہنے والے بے وطن بنگالیوں کی ہو یا بنگلہ دیش میں ‘ماوڑا’ کہلائے جانے والے اردو بولنے بہاریوں کی، جغرافیے، زبان اور نسل کی قید سے بے نیاز یہ سب صرف ایک ہی خواہش رکھتے ہیں۔۔۔ ایک اچھی زندگی اور بچوں کا محفوظ مستقبل۔
ڈھاکہ کے محمد پور کیمپ کے منظور رضا خان کی خواہش ہے کہ اب ان کے بچوں کو کوئی پاکستانی کہہ کر نہ بلائے بلکہ بنگلہ دیشی سمجھ کر سینے سے لگائے۔
‘میرے بچے سرکاری سکول جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ پڑھ لکھ جائیں اور سرکاری نوکری کریں۔ میری اور میرے ماں باپ کی زندگی تو کٹ گئی لیکن میں اپنے بچوں کا مستقبل اچھا دیکھنا چاہتا ہوں۔’
سینکڑوں میل دور کراچی کی مچھر کالونی میں رہنے والے یاسین احمد کی خواہش بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
‘اگر ہم نہیں پڑھ سکے تو میرے بچے اور چھوٹے بہن بھائی جو ہیں کم از کم وہ پڑھ جائیں۔ ہماری زندگی جیسی آدھی ادھوری رہ گئی ہمارے بچوں کی ویسی نہ ہو۔ میرے بچوں کا فیوچر خراب نہ ہو۔ ان کی زندگی اچھی ہو اور وہ ملک کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔’
اور یسین کی نانی صوفیہ خاتون کو اِس زندگی کے بجائے آخرت کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
‘ابھی زمین کے نیچے جانے کا ٹائم ہو گیا ہے تو اِدھر ہی مرے گا۔ ابھی اِدھر ادھر بھاگنے کا ٹائم نہیں ہے۔ ہم پاکستان میں رہے گا۔ پاکستان ہم کو پیارا ہے۔ ادھر (بنگلہ دیش) جا کے کیا کرے گا۔’
لیکن صوفیہ خاتون کی آخری خواہش اب بھی وہی ہے۔
‘شناختی کارڈ چاہیے۔ عزت کی زندگیجیئں گے۔ ہم کو کارڈ ملے گا تو عمرے پر جائیں گے۔ شناختی کارڈ کل ملے گا تو میں آج جاں گی۔’
()